مادام اور بادام

شائع July 22, 2013

madam or badam
ہمارے لیے ہماری مادام بھی بادام ہی ثابت ہوئی ہیں۔ ہم جتنے رومانی ہیں ہماری مادام اتنی ہی اُلٹ۔ —. اللسٹریشن: جمیل خان

مادام اور بادام دونوں کی ہم بے پناہ عزت کرتے ہیں۔ ایک سے عقل بڑھتی ہے دوسرے سے گھٹتی ہے۔ ہم جب بھی کسی مادام کے عشق میں گرفتار ہوئے، ہم سے پہلے ہماری گلی میں ہماری رسوائی گئی۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں عشق کے سوا کسی نے رُسوا نہیں کیا۔ ہمارے ابّا بول بول کر تھک گئے کہ مادام سے دور اور بادام سے نزدیک رہو مگر ہم سے ہمیشہ اس کے اُلٹ ہوا۔

بادام کھانا ہمارے لیے ایسے ہی ہے جیسے کسی شریف آدمی کا بھتّہ کھانا۔ بادام دیکھتے ہی کسی حاملہ عورت کے منہ کی طرح ہمارے منہ میں بھی پانی بھرآتا ہے۔ متلی سی محسوس ہوتی ہے اور پیٹ گڑ گڑ کرنے لگتا ہے۔ خیال رہے اس گُڑ کا تعلق آواز سے ہے شکر کے قبیلے سے نہیں۔ بادام ہمیں رئیسانہ فیملی کی پیداوار لگتا ہے جبکہ ہم ٹھہرے خاندانی غریب۔ ابّا اکثر کہتے رہتے ہیں کہ ہم نے بڑی دنیا دیکھی ہے مگر ہمیں لگتا ہے اُنہوں نے صرف غربت دیکھی ہے یا بادام دیکھا ہے۔ بادام سے ابّا کو اتنی ہی اُلفت ہے جتنی کہ ہمیں مادام سے۔

ہمیں کموڈ پر بیٹھ کر بھی کرینہ کپور یاد آتی ہے اور ابّا کموڈ میں بھی بادام کے چھلکوں کو تیراکی کرواتے ہیں۔ جب تک ہر سوئیٹ ڈش پر بادام کا چھڑکاؤ نہ ہو وہ اسے کھانا پسند نہیں کرتے۔ بادام سے ان کی محبت کا یہ عالم ہے کہ اگر کوئی بادام کو بدام کہہ کر پکارے اس سے قطع تعلق کرلیتے ہیں۔ بادام کو ڈرائی فروٹ کا امام کہتے ہیں اور ہمیشہ اسے پاکر اچھے مقتدی کی طرح سجدہ شکر بجا لاتے ہیں۔ بادام اور اولاد سے ابّا کی یہ محبت کبھی ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ ان کے پاس ہمیشہ کوئی نہ کوئی اولاد یا بادام کی پلیٹ ضرور پائی گئی۔ بادام کی سخت مزاجی مجھے ہمیشہ کھلتی ہے۔ اسے چبانا اور چبا کر نگلنا گویا اپنے آپ کو منٹوں تک ذہنی کوفت میں مبتلا رکھنا ہے۔ اوپر سے اس کا چھلکا گویا کسی سیاست دان کی منافقت کا نقاب ، اُترتا اُترتا نہیں۔ اس سے اچھی آج کی مادام ہیں کسی بھی چیز پر نقاب نہیں رکھتیں۔

ابّا نے ہمیں بادام کا عادی بنانے کی جتنی کوششیں کیں اگر وہ اتنی کوششیں ہماری سیرت سنوارنے کے لیے کردیتے تو آج ہماری صورت اور سیرت یکساں نہ ہوتی۔ ہمارے گیارہ بہن بھائیوں میں سے ابّا کی تبلیغ کے باعث سات بادام کے شیدائی ہوگئے اور باقی تین باغی ہوکر دیگر ڈرائی فروٹس کی نذر ہوگئے اور ہم نے مادام کی دامن میں پناہ لے لی۔

مادام سے ہم پاکستانیوں کے ذہن میں صرف مادام تساؤ یا مادام کیوری کا تصور اُبھرتا ہے حالانکہ ہر اُبھرتی چیز مادام نہیں ہوتی۔

دلِ شریف کے مطابق ہماری زندگی کی پہلی مادام ہماری اسکول فیلو تھیں۔ ان کے ساتھ ہم نے جماعت دہم پاس کی تھی۔ اگرچہ یہ ہم پر عشق کا پہلا حملہ تھا، مگر اس کا ہمیں اُس وقت پتہ چلا جب مادام اسکول اور گھر دونوں چھوڑ کر جاچکی تھیں۔ اس عشق کا خود مادام کو بھی پتہ نہ چل سکا چہ جائیکہ ہمارے ابّا کو۔

دوسرے عشق سے پانچویں عشق تک مادام اور ابّا دونوں کو برابر خبر رہی۔ چھٹے عشق کی نوبت ہی نہیں آئی کیونکہ ہماری ناکام عاشقی دیکھ کر ہمیں ایک کامیاب شادی کے جھانسے میں لپیٹ دیا گیا۔ اس کے بعد سے ہم ایک چوکس اور توانا مادام کے شکنجے میں ہیں اور اپنے آپ کو آج کے کراچی جیسا محسوس کرتے ہیں کہ جس سے ہمدردی سب کرتے ہیں مگر عملی حل کسی کے پاس نہیں۔

ہماری مادام آدھی ابّا ہیں یعنی دیکھتی شیرنی کی آنکھ سے ہیں اور کھلاتی سونے کا نوالہ ہیں۔ کھانا بنانے اور بھیجہ فرائی کرنے میں ان کا جواب نہیں۔ وہ عشق جو نہ ابھی ہوا، نہ کیا اس کی خبر بھی ہماری مادام کو ہوجاتی ہے اور وہ ہماری ایسی قبر کھودتی ہیں کہ بس دفنانے کی کسر رہ جاتی ہے۔ ہمارے لیے ہماری مادام بھی بادام ہی ثابت ہوئی ہیں۔ ہم جتنے رومانی ہیں ہماری مادام اتنی ہی اُلٹ۔ کہتی ہیں ہمارا حسن دیکھ کر آپ رومانی ہوجاتے مگر آپ کو دیکھ کر رومانس کا خیال دور بھاگ جاتا ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ کراچی میں بجلی جانے کا رواج نہ ہوتا تو شاید ہم بچوں سے بھی محروم رہتے۔

ہماری مادام میں یوں تو اللہ کا دیا سب کچھ ہے مگر غلط جگہوں پر۔ مثال کے طور پر آنکھیں چھوٹی ہیں مگر ہونٹ بڑے۔ ٹانگیں چھوٹی ہیں اور زبان بڑی۔ دانت، بال اور خود بھی سیدھی نہیں۔ جہاں گوشت ہونا چاہیئے وہاں نہیں اور جہاں نہیں ہونا چاہئے وہاں استعمال سے زیادہ۔

اگر پڑھی لکھی ہوتیں تو بیوی کے علاوہ استانی بھی ہوتیں۔ ہماری مادام کی خوش اخلاقی سے پورا محلہ فیضیاب ہوتا ہے۔ وہ ہر ایک کے اچھن اور لچھن سے پوری طرح واقف ہیں۔ بہادر اتنی کہ الطاف بھائی سے لے کر چیف جسٹس کو بھی سنا ڈالتی ہیں۔ جو ان کا لیکچر ایک بار سُن لے ایک ہفتے تک گناہ کی طرف راغب ہی نہیں ہوتا۔ مادام کی وجہ سے شادی کے بعد سے ہمیں کسی اور مادام پر بُری نظر ڈالنے کا حوصلہ ہی نہیں ہوا۔ وہ پہلی مادام ہیں جو بذریعہ نکاح نامہ ہماری زندگی میں داخل ہوئیں اور یہ راستہ ہمیشہ کے لیے ہم پر بند کردیا۔  اب بادام اور مادام ہمارے لیے یکساں ہوگئے ہیں۔ دونوں سے دل بھرگیا ہے۔


Mirza Yasin Baig  مرزا یاسین بیگ شادی شدہ ہونے کے باوجود مزاح اور صحافت کو اپنی محبوبہ سمجھتے ہیں اور گلے سے لگائے رکھتے ہیں ۔ کینیڈا اور پاکستان کی دوہری شہریت ان کی تحریروں سے جھلکتی ہے۔

مرزا یٰسین بیگ
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 20 دسمبر 2025
کارٹون : 18 دسمبر 2025