لکھاری امیٹی یونیورسٹی، دبئی میں لیکچرار ہیں۔
لکھاری امیٹی یونیورسٹی، دبئی میں لیکچرار ہیں۔

کورونا وائرس کے خطرے نے ہمارے نظامِ تعلیم کو خاصا متاثر کردیا ہے۔ ہم دنیا کے ایک ایسے حصے میں رہتے ہیں جہاں ہنگامی حالات کوئی نئی بات نہیں، بلکہ اب تو ہم ان حالات کے اتنے عادی ضرور بن گئے ہیں کہ ان حالات میں بھی کسی نہ کسی طرح اپنے مسائل کا حل نکال ہی لیتے ہیں۔ تاہم اس بار صورتحال کچھ مختلف ہے، کیونکہ یہ حالات ہمارے نظامِ تعلیم کے لیے آزمائش بن کر آئے ہیں اور دیکھنا یہ کہ ہمارا نظامِ تعلیم اس کا کیسے مقابلہ کرتا ہے۔

چونکہ بچے کمرہ جماعت تک پہنچ نہیں سکتے اس لیے اسکولوں کو بچوں تک تعلیم پہنچانے کے لیے متبادل طریقے ڈھونڈنے ہوں گے تاکہ تعلیمی عمل اور علمی معیار متاثر نہ ہو۔

موجودہ صورتحال نے ہمیں اس بات کا احساس دلایا ہے کہ اب ہمیں ٹیکنالوجی کے تقاضوں کے مطابق اپنے معیار کو بلند کرنا ہوگا۔ وہ اسکول جو ڈیجیٹل کشتی میں سوار نہیں ہوسکے تھے وہ آج پیچھے رہ گئے ہیں کیونکہ انہیں بچوں کے تعلیمی تسلسل کو جاری رکھنے کے متبادل طریقوں کو مرتب دینے میں خاصی مشکل پیش آرہی ہے۔

اس وقت گوگل کلاس روم سے لے کر واٹس ایپ اور فیس بک گروپس تک مختلف طریقہ کار استعمال میں لا ئے جا رہے ہیں۔ میرے نزدیک یہ طریقے مفید اور جدید ثابت ہو رہے ہیں۔ ویسے بھی آپ نے یہ کہاوت تو سن رکھی ہوگی کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔

زیادہ تر اسکول وقت اور پیسے کی بڑی سرمایہ کاری اور زیادہ محنت لگنے کے باعث اپنے تعلیمی عمل میں ڈیجیٹل علمی آلات کو شامل کرنے سے گریز کرتے رہے، لیکن آج وہ تمام ٹیکنالوجی کی کشتی میں سوار ہونے کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔

سخت حالات سخت اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔ موجودہ وقت میں تیزی سے ہوتی نئی تبدیلیاں اصل میں ہمیں نیا سبق سیکھنے اور شاید یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور کرسکتی ہیں کہ پڑھائی کے لیے اساتذہ کی موجودگی والے کمرہ جماعت تک محدود ماڈل ہی واحد اور لازم ذریعہ نہیں ہے۔

اس ڈیجیٹل دور میں فاصلہ اب ماضی کی طرح ایک بڑا مسئلہ نہیں رہا، اب تو زیادہ تر موقعوں پر آمنے سامنے اور ڈیجیٹل ذرائع کے ملے جلے انداز میں ایک دوسرے سے رابطہ رکھا جاتا ہے، اور یہی بات پڑھائی اور سیکھنے کے عمل پر بھی صآدق آتی ہے۔

کورونا وائرس نے جہاں پوری دنیا کو خطرات سے دوچار کردیا ہے وہیں اس نے ہماری صلاحیتوں کو چیلنج بھی کیا ہے کہ ہم کس طرح اس مشکل وقت میں بچوں کو اس قدر بہتر تعلیم فراہم کرسکیں جن سے ان کے والدین کی توقعات بھی پوری ہوسکیں۔ اگرچہ ہم ترقی یافتہ معیشتوں جیسی اعلیٰ معیار کی ٹیکنالوجی، قوت، صلاحیت اور اثرانگیزی بھلے ہی نہ رکھتے ہوں لیکن ہمارے پاس پڑھنے اور سیکھنے کے آلات کے ساتھ ساتھ بھرپور عزم ضرور موجود ہے۔

چند اسکولوں نے ڈیجیٹل ذرائع کی محدود سمجھ رکھنے والے طلبہ اور والدین کی مدد کے لیے زبردست کوششیں کی ہیں۔ جو طلبہ اور ان کے والدین کو گوگل کلاس روم یا مووڈل (Moodle) استعمال کرنا نہیں جانتے ان کے لیے کلوز فیس بک گروپس جیسے متبادل پلیٹ فارم کی سہولت دی گئی ہے۔

سیکھنے کا عمل اور شعبہ تعلیم گزرتے وقت کے ساتھ کسی بھی دوسرے پیشے کی طرح صلاحیتوں کے معیار کو زیرِ غور لانے اور ان کی بہتری کا تقاضا کرتا ہے۔ اسکولوں کی موجودہ بندش اچھا موقع ہے کہ اساتذہ سوچیں کہ وہ کس طرح طلبہ کو متبادل طریقوں کو اپناتے ہوئے بہتر تعلیم فراہم کرسکتے ہیں۔ پھر یہ اچھا وقت ہے کہ تعلیم کے حصول کا اختیار طلبہ کو دے دیا جائے اور اساتذہ بس اس کی نگرانی کریں اور اس کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھیں۔

ڈیجیٹل ذرائع پر پڑھائی اور اپنا کام کرنے کے نت نئے طریقے سیکھ کر طلبہ خود کو زیادہ سبقت کا حامل سمجھ سکتے ہیں۔ چونکہ طلبہ آن لائن ہدایات کے ساتھ ساتھ اپنی کتابوں کے ساتھ بیٹھے ہوں گے اور انہیں روایتی انداز میں کمرہ جماعت کے اندر علمی عمل میں ہر ایک مرحلے پر ہدایات نہیں دی جا رہی ہوگی اس لیے چند طلبہ کے اندر فطری طور پر پڑھنے کا حوصلہ بڑھے گا۔

جدت اور دریافتوں کے اس دور میں ہنگامہ خیز حالات مایوسی کو بڑھا دیتے ہیں۔ والدین کو یہ شکایت ہے کہ وہ بچے کی پڑھائی کا اضافی بوجھ برداشت کررہے ہیں جبکہ اساتذہ کی غیر موجودگی میں ان کے حصے کا بھی کام کرنا پڑ رہا ہے۔ اس پورے مرحلے میں اسکولوں کو ہنگامی بنیادوں پر نصابی مواد تیار کرنا پڑرہا ہے اور نصاب کی تیاری میں جس غور و فکر اور آزمائشی مرحلے کی ضرورت ہوتی ہے، چاہتے ہوئے بھی اس پر عمل نہیں ہو پارہا ہے۔

کورونا وائرس کی پھوٹ کے باعث ہمارے پاس متبادل طریقے کی آزمائش یا تجربے کا وقت ہی نہیں ہے جس کے نتیجے میں آج ڈیجیٹل ذرائع پر والدین اور عملے کے درمیان لڑائیاں ہو رہی ہیں۔ بحران کے ان وقتوں میں ہم نے ثابت کیا کہ ہم بے صبرے ہیں اور لچک نام کی کوئی چیز ہم میں موجود نہیں۔

جب ہمارا سامنا خرابیوں سے ہوتا ہے یا پھر جب کوئی راہ نکالنے کا موقع آتا ہے تو ہم سکون سے بیٹھ جانے اور نئی حقیقت کو تسلیم کرنے سے پہلے ہم اپنی اپنی نااہلی پر دوبدو ہوتے ہیں تب پہلے پہل ایک دوسرے پر انگلی اٹھاتے ہیں، لڑتے جھگڑتے اور چیختے چلاتے ہیں۔

ٹھیک جس طرح ٹیل آف ٹو سٹیز میں چارلس ڈکسن نے کہا ہے کہ، 'وہ بہتر سے بہترین اور بد سے بدترین وقت تھا'۔ ایک طرف جہاں ہم اپنے بچوں کو وائرس کے خطرے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، وہیں دوسری طرف ان وقتوں میں ہمیں اپنی سوچ، دستیاب وسائل کے بہتر استعمال، جدید طرزِ عمل اپنانے اور سخت حالات میں زندگی بسر کرنے کی صلاحیتوں کے بارے میں بھی جاننا ہے۔

اگرچہ ہمیں ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے ہونے پر افسوس ضرور ہے لیکن اس کے ساتھ ہمیں امید ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس چیلنج پر سبقت پالیں گی۔


یہ مضمون 28 مارچ 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں