برٹش پنجاب کے تاریخی شہر پانی پت میں 22 جنوری 1922ء کو پیدا ہونے والے ڈاکٹر مبشر حسن کا شمار ان سیاسی دانشوروں میں ہوتا ہے جنہوں نے 74 سالہ پاکستان کو بنتے، ٹوٹتے، برطانیہ کی گود سے امریکہ کی سرپرستیوں اور چین کی قربت میں جاتے ہی نہیں دیکھا بلکہ آمریتوں اور جمہوریتوں کے گواہ بھی تھے اور صاحبانِ اقتدار و مقتدر قوتوں سے رابطے میں بھی رہتے تھے۔

ان کے والد منور حسن کا خاندان 800 سال قبل عراق سے آیا تھا اور وہ ایک سرکاری ملازم تھے جن کے 2 بیٹے اور 3 بیٹیاں تھیں۔ 1940ء کی دہائی میں جب وہ پنجاب یونیورسٹی سے بی ایس سی سول انجینئرنگ کر رہے تھے تو انہوں نے قائدِاعظم اور تحریکِ پاکستان کا لاہور اور جالندھر میں سرسری مشاہدہ کیا تھا کہ پھر قیامِ پاکستان کے بعد مبشر امریکا چلے گئے تھے۔

امریکا کی لوا اسٹیٹ یونیورسٹی سے ہائیڈرولک انجینئرنگ میں ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی کرنے کے بعد مبشر لاہور کی انجینئرنگ یونیورسٹی میں استاد مقرر ہوئے۔ پاکستانی سپریم کورٹ کے بنگالی جج جسٹس عبدالرحیم کے سفارت کار بیٹے جلال الدین عبدالرحیم المعروف جے اے رحیم سے ان کی یاد اللہ کام آئی اور ٹیکنوکریٹ مبشر، بھٹو کے وسیلہ سے سیاست کے اسیر ہوئے۔

بھٹو نے جنرل ایوب کی وزارتِ خارجہ کو عین معاہدہ تاشقند کے وقت ٹھکرایا تھا کیونکہ معاہدے میں مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کیا گیا تھا۔ بھٹو کی اس جرأت رندانہ کو عوامی اور دانشورانہ سطح پر سراہا گیا تھا کہ نہ صرف بابائے سوشلزم شیخ رشید، شیخ رفیق، طفیل عباس، محمود علی قصوری، ملک معراج خالد جیسے کئی پکے سیاسی رہنما بھی بھٹو سے جا جڑے بلکہ مبشر حسن، جے اے رحیم، جنرل (ر) اکبر جیسے عوامی سیاست کے علمبردار ماہرین بھی بھٹو کے ہم رکاب ہوئے۔

بائیں سے دوسری جانب کھڑے مبشر حسن
بائیں سے دوسری جانب کھڑے مبشر حسن

نومبر 1967ء کو لاہور کے 4 مزنگ روڈ پر پیپلز پارٹی بنانے کا فیصلہ ہوا مگر جب پارٹی کے تاسیسی اجلاس کے لیے کوئی ہال نہ ملا تو گلبرگ کے جس گھر میں 30 نومبر اور یکم دسمبر کو پارٹی کا 2 روزہ تاسیسی کنونشن ہوا وہ ڈاکٹر مبشر حسن کی کوٹھی تھی۔

سندھ کو چھوڑ کر بھٹو نے پنجاب کے دل لاہور میں آکر کیوں پارٹی بنائی یہ بات باوجوہ ڈاکٹر صاحب تادمِ مرگ لکھ نہ سکے۔ پیپلز پارٹی ان کا پہلا پیار تھا کہ اس کے بعد انہوں نے جتنے بھی پیار کیے وہ انہیں راس نہ آئے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کا تاسیسی اجلاس
پاکستان پیپلز پارٹی کا تاسیسی اجلاس

پیپلزپارٹی پنجاب ہی کی پارٹی تھی۔ اس ابتدائی موقع پر شیخ رشید پنجاب کے صدر بنے اور ڈاکٹر مبشر فنانس سیکرٹری تھے۔ مگر وہ چند ماہ بعد اس ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئے۔ بعدازاں وہ پارٹی کے لاہور کے صدر بنے۔

شیخ رشید نے اپنی سوانح جہد مسلسل میں 29 مارچ 1970ء کو منعقد ہونے والے پنجاب ورکرز کنونشن کا ذکر کیا ہے جس میں پنجاب بھر سے 700 سے زائد جیالوں نے شرکت کی اور پارٹی قیادت سے سفارش کی کہ پارٹی میں کسی بڑے زمیندار، جاگیردار اور سیٹھ کو شامل نہ کیا جائے۔ کھر اور حنیف رامے کے ساتھ ساتھ اس قرارداد کی مخالفت کرنے والوں میں ڈاکٹر صاحب بھی شامل تھے۔ تاہم 1970ء کے الیکشن میں سندھ کے برعکس پنجاب میں بہت کم جاگیرداروں کو پارٹی ٹکٹ ملا جس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کو پنجاب میں فقیدالمثال کامیابی ملی اور 20 دسمبر 1971ء کو بھٹو صاحب کو اقتدار مل گیا۔

ڈاکٹر مبشر اس پہلی عوامی حکومت کے وزیرِ خزانہ بنے۔ بطور وزیرِ خزانہ انہوں نے صنعتوں، تعلیمی اداروں، بینکوں، کمپنیوں اور چھوٹے بڑے صنعتی یونٹوں کو قومیانے جیسے اہم مگر متنازعہ فیصلے کیے۔ مگر ان فیصلوں کا متوازن تجزیہ ڈاکٹر صاحب نہیں کرسکے۔

1974ء میں وہ وزارت سے مستعفی ہوئے اور پارٹی کے جنرل سیکرٹری بن گئے۔ تاہم پارٹی کی تنظیمِ نو کا سوال تشنہ ہی رہا۔ بقول شیخ رشید قومی اتحاد کی تحریک کے دوران بھٹو صاحب کے اسرار کے باوجود ڈاکٹر مبشر نے سیکرٹری جنرل کے عہدے سے استعفی دے دیا کہ جب پارٹی پر آزمائش کا وقت تھا۔

مبشر حسن نے یوم تاسیس کی یاد میں ایک شیشم کا درخت لگایا تھا جو اب تقریباً 40 فٹ اونچا ہوچکا ہے
مبشر حسن نے یوم تاسیس کی یاد میں ایک شیشم کا درخت لگایا تھا جو اب تقریباً 40 فٹ اونچا ہوچکا ہے

ڈاکٹر صاحب نے بہت سی کتب لکھیں اور ان کے لاتعداد انٹرویوز اور بیانات ریکارڈ کا حصہ ہیں مگر ان میں بھی کئی سوالات کے جوابات نہیں ہیں۔ بھٹو اور بھٹو دور سے متعلق انہوں نے بہت سی باتیں کیں جن سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر یہ تنقید بالعموم بعد کی سوچ یا آفٹر تھاٹ کے زمرے میں آتی ہے۔

وہ بے نظیر بھٹو کے ناقدین میں شامل تھے اور ان کا اسرار تھا کہ بے نظیر نے بھٹو کی پارٹی کو یکسر بدل ڈالا ہے۔ تاہم بے نظیر کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے پارٹی کی روح کو برقرار رکھتے ہوئے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے۔

1900 کی دہائی کے وسط میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد گجرال فارمولے اور اقبال احمد کے وسیلے سے ڈاکٹر مبشر باوجوہ پاک انڈیا دوستی کے سفیر بنے اور بہت سے دوستوں کے ہمراہ پاک انڈیا پیپلز فورم کی بنیاد رکھی۔

ایک دن وہ گورنمنٹ کالج کے سامنے گول باغ میں چوپال کے ہفتہ وار سیشن میں تشریف لائے اور پاک انڈیا دوستی پر بات کی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ایک زمانے میں آپ بھارت کے ساتھ ہزار سالہ جنگ کے نقیب تھے اور آج امن کے داعی تو کیا آپ کل غلط تھے؟ اس پر انہوں نے کہا کہ جنگ کی باتیں اس دور میں ٹھیک تھیں اور امن کی باتیں آج درست ہیں۔

پیپلز پارٹی چھوڑنے کے بعد ڈاکٹر صاحب میر مرتضٰی بھٹو کی غیر سیاسی بیوہ غنوی بھٹو کی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی شہید بھٹو میں چلے گئے مگر یہ پارٹی باوجوہ پیپلز پارٹی کا متبادل نہیں بن سکی۔

مشرف دور میں ڈاکٹر صاحب متنازعہ چناب فارمولے کے اسیر ہوئے جس پر کشمیری راضی نہیں تھے۔ وہ مقامی حکومتوں کے بندوبست کے قائل تھے مگر یہ تجزیہ نہ کرسکے کہ ایوب سے مشرف تک ہر آمر مقامی حکومتوں کے نظام کو محض اپنے مفادات کے تحت ہی استعمال کرنا چاہتا تھا کہ جس کی بدترین مثال مشرف دور کا بلدیاتی نظام تھا جسے چھاونیوں سے دیس نکالا دیا ہوا تھا۔

ان کی ایمانداری اور خلوص پر 2 رائے نہ بھی ہو مگر ان کی سیاست اور سیاسی خیالات پر تادیر بحث رہے گی۔ 14 مارچ کو پنجابی کیلنڈر کے پہلے مہینے چیتر کی پہلی تاریخ تھی اور ہم دوست پنجاب کلچر ڈے منانے لاہور پریس کلب جا رہے تھے کہ ڈاکٹر مبشر حسن کی وفات کی خبر آئی۔ وہ 98 برس کی عمر میں راہی ملک عدم ہوئے مگر ان کی تحریریں، بیانات اور انٹرویوز پاکستان کی سیاسی تاریخ میں دلچسپیاں لینے والوں کو تادیر ستاتی رہیں گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

سلیم منصور خالد Mar 17, 2020 07:23pm
بہت دلچسپ اور معلومات افزا مضمون ۔ لال سلام قبول کیجیے
Engineer Mar 18, 2020 09:43am
Carefully study the local Government is best system for country development, this is not a job of MNA/MPA they make road they are elected for the law making the development should be through local Government means baldiyati system