Dawnnews Television Logo

’اپنے گھر کی کوئی ایک دیوار سلامت نہیں دیکھی‘

اس وقت بھی میں میرپور کے ہسپتال میں موجود ہوں، رات کا پہر ہے لیکن ہر تھوڑی دیربعد ایمبولینسیں زخمیوں کو ہسپتال لارہی ہیں
شائع 25 ستمبر 2019 04:48pm

جب اکتوبر 2005ء کے زلزلے نے تباہی مچائی تو ہر ایک طرف یہی دعا تھی کہ اب کبھی نہ ایسا خوفناک دن اس دھرتی پر آئے، مگر افسوس کہ ارضیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں یہ زلزلے معمول بنتے جارہے ہیں۔ کبھی ان کی شدت معمولی ہوتی ہے اور کبھی زیادہ۔

بدقسمتی سے ایسا ہی ایک زلزلہ گزشتہ روز آزاد کشمیر، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں محسوس کیا گیا۔ لیکن چونکہ اس کا مرکز آزاد کشمیر تھا اور گہرائی بھی محض 10 کلومیٹر تھی اس لیے اس نے میرپور آزاد کشمیر اور قریب کے دیگر علاقوں میں زیادہ تباہی پھیلائی۔

وہاں جب یہ زلزلہ آیا تو لوگ کیا کررہے تھے، کس طرح انہوں نے اپنی جان بچانے کی کوشش کی اور وہاں زلزلے کے بعد کیا صورتحال رہی۔ یہ جاننے کے لیے ہم نے مقامی لوگوں سے رابطہ کیا۔


محمد بلال رفیق: مقامی صحافی


آج سہہ پہر زلزلے کے ہولناک جھٹکے محسوس کیے گئے۔ یہ میری زندگی میں آنے والا پہلا زلزلہ نہیں تھا بلکہ جب اکتوبر 2005ء کا زلزلہ آیا تھا تو اس وقت میں میرپور کے کالج میں زیرِ تعلیم تھا، لیکن اس زلزلے کی نہ شدت حالیہ زلزلے جتنی تھی اور نہ ہی لوگوں میں اتنا خوف اور افراتفری کا عالم تھا۔

میں میرپور کے ایک مقامی ہوٹل پر اپنے دوستوں کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ہمیں عجیب و غریب گھن گرج جیسا شور اور تیز ہوائیں چلتی محسوس ہوئی۔ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ہم جیسے ہی ہوٹل سے باہر سڑک پر آئے تو ہم نے دیکھا کہ بڑی تعداد میں لوگ دعائیں مانگتے اور اپنی عمارتوں کو افسردہ اور حیران نظروں دیکھ رہے تھے۔

اس سے پہلے آزاد کشمیر میں 2005ء کا ہولناک زلزلہ بھی آچکا ہے لیکن چونکہ اس کا مرکز مظفرآباد تھا اس لیے زیادہ نقصان وہاں ہوا تھا اور ہم نے یہاں اپنی آنکھوں سے اس قدر تباہ کاریاں اور نقصانات کو نہیں دیکھا تھا۔

تاہم آج زلزلے کے بعد کی فوری صورتحال کچھ یوں تھی کہ چند لمحوں کے اندر ہی ایمبولینسیں آنا شروع ہوگئیں اور کہرام مچ گیا۔ مختلف اطلاعات موصول ہونا شروع ہوگئیں، انٹرنیٹ کام نہیں کر رہا تھا، عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا تھا، کہیں سے اطلاع ملی کہ ایک مقام پر دیوار گری ہے اور ملبے تلے کچھ بچے بھی آگئے ہیں۔

ہم نے دیکھا کہ لوگ اپنے گھروں کی طرف جانے کے بجائے سڑکوں کا رخ کر رہے تھے، بہت سارے لوگ سڑک پر یونہی یا پھر ٹینٹ لگائے بیٹھے تھے۔ معمول کی زندگی رُک سی گئی تھی۔

دکاندار دکانیں بند کرکے محفوظ مقامات کی طرف چلے گئے تھے۔

میں نے شہر کو پہنچنے والے نقصانات کا سرسری جائزہ لینے کے لیے شہر کا چکر لگانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے پایا کہ مختلف مقامات پر دیواریں مکمل طور پر گرچکی ہیں تو کئی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا تھا، یعنی ان میں گہری دراڑیں پڑگئی تھیں۔ گاڑیوں کے شورومز کی دیواریں گری ہوئی تھیں جس کے نتیجے میں نئی نئی گاڑیاں ملبے تلے دب چکی تھیں۔

اچانک سے ایک افراتفری کا ماحول پیدا ہوگیا تھا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ڈی ایچ کیو ہسپتال کی طرف رواں دواں تھی تاکہ صورتحال کا ٹھیک اندازہ ہوسکے۔ پھر یہ بھی اطلاع موصول ہوئی کہ اس زلزلے کی شدت 5.8 تھی، اور یہ بھی پتا چلا کہ میرپور سے چند کلومیٹر دُور ایک نواحی علاقے میں سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اس علاقے کو شہر سے ملانے والی واحد نہر سے متصل سڑک ٹوٹنے کی وجہ سے وہاں موجود کچھ گاڑیاں نہر میں گرگئی تھیں اور کچھ الٹی پڑی ہوئی تھیں۔ سڑک پر بہت گہرے شگاف پڑگئے تھے، یوں اس علاقے کا شہر سے رابطہ مکمل طور پر منقطع ہوگیا تھا۔

زلزلے کے بعد پاک فوج کی امدادی ٹیمیں بلا تاخیر امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے پہنچ گئیں۔ چونکہ آزاد کشمیر کی حکومت اس قسم کے سانحے کے لیے تیار ہی نہیں تھی اور خاطر خواہ انتظامات موجود نہیں تھے اس لیے پاک فوج نے برق رفتاری سے امدادی کام شروع کردیے۔ اس کے علاوہ پنجاب کے مختلف علاقوں سے بھی لوگ اپنے رشتہ داروں کی خیر و عافیت جاننے یہاں پہنچنا شروع ہوگئے۔

گزرتے وقت کے ساتھ زخمیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اطلاعات ملنا شروع ہوئیں کہ 400 سے زائد مرد، خواتین، بچے اور بوڑھے دیواریں اور چھتیں گرنے کے باعث زخمی ہوئے ہیں۔ اس وقت بھی میں میرپور کے ہسپتال میں موجود ہوں، رات کا پہر ہے لیکن ہر تھوڑی دیر بعد ایمبولینسیں زخمیوں کو ہسپتال لارہی ہیں۔

امدادی سرگرمیاں رات کے اس پہر بھی جاری ہیں اور آزاد کشمیر کے وزیرِاعظم بھی لاہور کا دورہ مختصر کرکے واپس آچکے ہیں اور دیگر اہم سیاسی اور حکومتی شخصیات بھی پہنچنے والی ہیں۔

یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ اس زلزلے سے کتنا جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔

زلزلے کے شدید جھٹکوں کے باعث شہر کی بلند و بالا عمارتوں کی بنیادیں ہل چکی ہیں اور لوگ اپنے گھروں میں جانے سے خائف ہیں کیونکہ گھر میں اتنی گہری دراڑیں پڑچکی ہے کہ رہائش کے بھی قابل نہیں رہیں۔

میں نے دیکھا کہ 2 چینی افراد نے اپنے ہوٹل کے کمرے میں پڑنے والی دراڑیں دیکھنے کے بعد وہاں زیادہ دیر رکنا مناسب نہیں سمجھا اور وہاں سے چلے گئے۔

اس کے علاوہ اطلاع آئی ہے کہ اگلے 24 گھنٹوں کے دوران آفٹر شاکس کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگوں پر خوف و خطرے کی کیفیت طاری ہے اور بہت سے لوگوں نے چھتوں پر سونے کے بجائے صحن میں سونے کا فیصلہ کیا ہے۔ خون کے عطیات دینے کا سلسلہ بھی دیکھا گیا۔

جاتلاں نامی نواحی علاقے کا شہر سے رابطہ منقطع ہوچکا ہے، وہاں موجود لنک پُل کو شدید نقصان پہنچا ہے جبکہ سڑکوں میں بڑے بڑے شگاف پڑچکے ہیں۔ دیگر علاقوں میں متاثرین کی امداد کے لیے سڑک کی بحالی یقیناً حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

رات کا وقت ہونے کے باعث امدادی سرگرمیاں اس رفتار سے جاری نہیں ہیں جس رفتار سے ہونی چاہئیں۔


عتیق سدوزئی: ڈپٹی ایڈیٹر، کشمیر ٹائمز


میں میرپور شہر کے ایک مقامی ہوٹل پر دوستوں کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک پوری عمارت ہلنا شروع ہوگئی اور ہم اپنا سامان چھوڑ کر وہاں سے باہر نکل گئے۔ ہوٹل سے باہر آکر دیکھا کہ آس پاس موجود بلند و بالا عمارتوں کے شیشے ہر طرف بکھرے پڑے تھے جبکہ جس ہوٹل میں ہم بیٹھے تھے اس کی بیرونی دیوار مکمل طور پر گرچکی تھی اور دوسری طرف بڑی بڑی دراڑیں نظر آئیں۔

لوگوں میں کافی خوف پھیلا ہوا تھا، پریشانی کے آثار ہر ایک کے چہرے پر عیاں تھے۔ پھر کچھ ہی دیر بعد یہ اطلاع موصول ہوئی کہ ہوٹل کے برابر میں موجود پلازہ کی چھت گری ہے جس کے ملبے تلے چند افراد دبے ہوئے ہیں۔ ہم مدد کے لیے اس جگہ بھاگتے دوڑتے پہنچے تو وہاں ہم نے ایک بزرگ شخص کو ملبے میں پھنسا ہوا پایا۔

ان کے علاوہ کئی زخمی بھی وہاں موجود تھے، کسی کے سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے خون بہہ رہا تھا تو کسی کے بازو یا ہاتھ پر شدید زخم دکھائی دے رہے تھے، لہٰذا ہم نے وہاں کھڑے دیگر افراد کے ساتھ مل کر انہیں فوراً ہسپتال پہنچایا۔

کئی لوگ اپنے اپنے گھروں میں اپنی خیریت بتانے اور ان کی خیریت معلوم کرنے کے لیے موبائل فون پر رابطے میں مصروف نظر آئے مگر کچھ ہی دیر میں موبائل نیٹ ورک ڈاؤن ہوگیا تھا، شاید اس کی وجہ نیٹ ورک پر پڑنے والا دباؤ تھا، کیونکہ تقریباً ہر شہری ہی موبائل کے ذریعے اپنے گھر والوں یا عزیز و اقارب سے رابطہ کرنے میں مصروف تھا۔

اب چونکہ موبائل پر رابطہ نہیں ہو پارہا تھا اس لیے پریشانی مزید بڑھ رہی تھی اور لوگوں نے گاڑی، موٹر سائیکل اور پیدل اپنے گھروں کی طرف بڑھنا شروع کردیا اور اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے سڑک پر آنے سے ٹریفک جام کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ بہت ہی عجیب و غریب صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ اس کے علاوہ آس پاس کی عمارتوں کے لوگ بھی سڑک کے قریب کھڑے ہوئے تھے۔

میں بھی کافی پریشان تھا کیونکہ میرا گھر سے رابطہ نہیں ہو پارہا تھا، لیکن خوش قسمتی سے اچانک نہ صرف رابطہ قائم ہوگیا بلکہ وہاں سے خیریت کی خبر بھی موصول ہوگئی۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد اطلاع ملی کہ میرے بھائی کے شوروم کی دیوار گرگئی ہے۔ میں نے فوراً اپنی گاڑی کا رُخ شوروم کی طرف کیا اور وہاں دیکھا کہ شوروم کی ایک دیوار گاڑیوں پر گر چکی تھی اور میرے بھائی کے پاؤں پر چوٹ آئی ہوئی تھی جس سے خون بہہ رہا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ان کی جان محفوظ رہی۔ بعدازاں میں نے اپنے ایک صحافی دوست کے ہمراہ اس ڈویژن کے سب سے بڑے ہسپتال ڈی ایچ کیو کی راہ لی اور راستے میں ہم نے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو سڑکوں پر بیٹھے ہوئے پایا۔

جب ہم ہسپتال پہنچے تو پتا چلا کہ اس وقت تک 6 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ 100 سے زائد لوگ زخمی ہوئے ہیں۔

(اس وقت بھی آفٹر شاکس محسوس کیے جا رہے ہیں)۔ میں اس وقت نیو سٹی میرپور میں بیٹھا ہوا ہوں اور کہا جا رہا ہے کہ یہی علاقہ اس زلزے کا مرکز ہے۔ (اس وقت ایک بار پھر آفٹر شاکس محسوس کیا گیا ہے اور لوگ اپنے گھروں سے نکل آئے ہیں۔ جس علاقے میں میری رہائش ہے وہاں کے اکثر مکینوں نے اپنے بستر سڑک پر بچھا دیے ہیں اور وہیں بیٹھ گئے ہیں)۔

علاقے میں کافی خوف کا عالم ہے کیونکہ ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی نے بتایا ہے کہ اگلے 24 گھنٹوں کے دوران آفٹر شاکس آتے رہیں گے۔

کچھ دیر پہلے ڈپٹی کمشنر میرپور کی جانب سے واٹس ایپ پر پیغام موصول ہوا ہے جس کے مطابق 492 لوگ زخمی جبکہ 21 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ 160 افراد شدید زخمی اور 292 افراد معمولی زخمی ہوئے ہیں۔

چونکہ زلزلے کا مرکز میرپور اور جہلم کا درمیانی علاقہ بتایا جاتا ہے اس لیے یہاں کی 70 سے 80 فیصد عمارتوں کو جزوی اور شدید نقصان پہنچا ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عمارتیں رہائش کے لیے محفوظ نہیں رہیں، اسی لیے لوگ عمارت میں جانے سے خائف نظر آتے ہیں۔

گھروں اور دیگر عمارتوں میں اس قدر خطرناک دراڑیں پڑگئی ہیں کہ اگر خدانخواستہ اسی شدت کا دوبارہ زلزلہ آتا ہے تو بہت بڑا انسانی المیہ رونما ہوسکتا ہے۔

جب زلزلہ آیا تب گرڈ اسٹیشن میں خرابی پیدا ہوگئی تھی اور پورا شہر اندھیرے میں ٖڈوب گیا تھا، تاہم آزاد کشمیر کے محکمہ بلدیات نے فوری اقدامات کرتے ہوئے چند گھنٹوں میں بجلی بحال کردی ہے۔

2005ء اور حالیہ زلزلے میں فرق

جب 2005ء کا زلزلہ آیا تھا تب کافی دیر تک زمین دھیرے دھیرے ہل رہی تھی، تاہم حالیہ زلزلے کے جھٹکے کافی شدت کے ساتھ محسوس کیے گئے۔


شرجیل نعیم: (ریزیڈنٹ ایڈیٹر، میڈیا ایکسپریس)


شاید 4 بجے ہوں گے، میں میرپور آزاد کشمیر میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس ہوئے۔ میرے خیال میں اس زلزلے کی شدت 2005ء کے زلزلے کی شدت سے کہیں زیادہ تھی۔

میں فوراً دفتر سے باہر نکل آیا، باہر دیکھا تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر موجود تھی۔ چونکہ میرپور بلندی پر واقع شہر ہے اس لیے مکانات کو کافی زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ مکانات کی دیواریں اور چھتیں گرنے کی وجہ سے متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔

میری رہائش میرپور سے چند کلومیٹر دُور واقع سائٹ ایریا میں ہے۔ زلزلے کے بعد مجھے اپنے گھر والوں کی خیر و عافیت کی فکر لاحق ہوگئی کیونکہ فون سروسز مکمل طور پر بند ہوچکی تھیں۔ چنانچہ میں نے اپنے گھر کی راہ لی۔ راستے میں 10 کلومیٹر تک تو سڑک ٹھیک تھی لیکن اس کے بعد کھڑی شریف نامی قصبے سے لے کر جاتلاں تک سڑک مکمل طور پر جہلم کے قریب واقع نہر میں بیٹھ چکی تھی۔ سڑک پر موجود متعدد گاڑیاں اور موٹر سائیکل نہر میں ڈوب گئیں اور شگاف پڑنے سے کافی نقصان پہنچا، اب تک کی اطلاعات کے مطابق صرف اسی سڑک پر 10 سے 11 لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں۔

تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ زلزلے میں مجموعی طور پر کم از کم 40 سے 45 افراد جاں بحق جبکہ 700 سے زائد افراد زخمی ہیں۔

گھر جاتے وقت سڑک پر کئی عمارتوں کو منہدم پایا۔ کئی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا تھا جبکہ کچھ میں بڑی بڑی دراڑیں پڑگئی تھیں۔ میں نے کافی افراتفری کا عالم دیکھا، ایمبولینسیں متاثرین کو ہسپتال لے جانے میں مصروف تھیں، کچھ لوگو اب بھی حیران و پریشان تھے جبکہ کچھ اپنے ہونے والے نقصانات کو یاد کرکے رو رہے تھے۔

جب میں گھر پہنچا تو میں نے اپنے گھر کی کوئی ایک ایسی دیوار نہیں دیکھی جو متاثر نہ ہوئی ہو۔

کہا جا رہا ہے کہ نہر اپر جہلم کے اوپر والی سڑک ہی اس زلزلے کا مرکز تھی، جو زلزلے کے بعد مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہے۔

سڑک پر پڑنے والے بڑے بڑے شگاف کی وجہ سے نہر کا پانی نچلے علاقوں کی طرف بڑھنے لگا اور کئی دیہات زیرِ آب آگئے۔ اس صورتحال کے پیش نظر ہنگامی بنیادوں پر نہر کو بند کروایا گیا۔

اس وقت نہر تو خشک ہوچکی ہے لیکن ابھی بھی متعدد گاڑیاں وہیں موجود ہیں۔ نہر سے متصل اس سڑک پر بنے ہوئے 3 سے 4 اہم پُل بھی ٹوٹ چکے ہیں اور وہاں سے گاڑیوں کے نیچے گرنے کی اطلاعات بھی ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ سڑک پر سفر کرنے والے 10 سے 11 افراد لاپتہ بھی ہیں۔

میرپور اور اس کے قرب و جوار کے علاقوں میں خوف کا یہ عالم ہے کہ کم و بیش ہر شخص نے رات گھر سے باہر گزاری ہے، اور وہ خود کو اس قدر غیر محفوظ تصور کررہے ہیں کہ گھروں میں جانے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔