کورونا کی وبا و حکومتوں کی سختیاں آزادی صحافت پر 'قدغن'

وبا و حکومتوں کی سختیاں آزادی صحافت پر 'قدغن'

دنیا بھر میں میڈیا پر پابندیوں میں اضافہ ہوا، عالمی ادارے—فوٹو: سول سیفالر
دنیا بھر میں میڈیا پر پابندیوں میں اضافہ ہوا، عالمی ادارے—فوٹو: سول سیفالر

ساگر سہندڑو

دنیا کے 190 سے زائد ممالک میں 35 لاکھ کے قریب افراد کو متاثر کرنے اور لگ بھگ ڈھائی لاکھ انسانوں کی زندگیاں چھیننے والی کورونا وائرس کی وبا نے نہ صرف دنیا کی معیشت اور انسان کی زندگی پر اثرات مرتب کیے ہیں بلکہ اس سے آزادی صحافت بھی خطرے میں پڑی ہے۔

دسمبر 2019 سے چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والے کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا کے درجنوں ممالک میں لاک ڈاؤن نافذ کیے جانے کی وجہ سے لوگوں کی آزادی تو محدود ہو ہی گئی تھی اور اس بات کا ہر کسی کو احساس بھی ہے مگر اس وبا سے معلومات کے تبادلے اور اس تک رسائی میں بھی رکاوٹیں حائل ہوئی ہیں اور اس اہم مسئلے کا زیادہ تر انسانوں کو علم ہی نہیں۔

کورونا کی وبا کے حوالے سے جہاں دنیا بھر میں غلط معلومات کا پھییلاؤ دیکھا گیا وہاں درست معلومات تک رسائی کے لیے دنیا بھر کی حکومتوں نے قوائد و ضوابط کے نام پر نئی سختیاں کرکے آزادی صحافت پر قدغنیں لگائیں۔

دیگر ممالک کی طرح معلومات تک رسائی کی راہ میں پاکستان میں بھی رکاوٹیں حائل رہیں اور یہاں تک حکومت بھی کورونا کے حوالے سے درست و شفاف معلومات عوام تک پہنچانے میں مخمصے کا شکار دکھائی دی۔

آزادی صحافت اور صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم پاکستان پریس فاؤنڈیشن ( پی پی ایف) کی (میڈیا سیفٹی اینڈ پریس فریڈم ان پاکستان 2019 -2020) کے عنوان سے شائع کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جہاں کورونا کی وبا کے دوران میڈیا ارکان کو معلومات تک رسائی دینے سے روکنے کو دیکھا گیا، وہیں حکومت بھی اس وبا کے حوالے سے عوام تک معلومات پہنچانے میں پریشانی کا شکار دکھائی دی۔

پاکستان میں معلومات تک رسائی اور اسے عوام تک پہنچانے میں رکاوٹیں حائل کرنے میں اضافہ ہوا—فوٹو: شٹر اسٹاک
پاکستان میں معلومات تک رسائی اور اسے عوام تک پہنچانے میں رکاوٹیں حائل کرنے میں اضافہ ہوا—فوٹو: شٹر اسٹاک

40 صفحات پر مبنی رپورٹ کو 2 حصوں میں شائع کیا گیا ہے، رپورٹ کا پہلا اور اہم حصہ کورونا کی وبا کے دوران میڈیا ورکرز کی حفاظت کے حوالے سے ہے اور اسی حصے میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح حکومت کورونا وائرس کے حوالے سے معلومات کو فراہم کرنے میں پریشانی کا شکار دکھائی دی۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا میں آزادی صحافت کو حکومتوں سے سنگین خطرات کا سامنا

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کورونا کی وبا کے دوران دیکھا گیا کہ کچھ معلومات کو صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے الگ الگ بیان کیا جب کہ کورونا کی وجہ سے ہونے والی مبینہ پہلی ہلاکتوں کی تصدیق کے حوالے سے بھی حکومتیں بوکھلاہٹ کا شکار دکھائی دیں۔

رپورٹ کے مطابق ابتدائی ہفتوں میں سندھ میں کورونا کے کیسز کے حوالے سے صوبائی اور وفاقی حکومت نے الگ الگ اعلانات کیے اور یہ بھی دعویٰ کیا کہ دونوں حکومتوں کی جانب سے اعلان کردہ کیسز الگ الگ ہیں، تاہم بعد ازاں دیکھا گیا کہ دونوں کیسز ایک ہی تھے اور پھر حکومتوں کو مذکورہ معلومات کے حوالے سے وضاحتیں بھی کرنی پڑیں۔

اسی طرح کورونا وائرس کے حوالے سے خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں ابتدائی طور پر ہلاکتوں کا اعلان کیا گیا تاہم بعد میں حکومت نے وضاحت کی کہ اعلان کردہ ہلاکتیں دراصل کورونا سے نہیں ہوئیں۔

پی پی ایف کے مطابق کورونا کی وبا کے دوران صحافیوں کو آزادانہ طور پر کورونا وائرس کی کوریج کرنے سے روکا گیا اور بعض ہسپتالوں اور سرکاری اداروں نے تو میڈیا ورکرز کے حدود میں داخل ہونے یا انہیں کسی بھی طرح کی معلومات فراہم کرنے کے باضابطہ اعلانات بھی کیے۔

رپورٹ میں کورونا وائرس کی وبا کے دوران صحافیوں کو پیش آنے والے صحت کے مسائل کو بھی اجاگر کیا گیا ہے اور صحافتی تنظیموں اور حکومتی اداروں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ وبا کے دوران کوریج کرنے والے صحافیوں کو حفاظتی لباس پرسنل پروٹیکٹیو ایکوپمنٹ(پی پی ای) فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔

کورونا سے 38 صحافی متاثر، 2 جاں بحق'

پاکستان پریس فاؤنڈیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر میں یم مئی 2020 تک کم از کم 38 صحافیوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوچکی تھی جب کہ وبا سے 2 صحافیوں کی موت بھی ہو چکی تھی۔

رپورٹ میں مختلف میڈیا رپورٹس اور ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ اگرچہ ملک بھر میں محض 38 صحافیوں میں کورونا کی تشخیص ہوچکی ہے، تاہم امکان ہے کہ وبا سے متاثرہ صحافیوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔

پاکستان میں صحافیوں کی طرح زیادہ تر ڈاکٹرز بھی حفاظتی لباس سے محروم ہیں—فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں صحافیوں کی طرح زیادہ تر ڈاکٹرز بھی حفاظتی لباس سے محروم ہیں—فوٹو: اے ایف پی

رپورٹ کے مطابق کورونا سے متاثر ہونے والے زیادہ تر صحافی فیلڈ میں ذمہ داریاں ادا کرنے والے ہیں اور ان کے پاس حفاظتی لباس بھی نہیں ہوتے۔

رپورٹ میں نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کے ایک ہی دفتر کے 8 صحافیوں کے کورونا میں مبتلا ہونے کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ مجموعی طور پر مذکورہ چینل کے 20 صحافی اور میڈیا ورکرز یکم مئی تک کورونا کا شکار بن چکے تھے۔

صحافیوں کی گرفتاریاں، تشدد و اداروں کی بندش

رپورٹ کا دوسرا حصہ مئی صحافیوں کے قتل، ان پر تشدد کیے جانے، ان کی گرفتاریوں اور صحافتی اداروں پر ریاستی و حکومتی بڑھتے دباؤ پر مشمل ہے۔

اس حصے میں بتایا گیا ہے کہ مئی 2019 سے اپریل 2020 کے اختتام تک پاکستان میں کم از کم 2 صحافیوں کو ان کے صحافتی کام کی وجہ سے قتل کیا گیا جب کہ 16 صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

پاکستان بھر میں اسی عرصے کے دوران صحافیوں کو دھمکیاں دینے اور انہیں ہراساں کیے جانے کے 17 واقعات بھی رپورٹ ہوئے جبکہ ایک صحافی کو اغوا کیے جانے، ایک کے گھر پر چھاپہ مارے جانے اور ایک صحافی کے لاپتا ہونے کا معاملہ بھی رپورٹ ہوا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پی پی ایف کی جانب سے آزادانہ تحقیق اور مختلف میڈیائی رپورٹس سمیت پولیس رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران کم از کم 2 صحافیوں کو ان کے صحافتی کام کی وجہ سے قتل کیا گیا۔

صحافتی کام کی وجہ سے قتل کیے گئے ایک صحافی کا تعلق صوبہ پنجاب جب کہ دوسرے کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے۔

مزید پڑھیں: اراضی کیس: میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری

پنجاب کے شہر گجرات میں اگست 2019 میں فائرنگ کرک قتل کیے گئے نجی ٹی وی چینل 92 نیوز کے صحافی مرزا وسیم بیگ اور سندھ کے شہر نوشہروفیروز میں فروری 2020 میں قتل کیے گئے سندھی اخبار کاوش اور ٹی وی چینل کے ٹی این کے صحافی عزیز میمن کو ان کی رپورٹنگ کی وجہ سے قتل کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق دونوں مقتول صحافیوں کے قریبی رشتہ داروں، میڈیا رپورٹس اور پی پی ایف کی جانب سے آزادانہ طور پر کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں کو ان کے صحافتی کام کے باعث قتل کیا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مرزا وسیم بیگ کو مقامی جرائم پیشہ گروہ کے حوالے سے خبریں شائع کرنے جب کہ عزیز میمن کو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ایک جلسے میں کرائے کے لوگ لے جانے کی خبر نشر کرنے کے بعد قتل کیا گیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں کو ان کی رپورٹنگ کے باعث قتل کیا گیا۔

رپورٹ میں میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کو میڈیا پر قدغن سے تشبیہ دی گئی ہے—فوٹو: اے ایف پی
رپورٹ میں میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کو میڈیا پر قدغن سے تشبیہ دی گئی ہے—فوٹو: اے ایف پی

پی پی ایف کی رپورٹ کے اسی حصے میں معروف صحافی محمد حنیف کے ناول شائع کرنے والے اشاعتی گھر کے پر چھاپے کا ذکر کیے جانے، ڈان میڈیا گروپ کے معروف میگزین ہیرالڈ کی اشاعت بند ہونے سمیت دیگر اشاعتی اداروں کی بندش کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں ہیرالڈ میگزین کی اشاعت بند ہونے کے علاوہ نیوزلائن میگزین کو بھی بند کیا گیا جب کہ ملک ریاض جیسے امیر شخص نے آپ نیوز چینل کو بھی بند کیا۔

اسی حصے میں حکومت کی جانب سے ڈان میڈیا گروپ اور جنگ میڈیا گروپ کے اشتہارات بند کرنے کا ذکر بھی کیا گیا ہے جب کہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس طرح ڈان اخبار کی ملک بھر میں ترسیل کو روکنے کی کوشش کی گئی، جس پر صحافیوں نے احتجاج بھی کیے۔

میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری - رپورٹ کے اسی حصے میں جنگ اور جیو گروپ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمٰن کی قومی احتساب بیورو (نیب) کے ہاتھوں 34 سال پرانے کیس میں گرفتاری پر بھی بات کی گئی اور ان کی گرفتاری کو آزاد میڈیا پر قدغن لگانا قرار دیا گیا ہے۔

ملک میں 7 صحافیوں کا قتل

سال بھر میں پاکستان میں ایک خاتون سمیت 7 صحافی قتل ہوئے—تصاویر: اسکرین شاٹ/ فیس بک/ ٹوئٹر
سال بھر میں پاکستان میں ایک خاتون سمیت 7 صحافی قتل ہوئے—تصاویر: اسکرین شاٹ/ فیس بک/ ٹوئٹر

پی پی ایف کے برعکس آزاد صحافت اور صحافیوں کے لیے کام کرنے والی تنظیم فریڈم نیٹ ورک نے بھی (پاکستان پریس فریڈم رپورٹ 2019-2020) شائع کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں سال بھر میں 7 صحافیوں کو قتل کیا گیا۔

فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ مئی 2019 سے مئی 2020 تک پاکستان بھر میں 7 صحافیوں کو قتل جب کہ دیگر 4 صحافیوں پر قاتلانہ حملے بھی کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ایک سال میں 7 صحافی قتل کردیے گئے، رپورٹ

رپورٹ کے مطابق قتل کیے جانے والے صحافیوں میں سندھی اخبار عوامی آواز کے رپورٹ علی شیر راجپر کو مئی 2019، سندھی اخبار روزنامہ کاوش کے رپورٹر الیاس وارثی کو جون 2019، بلاگر محمد بلال کو جون 2019، ٹی وی چینل 92 نیوز کے رپورٹر مرزا وسیم بیگ کو اگست 2019، ٹی وی چینل 7 نیوز کے رپورٹر ظفر عباس کو ستمبر 2019، روزنامہ اینٹی کرائم کی رپورٹر عروج اقبال کو نومبر 2019 اور روزنامہ کاوش و کے ٹی این کے رپورٹر عزیز میمن کو فروری 2020 میں قتل کیا گیا۔

فریڈم نیٹ ورک کے مطابق پاکستان بھر میں گزشتہ ایک سال میں صحافیوں پر حملے، انہیں تشدد کا نشانہ بنائے جانے اور صحافتی اداروں پر حملوں کے 91 واقعات رپورٹ ہوئے۔

مذکورہ رپورٹ میں پاکستان میں آزادی صحافت پر لگائے جانے والی پابندیوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی اداروں و صحافتی تنظیموں کو اپنا کردار ادا کرنے کی تجویز بھی دی گئی۔

ملک آزادی صحافت کے حوالے سے 145ویں نمبر پر

پاکستان کے درجے میں مزید تنزلی ہوئی—فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے درجے میں مزید تنزلی ہوئی—فوٹو: اے ایف پی

صحافیوں کے حقوق اور آزادی صحافت پر کام کرنے والی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کی جانب سے ہر سال کی طرح اس سال جاری ہونے والی (ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس) رپورٹ میں پاکستان کو 145 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔

رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں آزادی صحافت کے حوالے سے مزید مشکلات بڑھیں اور پاکستان کے کردار مزید 3 درجے تنزلی ہوئی۔

گزشتہ سال پاکستان کو مذکورہ فہرست میں 142 ویں نمبر پر رکھا گیا تھا جب کہ 2017 میں پاکستان اسی فہرست میں 139 ویں نمبر پر تھا، یعنی ہر گزرتے سال پاکستان میں میڈیا کے لیے مشکلات بڑھیں اور ملک میں اظہار رائے پر پابندیاں سخت کردی گئیں۔

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی جانب سے مذکورہ فہرست 2002 کے بعد سے ہر سال 3 مئی کو عالمی یوم آزادی صحافت کے موقع پر ریلیز کی جاتی ہے اور اس فہرست میں دنیا کے 180 ممالک کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

مذکورہ فہرست بنانے سے قبل عالمی تنظیم مذکورہ ممالک کے صحافیوں، دانشوروں، سماجی رہنماؤں، پالیسی سازوں و قانون سازوں کے 87 سوالنامے بھجواتی ہے جو کہ آزادی صحافت، معلومات کی آزادانہ فراہمی اور اس کی آزادانہ منتقلی کے حوالے سمیت صحافیوں کے تحفظ اور صحافتی اداروں کے آزاد ہونے سے متعلق ہوتے ہیں۔

تنظیم کے مطابق تمام سوالناموں کا ٹھیک طرح سے جائزہ لینے کے بعد کسی بھی ملک کے حوالے سے صرف صحافت اور صحافیوں کے حوالے سے پالیسی مرتب کی جاتی ہے اور کسی بھی ملک کے انڈیکس نمبر کا تعلق وہاں کے حکومتی معاملات سمیت دیگر کسی طرح کے ریاستی و حکومتی معاملات سے نہیں ہوتا۔

عالمی تنظیم کا کہنا ہے کہ لازمی نہیں ہے کہ سماجی بہتری والے اور امیر ممالک میں میڈیا آزاد ہو اور غریب و پسماندہ ممالک میں میڈیا پر قدغنیں ہوں۔

اسی فہرست میں بھارت کا 142 واں نمبر ہے اور وہ آزادی صحافت کے حوالے سے پاکستان سے محظ تین درجے بہتر ہے۔

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی فہرست کے مطابق آزادی صحافت کے حوالے سے سب سے بہترین ملک ناروے، دوسرے نمبر پر فن لینڈ، تیسرے پر ڈنمارک، چوتھے پر سویڈن اور پانچویں نمبر پر نیدرلینڈ شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آزادی صحافت کی فہرست میں پاکستان کی 3 درجے تنزلی

رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ آزادی صحافت کے حوالے سے بدترین ممالک میں شمالی کوریا سرفہرست ہے، جسے انڈیکس میں آخری نمبر یعنی 180 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔

آزادی صحافت کے حوالے سے دوسرا بدترین ملک ترکمانستان ہے، تیسرا بدترین ملک ایریٹیریا، چوتھا بدترین ملک چین جب کہ پانچواں بدترین ملک جبوتی ہے، چین کا 180 ممالک کی فہرست میں 177 واں نمبر ہے۔

کئی ممالک میں وبا کے دنوں میں میڈیا پر پابندیاں بڑھ گئیں—فوٹو: آئی پی آئی
کئی ممالک میں وبا کے دنوں میں میڈیا پر پابندیاں بڑھ گئیں—فوٹو: آئی پی آئی

اسی فہرست میں سعودی عرب کو ایران سے آزادی صحافت کے حوالے سے اچھا ملک قرار دیا گیا ہے، ایران کو 173 ویں جب کہ سعودی عرب کو 170 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔

مصر کو 166 ویں، ترکی کو 154 ویں، بنگلہ دیش کو 151 ویں اور روس کو 149 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تمام ممالک آزادی صحافت کے حوالے سے پاکستان سے بھی پیچھے ہیں اور وہاں پر پاکستان کے مقابلے میں میڈیا پر زیادہ پابندیاں ہیں۔

عالمی تنظیم کی فہرست میں افغانستان کو 122 ویں نمبر پر، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کو 131 ویں نمبر پر، امریکا کو 45 ویں، جنوبی کوریا کو 42 ویں، برطانیہ کو 35 ویں اور جرمنی کو 11 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔

ایک سال میں دنیا بھر میں 55 صحافی قتل

صحافتی اداروں اور صحافیوں کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے انٹرنیشنل پریس فریڈم (آئی پی آئی) کی جانب سے عالمی یوم آزادی صحافت کے موقع پر جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں گزشتہ ایک سال کے دوران 55 صحافی قتل کیے گئے۔

تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق صرف سال 2020 کے ابتدائی 4 ماہ ہی میں دنیا بھر میں 17 میڈیا ورکرز قتل کیے جا چکے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ سال 2019 میں مجموعی طور پر 47 میڈیا ورکرز قتل کیے گئے تھے، تاہم مئی 2019 سے لے کر مئی 2020 کے دورانیے تک دنیا بھر میں 55 صحافی و میڈیا ورکز کو قتل کردیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق قتل کیے گئے 55 میں سے 33 صحافیوں کو مسلح افراد نے منظم طریقے سےنشانہ بناکر قتل کیا اور ان کے قتل کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ان صحافیوں کو پیشہ ور قاتلوں یا ریاستی سیکیورٹی اہلکاروں نے قتل کیا۔

سب سے زیادہ صحافی لاطینی امریکی خطے میں مارے گئے، جہاں مارے جانے والے صحافیوں کی تعداد 20 تک ہے اور وہاں کے ملک میکسیکو میں گزشتہ ایک سال کے دوران 10 صحافی مارے جا چکےہیں۔

قتل کےحوالے سے دوسرا خطرناک ملک جنگ زدہ شام رہا، جہاں گزشتہ ایک سال کے دوران 7 صحافی مارے جا چکےہیں۔

عالمی تنظیم کے مطابق کم از کم 14 صحافی خانہ جنگی کے شکار ممالک یا علاقوں میں جھڑپوں اور فائرنگ کے دوران کوریج کرتے ہوئے مارے گئے۔

مزید پڑھیں: دنیا میں آزادی صحافت کو حکومتوں سے سنگین خطرات کا سامنا

عالمی تنظیم کی جانب اسی رپورٹ میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر باربرا ٹرائونفائی نے اپنے بیان میں کہا کہ دنیا بھر میں آزادانہ صحافت سخت ترین دباؤ کا شکار ہے۔

ان کے مطابق تنگ نظر حکومتیں تنقیدی آوازوں کو دبانے اور بہت سے کیسز میں جان بوجھ کر آزاد ذرائع ابلاغ کی ساکھ کو تباہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

گزشتہ ایک سال میں دنیا میں 55 اور پاکستان میں 7 صحافی قتل ہوئے، رپورٹس—فوٹو: رائٹرز
گزشتہ ایک سال میں دنیا میں 55 اور پاکستان میں 7 صحافی قتل ہوئے، رپورٹس—فوٹو: رائٹرز

عالمی تنظیم کی رپورٹ میں مصر اور ترکی جیسے ممالک میں 80 کے قریب صحافیوں کی گرفتاری کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور دونوں ممالک کی حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ وبا کے ان دنوں میں قید صحافیوں کو رہا کرے۔

آئی پی آئی کی رپورٹ میں بھی کورونا وائرس کی وبا کے دوران دنیا بھر میں صحافیوں کو پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح عالمی سطح پر صحافیوں کو معلومات حاصل کرنے میں پریشانی اور حکومتوں کی سختیوں کا سامنا ہے۔

28 سال میں 1369 صحافی قتل

صحافیوں کے حقوق و تحفظ کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں رواں سال 4 ماہ کے دوران 17 میڈیا ورکرز مارے جا چکے ہیں.

سی پی جے کے مطابق دنیا بھر میں گزشتہ 28 سال سے 1369 صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے جب کہ اس سے قبل قتل کیے گئے صحافیوں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں.

سی پی جے کے اعداد و شمار کے مطابق 1992 سے لے کر اب تک دنیا بھر میں 96 خواتین صحافیوں کو بھی قتل کیا جا چکا ہے.

اگرچہ سی پی جے کے پاس 1992 سے لے کر اب تک کا ریکارڈ موجود ہے، تاہم ادارے کے پاس بہت سارے ممالک کا مکمل ڈیٹا دستیاب نہیں اور اس ادارے کے پاس جن ممالک کا مکمل ڈیٹا دستیاب نہیں، ان میں پاکستان بھی شامل ہے.

خواتین صحافیوں کے ڈیٹا کی قلت

عالمی یوم آزادی صحافت کے موقع پر اگرچہ عالمی تنظیموں کی طرح پاکستانی تنظیموں نے بھی قتل کیے گئے صحافیوں اور صحافت پر لگائی جانے والی پابندیوں کے حوالے سے رپورٹس جاری کی ہیں اور ان میں میڈیا پر لگائی جانے والی قدغنوں پر تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔

تاہم پاکستانی تنظیموں سمیت عالمی تنظیموں کی رپورٹس میں خواتین صحافیوں کے حوالے سے کوئی اہم ڈیٹا جاری نہیں کیا گیا۔

سی پی جے سے لے کر آئی سی ایف جے اور پاکستان پریس فاؤنڈیشن سے لے کر فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹس میں خواتین صحافیوں کو ملازمت کے دوران پیش آنے والی مشکلات کا ذکر نہیں کیا گیا۔

اگرچہ رپورٹس میں مجموعی طور پر صحافیوں کو ہراساں کیے جانے، انہیں آن لائن تضحیک کا نشانہ بنائے جانے کا ذکر کیا گیا ہے، تاہم خصوصی طور رپورٹس میں ہراسانی کا سامنا کرنے والی خواتین کا ذکر نہیں ملتا۔

پاکستان پریس فاؤنڈیشن کی رپورٹ میں ٹی وی اینکر غریدہ فاروقی اور ماروی سرمد جیسی خواتین کے آن لائن تضحیک کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات کا ذکر کیا گیا ہے مگر اس کے باوجود مذکورہ رپورٹ میں عام ورکنگ جرنلسٹ خواتین کے ساتھ پیش آنے والے مسائل کا ذکر نہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر سے دیگر شعبہ جات کی طرح میڈیا میں بھی خواتین کو ہراساں کیے جانے کے حوالے سے رپورٹس سامنے آتی رہتی ہیں اور بعض مرتبہ ایسے واقعات پر صحافتی تنظیمیں اپنا رد عمل بھی دیتی ہیں، تاہم اس باوجود عالمی یوم آزادی صحافت کے موقع پر جاری کی جانے والی رپورٹس میں خواتین صحافیوں کے ساتھ پیش آنے والی مشکلات کا ذکر نہیں ملتا۔

دنیا بھر میں لاکھوں خواتین میڈیا کے تکنیکی شعبے میں بھی خدمات سر انجام دیتی ہیں—فوٹو: پیکسل
دنیا بھر میں لاکھوں خواتین میڈیا کے تکنیکی شعبے میں بھی خدمات سر انجام دیتی ہیں—فوٹو: پیکسل