’میں مراثی، میرا پیو بھی مراثی، میرا دادا بھی مراثی‘

گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستانی آرٹسٹ فن کے ذریعے مختلف مسائل پر شعور اجاگر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ماضی میں ’وڈیرے کا بیٹا‘ ہو یا پھر حال ہی میں بشریٰ انصاری کی جانب سے ریلیز کیا گیا گانا ’ ’ہمسائے ماں جائے‘ ہو، ان سب کے ذریعے مختلف مسائل پر شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی۔
اسی سلسلے کی کڑی میں نوجوان اور ابھرتے ہوئے گلوکار حسن نواز نے بھی حال ہی میں گانا ’مراثی‘ ریلیز کیا۔
اگرچہ ’مراثی‘ پنجاب میں گایا گانا ہے، تاہم اسے سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں۔
حسن نواز نے گانے میں یہ بتانے کی کوشش کی ہےکہ ’مراثی‘ قبیلے کے افراد کو اتنا غیر اہم کیوں سمجھا جاتا ہے۔ گانے ’مراثی‘ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کے جذبات کا اظہار بھی ہے۔
یہ ویڈیو بھی دیکھیں: بشریٰ انصاری کا گانے کے ذریعے امن کا پیغام
گانے میں حسن نواز کو شہر کی پرانی عمارتوں کے گرد گھومتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور ساتھ ہی اسے ’مراثیوں‘ کی طرح مختلف ساز بجاتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے۔
گانے کی شاعری بھی حسن نواز نے ہی لکھی ہے، اسے زنیب زاہد نے کمپوز کیا ہے جب کہ اسے جنون ریکارڈز کے بینر تلے جذبہ انٹرٹینمنٹ کے تحت ریلیز کیا گیا ہے۔
اس گانے کی ویڈیو بھی دیکھیں: اکبر جتوئی جلبانی میرا نام
گانے کو اب تک درجنوں افراد دیکھ چکے ہیں اور اس کی شاعری کو بہت سراہا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ ’میراثی’ قبیلے کے افراد زیادہ تر ناچ گانے اور موسیقی سے وابستہ ہوتے ہیں، ان کا کام گاؤں گاؤں، نگر، نگر جاکر لوگوں کی خوشیوں کو دوبالا کرنا ہوتا ہے۔
پرانے زمانے میں ’میراثی‘ قبیلے کے افراد ہی لوگ کی تفریح کا واحد ذریعے تھے، تاہم بدلتے دور میں تفریح کے کئی مواقع پیدا ہونے کے بعد ’مراثیوں‘ کی اہمیت میں بھی کمی ہوئی اور انہیں حقیر سمجھا جانے لگا۔










لائیو ٹی وی