چاند پر انسان کے قدم کو نصف صدی مکمل

اپ ڈیٹ 20 جولائ 2019
اپولو 11 مشن کی ایک تصویر — فوٹو بشکریہ ناسا
اپولو 11 مشن کی ایک تصویر — فوٹو بشکریہ ناسا

انسان کی چاند سے انسیت زمانہ قدیم سے ہے اور تہذیب و تمدن کے آغاز سے بہت پہلے جب انسان غاروں اور جنگلوں میں رہتے تھے تب بھی رات میں آسمان پر چمکتا چاند ان کی خصوصی توجہ کا مرکز تھا۔

کئی صدیوں بعد انسان نے باقاعدہ گھر بنا کر رہنے کا آغاز کیا تب چاند کی روشنی رات کے سفر میں اس کی معاونت کرتی اور چاند، ستاروں ہی کے ذریعے وہ سمت کا تعین کرتا تھا۔ مگر چاند کا گھٹنا بڑھنا اور کچھ راتوں میں بالکل غائب ہو جانا اسے طرح طرح کے شکوک میں مبتلا کرتا رہا اور ہر دور میں چاند و سورج سے متعلق ماورائی قصے کہانیاں نسل در نسل منتقل ہوتی رہیں۔

وقت کا دھارا اپنی مخصوص رفتار سے بہتا رہا یہاں تک کہ 19ویں صدی کے اوائل میں جرمن اور امریکی سائنسدانوں نے جنگ میں استعمال کیے جانے والے راکٹس پر کام کا آغاز کیا، پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں مخالفین کی جانب سے انہیں محدود پیمانے پر استعمال بھی کیا گیا۔ تب امریکی سائنسدان و محقق رابرٹ ایچ گوڈارڈ نے پہلی دفعہ ان راکٹوں کے ذریعے خلا میں سفر اور بعد ازاں چاند تک رسائی کا تصور پیش کیا۔ جسے پہلے پہل دیوانے کی بڑ قرار دے کر گوڈارڈ کا باقاعدہ مذاق اڑایا گیا۔ مگر یہ با ہمت اور حوصلہ مند انسان آخری دم تک اپنے پیش کردہ تصورات پر نہ صرف قائم رہے بلکہ نجی ذرائع سے مالی امداد حاصل کر کے راکٹ تیار کر کے ان پر تجربات بھی کیے۔

دستیاب ریکارڈ کے مطابق 16مارچ 1926 کو گوڈارڈ نے اپنا تیار کردہ پہلا مائع ایندھن والا راکٹ خلا میں بھیجا اور یہ تجربہ کامیاب رہا۔ اس کے بعد 1926 سے 1940 کے دوران گوڈارڈ نے متعدد راکٹ خلا میں بھیجے، چند ذرائع کے مطابق ان میں ایک چاند کی سطح تک پہنچنے میں بھی کامیاب رہا۔

گوڈارڈ کی وفات کے بعد امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کو احساس ہوا کہ سائنسدان کے قوانین پر عمل کر کے ہی خلا کے سفر کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ لہذا 1950 کے بعد اس حوالے سے تیز تر پیش رفت ہوئی اور 1961 میں ناسا نے چاند تک رسائی کے لیے اپولو مشن کا آغاز کیا۔

اپولو دراصل مصری زبان کا لفظ ہے اور روشنی کے دیوتا کا نام ہے۔ ابتدا میں 6 سال تک محض خلائی گاڑیوں کو خلا میں بھیجا گیا جن کا مقصد آخری انسانی مشن کے متعلق تمام معلومات جمع کرنا اور اسے محفوظ ترین بنانا تھا۔

1967 میں اپولو مشن اس وقت شدید مشکلات سے دوچار ہوگیا جب لانچنگ سے قبل ویکیوم میں کیے جانے والے کچھ تجربات کے دوران خلائی کیپسول میں آگ بھڑک اٹھی اور تین خلا بازوں پر مشتمل عملہ ہلاک ہو گیا۔ اس کے بعد مکمل تحقیق کے ساتھ 1969 میں اپولو 11 مشن چاند کی طرف روانہ کیا گیا جسے تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ اپولو الیون مشن کے پچاس سال مکمل ہونے پر 2019 میں پوری دنیا میں خصوصی تقریبات منعقد کی جارہی ہیں۔

آئیے اس تاریخی موقع پر چاند کی جانب بھیجے جانے والے تمام انسان بردار مشنز کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

1۔ اپولو الیون: 16 جولائی 1969

بز الڈرین کی چاند پر چہل قدمی جس کی تصویر نیل آرم سٹرانگ نے لی —فوٹو بشکریہ ناسا
بز الڈرین کی چاند پر چہل قدمی جس کی تصویر نیل آرم سٹرانگ نے لی —فوٹو بشکریہ ناسا

اپولو الیون چاند کی جانب بھیجا جانے والا پہلا مشن تھا جس میں تین خلا بازوں کو ایک خلائی گاڑی "ایگل"میں چاند کی جانب بھیجا گیا جن میں کمانڈرنیل آرم سٹرانگ، فلائٹ پائلٹ بز الڈرین، اور معاون فلائٹ پائلٹ مائیکل کولنز شامل تھے۔ یہ خلائی گاڑی 16 جولائی 1969 کو فلوریڈا کے ساحل ِسمندر کے قریب واقع کیپ کارنیوال لانچنگ پیڈ سے روانہ کی گئی اور 4 دن کا سفر کر کے 20 جولائی 1969 کو چاند کی سطح پر جس مقام پر اتری اسے ' ساکت سمندر' کہا جاتا ہے۔

جس وقت ایگل نامی خلائی گاڑی نے چاند کی سطح کو چھوا تو نیل آرم سٹرانگ نے ہاسٹن میں واقع فلائٹ کنٹرول سینٹر کو اطلاع دی کہ ایگل کامیابی کے ساتھ لینڈ کر گیا ہے او ر ساتھ ہی چاند پر پہلی دفعہ قدم رکھنے والے انسان کی حیثیت سے خود کو تاریخ میں امر کر لیا ۔ آرم سٹرانگ اور بز الڈرین نے تقریباً 21 گھنٹے اور 36 منٹ چاند کی سطح پر چہل قدمی کی اور وہاں سے مٹی ، چٹانوں اور پتھروں کے نمونے جمع کرنے کے علاوہ تصاویر بھی کھینچیں۔

واپسی پر نیل آرم سٹرانگ نے چاند کی ایک دلدلی زمین پر اپنی بیٹی کا بریسلٹ یادگار کے طور پر چھوڑ دیا جو چند برس قبل برین کینسر سے انتقال کر گئی تھی۔ اس دوران مائیکل کولنز اندر خلائی گاڑی میں زمین سے مستقل رابطے میں رہے۔ جبکہ دنیا بھر سے کروڑوں افراد نے اس منظر کو ٹی وی پر براہ راست بھی دیکھا۔چار دن کے سفر کے بعد 24 جولائی کو ایگل بحر الکاہل میں باحفاظت لینڈ کر گیااور خلا بازوں کو امریکی نیوی (یو ایس ایس ہارنٹ) کی کشتیوں نے ساحل تک پہنچایا۔

اگرچہ اپولو الیون مشن اور نیل آرم سٹرانگ دونوں ہی ہمیشہ تنازعات کا شکار رہے اور ہر دور میں سائنس و فلکیات سے متعلق لا علمی یا پروفیشنل مخاصمت کے باعث اس مشن کو جعلی اور ہولی وڈ اسٹوڈیو میں فلمائی گئی فلم قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ مگر آج امریکہ کے بعد کئی اور ممالک کے مشن بھی چاند تک رسائی حاصل کر نے کے بعد حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے۔

اپولو 12: نومبر 1969

فوٹو بشکریہ ناسا
فوٹو بشکریہ ناسا

اپولو الیون مشن کی شاندار کامیابی سے ناسا کے ماہرین و انجینئرز کے حوصلے بہت بلند ہو چکے تھے لہذاٰ اس کے محض چار ماہ بعد 14 نومبر 1969 کو اپولو 12 مشن چاند کی طرف روانہ کیا گیا جس کے عملے میں کمانڈر چارلس کانرڈ ، فلائٹ پائلٹ ایلن بین اور معاون پائلٹ ریچرڈ گورڈن شامل تھے۔ یہ خلائی گاڑی کامیا بی سے اپنا سفر طے کرتی ہوئی 19 نومبر کو چاند کی سطح پر جس مقام پر اتری وہ چاند کے مغربی اور زمین سے قدرے قریب تاریک علاقہ تھا۔ جہاں کبھی آتش فشانی ہوئی ہوگی اور اب یہ دلدل نما علاقہ ہے۔

یہ وہی جگہ ہے جہاں تین برس قبل ناسا کی ایک اور خلائی گاڑی سرویئر 3اتری تھی مگر اس میں خلاباز نہیں تھے۔ لہذاٰ یہاں قدم رکھتے ہی خلابازوں نے سرویئر 3 کی تلاش شروع کی اور اس کے کچھ ٹکڑوں کے ساتھ مٹی اور چٹانوں کے نمونے جمع کیےاور تصاویر بھی بنا ئیں۔ چونکہ اس مشن کو بھیجنے کا مقصد اپولو الیون سے حاصل ہونے والےتکنیکی معلومات اور ڈیٹا کی تصدیق بھی تھا اس لیے خلا بازوں کے چاند پر قیام کے دورانیے کو بڑھا کر 31 گھنٹے ، 31 منٹ کر دیا گیا ۔

اختتامی مرحلوں میں مشن اس وقت مشکلات سے دوچار ہوگیا جب چاند سے روانگی کے وقت چاند پر اترنے میں مدد کرنے والی چاند گاڑی (لیونر ماڈیول) چاند کی سطح پر گر کر تباہ ہوگیا جس سے پیدا ہونے والا دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ چاند کی سطح پر پہلی دفعہ زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے جوکہ مصنوعی زلزلہ تھا۔ واضح رہے کہ ابتدا میں چاند کی جانب بھیجے جانے والی خلا ئی گاڑیا ں دو حصوں پر مشتمل ہوتی تھیں جن میں ایک حصہ انھیں چاند پر اترنے میں مدد دیتا تھا۔

ان مشکلات کے باوجود فلائٹ پائلٹس کمانڈ ماڈیول کو با حفاظت زمین تک لانے میں کامیاب رہے۔ اور امریکی ساحلی علاقے سے نیوی کے عملے نے تینوں خلابازوں کو باحفاظت نکالا۔اپولو 12 کئی حوالے سے یادگار مشن رہا کیونکہ اپولو الیون کے برعکس اس میں خلائی گاڑی بالکل اسی مقام پر اتری جو منصوبہ بندی میں طے کیا گیا تھا۔یعنی اپولو الیون میں جو تکنیکی غلطیاں کی گئیں ناسا کے ماہرین نے محض چار ماہ میں ان پر قابو پالیا۔

اپولو 14: جنوری 1971

فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا

31 جنوری 1971کو ناسا نے اپولو 14 کے نام سے نیا مشن چاند کی جانب بھیجا جس کے عملے میں کمانڈر ایلن شیپارڈ اور فلائٹ پائلٹ ایڈ گر میچل شامل تھے۔ جبکہ کمانڈ موڈیول کو پائلٹ سٹیورٹ روزا چلا رہے تھے جو لیونر ماڈیول سے الگ ہو کر مسلسل مدار میں گردش کرتی رہی۔ اس مشن میں خلائی گاڑی کے دونوں حصوں کو چاند پر اتارنے کے بجائے صرف لیونر ماڈیول کو اتارا گیا جبکہ دوسرا حصہ مدار میں گردش کرتا رہا اور واپسی پر لیونر ماڈیول اس سے جڑ گیا۔

یہ خلائی گاڑی پانچ دن کے سفر کے بعد 5 فروری کو چاند پر جس مقام پر اتری وہ فرا مورو کریٹر(دلدلی سطح) سے شمال میں 21 کلومیٹر کے فاصلے پر تھی۔ جو چاند کا پہاڑوں سے گھرا چٹانی علاقہ کہلاتا ہے۔اس مشن کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے ناسا کے ماہرین بہت زیادہ محتاط تھے جس کی وجہ اپولو 13 کو پیش آنے والا حادثہ تھا جس میں لانچنگ کے دو دن بعد تکنیکی خرابی کے باعث آگ بھڑک اٹھی تھی اور خلاباز بہت سی دشواریوں سے گزر نے کے بعد مشن ادھورا چھوڑ کر زمین پر واپس آگئے تھے۔

9 ماہ کی مکمل تحقیقات کے بعد یہ مشن کامیابی سے چاند پر اترا اور خلابازوں نے چاند کے نمونے حاصل کیئے۔ یہ مشن خلابازوں کی جانب سے کیے جانے والے تجربات کی باعث اب تک یادگار ہے جس میں ایلن شیپرڈکا گالف کھیلنااور اس سیارچے کے ٹکڑوں کی تلاش شامل تھی جس کے اربوں سال قبل چاند سے ٹکرانے کے باعث یہاں ایک بہت بڑا اور گہرا گڑھا پڑ گیا تھا۔ خلابازوں کے پاس چونکہ با قاعدہ نقشے نہیں تھے سو وہ درست حساب لگانے میں ناکام رہے اور اس علاقے سے محض سو میل کے فاصلے سے لوٹ آئے۔

تقریباً 33 گھنٹے، 31 منٹ قیام کے بعد چاند سے روانگی ہوئی اور بحرالکاہل پر امریکی نیوی نے خلابازوں کو باحفاظت نکالا۔

اپولو 15:جولائی 1971

فوٹو بشکریہ ناسا
فوٹو بشکریہ ناسا

چھ ماہ کے وقفے کے بعد 10 جولائی 1971 کو اپولو 15 مشن کو چاند کی جانب بھیجا گیا جس کے عملے میں کمانڈر جیمز ارون، فلائٹ پائلٹ الفریڈ وورڈن ، اور کمانڈ ماڈیول پائلٹ ڈیوڈسکاٹ شامل تھے۔ اس مشن کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں خلائی گاڑی کے ساتھ ایک مون روور یا ' چاند بگی " کو بھی شامل کیا گیا تھا جس کی مدد سے خلابازوں نے تقریباً 66 گھنٹے 55 منٹ کا قیام کرتے ہوئے چاند پر بہت دور دراز علاقوں تک سفر کیا ۔

یہ مشن بہت زیادہ کامیاب رہا اور ناسا کے ماہرین کو اس سے بہت سی اہم معلومات حاصل ہوئیں ۔چاند کے جس مقام پر اس خلائی گاڑی کو اتارا گیا تھا وہ اور اس کے آس پاس کا علاقہ چاند کا خوبصورت اور جغرافیائی حوالے سے انتہائی اہم علاقہ کہلاتا ہے۔ جس میں بلند پہاڑ، دلدلی علاقہ اور ایک آبی چشمہ شامل ہیں جسے "ہیڈلے"کہا جاتا ہے۔ اس مشن میں جو نمونے خلابازوں نے جمع کیے ان کے مشاہدے سے معلوم ہوا کہ وہ تقریباً 4 کروڑ 5 لاکھ سال پرانی جینیاتی چٹانوں کے تھے۔

مشن کے آخری مراحل میں خلا بازوں کو مشکل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ زمین پر اترتے وقت تین میں سے ایک پیرا شوٹ تکنیکی خرابی کے باعث کھل نہیں سکا اس کے باوجود وہ بحرالکاہل میں باحفاظت اترنے میں کامیاب رہے۔

اپولو 16:16 اپریل 1972

فوٹو بشکریہ ناسا
فوٹو بشکریہ ناسا

اپولو 16 مشن کو ناسا کے ماہرین نے کچھ اس طرح سے ڈیزائن کیا تھا کہ انھیں چاند کی جغرافیائی تشکیل اور زمانۂ قدیم سے متعلق اہم معلومات حاصل ہوسکیں ۔ اس مقصد کے لیئے اورین نامی خلائی گاڑی کو چاند کی سطح پر جس مقام پر اترنا تھا وہ چاند کا اہم پہاڑی علاقہ ہے جہاں کبھی آتش فشاں رہے ہوں گے۔

مگر مشن ابتدا میں ہی مشکلات سے دوچار ہوا جب کمانڈ ماڈیول سے علیحدہ ہونے بعد لیونر ماڈیول میں کچھ تکنیکی خرابی محسوس کی گئی۔ اس ماڈیول میں موجود کمانڈر جان ینگ اور فلائٹ پائلٹ چارلس ڈیوک کئی گھنٹوں تک مدار میں گردش کرتی خلائی گاڑی میں کنٹرول سینٹر کے اگلے حکم کا انتظار کرتے رہے۔ بلاآخر کمانڈماڈیول پائلٹ تھامس میٹنگ لے نے ہاسٹن کا اجازت نامہ انھیں پہنچایا اور خلائی گاڑی کو چاند پر اتارا گیا۔

تقریباً 71 گھنٹے 21 منٹ تک چاند بگی کے ذریعے خلابازوں نے 27 کلومیٹر علاقے کا سفر کرتے ہوئے چٹانوں کے نمونے جمع کیے۔ اگرچہ وہ آتش فشانی چٹانوں کے نمونے حاصل کرنے میں ناکام رہے مگر اس مشن سے اور بہت سا اہم ڈیٹا حاصل ہوا۔ یہ مشن اس کے عملے کی ذہانت، دور اندیشی اور معاملہ فہمی کے حوالے سے بھی بہت اہمیت ر کھتا ہے جنھوں نے اپنے طے شدہ پلان سے ہٹ کر چاند کے ماحول اور زمینی ساخت سے متعلق اہم معلومات جمع کیں ۔27 اپریل 1972 کو یہ خلاباز امریکی کرسمس ساحلوں کے قریب باحفاظت زمین پر اترنے میں کامیاب ہوئے۔

اپولو17: دسمبر 1972

فوٹو بشکریہ ناسا
فوٹو بشکریہ ناسا

اپولو 17 چاند کی جانب بھیجا جانے والا آخری اور اپولو پروگرام سیریز کا بھی آخری مشن تھا۔ اس کے بعد سے چاند کی جانب کسی ملک نے ایسا مشن نہیں بھیجا جس میں خلاباز شامل ہوں ۔

7دسمبر 1972 کو بھیجے جانے والے اس آخری مشن کو کئی اور حوالوں سے بھی تاریخی حیثیت حاصل ہے جس میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اس کے عملے میں پہلی دفعہ خلابازوں کے علاوہ کسی سائنسدان کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ مایہ ناز ماہر ارضیات ہیریسن جیک ان چھ سائنسدانوں میں سے ایک تھے جنہیں 1965 میں چاند پر تحقیق کے لیے منتخب کیا گیا تھا اور سات برس کی تربیت کے بعد 1972 میں چاند پر بھیجا گیا۔ عملے کے دیگر ارکان میں کمانڈر اوجین سرنن اور کمانڈ پائلٹ رونالڈ ایوانز شامل تھے۔

تقریباً 75 گھنٹے کے قیام کے دوران خلابازوں نے 30 کلومیٹر علاقے کا سفر کرتے ہوئے نمونے اور چاند کی سطح کے متعلق اہم معلومات حاصل کیں ۔ جبکہ ہیریسن جیک نے چاند کی سطح پر کچھ اہم تجربات بھی کیئے جس کے لیئے خاص طور پر ٹورس ویلی کا ا نتخاب کیا گیا تھا۔ بارہ دن بعد 19 دسمبر کو خلاباز زمین پر اترنے میں کامیاب رہے۔

اگرچہ یہ آخری مشن توقعات سے زیادہ کامیاب ثابت ہوا تھا مگر بعد میں حکومتی توجہ ویت نام کی جنگ کی جانب مبذول ہوجانے کے باعث اپولو پروگرام کا بجٹ کم کر دیا گیا لہذاٰ ناسا نے بھی اپنا رخ دیگر منصوبوں کی جانب موڑ لیا جن میں مریخ مشن قابل ذکر ہے۔

آرٹیمس :2017

اس مشن کا تصوراتی خاکہ — فوٹو بشکریہ ناسا
اس مشن کا تصوراتی خاکہ — فوٹو بشکریہ ناسا

ایک طویل وقفے تک نظر انداز کیے جانے کے بعد چاند ایک دفعہ پھر اس وقت عالمی خبروں کا مرکز بن گیا جب 2017 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ 2024 تک چاند کی جانب مزید انسان بردار مشن بھیجے جائیں گے جن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوگی اس بار خواتین خلا باز بھی مشن میں شامل ہونگی۔

آرٹیمس مصری زبان کا لفظ ہے اور اسے اپولو دیوتا کی جڑواں بہن کہا جاتا ہے جو " وحشت یا جنون کی دیوی" کہلاتی ہے۔ ناسا کی جانب سے چاند کے لیے ایک نئے مشن کا یہ نام منتخب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تکنیکی حوالے سے یہ اپولو مشن کا تسلسل ہی ہونگے مگر ان کا مقصد دور رس نتائج حاصل کر کے چاند پر انسانی کالونی کے قیام کی راہ ہموار کرنا ہے۔ دنیا بھر سے خلائی سفر اور چاند سے جنونی رغبت رکھنے والے لوگ اس مشن کی مزید تفصیلات جاننے کے لیئے بے چین ہیں جو شاید اگلے ایک برس تک جاری کردی جائیں گی۔


صادقہ خان نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے اپلائیڈ فزکس میں ماسٹرز کیا ہے، وہ پاکستان کی کئی سائنس سوسائٹیز کی فعال رکن ہیں۔ ڈان نیوز پر سائنس اور اسپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں