12ویں کرکٹ ورلڈ کپ کے مقابلے اِن دنوں انگلینڈ اور ویلز میں جاری ہیں۔ اب تک ٹورنامنٹ کے 48 میچوں میں سے 25 مقابلے کھیلے جاچکے ہیں۔

حالیہ ورلڈ کپ کے دوران اب تک شائقینِ کرکٹ کو جہاں کچھ بڑے ہی دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلے دیکھنے کو ملے وہیں چند میچوں میں بارش نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا او شائقین اپنے پسندیدہ کرکٹ ستاروں کو کھیلتا نہیں دیکھ پائے۔ ورلڈ کپ میں کھیلے گئے 25 میچوں میں سے 4 بارش کی نذر ہوچکے ہیں اور متاثرہ میچوں میں مدِمقابل ٹیموں میں پوائنٹ تقسیم کردیے گئے۔

یہ ٹورنامنٹ ورلڈ کپ کی تاریخ میں بارشوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ٹورنامنٹ بھی بن چکا ہے، کیونکہ اس سے قبل 11 ورلڈ کپ ٹورنامنٹس میں صرف 4 میچ ہی ایسے تھے جو بارش کی وجہ سے بے نتیجہ رہے، لیکن اس ورلڈ کپ کے دوران ابھی نہ جانے کتنے اور میچ برسات سے متاثر ہوں گے۔ موسم کی پیش گوئی کے مطابق ٹورنامنٹ میں مزید 10 میچ بارش سے متاثر ہوسکتے ہیں۔

انگلینڈ ماضی میں متعدد بار ورلڈ کپ سمیت دیگر بین الاقوامی ٹورنامنٹس کی میزبانی کرچکا ہے لیکن جتنا زیادہ بارش نے اس ٹورنامنٹ کو متاثر کیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔

ورلڈ کپ میں کھیلے گئے 25 میچوں میں سے 4 بارش کی نذر ہوچکے ہیں—اے ایف پی
ورلڈ کپ میں کھیلے گئے 25 میچوں میں سے 4 بارش کی نذر ہوچکے ہیں—اے ایف پی

بتایا تو یہ گیا تھا انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے موسمی پیش گوئی کو مدِنظر رکھتے ہوئے ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کے انعقاد کا شیڈول ترتیب دیا ہے لیکن اب تک وہ اپنی حکمت عملی میں ناکام ہی نظر آرہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین احسان مانی نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں اس بات کا انکشاف کیا کہ انہوں نے آئی سی سی کے جن چند اجلاسوں میں شرکت کی ان میں ورلڈ کپ کے دوران بارش یا گیلے موسم سے نمٹنے کے حوالے سے کوئی بات چیت نہیں کی گئی۔ احسان مانی کے اس بیان سے آئی سی سی کی بدانتظامی کی نشاندہی ہوتی ہے کہ انگلینڈ جیسا ملک کہ جہاں بارش کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے، وہاں پر ہونے والے ٹورنامنٹ سے قبل بارش سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے گئے۔

ورلڈ کپ 4 سال میں ایک مرتبہ منعقد ہوتا ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں کئی کھلاڑیوں کے کیریئر بنتے اور بگڑتے ہیں۔ ٹیمیں بھی 4 سال تک اس عالمی میلے کی تیاری میں جُٹی رہتی ہیں، اس کی سب سے بڑی مثال انگلینڈ کی ٹیم ہے جس نے 2015ء کے ورلڈ کپ میں خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے فوراً بعد ہی نئی حکمت عملی کے ساتھ 2019ء کے ورلڈ کپ کی تیاری شروع کردی تھی۔ ان کی کامیاب نئی سوچ اور حکمتِ عملی نے انہیں نا صرف عالمی سطح پر ایک روزہ کرکٹ کی فہرست میں اول نمبر پر پہنچا دیا بلکہ حالیہ ورلڈ کپ جیتنے کے لیے خود کو فیورٹ بھی بنا دیا۔

انگلینڈ جیسا ملک کہ جہاں بارش کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے، وہاں پر ہونے والے ٹورنامنٹ سے قبل بارش سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے گئے—اے ایف پی، سعید خان
انگلینڈ جیسا ملک کہ جہاں بارش کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے، وہاں پر ہونے والے ٹورنامنٹ سے قبل بارش سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے گئے—اے ایف پی، سعید خان

بارش سے میچوں کے متاثر ہونے کے معاملے پر بات کرتے ہوئے آئی سی سی کے سابق چیف ایگزیکیٹو آفیسر اور ورلڈ کپ کے سی ای او ڈیو رچرڈسن نے کہا کہ ورلڈ کپ تمام میچوں کے لیے اضافی دن رکھنا ممکن نہیں تھا۔

کم از کم میں تو رچرڈسن کی اس وضاحت سے مطمئن نہیں ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آئی سی سی نے موسم کی پیش گوئیوں پر توجہ دیے بغیر ورلڈ کپ کا شیڈول مرتب کیا، یوں کھلاڑیوں کے کھیلنے کے جوش و جذبے اور کرکٹ شائقین کے شوق کو بھی نظر انداز کیا۔

بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ آئی سی سی نے اس ٹورنامنٹ میں صرف براڈ کاسٹرز کے مفادات کا سب سے زیادہ خیال رکھا ہے۔ اس کا اندازہ ٹورنامنٹ کے شیڈول سے ہی لگا لیجیے 38 دنوں پر مشتمل پہلے مرحلے کے 45 گروپ میچوں کے دوران ایک دن کا بھی وقفہ نہیں رکھا گیا جبکہ اس دوران صرف 7 دن ایسے مقرر کیے گئے جن میں 2 مقابلے رکھے گئے۔

اگر ہم 2015ء کے عالمی کپ کی بات کریں تو اس میں 44 دنوں میں 49 میچ کھیلے گئے تھے اور گروپ میچوں کے درمیان کہیں ایک تو کہیں دو دن کا وقفہ بھی رکھا گیا تھا۔ حالانکہ 2015ء کے ورلڈ کپ میں 14 ٹیمیں جبکہ حالیہ عالمی کپ میں 10 ٹیمیں شرکت کر رہی ہیں۔

بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ آئی سی سی نے اس ٹورنامنٹ میں صرف براڈ کاسٹرز کے مفادات کا سب سے زیادہ خیال رکھا ہے—اے ایف پی
بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ آئی سی سی نے اس ٹورنامنٹ میں صرف براڈ کاسٹرز کے مفادات کا سب سے زیادہ خیال رکھا ہے—اے ایف پی

یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ آئی سی سی نے اس معاملے پر ٹورنامنٹ میں شریک ٹیموں کو اہمیت دینے سے زیادہ میچ براہ راست نشر کرنے کو زیادہ ترجیح دی ہے۔ اگر آئی سی سی براڈکاسٹ لاجسٹکس (نشریات کے لیے درکار افراد اور سامان کی نقل و حمل) کی زیادہ فکر کرنے کے بجائے ٹورنامنٹ میں شریک ٹیموں کے مفاد کا خیال رکھتی تو ورلڈ کپ کا شیڈول مرتب کرتے وقت 7 کے بجائے کم از کم 15 یا 20 ایسے دن مقرر کیے جاتے جن میں کم از کم 2 میچ منعقد کیے جاتے۔ ایسا کرنے سے جہاں ٹیموں کو آرام کے لیے دن مل جاتے وہیں گروپ مرحلے میں ہونے والے میچوں کے لیے اضافی دن رکھ کر میچوں کو بارش سے متاثر ہونے سے بچاسکتی تھی۔

ورلڈ کپ کے سی ای او ڈیو رچرڈسن نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ اضافی دن بھی بارش سے متاثر ہوسکتا تھا یا شائقین کے لیے دوسرے دن آنا مشکل ہوتا۔ ان کی یہ منطق بھی سمجھ سے بالا تر ہے۔ اگر دوسرا دن بھی بارش سے متاثر ہوتا تو یہ واقعی ایک بدقسمتی ہوتی لیکن زیادہ امکان اس بات کا ہوتا کہ دوسرے دن میچ ہوجاتا۔ اگر شائقین کی بات کی جائے تو جنہوں نے مہینوں پہلے میچ دیکھنے کے لیے ٹکٹ خریدے ہوئے ہیں وہ ٹکٹ واپس دے کر اپنے پیسے واپس لینے کے بجائے دوسرے دن اسٹیڈیم پہنچ کر میچ دیکھنا زیادہ پسند کریں گے۔

آئی سی سی نے میچوں کے درمیان ایک یا دو وقفہ رکھنا چاہیے تھا—اے ایف پی
آئی سی سی نے میچوں کے درمیان ایک یا دو وقفہ رکھنا چاہیے تھا—اے ایف پی

آئی سی سی کی ٹکٹ کے پیسے واپس کرنے کی پالیسی کے مطابق اگر کسی میچ میں بارش کی وجہ سے صرف 15 اوورز یا ان سے کم کا کھیل ہوگا تو ٹکٹ کی پوری رقم واپس کی جائے گی جبکہ جن میچوں میں 15 اوورز سے لے کر 29.5 اوورز کا میچ ہوگا تو ان میں ٹکٹ کی 50 فیصد رقم واپس کی جائے گی۔

اب تک اس ٹورنامنٹ میں جو بھی میچ بارش سے متاثر ہوئے ہیں ان میں شائقین کے لیے ایک خوش نصیبی یہ رہی کہ میچ منسوخ ہونے پر ٹکٹ کی پوری رقم واپس مل گئی، تاہم مستقبل میں ایسا ہونے یا نا ہونے کی کوئی یقین دہانی نہیں کروائی جاسکتی۔

ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والی ٹیمیں یہ خواہش رکھتی ہیں کہ اس عالمی اسٹیج پر انہیں اپنی کارکردگی کے مکمل جوہر دکھانے کا موقع ملے۔ کھلاڑی بھی اس مقام پر اپنی اچھی کارکردگی دکھا کر ٹیم میں اپنی جگہ مستحکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آسٹریلیا کے کھلاڑی ڈیوڈ وارنر اور اسٹیو اسمتھ کو ہی لیجیے، بال ٹیمپرنگ کی سزا بھگتنے کے بعد ان دونوں کھلاڑیوں کی ٹیم میں واپسی ورلڈ کپ کے موقعے پر ہوئی ہے۔ ان کھلاڑیوں نے اپنی واپسی کے فوراً بعد اپنی اچھی کارکردگی سے اپنے انتخاب کو درست ثابت کیا ہے۔

بارش کی وجہ سے میچ متاثر ہونے پر کھلاڑی اور شائقین کرکٹ دونوں ہی مایوس ہوتے ہیں—اے ایف پی
بارش کی وجہ سے میچ متاثر ہونے پر کھلاڑی اور شائقین کرکٹ دونوں ہی مایوس ہوتے ہیں—اے ایف پی

کچھ کھلاڑی اس عالمی اسٹیچ پر اپنے کیریئر کا اختتام کرتے ہیں، جیسے پاکستان کی بات کی جائے شعیب ملک اور محمد حفیظ ورلڈ کپ کے بعد ایک روزہ کرکٹ سے ریٹائر ہوجائیں گے۔ ان کھلاڑیوں کی یہ شدید خواہش ہے کہ وہ اس عالمی ٹورنامنٹ میں کوئی یادگار اننگ کھیل کر ایک روزہ کرکٹ سے رخصت ہوں۔ اگر یہ کھلاڑی میدان میں کھیل کر ناکام ہوجاتے ہیں تو الگ بات ہے لیکن اگر ان کھلاڑیوں کو بارش کی وجہ سے اپنی کارکردگی پیش کرنے کا موقع نہیں ملتا تو یہ ان کی بدقسمتی ہی سمجھی جائے گی۔

کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جس میں گراؤنڈ کا مکمل خشک ہونا لازمی ہے۔ آئی سی سی کو ابھی سے ایسے اقدامات اور ایسی حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے کہ مستقبل میں ہونے والے ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کے میچ بارش سے متاثر نہیں ہوں۔

کرکٹ ورلڈ کپ انتظامیہ کے لیے مشورہ

میں سمجھتا ہوں کہ آئی سی سی آئندہ ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کے موقعے پر میزبان ملک کو اس بات کا پابند بنائے کہ وہ ورلڈ کپ کے مقابلوں کے لیے ایسے میدان تیار کریں جن کی چھت ضرورت پڑنے پر بند کی جاسکے تاکہ میچ کے بارش سے متاثر ہونے کے خدشے کو ختم کردیا جائے اور شائقین اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کے کھیل سے بغیر کسی تعطل کے لطف اندوز ہوسکیں۔

اب قطر کی ہی مثال لیجیے جس نے دنیا کے پہلے ایئرکنڈینشنڈ اسٹیڈیم خلیفہ کو تیار کیا ہے۔ اس اسٹیڈیم میں اعلیٰ معیاری کولنگ ٹیکنالوجی کی تنصیب کا مقصد قطر کے گرم موسم میں بھی شائقین کو پرسکون اور ٹھنڈا ماحول فراہم کرنا ہے۔ اگر فٹ بال کے جہان میں کھلاڑیوں اور شائقین کا اتنا زیادہ خیال رکھا جاسکتا ہے تو پھر دنیائے کرکٹ میں کم از کم ایسے اسٹیڈیم تو تیار کروائے ہی جاسکتے جن میں کھلاڑی بارش سے بے خوف ہوکر اپنا کھیل پیش کرسکیں اور شائق انہیں بلا گھوماتے اور گیند پھینکتے دیکھ سکیں۔

ایک کرکٹ شائق کی حیثیت سے اپنی پسندیدہ ٹیم کی خراب کارکردگی سے زیادہ بارش کی وجہ سے میچ میں آنے والی رکاوٹ مجھے زیادہ کوفت کا شکار کرتی ہے۔

امید ہے کہ آئی سی سی اور کرکٹ کھیلنے والے ممالک اس ورلڈ کپ سے سبق حاصل کرکے مستقبل کے لیے بہتر حکمت عملی مرتب کریں گے تاکہ شائقین کو تفریح کا بھرپور موقع فراہم کیا جاسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں