یوم آزادی صحافت اور 'بے سہارا صحافی'

یوم آزادی صحافت اور بے سہارا صحافی

ساگر سہندڑو

صحافت کی آزادی اور عوام تک بروقت درست معلومات کی فراہمی کے لیے قربانیاں دینے والے سیکڑوں صحافیوں، فوٹوگرافرز، کیمرامین اور بلاگرز میں سے ہادی بخش سانگی بھی ایک ہیں، جنہیں پاکستان کے دوسرے بڑے صوبہ سندھ کے شمالی ضلع لاڑکانہ میں 2001 میں پولیس کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

ہادی بخش سانگی کو تو درست معلومات بروقت فراہم کرنے کی پاداش میں صرف تشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن ان کے ہی نوجوان بھتیجے کیمرامین منیر سانگی کو عین اس وقت گولیوں کا نشانہ بنایا گیا جب وہ 2 قبائل میں ہونے والے تصادم کی کوریج کررہے تھے۔

ٹھیک 13 سال قبل 29 مئی 2006 میں منیر سانگی کو ابڑو اور انڑ برادریوں کے اسلحہ بردار افراد کے جھگڑے کی کوریج کے دوران اس لیے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا کیوں کہ وہ اپنے کیمرے کے ذریعے گولیاں چلانے والے افراد کے چہرے سندھ کے عوام کو دکھانے کی کوشش کر رہے تھے۔

ذمہ دار صحافت اور معلومات کی عوام تک بروقت اور درست فراہمی کے دوران قتل کیے جانے والے نوجوان بھتیجے منیر سانگی کی ہلاکت کو یاد کرتے ہوئے ہادی بخش سانگی آج بھی آبدیدہ ہوجاتے ہیں اور شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کے صحافی ریاست میں بے سہاروں کی طرح ہیں۔

ہادی بخش سانگی نے اپنے بھتیجے کے قتل اور خود پر ہونے والے تشدد کے واقعے کو یاد کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ دراصل قاتلوں کا اصل ہدف وہ تھے، منیر تو ان کے بھتیجے ہونے کے جرم میں مارے گئے۔

ہادی بخش سانگی کے مطابق ان کے بھتیجے منیر سانگی کو اسلحہ بردار افراد نے جان بوجھ کر اور منظم منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا۔

ہادی بخش سانگی نے دعویٰ کیا کہ ان کے بھتیجے کو سابق صوبائی وزیر کے کہنے پر قتل کیا گیا، کیوں کہ وہ مجھے سبق سکھانا چاہتے تھے۔

ہادی بخش سانگی خود بھی گزشتہ 2 دہائیوں سے اسی گروپ سے منسلک ہیں جس سے ان کے بھتیجے منسلک تھے اور انہیں بھی ان کے بھتیجے کے قتل سے قبل 2001 میں پولیس کی جانب سے اس وقت تشدد کا نشانہ بنایا گیا جب وہ دیگر 28 صحافیوں کے ساتھ لاڑکانہ جیل سے رہا ہونے والے سندھ ترقی پسند پارٹی (ایس ٹی پی) کے بانی قادر مگسی کی کوریج کر رہے تھے۔

منیر سانگی کے قتل میں ملوث دونوں ملزمان کا انتقال ہوچکا ہے—فائل فوٹو: بی بی سی
منیر سانگی کے قتل میں ملوث دونوں ملزمان کا انتقال ہوچکا ہے—فائل فوٹو: بی بی سی

انہیں پولیس نے اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا کیوں کہ وہ اپنے کیمرے کی آنکھ میں ایک قیدی پر پولیس کے تشدد کے مناظر کو قید کر رہے تھے۔

ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے ہادی بخش سانگی کا کہنا تھا کہ منیر سانگی کو قتل کرنے سے قبل انہیں بھی انڑ برادری کے افراد دھمکیاں دیتے رہتے تھے۔

درست معلومات کی عوام تک بروقت رسائی اور آزادی صحافت کے لیے خود تشدد برداشت کرنے اور اپنے بھتیجے کو کھونے والے ہادی بخش سانگی نے شکوہ کیا کہ انہوں نے قتل کیے گئے منیر سانگی کے قاتلوں کے خلاف طویل عرصے تک اکیلے جدوجہد کی، جس وجہ سے انہیں کئی مسائل کا سامنا بھی رہا۔

اب اگرچہ منیر سانگی کا قتل کیس ختم ہوچکا ہے اور ان کے قتل کیس میں نامزد ملزمان سابق صوبائی وزیر اور مدو انڑ کا بھی انتقال ہوچکا ہے اور خود ہادی بخش سانگی بھی گزرتی عمر کے ساتھ کمزور پڑ چکے ہیں، تاہم آزادی صحافت اور عوام تک درست اور بروقت معلومات پہنچانے کا ان کا جذبہ آج بھی جوان ہے۔

درست معلومات کی عوام تک بروقت رسائی کے لیے مار کھانے اور اپنی زندگی کا نذرانہ دینے والے صحافیوں کا سلسلہ ہادی بخش اور منیر سانگی تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے درجنوں ایسے صحافی ہیں جنہوں نے ’آزادی صحافت’ کے لیے قربانیاں دیں۔

ہادی بخش سانگی سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این سے وابستہ ہیں—فوٹو: ہادی سانگی فیس بک
ہادی بخش سانگی سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این سے وابستہ ہیں—فوٹو: ہادی سانگی فیس بک

صحافیوں کے تحفظ اور ان پر ہونے والے تشدد و غیر قانونی کیسز کی نگرانی کرنے والے ادارے ’پاکستان پریس فاؤنڈیشن‘ (پی پی ایف) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر میں 2002 سے لے کر اپریل 2019 تک صحافیوں کے قتل، تشدد اغوا اور اسی طرح کے دیگر 699 واقعات ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ 18 برس میں 72 صحافیوں کو قتل کیا گیا جن میں سے 48 صحافی خالصتاً خبر دینے، معلومات دوسروں تک پہنچانے اور مسائل کی کوریج کے دوران قتل کیے گئے، جب کہ دیگر 24 صحافیوں کو بھی مختلف وجوہات کی بنیاد پر قتل کیا گیا۔

صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے سب سے بدترین سال 2014 رہا، جس دوران ملک بھر میں 7 صحافیوں کو قتل کیا گیا، دوسرے نمبر پر 2012 رہا، جس دوران 6 صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا، اسی طرح 2010 میں صحافیوں کے قتل کے 7 واقعات پیش آئے۔

پی پی ایف نے اسی عرصے کے دوران پاکستانی میڈیا پر سینسرشپ کے 130 واقعات کی بھی نشاندہی کی۔

اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2002 سے لے کر اب تک مختلف واقعات کے دوران ملک بھر میں 171 صحافیوں کو شدید تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا جب کہ اسی عرصے کے دوران 77 صحافیوں پر معمولی تشدد کے واقعات بھی رپورٹ کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ 18 سال میں 32 بار میڈیا ہاؤسز پر حملے کیے گئے جب کہ صحافیوں کے گھروں پر حملوں کے 11 واقعات بھی رونما ہوئے۔

پاکستان میں 2002 سے 2019 تک صحافیوں کو ہراساں کرنے کے 5 واقعات رپورٹ ہوئے جب کہ صحافیوں پر ہتک عزت کے دعوے دائر کرنے کے 6 کیسز بھی رپورٹ کیے گئے اور اسی دوران 26 صحافیوں کو اغوا بھی کیا گیا۔

پی پی ایف کی رپورٹ بتاتی ہے کہ گزشتہ 18 سال کے دوران 37 صحافیوں پر مقدمات درج کیے گئے، انہیں کسی جرم کے تحت سزائیں سنائی گئیں یا پھر ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے جب کہ 26 صحافیوں کو حراست میں لینے سمیت 18 صحافیوں کو گرفتار بھی کیا گیا اور بعد ازاں پولیس کی جانب سے کچھ صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

پولیس کی کارروائیوں کا نشانہ بننے والے صحافیوں میں سکھر کے امداد پھلپوٹو بھی ہیں، جنہیں سکھر پولیس نے جنوری 2017 میں تحویل میں لینے کے بعد تشدد کا نشانہ بنایا۔

امداد پھلپوٹو سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں نجی ٹی وی چینل سما کے اسٹیشن ہیڈ تھے اور مبینہ طور پر پولیس نے انہیں بااثر سیاستدان کے کہنے پر حراست میں لینے کے بعد 10 گھنٹوں تک حبس بے جا میں رکھا اور ان پر بدترین تشدد بھی کیا۔

پی پی ایف کے مطابق امداد پھلپوٹو کو مبینہ طور پر پیپلز پارٹی کے ایک با اثر رہنما کے خلاف مسلسل خبریں چلانے کے بعد اٹھایا گیا اور بعد ازاں پولیس نے امداد پھلپوٹو کا مقدمہ دائر کرنے سے بھی انکار کردیا۔

سال 2018 میں صحافیوں کے خلاف تشدد، اغوا اور قتل کے 72 واقعات رپورٹ ہوئے، پی پی ایف—فائل فوٹو: اے ایف پی
سال 2018 میں صحافیوں کے خلاف تشدد، اغوا اور قتل کے 72 واقعات رپورٹ ہوئے، پی پی ایف—فائل فوٹو: اے ایف پی

واقعے کے حوالے سے امداد پھلپوٹو نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ پولیس نے انہیں بااثر سیاستدان کے خلاف خبریں شائع اور نشر کروانے پر نشانہ بنایا.

ان کے مطابق پولیس نے ان کے گھر پر حملہ کرکے انہیں اور ان کے بھائیوں کو گرفتار کیا اور انہیں کئی گھنٹوں تک حبس بے جا میں رکھ کر تشدد کا نشانہ بنایا.

ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے انہیں صحافیوں اور میڈیا کے دباؤ پر اس وقت چھوڑا جب ان کے ٹی وی چینل نے انہیں حراست میں لیے جانے اور ان پر تشدد کی خبریں نشر کیں۔

ایک سوال کے جواب میں امداد پھلپوٹو نے بتایا کہ انہوں نے ابتدائی طور پر بااثر سیاستدان کے خلاف ایک اسکول کے پلاٹ پر قبضہ کرکے بنگلہ بنانے کی رپورٹ نشر کی جس پر اس بااثر شخصیت نے چند صحافیوں کی تجویز پر ان کے خلاف پولیس کو کارروائی کرنے کی ہدایت کی۔

امداد پھلپوٹو نے الزام عائد کیا کہ سکھر کے چند نامور صحافی بھی پلاٹوں پر قبضے یا دیگر معاملات میں مقامی رہنما کا ساتھ دیتے رہے ہیں اور انہوں نے ہی سیاسی رہنما کو ان کے خلاف پولیس استعمال کرنے کی تجویز دی۔

پولیس کی جانب سے اٹھائے جانے اور پھر تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے بعد امداد پھلپوٹو نے پولیس کے خلاف مقدمہ بھی دائر کروانے کی کوشش کی، تاہم ان کی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔

امداد پھلپوٹو بھی ذمہ داریاں نبھانے کے دوران تشدد کا نشانہ بنے—فوٹو: امداد پھلپوٹو فیس بک
امداد پھلپوٹو بھی ذمہ داریاں نبھانے کے دوران تشدد کا نشانہ بنے—فوٹو: امداد پھلپوٹو فیس بک

پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج نہ کیے جانے کے خلاف امداد پھلپوٹو نے 2017 میں سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ میں درخواست دائر کی جس میں انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ پولیس کو ان کا مقدمہ دائر کرنے کا حکم دیا جائے، یہ کیس تاحال سکھر ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

امداد پھلپوٹو نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کی جانب سے بااصول صحافت کرنے کی وجہ سے ان کے بھائیوں کے خلاف بھی متعدد جھوٹے مقدمات دائر کروائے گئے اور ان کے خاندان کو بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

آزادی صحافت، خبر اور معلومات بروقت عوام تک پہنچانے کے عمل کے دوران پولیس، وڈیروں، بااثر سیاستدانوں اور جرائم پیشہ افراد کی جانب سے نشانہ بنائے جانے والے صحافیوں کی کہانیاں امداد پھلپوٹو تک محدود نہیں بلکہ بلکہ کئی صحافی ان کی طرح پرتشدد کارروائیوں کا نشانہ بنائے گئے۔

اگرچہ گزشتہ 2 سے 3 سال کے دوران پاکستان میں صحافیوں کے قتل کے واقعات میں کچھ کمی دیکھی گئی، تاہم مجموعی طور پر میڈیا اور صحافت قدغن، عدم استحکام، تشدد اور پابندیوں کا شکار رہا۔

پی پی ایف کی 2018 کے لیے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اگرچہ پاکستانی میڈیا انڈسٹری گزشتہ 71 سال سے تشدد، پابندیوں اور مسائل کا شکار رہی ہے تاہم 2018 میں میڈیا پر پابندیوں کی ایک نئی اور سنگین لہر دیکھنے میں آئی جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔

اگرچہ 2018 انتخابات کا سال رہا، تاہم اسی سال ملک بھر میں صحافیوں پر تشدد، انہیں اغوا کرنے اور ان کے قتل کے 72 واقعات رپورٹ ہوئے، ساتھ ہی میڈیا کو ایسی سینسرشپ کا سامنا بھی کرنا پڑا جو اس سے قبل پاکستانی میڈیا نے کبھی برداشت نہیں کی تھی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2018 میں مارے جانے والے چارسدہ پریس کلب کے سیکریٹری جنرل احسان شیرپاؤ، روزنامہ پکار کے سب ایڈیٹر انجم منیر راجا، روزنامہ نوائے وقت کے رپورٹر ذیشان اشرف بٹ، روزنامہ نیا دور کے نمائندے عابد حسین، روزنامہ خبریں کے نمائندے محمد سعید بٹ اور روزنامہ کے ٹو ٹائمز اور اے ٹی وی کے نمائندے محمد سہیل خان کو پیشہ ورانہ نہیں بلکہ ذاتی وجوہات کی بناء پر قتل کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق سال 2018 میں جہاں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا وہیں متعدد صحافیوں کو قانونی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا اور ایسے صحافیوں میں میڈیا ہاؤسز مالکان بھی شامل تھے۔

رپورٹ میں صحافی طلحہٰ صدیقی، گل بخاری اور زیب دار مری سے متعلق اغوا کے واقعات کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔

سال 2018 میں پاکستانی میڈیا کو سینسرشپ کا سامنا رہا، پی پی ایف—فائل فوٹو: یلن میگزین
سال 2018 میں پاکستانی میڈیا کو سینسرشپ کا سامنا رہا، پی پی ایف—فائل فوٹو: یلن میگزین

رپورٹ میں سال 2018 کو مجموعی طور پر پاکستانی میڈیا کے لیے بدترین سال قرار دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 2018 میں نہ صرف میڈیا کو سینسرشپ کا سامنا رہا بلکہ میڈیا معاشی بحران کا شکار بھی رہا اور کئی صحافیوں کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا۔

پی پی ایف کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے بے جا معاشی پابندیوں اور اشتہارات کے نرخوں میں کمی جیسے عوامل کی وجہ سے میڈیا حساس موضوعات پر رپورٹنگ کرنے سے دور رہا اور میڈیا نے امن و امان اور حکومت پر تنقید جیسے موضوعات کو نظر انداز کیے رکھا۔

رپورٹ میں سوشل میڈیا پر صحافیوں کو ہراساں کرنے اور ان کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلانے کے ذکر سمیت اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے 2018 میں فیس بک اور ٹوئٹر جیسی سوشل ویب سائٹس کو درجنوں اکاؤنٹس بند کرنے کی درخواست کی گئی۔

علاوہ ازیں رپورٹ میں پاکستان میں آن لائن مواد کی سینسرشپ کی بات بھی کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ نہ صرف نیوز اور میڈیا ویب سائٹس بلکہ سوشل میڈیا سائٹس سے بھی مواد کو ہٹایا گیا اور لوگوں کو معلومات سے محروم رکھا گیا۔

رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 2018 میں جنگ گروپ کے مالکان میں شامل میر شکیل الرحمٰن، سینئر صحافی ڈاکٹر شاہد مسعود، اینکر پرسن ڈاکٹر عامر لیاقت، سینئر صحافی سرل المیڈا، مطیع اللہ جان، عمر چیمہ، سیلاب محسود، ظفر وزیر اور کراچی پریس کلب کے سنیئر رکن نصراللہ چوہدری کو قانونی مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قانونی مقدمات کا سامنا کرنے والے ڈان کے صحافی سرل المیڈا کو ’پریس فریڈم ڈے‘ کے موقع پر دنیا کے 100 ممالک میں صحافیوں، مدیران اور معروف صحافیوں کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ (آئی پی آئی) نے انہیں 71 واں پریس فریڈم ہیرو نامزد بھی کیا ہے۔

یہ تنظیم ہر سال پریس فریڈم ڈے کے موقع پر ایک صحافی کو پریس ہیرو کا ایوارڈ دیتی ہے اور یہ ایوارڈ ان صحافیوں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے ذاتی خطرات کے باوجود پریس کی آزادی کے لیے خاص کام کیا ہو'۔

معلومات اور خبر کو دنیا تک پہنچانے پر قانونی مقدمات کا سامنا کرنے والے صحافیوں کا سلسلہ بھی سرل المیڈا تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر میں ایسے درجنوں صحافی ہیں جنہوں نے خبریں اور معلومات عوام تک پہنچانے کے جرم میں کیسز کا سامنا کیا۔

قانونی مقدمات کا سامنا کرنے والے صحافی دراصل دنیا بھر کے عوام کو ان کے بنیادی حقوق پہنچانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کیوں کہ عوام کو معلومات سے محروم رکھنا دراصل انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

پاکستانی میڈیا ہر دور میں پابندیوں کا شکار رہا ہے، رپورٹ—فائل فوٹو: فیس بک
پاکستانی میڈیا ہر دور میں پابندیوں کا شکار رہا ہے، رپورٹ—فائل فوٹو: فیس بک

اقوام متحدہ کے 1946 میں منظور کیے جانے والے انسانی حقوق کے عالمی منشور کی شق 59 اے اور 1990 میں پاس کیے گئے ’انفارمیشن سروس آف ہیومنیٹی‘ قرارداد کے مطابق معلومات کا آزادانہ حصول انسان کا بنیادی حق ہے۔

تاہم معلومات کے حصول اور اسے عام لوگوں تک پہنچانے کے لیے کردار ادا کرنے والے متعدد صحافی دنیا میں کہیں نہ کہیں تشدد اور جبر کا نشانہ ضرور بنتے ہیں۔

اور بدقسمتی سے پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں صحافیوں کو خبر اور معلومات کے حصول میں انتہائی شدید مشکلات درپیش ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ایک سال میں پاکستان کی’آزادی صحافت اور معلومات کی آگاہی‘ کی رینکنگ میں تنزلی ہوئی۔

عالمی ادارے ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز’ کی جاری کردہ 2019 کی فہرست کے مطابق پاکستان آزادی صحافت کے حوالے سے تین درجے نیچے آگیا۔

رپورٹ کے مطابق 2018 میں پاکستان دنیا بھر کے 180 ممالک میں آزادی صحافت کے حوالے سے بدترین ممالک میں 139 ویں نمبر پر تھا اور اب پاکستان 142 ویں نمبر پر پہنچ چکا ہے، یعنی پاکستان کی کارکردگی میں تین درجے تنزلی ہوئی۔

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی فہرست سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کا شمار آزادی صحافت کے لیے دنیا کے بدترین 40 ممالک میں ہوتا ہے۔

آزادی صحافت کے لیے سب سے بدترین ملک ترکمانستان ہے، دوسرے نمبر پر شمالی کوریا، تیسرے نمبر پر ایریٹیریا، چوتھے نمبر پر چین اور پانچویں نمبر پر ویتنام ہے۔

رپورٹ میں بالترتیب سوڈان چھٹے، ساتویں نمبر پر شام، آٹھویں نمبر جبوتی، نویں نمبر پر سعودی عرب اور دسویں نمبر پر لاؤس ہیں۔

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے یہ رپورٹ ان ممالک میں صحافیوں کو معلومات تک رسائی میں درپیش مشکلات اور حکومت کی جانب سے صحافت اور میڈیا پر عائد کردہ پابندیوں کو نظر میں رکھ کر مرتب کی ہے۔

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق سال 2018 میں دنیا بھر میں 80 صحافی قتل کیے گئے جن میں 3 خواتین صحافی بھی شامل تھیں۔

مارے جانے والے صحافیوں میں سٹیزن جرنلسٹ، بلاگرز اور میڈیا سے وابستہ تکنیکی افراد بھی شامل ہیں۔

ادارے کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2019 کے آغاز سے یکم مئی تک دنیا بھر میں 8 صحافی قتل کیے جا چکے ہیں جب کہ ایک سیٹیزن جرنلسٹ اور ایک میڈیا سے وابستہ تکنیکی ملازم کو بھی قتل کیا جا چکا ہے۔

دنیا بھر میں 26 سال کے دوران 1324 صحافی مارے جا چکے ہیں—فائل فوٹو: ہیومن رائٹس واچ
دنیا بھر میں 26 سال کے دوران 1324 صحافی مارے جا چکے ہیں—فائل فوٹو: ہیومن رائٹس واچ

سال 2019 کے ابتدائی 4 ماہ میں دنیا بھر میں 174 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا جب کہ اسی عرصے کے دوران 150 سٹیزن جرنلسٹ اور 17 میڈیا سے وابستہ دیگر افراد کو بھی حراست میں لیا گیا۔

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان میں 2018 اگرچہ انتخابات کا سال رہا تاہم وہاں میڈیا پر سینسرشپ میں اضافہ دیکھنےمیں آیا۔

تنظیم کے مطابق میڈیا پر بے جا پابندیوں کے باعث مجموعی طور پر عام افراد تک برو قت آزادانہ معلومات کی ترسیل نہ ہوپائی۔

تنظیم نے رپورٹ میں جہاں پاکستانی میڈیا پر سینسرشپ کا ذکر کیا ہے، وہیں ادارے نے پاکستان میں صحافیوں کو درپیش مشکلات کا بھی ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ 2018 میں بھی پاکستانی صحافی تشدد، گرفتاریوں اور ہراساں کا شکار رہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2018 میں کم سے کم تین صحافیوں کو اپنے کام کے دوران قتل کیا گیا اور کئی صحافیوں کو خبر اور معلومات حاصل کرنے میں شدید مشکلات رہیں۔

پاکستان میں اگرچہ زیادہ تر معلومات اور خبر عوام تک پہنچانے کے جرم میں صحافیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، تاہم بعض مرتبہ معلومات اور خبر کی ترسیل کے جرم میں صحافتی اداروں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔

پاکستان میں جہاں اپنی مرضی کی خبریں شائع نہ کرنے یا پھر کم کوریج کی وجہ سے سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے صحافتی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، وہیں بعض مرتبہ کچھ گروپس کی جانب سے اداروں پر حملے بھی کیے جاتے ہیں۔

کم کوریج دینے اور مرضی کی خبریں شائع نہ کرنے پر جہاں صحافتی اداروں پر حملے کیے گئے، وہیں کچھ اداروں کو بعض اشتہارات شائع کرنے پر بھی نشانہ بنایا گیا۔

اشتہار شائع کرنے کے بعد نشانہ بننے والے صحافتی اداروں میں سندھی ’روزنامہ خبرون‘ بھی شامل ہے، جن کے سکھر میں موجود دفتر پر 2005 میں اس وقت پیٹرول بم سے حملہ کیا گیا جب اخبار نے ’کالا باغ ڈیم‘ کی حمایت پر اشتہار شائع کیا۔

یہ اپنی نوعیت کا پاکستان کا پہلا واقعہ تھا جس میں اشتہار شائع کرنے پر جہاں اخبار کے دفتر پر حملہ کیا گیا، وہیں احتجاجاً بیک وقت اخبار سے وابستہ 200 صحافیوں اور کارکنان نے استعفیٰ دیا۔

واقعے سے متعلق اس وقت ’روزنامہ خبرون‘ کی انتظامیہ سے منسلک ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان نیوز کو بتایا کہ کالا باغ ڈیم کی حمایت میں اشتہار شائع کرنے کے بعد نہ صرف سکھر میں موجود ان کے اخبار کے دفتر پر حملہ کیا گیا بلکہ حیدرآباد میں موجود مرکزی دفتر سمیت دیگر شہروں میں موجود اخبار کے دفاتر پر بھی لوگوں نے دھاوا بول دیا۔

انہوں نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ کالا باغ ڈیم کی حمایت میں اشتہار شائع کرنے کے بعد ’روزنامہ خبرون‘ کو قوم پرست کارکنان نے نشانہ بنایا۔

معلومات سے عوام کو بے خبر رکھنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے—فائل فوٹو: حریت ڈیلی نیوز
معلومات سے عوام کو بے خبر رکھنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے—فائل فوٹو: حریت ڈیلی نیوز

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت نہ صرف قوم پرست کارکن بلکہ عوام، صحافی اور ادیب بھی ’روزنامہ خبرون‘ کے خلاف ہوگئے تھے، کیوں کہ سندھ کے عوام پہلے ہی دن سے کالا باغ ڈیم کے مخالف ہیں۔

خبرون انتظامیہ کے سابق عہدیدار کا کہنا تھا کہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم کی حمایت میں اشتہار شائع کرنے کے اگلے ہی دن اخبار سے منسلک کم سے کم 200 صحافیوں اور کارکنان نے احتجاجاً ملازمت چھوڑدی اور اعلان کیا کہ وہ سندھ کے عوام کی امنگوں کے خلاف کام کرنے والے ادارے کے ساتھ کام نہیں کرسکتے۔

ان کا دعویٰ تھا کہ پاکستانی تاریخ میں بیک وقت احتجاجاً اتنے صحافیوں نے پہلے ملازمت نہیں چھوڑی تھی اور اس واقعے نے ملک اور خطے میں ایک نئی مثال قائم کی۔

خبرون کے سابق عہدیدار نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اخبار نے اپنے ہی ادارے میں کام کرنے والے صحافیوں سے کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کالا باغ ڈیم کی حمایت میں اشتہار چلایا۔

اپنی بقا کی جدوجہد اور معلومات کی دنیا تک رسائی کے لیے مشکلات، مسائل اور تشدد برداشت کرنے والے اداروں میں صرف پاکستانی صحافتی ادارے شامل نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی میڈیا ہاؤسز کو حملوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور دنیا بھر کے صحافی خبر اور معلومات کو عوام تک پہنچانے کے جرم میں مارے گئے ہیں۔

اقوام متحدہ (یو این) کے مطابق 1993 سے لے کر اب تک دنیا بھر میں خبر اور معلومات دنیا تک پھیلانے کے عمل کے دوران 1324 صحافی مارے جا چکے ہیں۔

عالمی سطح پر سب سے زیادہ صحافی خانہ جنگی کا شکار رہنے والے ملک عراق میں مارے گئے، جہاں 1993 سے لے کر اب تک 196 صحافی مارے گئے اور ان صحافیوں میں امریکی جنگ کے دوران بھی متعدد صحافی ہلاک ہوئے۔

صحافیوں کے قتل کے حوالے سے دوسرے نمبر پر خانہ جنگی کا شکار رہنے والا ملک شام ہے جہاں اب تک 103 صحافی مارے گئے ہیں اور تیسرے نمبر پر فلپائن ہیں جہاں قتل ہونے والے صحافیوں کی تعداد 100 ہے۔

عالمی سطح پر میڈیا پر سینسرشپ میں اضافہ ہوا—فائل فوٹو: ڈھاکا ٹربیون
عالمی سطح پر میڈیا پر سینسرشپ میں اضافہ ہوا—فائل فوٹو: ڈھاکا ٹربیون

افغانستان، بھارت، برازیل، صومالیہ، کولمبیا، روس، یمن، الجزائر اور ہنڈراس بھی صحافیوں کی ہلاکت کے حوالے سے خطرناک ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔

لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ صحافیوں کے لیے چیلنجز اور مسائل نئی اور سنگین صورتحال اختیار کرتے جا رہے ہیں، جس کی مثال اس وقت دنیا کے متعدد ممالک کی میڈیا پر عائد پابندیاں ہیں، عالمی صحافتی اداروں کے مطابق رواں برس ’پریس فریڈم ڈے‘ کے موقع پر دنیا کے متعدد ممالک میں میڈیا اور صحافی سینسرشپ کا شکار ہیں جس سے عوام تک بر وقت اور درست معلومات نہیں پہنچ رہی۔

عالمی صحافتی تنظیموں کے مطابق رواں برس دنیا کے 50 سے زائد ممالک میں انتخابات ہوں گے جن میں سے ایک درجن سے زائد ممالک میں انتخابات ہوچکے ہیں۔

انتخابات کے موقع پر دنیا بھر میں نہ صرف حکومتوں بلکہ دیگر قوتوں کی جانب سے بھی صحافیوں کے خلاف تشدد اور پابندیاں دیکھنے کو ملی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ پریس فریڈم ڈے ’میڈیا جمہوریت کے لیے: انتخابات اور صحافت کو غیر جانبدار رہنے دیں‘ کے اصول کے تحت منایا جا رہا ہے۔

پریس فریڈم ڈے ہر سال 3 مئی کو اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے یونیسکو کے تعاون سے منایا جاتا ہے اور اس دن کو یونیسکو نے ہی 1991 میں منانے کی منظوری اور تجویز دی تھی۔

یونسیکو نے پریس فریڈم ڈے منانے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’معلومات کی آزادانہ ترسیل اور معلومات تک رسائی ہر شخص کا بنیادی حق ہے‘ اور افسوس کے آج دنیا کے بیشتر افراد اپنے اس حق سے محروم ہیں اور حیران کن بات یہ ہے کہ معلومات سے بے خبر نصف سے زیادہ لوگوں کو یہ علم ہی نہیں کہ انہیں معلومات سے دور رکھ کر ان کے حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔

عالمی یوم آزادی صحافت پر دنیا بھر میں مظاہرے کیے جاتے ہیں—فائل فوٹو: نیوز حب ایم پی
عالمی یوم آزادی صحافت پر دنیا بھر میں مظاہرے کیے جاتے ہیں—فائل فوٹو: نیوز حب ایم پی