ریل کی سیٹی

ہندوستان کی سرزمین پہ سولہ اپریل 1853 کے دن پہلی بار ریل چلی تھی۔ جس طرح پل بنانے والے نے دریا کے اس پار کا سچ اس پار کے حوالے کیا ، اسی طرح ریل کے انجن نے فاصلوں کو نیا مفہوم عطا کیا۔ اباسین ایکسپریس ، کلکتہ میل اور خیبر میل صرف ریل گاڑیوں کے نام نہیں بلکہ ہجر، فراق اور وصل کے روشن استعارے تھے۔

اب جب باؤ ٹرین جل چکی ہے اور شالیمار ایکسپریس بھی مغلپورہ ورکشاپ کے مرقد میں ہے، میرے ذہن کے لوکوموٹیو شیڈ میں کچھ یادیں بار بار آگے پیچھے شنٹ کر رہی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے ریل میں بیٹھ کر تو کبھی دروازے میں کھڑے ہو کر خود سے کی ہیں۔ وائی فائی اور کلاؤڈ کے اس دور میں، میں امید کرتا ہوں میرے یہ مکالمے آپ کو پسند آئیں گے۔


تصویری خاکہ ۔ — ماہ جبیں منکانی / ڈان۔ کام

جموں کی پہاڑیوں سے ایک چھوٹا سا چشمہ نکلتا ہے۔ ہمالے کی برف پوش اور دھند میں ڈوبی صدیوں پرانی گپھاؤں پہ جب سورج تھوڑی دیر چمکتا ہے اور پھر چھپ جاتا ہے تو بیوگی کی سفیدی اوڑھے یہ چوٹیاں اس مختصر وصل اور طویل فراق پہ صحرا کی رڈالی جیسا روتی ہیں۔ پہاڑوں کے رخسار پہ بہتے جدائی کے یہ آنسو ہی اصل میں جموں کے وہ چشمے ہیں جو میدانوں میں میل کروانے والے دریا بن جاتے ہیں۔

سوریا تال اور چندر تال سے وجود میں آنے والا چندر بھاگ سرحد کے اس پار چناب کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ تریموں کے مقام پہ جہلم کا ٹھنڈے پانی اسے وہ آسودگی عطا کرتا ہے جو یہ اپنے کنارے آباد ہونے والوں میں مساوی تقسیم کرتا چلا جاتا ہے۔

سوریا تال -- فوٹو -- وکی میڈیا کامنز
سوریا تال -- فوٹو -- وکی میڈیا کامنز

تھوڑا آگے چل کر اس میں راوی ملتا ہے اور اس کے بعد ستلج۔ سوکھے بیاس سے گیلی مٹی اور چند دعائیں لے کر یہ پنجند، مٹھن کوٹ کے مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے اور پھر دریائے سندھ جیسے درویش کی معیت میں سمندر کی سمت اپنا آخری سفر طے کرتا ہے۔

تقریبا ایک ہزار کلومیٹر کی اس مسافت میں دریائے چناب، داستانوں کی وسیع جاگیر سیراب کرتا ہے۔ ان سانس لیتی کہانیوں میں سوہنی کا گھلتا ہوا گھڑا ہے اور رانجھے کے ڈھلتے ہوئے چپو ہیں۔

صحراؤں اور میدانوں سے بہت دور پہاڑوں میں ٹین اور کاٹھ کے بنے ڈھابوں میں لوگ بھاپ اڑاتی چائے کے ساتھ ویدوں جتنے پرانے اس دریا کی جھوٹی سچی کہانی سنا کر سیاحوں سے پیسے بٹورتے ہیں، شائد اب اسی کا نام ثقافت رہ گیا ہے۔

دریا کے ساتھ ساتھ پرندے آبادیوں کی نوید دیتے ہیں۔ جھنگ سے تھوڑا پرے بھی ایک ایسی ہی آبادی ہے جو چناب کے ماضی سے جڑی ہے۔ جس چاند سے چندر تال منسلک ہے، اسی کی اوٹ سے چنیوٹ کا نام جڑا ہے۔

گڈری کے لعل کی مانند، بہت دیر تک یہ شہر اور اس کے حوالے چھپے رہے۔ پھر چنیوٹ کے ایک نواحی قصبے "پتراکی" کے سعد اللہ خان، شاہجہاں کے دربار میں پہنچ گئے۔ ایک غریب طالب علم سے ایک صاحب حیثیت وزیر تک کا سفر سعد اللہ خان کی اس محنت کا پتہ دیتا ہے جس کی جھلک آج بھی شہر سے منسوب لوگوں میں نظر آتی ہے۔

اپنی فطرت میں فیاض مغلوں نے وزیر پہ تو فیض کی نگاہ ڈالی ہی ساتھ ساتھ چنیوٹ پہ بھی توجہ کی روشنی کی۔ کئی حوالے رامائن کے شہر "چنی وٹ" کو بھی آج کا چنیوٹ گردانتے ہیں اور کچھ اس کا تعلق البیرونی کی کتاب الہند سے جوڑتے ہیں، مگر شہر کا باقاعدہ تذکرہ تزک بابری میں ملتا ہے۔

دریا کے کنارے چند لوگ دل کی دنیا بھی آباد کرتے ہیں اور کئی کا خیال ہے کہ یہاں پاٹھ شالہ ہوا کرتا تھا۔ بات گیان کی ہو یا دھیان کی، اب شہر میں یونیورسٹی بھی ہے، مسجد بھی اور فراٰئڈ چکن بھی۔

چناب کالج، چنیوٹ -- فوٹو -- وکی میڈیا کامنز
چناب کالج، چنیوٹ -- فوٹو -- وکی میڈیا کامنز

آتی جاتی سڑکوں اور نئے نئے دفتروں سے آگے بڑھیں تو گلیوں میں کہیں ایک پرانا خط ہے۔ اس چٹھی کا نام، عمر حیات محل ہے۔ مکانوں کے بیچوں بیچ اس گھر کو محل کیوں کہتے ہیں، اس سوال کا جواب ڈھونڈھنے بہت سے آشفتہ سر یہاں آتے ہیں۔

اب جہاں شہر کا مرکز ہے، وہاں کسی قلعے کے آثار ملتے ہیں، جس کی بس اک دیوار بچی ہے۔ دیوار کے کچھ حصے گر گئے ہیں اور باقی بچی اینٹوں کو آس پاس کے مکانوں نے اپنی آغوش میں لے لیا ہے۔

قلعے کی مناسبت سے اس جگہ کو ریختی محلہ کہا جاتا ہے۔ یہ شہر کا اہم مقام ہے۔ محل کے داہنے ہاتھ مدرستہ البنات اور بائیں جانب مسلم بازار ہے۔ محل، مدرسہ اور بازار کا تسلسل شاید انسان جتنا ہی قدیم، سبق آموز اور دلآویز ہے۔

چنیوٹ کی نسبت سے مشہور شیخ، انسان کی قابلیت کا معجزہ ہے۔ یہ مایا داس تاجر اپنی محنت، کاروباری صلاحیت اور محتاط رویوں کے سبب پچھلے دو سو سالوں سے برصغیر کی تجارت میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔

چھوٹی عمر کی شادیاں، بزرگوں کا احترام اور انتہائی منظم طور پر ایک دوسرے سے پیوستہ خانگی زندگیاں، ان کی شناختی علامات ہیں۔ تقسیم سے پہلے یہ لوگ کلکتہ میں کاروبار کرتے تھے اور چنیوٹ میں گھر بناتے تھے۔ پاکستان بن گیا تو انہوں نے پاک سر زمین کے سمندر سے اپنا ناتا جوڑ لیا۔ یہی سبب ہے کہ ہر چنیوٹی کی زندگی میں دو شہر کسی نہ کسی حوالے سے ضرور ملتے ہیں، چنیوٹ اور کراچی۔

شیخ عمر حیات کا تعلق بھی انسانوں کے اسی باکمال گروہ سے تھا۔ آپ چنیوٹ میں مقیم تھے اور کاروبار کے سلسلے میں کلکتے آتے جاتے رہتے تھے۔ اپنے وقت کا یہ سخی، شام کو بازار میں بیٹھ کر ایک طرف سے پیسے بانٹنا شروع کرتا تو شام ڈھل جاتی مگر دام نہیں ڈھلتے۔

ایسے ہی ایک لمحے میں الٰہی بخش پرجھہ کا وہاں سے گزر ہوا۔ چند منزل کے تعزیے میں کئی جہان دکھانے والا یہ فنکار بھی اپنی طرز کا منعم تھا، جس کے ہاتھ میں آتے ہی لکڑی موم ہو جاتی تھی۔

پرجھہ کی شہرت بکنگھم پیلس تک پھیل چکی تھی اور ملکہ برطانیہ اپنے محل کی آرائش الٰہی بخش کے سوا کسی اور سے کروانے پہ رضامند نہیں تھی۔ اس فنکار کے بازار سے گزرنے کی دیر تھی کہ سب لوگ اس کے فن کی تعریف کرنا شروع ہو گئے۔

عمر حیات نے ایک راہگیر سے اس منظر کا پس منظر پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ ایک فنکار ہے اور تم سرمایہ دار۔ تمھارا روپیہ ختم ہو جائے گا مگر پرجھہ کے فن کا تذکرہ بڑھتا چلا جائے گا۔

عمر حیات محل -- فوٹو -- حسن معراج
عمر حیات محل -- فوٹو -- حسن معراج

عمر حیات نے کچھ دن سوچا اور پھر پرجھہ کو بلا کر کہا کہ وہ ایک محل تعمیر کرنا چاہتا ہے جو دولت اور خوبصورتی کا مرقع ہو۔ الٰہی بخش نے جواب دیا کہ تمھارا سرمایہ میرے فن کا بوجھ نہیں ا ٹھا سکتا۔ بھلے وقت تھے اور لوگ مان لینے کو عافیت جانتے تھے سو دونوں کی گفتگو کا حاصل، عمر حیا ت محل کی صورت، 1922 میں بننا شروع ہوا۔

(جاری ہے)


is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/102239475" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]


مصنف وفاقی ملازم ہیں۔

تبصرے (5) بند ہیں

Khan of Kalabagh Jul 23, 2013 02:51pm
wonderful,
The wonderland of wood - Pakistan News Jul 23, 2013 07:00pm
[…] Read this blog in Urdu here. […]
Ashraf Nahyoon Jul 24, 2013 11:13am
بہت دلنشیں انداز اور پیرایہ میں گذشتہ ادوار کو یاد کیا گیا ھے کہ اس وقت میں خود کو اس کھنہ چینیوٹ میں موجود پارہا ھوں.
Koi-Kon Jul 24, 2013 03:49pm
Reblogged this on KOI KON and commented: chiniot
2 – کاٹھ کی الف لیلیٰ Jul 29, 2013 12:48pm
[…] یہ اس بلاگ کا دوسرا حصّہ ہے، پہلے حصّے کے لیئے کلک کریں […]