مودی۔ - اے ایف پی فوٹو
مودی۔ - اے ایف پی فوٹو

وزیر اعظم جواہرلال نہرو نے 5 جنوری 1952 کو کہا تھا کہ بھارتیہ جن سنگھ (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کی ناجائز اولاد ہے-

جن سنگھ 21 اکتوبر 1951 کو قائم کی گئی تھی- یہ 1977 میں دوسری پارٹیوں کے ساتھ جنتا پارٹی میں ضم ہو گئی اور اپنی حکومت قائم کرلی لیکن 1980 میں علیحدہ ہو گئی اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے نام سے نمودارہوئی-

علیحدگی کی وجہ یہ تھی کہ دوسری پارٹیوں کو آرایس ایس کے ساتھ اس کے تعلقات پر شدید اعتراضات تھے- اس کی پیش رو جن سنگھ کو آر ایس ایس کا سیاسی بازوبنا دیا گیا تھا - بی جے پی کا یہ کردارآج بھی باقی ہے-

گزشتہ مہینے اس کی اعلیٰ ترین قیادت کی سطح پر ایک انتہائی ناگوار اقتدارکی کشمکش کا مظاہرہ ہوا- سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی نے اگلے سال منعقد ہونے والے انتخابات میں وزیراعظم کے عہدے کیلئے گجرات کے چیف منسٹر نریندرا مودی کو بی جے پی کا امیدوار بنانے کی مخالفت کی- اڈوانی 2004 اوراسکے بعد 2009 میں اپنی مسلسل ناکامی کے دکھ میں ابھی تک مبتلا ہیں- اور اب انھیں یہ دن دیکھنا پڑرہا ہے کہ وہ شخص جس کو انہوں نے ہزیمت سے بچایا تھا اب انہیں شکست دینے کے درپے ہے-

فروری 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے ارادہ کر لیا تھا کہ وہ مودی سے استعفیٰ لینگے- اس وقت اڈوانی نے ان کی مدد کی تھی-

گزشتہ سال مودی ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں تیسری مرتبہ کامیاب ہوئے تھے جو اڈوانی کیلئے ہزیمت کا باعث تھی- لیکن انہیں ایک مایوس بی جے پی کی حمایت حاصل تھی- باقی ملک کو دونوں میں سے کسی کی پرواہ نہیں-

آر ایس ایس نے بی جے پی کو اپنے سخت کنٹرول میں رکھا ہے جو ہندوستانی جمہوریت اور سیکولرزم کے لئے بد فال ہے- آر ایس ایس کے ساتھ اڈوانی کے تعلقات ان کے اپنے سیاسی نشیب و فراز سے وابستہ رہے ہیں-

وہ فخریہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اس فاشسٹ پارٹی میں 1942 میں کراچی میں شمولیت اختیار کی تھی جب وہ چودہ سال کے تھے- پارٹی میں ان کے عروج کی وجہ آر ایس ایس کی حمایت تھی اور جب پارٹی نے 1954 اور 1973 میں جن سنگھ کے دو صدور کوان کے عہدوں سے برخواست کر دیا تو انہوں نے پارٹی کی پالیسی کی حمایت کی تھی-

وہ اسکا تیسرا شکار تھے- 2005 میں جب وہ پاکستان کے دورے پرآئے تھے تو انہوں نے محمد علی جناح کے مزار پر رکھی گئی ملاقاتی کتاب میں تحسین آمیز الفاظ لکھے تھے- اس کا مطلب پاکستانیوں کو خوش کرنا نہیں تھا بلکہ وہ ہندوستانیوں کو یہ تصور دینا چاہتے تھے کہ وہ اتنے سخت گیر نہیں ہیں جیسا کہ انہیں سمجھا جاتا ہے-

اس پر بی جے پی کی صفوں میں ہنگامہ ہو گیا- نئی دہلی کو ان کی واپسی کے فورا ہی بعد آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری موہن بھگت نے بی جے پی کے کارکنوں کو بتا دیا کہ اڈوانی کو رخصت کر دیا جائیگا-

اڈوانی دوسرے ہی دن اس کی تعمیل میں خود ہی باعزت طور پر پارٹی سے نکل گئے- انہوں نے 31 دسمبر2005 میں باضابطہ استعفیٰ دیا لیکن اس سے پہلے انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ "بی جے پی کی ثقافت اور قوم پرستی کی آئیڈیالوجی وہی ہے جو آر ایس ایس کی ہے اور یہ کہ بی جے پی کو آر ایس ایس سے جدا نہیں کیا جا سکتا"-

تاہم ایک رسمی اعلامیہ میں انہوں نے یہ بھی"تاثر" دیا کہ کوئی بھی سیاسی اور تنظیمی فیصلہ آرایس ایس کے کارکنوں کی منظوری کے بغیر نہیں ہو سکتا- اس پر ان کے جانشین راج ناتھ سنگھ نے فورا ہی اعلان کر دیا کہ "ہم سب آر ایس ایس کے کارکن ہیں"-

اس کے بعد جو تبدیلیاں رونما ہوئیں ان کا جائزہ لینا غیر ضروری ہے سوائے اس کے مارچ 2005 میں بھگت آر ایس ایس کے سب سے بڑے رہنما بن گئے اور غیر معروف موہن گڈکاری کو بی جے پی کا صدر بنا دیا گیا-

بعد ازاں گڈکاری بد گمانی کا شکار ہو گئے اورانہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا- اور ان کی جگہ راج ناتھ سنگھ نے لے لی- دونوں نے اڈوانی کے اعتراض کو کہ مودی کو جے پی کی مہم کا سربراہ نہ بنایا جائے، مسترد کر دیا- انہیں انتخاب کی مہم میں آگے آگے رکھا اور بتا دیا کہ اگر بی جے پی انتخابا ت میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر وزیراعظم کے عہدے کیلئے مودی کو نامزد کیا جائیگا-

اڈوانی 7 جون کو پارٹی کے تمام عہدوں سے مستعفی ہوگئے لیکن فوراً ہی بعد اپنا استعفیٰ واپس لے لیا اور آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر نئی دہلی پہنچ گئے- 20 جون کو بھگت سے ملاقات کی-

اس کے بعد جو اعلامیہ جاری ہوا اس سے سب کچھ ظاہر ہے "بھگت جی نے اڈوانی کی باتیں غورسے سنیں"- کہا جاتا ہے کہ اس قسم کی زبان اعلیٰ درجے کے درخواست گزاروں کیلئے استعمال کی جا تی ہے- انہیں ناکامی ہوئی تھی-

تلخ حقیقت یہ ہے کہ مودی کا ستارہ عروج پر ہے- ان کے با اعتماد ساتھی امیت شاہ یو پی میں بی جے پی کے سربراہ کے جنرل سکریٹری ہیں اوران پر بہت سے جرائم کے مقدمات ہیں- موہن بھگت ہر صورت میں چاہتے ہیں کہ بی جے پی پر آر ایس ایس کا ایجنڈہ سختی سے تھوپ دیا جائے- امیت شاہ یقین کے ساتھ 6 جولائی کو ایودھیا میں اس عارضی مندر پر پہنچے جسے غیر قانونی طور پر بابری مسجد کے ملبہ پر بنایا گیا ہے اور دعا کی کہ "ہم ملکر جلد از جلد ایک مندر تعمیرکرینگے"-

موہن بھگت نے اپنے مختلف بیانات میں آر ایس ایس کا جو تصور عالمی سطح پرپیش کیا ہے وہ پریشان کن ہے- انہوں نے گزشتہ سال اکتوبر میں جوش و جذبہ کیساتھ کہا تھا "ہندستان دنیا کی رہنمائی کریگا"-

آر ایس ایس کے ترجمان "آرگنائزر" نے ان کی ایک پہلے کی تقریر رپورٹ کی تھی جس میں کہا گیا تھا، "انسانی جسم کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جسم کے کسی بھی عضو کی اہمیت اس وقت تک ہوتی ہے جب تک وہ اس سے جڑا رہے اور اگر یہ جسم سے علیحدہ ہو جائے تودونوں ہی کو تکلیف ہوتی ہے، جسم کو بھی اور اس کے عضو کو بھی- اسی طرح افغانستان، سری لنکا، نیپال، مینمار، تبت، پاکستان وغیرہ جیسے ممالک کی علیحدگی نے ان ممالک کیلئے مسائل پیدا کر دئے ہیں اور نتیجتاً یہ ممالک ہمارے لئے مسائل پیدا کر رہے ہیں- چنانچہ ہندوستان کی سرحدیں سکڑتی جا رہی ہیں اور ایک وقت ایسا آئیگا کہ ہندوستان میں ہندوؤں کے رہنے کیلئے کوئی جگہ نہ رہے گی"-

اس زمانے کے وزیر اعظم واجپائی کے کمزور ہی سہی لیکن اعتدال پسندانہ رویہ کے باوجود بی جے پی 2004 - 1996 تک جبکہ وہ مرکزمیں اقتدار میں تھی نیز بی جے پی کی دیگر ریاستی حکومتیں بھی، بی جے پی کے ایجنڈہ پر عمل پیرا رہیں-

دو ممتاز دانشوروں منجیت ایس پردیسی اور جینیفر ایل اویٹکن کہہ چکے ہیں: "ایک مخلوط حکومت کی جکڑ بندیوں کے باوجود بی جے پی کو کوئی روک نہ سکا جس نے اپنی نظریاتی سوچ پر مبنی ایسی تعلیمی پالیسیاں نافذ کیں جس میں ہندوستان کی تاریخ کومسخ کر دیا گیا تھا"-

انہوں نے ہندوستان کی تاریخ کے ویدک عہد (بی سی 600 - بی سی 1500) کو وادی سندھ کی تہذیب میں ضم کر دیا (جو سال قبل مسیح میں پھلی پھولی تھی) جس کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ ہندوستان کے ہندو برصغیر کے اصلی باشندوں کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں"-

تو بی جے پی سے، جس پر بغیرکسی روک ٹوک کے، آرایس ایس کا سخت کنٹرول ہے، بدترین کارکردگی کی ہی توقع رکھئے-


ترجمہ: سیدہ صالحہ

تبصرے (0) بند ہیں