دنیا میں آزادی صحافت کو حکومتوں سے سنگین خطرات کا سامنا

اپ ڈیٹ 02 مئ 2019
دنیا بھر میں آزاد صحافت سخت ترین دباؤ کا شکار ہے — تصویر: شٹر اسٹاک
دنیا بھر میں آزاد صحافت سخت ترین دباؤ کا شکار ہے — تصویر: شٹر اسٹاک

کراچی: دنیا بھر میں حکومتوں کی جانب سے نئے قوانین متعارف کروا کر صحافت کی آزادی کو محددود کرنے کی کوششوں میں اضافہ ہورہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انٹرنیشنل پریس فریڈم (آئی پی آئی) کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال مئی کے مہینے سے اب تک 55 صحافیوں کو بھی قتل کیا جاچکا ہے۔

عالمی یومِ آزادی صحافت کے موقع پر ویانا سے تعلق رکھنے والی مدیران اور صحافیوں کی عالمی تنظیم کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر باربرا ٹرائونفائی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں آزادانہ صحافت سخت ترین دباؤ کا شکار ہے۔

ان کے مطابق تنگ نظر حکومتیں تنقیدی آوازوں کو دبانے اور بہت سے کیسز میں جان بوجھ کر آزاد ذرائع ابلاغ کی ساکھ کو تباہ کرنے کی کشش کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا بھر کے صحافی اپنی جان خطرے میں ڈال کر کام کرنے پر مجبور

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں آزادی صحافت پر حملہ کرنے کے آزمائے ہوئے حربے دیکھنے کو مل رہے ہیں جس میں جیل بھیجنا اور جسمانی تشدد بھی شامل ہیں، جس کا اختتام معافی مانگنے پر ہوتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ایسی منظم مہمات کی نئی لہر بھی سامنے آئی ہے جس میں میڈیا اور صحافت کو لوگوں کا دشمن ثابت کر کے ہر چیز پر نظر رکھنے والے کردار کو محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے ان اقدامات پر بھرپور ردِ عمل کی ضرورت ہے تا کہ بنیادی حقوق کی اہمیت برقرار رہے، یہ خاموش بیٹھنے کا وقت نہیں۔

مزید پڑھیں: میرے وطن کی ’صحافت‘ کا حال مت پوچھو

اس ضمن میں انہوں نے دنیا کے مختلف ممالک میں پریس کے حوالے سے پیش آنے والے واقعات کا تذکرہ بھی کیا جس میں پاکستان کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہاں تنقیدی میڈیا کو غیر مہذب مہم کا سامنا ہے۔

آئی پی آئی کا کہنا تھا کہ حکومت نے بااثر اخبار ڈان کے سرکاری اشتہارات روک دیے اور انفرادی طور پر بھی صحافیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے مثلاً آئی پی آئی ورلڈ پریس فریڈم کے ہیرو سرل المیڈا، جنہیں عسکریت پسندی کی کوریج پر غداری کے الزامات کا سامنا ہے۔

اسی طرح امریکا میں محکمہ انصاف صحافیوں کے ریکارڈ تک رسائی کو آسان بنانے کے لیے رہنما اصولوں میں تبدیلیوں پر غور کررہا ہے، اسی طرح وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کے بارے میں مجرمانہ الزامات نے بھی آزادی صحافت کے حوالے سے سوالات کھڑے کردیے۔

یہ بھی پڑھیں: صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں پاکستان کا 139واں نمبر

دوسری جانب ترکی صحافیوں کو جیل میں قید کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جہاں 2018 کے دوران آزاد میڈیا کے خلاف کریک ڈاؤن میں اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں 46 مزید صحافیوں کو گرفتار کیا گیا اور ان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کیے گئے۔

آئی پی آئی کے مطابق بنگلہ دیش میں ملک کے نئے ڈیجیٹل سیکیورٹی قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں صحافیوں کو عمر قید تک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

تنظیم کے مطابق قتل کے ساتھ ساتھ گزشتہ برس صحافیوں کے خلاف حملوں اور گرفتاریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور رواں برس کے ابتدائی 3 ماہ کے عرصے میں صحافیوں کی گرفتاری کی 70 کیسز سامنے آچکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں