2019 کی 12 بڑی سائنسی کامیابیاں

2019 کی 12 بڑی سائنسی کامیابیاں

—فوٹو: سائنس میگ
—فوٹو: سائنس میگ

سید منیب علی

گزشتہ سالوں کی طرح سال 2019 بھی سب کے لیے ایک جیسا نہیں تھا، کوئی ان 365 دنوں میں کامیابیاں سمیٹتا رہا تو کوئی اپنی قسمت کو روتا رہا، کسی نے اپنی سستی چھپانے کے لیے دوسروں پر الزام تراشی کی تو کسی نے معاشرے کی تمام رکاوٹوں کے باوجود اپنی منزل حاصل کرلی۔

اگر پاکستان کی بات کی جائے تو سال 2019 میں بھی پاکستان سائنسی تحقیق کے میدان میں اس سال بھی دنیا کے دوسرے ممالک سے پیچھے رہا، اکیسویں صدی میں اگر سائنس و ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھا جائے تو یہ پاکستانی تعلیمی اداروں کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے لیکن اگر محض گزشتہ ایک سال کے دوران دنیا بھر میں ہونے والی سائنسی تحقیق پر نظر دوڑائی جائے تو کئی اچھی باتیں سامنے آئیں گی۔

عام طور پر سائنسی تحقیقات یا پیش رفت پر لوگوں کی نظر نہیں جاتی، تاہم اگر انہیں آسانی سے بتایا جائے کہ پچھلے ایک سال کے دوران دنیا میں کتنی نئی سائنسی کامیابیاں یا پیش رفت ہوئیں تو سب حیران رہ جاتے ہیں۔

سال کے اختتام پر ہم بھی اس مضمون میں دنیا بھر میں ہونے والی چند نمایاں سائنسی کامیابیوں یا پش رفت کا ذکر کر رہے ہیں جو یقینا مستقبل میں سائنس کے لیے اہم ثابت ہوں گی۔

زمین سے 4 ارب 60 کروڑ کلو میٹر دور گھومتی چٹان

—فوٹو: ناسا
—فوٹو: ناسا

امریکی خلائی ادارے ’ناسا‘ کی جانب سے 6 جنوری 2006 کو نیو ہورائیزن نامی خلائی گاڑی نظام شمسی کے نویں 'سیارے' پلوٹو کی طرف بھیجی گئی تھی،( یاد رہے کہ پلوٹو وہی سیارہ ہے جسے نیو ہورائیزن کے لانچ ہونے کے 6 مہینے بعد ہونے والی بین القوامی فلکیاتی یونین کی میٹنگ میں 'سیارے' سے 'بونے سیارے' کی فہرست میں شامل کردیا گیا تھا) جو 13 جولائی 2015 کو اپنی منزل 'پلوٹو' کے بالکل قریب سے گزری اور انسانیت نے پہلی بار زمین سے 5 ارب سال دور اس بونے سیارے پر موجود برفانی ٹیلوں کو دیکھا۔

اس کے ساتھ نیو ہورائیزن کا بنیادی ہدف تو پورا ہوگیا لیکن یہ خلائی گاڑی تیزی کے ساتھ خلا کی گہرائیوں میں بڑھتی گئی اور 3 جنوری 2019 کو یہ خلائی گاڑی ہمارے نظام شمسی کے گرد موجود پتھروں کے علاقے میں پہنچی جسے فلکیاتی اصطلاح میں "کائپر بیلٹ" کہا جاتا ہے، یہاں یہ خلائی گاڑی ایسے پتھریلے جوڑے کے پاس سے گزری جو کسی کو برف کا مجسمہ لگا تو کسی کو یوں لگا جیسے لاکھوں سال سے دو پتھر جن کا نام 'التما' اور 'تھلے' رکھا گیا، آپس میں ٹکراتے ہوئے ایک دوسرے سے جڑ گئے ہیں۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ پتھر ہماری نظام شمسی کی پیدائش کے وقت بنے اور بہت کم رفتار سے ایک دوسرے میں دھستے چلے گئے، اس وجہ سے ان کا نام "الٹیم تھلے" پڑا لیکن ان کا اصل نام "2014 MU 69" ہے، سائنسدانوں کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ یہ پتھر نظام شمسی کے پہلے دنوں کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔

سیارے زحل کے کے ایک دن کے دورانیے کا علم

—فوٹو: ناسا
—فوٹو: ناسا

ہم جانتے ہیں کہ سیارہ زحل نظام شمسی کا ایک گیسی سیارہ ہے اور اس کی اسی خاصیت کی وجہ سے سائنسدانوں کو ابھی تک زحل کے ایک دن یعنی ایک چکر کا دورانیہ معلوم کرنے میں دشواری پیش آرہی تھی، اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ گیسی تو سیارہ مشتری بھی ہے پھر اس کے ساتھ اتنی دشواری کیوں نہ ہوئی؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ مشتری کی سطح پر بہت بڑا طوفان برپا ہے جو زمین سے لال نشان کی صورت میں نذر آتا ہے اس لیے سائنسدان اس کے ایک چکر پورا ہونے پر مشتری کے ایک دن کا دورانیہ بتا سکتے ہیں لیکن زحل پر کوئی واضع نقوش نہیں جن سے یہ اندازہ لگایا جائے کہ اس کے ایک دن کا دورانیہ کتنا ہے مگر اب سائنسدانوں نے سیارے کے گھومنے کی وجہ سے اس کے گرد ہلکوں میں پیدا ہونے والی لہروں کی مدد سے معلوم کر لیا ہے کہ سیارہ زحل کا ایک دن 10 گھنٹے 33 منٹ اور 38 سیکنڈز کا ہے۔

قدیم مادہ پرندہ اپنے انڈے کے ساتھ دریافت

فوٹو بشکریہ جرنل نیچر
فوٹو بشکریہ جرنل نیچر

آج تک سائنسدانوں کو مختلف جانداروں کے فوسل ملتے رہے جن سے اس نسل کی ارتقائی حثیت کو سمجھنے میں آسانی ہوئی لیکن مارچ 2019 میں سائنسدانوں کو شمال مغربی چین میں 11 کروڑ 50 لاکھ سال پرانے ایک مادہ پرندے (جس کا سائنسی نام 'اویمایہ سچوتذایہ' ہے) کا فوسل ملا جو نہ صرف خود کہربا کے پتھر میں موجود تھا بلکہ اس کے ساتھ اس کا انڈا بھی موجود تھا جو اس پرندے کو دینا تھا کہ اس کی موت واقع ہوگئی۔

یہ بھی پڑھیں: بلیک ہول کی پہلی تصویر کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟

سائنسدانوں نے ایسی چیز پہلے کبھی نہ دیکھی تھی اور اس دریافت سے یہ بھی سمجھنے میں مدد ملے گی کہ 11 کروڑ سال پہلے پرندوں میں انڈے کس طرح بنتے تھے، سائنسدانوں کو اس دریافت کے بعد حیرانی اس بات پر ہوئی کہ ہمیں ہمیشہ سے فوسل میں ہڈیوں جیسی کوئی سخت چیز ہی دیکھنے کو ملی لیکن اس بار ہمیں ایک انڈا ملا جو کہ مزیدار بات ہے۔

سائنسدان بلیک ہول کی تصویر لینے میں کامیاب

— فوٹو بشکریہ  EHT Collaboration
— فوٹو بشکریہ EHT Collaboration

اپریل 2019 کے آغاز میں انٹرنیٹ پر تہلکہ مچا دینے والی خبر آئی کہ جلد ہی بلیک ہول کی پہلی تصویر منظر عام پر لائی جائے گی، یہ انسانیت تاریخ میں پہلی دفعہ تھا کہ دنیا کی 8 ریڈیو دوربینوں نے مل کر بلیک ہول کے گرد روشنی خارج کرنے والے مادے کی تصویر لی اور اس مادے کے بیچ سیاہ دائرہ دکھائی دیا جسے سائنسی اصطلاح میں بلیک ہول کہا جاتا ہے۔

یہ تصویر اس لیے انتہائی اہمیت کی حامل تھی کیونکہ دنیا نے ہمیشہ سے سائنس فکشن فلموں میں بلیک ہول کی سمولیشنز دیکھی تھیں لیکن آج یہ حقیقت ہے، اس کے علاوہ انسانیت کو بلیک ہول کی تصویر سے اس بات کا بھی علم ہوگیا کہ ہم فزکس اور ریاضی کے حسابات میں ٹھیک بڑھ رہے ہیں کیونکہ جیسا ہمارے حسابات نے بلیک ہول کی پیشگوئی کی تھی بلیک ہول حقیقتا ویسا ہی ہے۔

خشکی پر سب سے پہلے کون آیا کی گتھی سلجھ گئی

—فوٹو: آئی اسٹاک
—فوٹو: آئی اسٹاک

سائنسدانوں کو شروع سے یہ بات تو معلوم تھی کہ زندگی کا آغاز پانی میں ہوا لیکن ساتھ ہی یہ بھی سمجھا جاتا تھا کہ سب سے پہلے نمی سے خشکی پر پودے آئے اور پھر باقی جاندار آنا شروع ہوئے لیکن تازہ ترین تحقیق بتاتی ہے کہ خشکی پر پودوں سے بھی پہلے 'فنگس' آئی جسے عام زبان میں "پپوندی" بھی کہا جاتا ہے۔

یہ بہت ہلکی اور نرم ہوتی ہے اور اس کے بارے میں یہ خیال بھی کیا جاتا تھا کہ اس کے فوسل ملنا بہت مشکل ہیں لیکن گزشتہ سال اس کے فوسل خشکی پر ملے جو خشکی پر ان کی موجودگی پودوں سے بھی پہلے ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

مصنوئی زندگی زمین پر تیار

—فوٹو: سائنس لائبریری
—فوٹو: سائنس لائبریری

برطانیہ میں میڈیکل ریسرچ کونسل برائے مالیکیولر بائیولوجی کے سائنسدانوں نے انسان سمیت مختلف ممالیہ جانوروں کی بڑی آنت میں رہنے والے ایک بیکٹیریا جس کا سائنسی نام (عسرشیہ کولائے) ہے پر ایک ایسا تجربہ کیا جس کے نتائج دیکھ کر سائنسدان خود بھی دنگ رہ گئے۔

یہ بیکٹیریاز جانوروں کے پیٹ میں رہ کر خود تو نشونما حاصل کرتے ہیں لیکن بدلے میں ان جانوروں کو ہاضمے میں مدد دیتے ہیں۔

مئی 2019 کے آخر میں سائنسدانوں نے ان بیکٹیریاز کا ڈی این اے خود کے بنائے ڈی این اے سے تبدیل کردیا اور دیکھا کہ یہ بیکٹیریاز مرنے کی بجائے اس تبدیل شدہ ڈی این اے کے ساتھ ہی تقسیم ہو کر اپنی آبادی میں اضافہ کررہے ہیں اور ان بیکٹیریاز میں عین وہی خوبیاں پائی گئیں جو ڈی این اے لیب میں ڈی این اے بناتے وقت سائنسدانوں نے کمپیوٹر میں فیڈ کی تھیں۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ مستقبل میں اس طرح ہم ایسے جاندار بھی بنا سکتے ہیں جو مختلف ادویات بنائیں اور ہمارے لیے 'لائف فیکٹریز' کا کام کریں۔

پہلی مرتبہ 'کوانٹم اینٹنگلمنٹ' کا نظارہ کیا گیا

—فوٹو: لائیو سائنس
—فوٹو: لائیو سائنس

کوانٹم اینٹنگلمنٹ قدرت کا ایک ایسا کرشمہ ہے جو ہر کسی کے ذہن چکرا کر رکھ دیتا ہے، اس عمل میں یہ کہا جاتا ہے کہ دو کوانٹم کے ذرے آپس میں ظاہری خوبیوں کے اعتبار سے جڑے ہوتے ہیں پھر چاہے ان دونوں ذروں کو ایک دوسرے سے میلوں دور بھی کردیا جائے تو ایک ذرہ دوسرے کے ساتھ بندھتا رہتا ہے۔

یہ ایک عجیب عمل ہے جو بظاہر یوں لگتا ہے جیسے آئن اسٹائن کی "روشنی کی رفتار ' والی بات کو ٹھکرا رہی ہو لیکن یہ بات جاننا ضروری ہے کہ ان دونوں ذروں میں عام معلومات (جس کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ نہیں ہوسکتی) کا تبادلا نہیں ہوتا۔

جولائی 2019 میں سائنسدانوں نے لیزر کی مدد سے کچھ فوٹوز کو ٹکڑے ٹکڑے کیا اور اس طرح کہ وہ دونوں ٹکڑے آپس میں کوانٹم اینٹنگلمنٹ کے عمل کو دکھاتے رہے، اسی دوران ماہرین نے اس منظر کو کیمرے میں قید کرلیا، یہ پہلی دفعہ تھا کہ انسانوں نے کوانٹم اینٹنگلمنٹ کا نظارہ کیا۔

دوسرے نظام شمسی کے 'قابل رہائش' سیارے پر پانی دریافت

—فوٹو: سائی نیوز
—فوٹو: سائی نیوز

سائنسدان 1990 سے آج تک ہمارے نظام شمسی سے باہر تقریبا 4000 سیارے دریافت کرچکے ہیں ان میں سے بہت سے سیارے ایسے تو ہیں جو ہمارے ستارے یعنی زمین سے اتنا دور موجود ہیں کہ اگر اس سیارے پر پانی موجود ہو تو وہاں رہائش ممکن ہوسکتی ہے لیکن آج تک سائنسدانوں کو 'قابل رہائش' علاقے میں موجود کسی بھی سیارے پر ہماری زمین کی طرح کی زندگی کے پنپنے کے آثار نہیں نظر آئے تھے۔

2019 کے وسط میں ماہرین نے K2-18 نام لال بونے ستارے کے گرد زمین سے آٹھ گنا بڑے سیارے پر آبی بخارات اور اتنا درجہ حرارت دیکھا کہ اس پر پانی مایع حالت میں رہ سکے، یہ پہلا موقع تھا کہ سائنسدانوں نے نظام شمسی سے باہر اپنے ستارے کے 'قابل رہائش علاقے' میں چکر لگانے والے سیارے پر پانی دریافت کیا۔

انسان کے ارتقائی آباؤ و اجداد کے ڈی این اے سے انہیں دیکھنا ممکن

—فوٹو: سائنس میگ
—فوٹو: سائنس میگ

ستمبر 2019 میں ہیبریو یونیورسٹی آف یروشلم کے ماہرین لڑان کرمل اور ڈیوڈ گوخمان نے ڈینسووا کی غار سے انسان کی ارتقائی سیڑھی میں موجود نسل 'ڈینسوونز' کے ملنے والے تین دانت اور 6 لاکھ سال پرانی جبڑے کی ہڈی سے ڈی این اے حاصل کرکے 'ایپی جنیٹکس' کی تکنیک کا استعمال کرکے ان کے ظاہری صورت معلوم کی اور انسان کے آباؤ و اجداد کا چہرہ تیار کیا۔

ایپی جنیٹکس ایسی حیاتیاتی تکنیک ہے جس کی بدولت ڈی این اے سے جانداروں کے ظاہری نقوش کی معلومات حاصل کرکے بنا کسی فوسل کے جاندار بنایا جاسکتا، سائنسدانوں نے اپنی اس تکنیک کا جائزہ لینے کے لیے یہ فرض کیا کہ جیسے وہ بدمانس کے ظاہری حالت کو نہیں جانتے اور نتیجے میں بننے والی شکل بالکل بدمانس جیسی تھی، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے سائنسدان ہم بہت سے ارتقائی آباء کی اشکال بنا سکتے ہیں۔

سپر کمپیوٹرز نے ریاضی کی 65 سالہ مساوات کا حل نکال لیا

—فوٹو: پاپولر مکینزم
—فوٹو: پاپولر مکینزم

ریاضی ایک بہت ہی مزیدار مضمون ہے جس میں کسی بھی چیز کے ان گنت امکانات موجود ہوتے ہیں اور ریاضی دان اکثر ایسی مساوات سامنے رکھتے ہیں جو دیکھنے میں تو آسان لگتی ہے لیکن اگر انہیں حل کرنے بیٹھیں تو سیکڑوں سال لگ سکتے جوکہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔

ایسی ہی ایک مساوات "x3+y3+z3=k" بھی تھی جو دیکھنے میں انتہائی آسان پر حل کرنے میں مشکل تھی، اس مساوات کو "ڈیوفینٹین مساوات" کہتے ہیں جس کے مطابق 'k' ایک سے لے کر سو تک کوئی بھی نمبر ہوسکتا ہے اور وہ کوئی بھی تین نمبروں کے مربعوں کے جمع کرنے سے آئے گا۔

مثال کے طور پر اگر ہم 29 نکالنا چاہیں تو وہ 33+13+13=29 اور اسی طرح 8 نکالنا چاہیں تو 23+(-12)+(-12)=8 سے آئے گا تو ریاضی دانوں کا خیال تھا کہ اسی طرح باقی نمبروں کو بھی لکھا جاسکتا ہے لیکن کچھ نمبرز ایسے تھے کہ جب انہیں اس انداز سے لکھنے بیٹھے تو کچھ سمجھ نہ آیا۔

ان نمبروں میں 33 شامل ہے، نمبر 33 کی مساوات 65 سالوں سے حل نہ ہوئی تھی لیکن سال 2019 کے ستمبر میں میساچوسیٹس یونیورسٹی اف ٹیکنالوجی کے ریاضی کے پروفیسر نے سپر کمپیوٹرز کا استعمال کرتے ہوئے 33 نمبر کے لیے مساوات حل کر لی۔

نظام شمسی کی سیر کو آیا انجان سیارہ

فوٹو بشکریہ ناسا
فوٹو بشکریہ ناسا

سال 2017 کی طرح 2019 میں بھی ایک پردیسی سیارہ نظام شمسی کے باہر سے چکر لگانے آیا، اس کا نام اس کو دریافت کرنے والے شوقیہ ماہر فلکیات 'بوریسوو' کے نام پر "2L/Borisov" رکھا گیا، یہ پردیسی ایک دمدار ستارہ ہے جو کسی اور نظام شمسی سے آزاد ہوکر ہمارے سورج کے قریب سے گزرے گا۔

بوریسوو نامی یہ مہمان 28 دسمبر 2019 کو زمین سے 30 کروڑ کلومیٹر کی دوری سے گزرے گا، اومعامعا کی تو دریافت ہی بہت دیر سے ہوئی تھی جس کی وجہ سے سائنسدانوں کو اس پر تحقیق کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن بوریسوو پر تحقیق کرنے کے لیے ماہرین کے پاس بہت معلومات جمع ہوچکی ہے۔

5700 سال پہلے چبائی گئی 'چیونگ گم' سے لڑکی کا ڈی این اے

—فوٹو: نیچرل کمیونیکیشن
—فوٹو: نیچرل کمیونیکیشن

چیونگم تو ہم سب چباتے ہیں لیکن 2019 کے آخری مہینے سائنسدانوں نے ایک ایسی چیونگم دریافت کی جو 5700 سال پہلے کسی لڑکی نے گوشت کھانے کے بعد چباکر پھینک دی تھی۔

جی ہاں، ماہرین نے ڈیمارک کی سرزمین پر ایک درخت سے گلو نما چیونگم دریافت کی اور جب اس کا ٹیسٹ کیا گیا تو اس سے مکمل انسانی ڈی این اے ملا جس سے آج سائنسدان بتا سکتے ہیں کہ یہ چیونگم ایک سیاہ لڑکی نے چبائی تھی۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ بہت ہی مضحکہ خیز بات ہے کہ چبائی گئی چیونگم سے اس کے چبانے والے کے بارے میں ہزاروں سال بعد معلومات حاصل ہوئی ہو۔


سید منیب علی نیشنل سائنس ایوارڈ یافتہ سائنس رائیٹر ہیں اور ان کی کتاب "کائنات – ایک راز" اردو سائنس بورڈ کے زیرِطبع ہے۔ آپ اسٹروبائیولوجی نیٹ ورک آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ انہیں علم فلکیات کا بہت شوق ہے اور اس کے موضوعات پر لکھنا ان کا من پسند مشغلہ ہے۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں @muneeb227


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔