گوتم بدھ، کچھوا اور ڈاکٹر دھماکہ
انہیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا روح رواں کہیے، قومی ہیرو قرار دیجئے یا نسیم حجازی کے ناولوں سے کشید کردہ اسلامی ہیرو۔ واقعہ یہ ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان مہاتما بدھ کی حکایات کا اساطیری کچھوا ہیں۔
کچھوے میاں سے بار بار کہا جاتا ہے کہ سمندر کے پار اترنا ہے تو چھڑی کو منہ میں دبائے رکھو اور گل افشانی سے گریز کرو۔ مگر صاحب ڈاکٹر قدیر خان کو اپنی خوش بیانی پر ایسا غرّہ ہے اور ان کی خدا داد ذہانت کو ایسا میٹھا برس لگا ہے کہ منہ کھولے بغیر نہیں رہتے۔ نتیجہ یہ کہ خود بھی گہرے پانیوں میں غوطے کھاتے ہیں اور اپنے خوش عقیدہ مداحوں کو بھی پشیمان کرتے ہیں۔ تازہ کلام میں بھی ایسے ہی لولوئے گلفام ارزاں کیے ہیں۔
صدارتی انتخاب میں مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدواروں پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دودھ جلیبی بیچنے والوں اور مچھلی کا کاروبار کرنے والوں کو صدارتی امیدوار بنایا گیا ہے۔ اے صدقے! انگوروں کو کھٹا کہنے کا کیا ڈھنگ نکالا ہے۔ مراد یہ کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسا نابغہ روزگار دانہ موجود ہے تو ادھر ادھر کی خاک چھاننے کی کیا ضرورت ہے۔
سچ پوچھئے تو ڈاکٹر قدیر خان کا بھی کچھ ایسا دوش نہیں۔ ہمیں اجتماعی طور پر ہیرو تراشنے اور پوجنے کا خبط ہے۔ کمال اتاترک کو سفید گھوڑے پر ہم نے بٹھایا۔ جمال عبدالناصر کی بلائیں ہم نے لیں۔ رضا پہلوی کے راستے میں پھول ہم نے بچھائے۔
سرزمین عرب کے عمامہ پوش دیکھتے ہی ہمارے ہاں آشوب چشم کی وبا پھیل جاتی تھی۔
کویت پر جارحیت کے بعد دنیا بھر میں صدام حسین کی تھڑی تھڑی ہو رہی تھی۔ البتہ پاکستان کے اسلم بیگ صدام حسین پر لہلوٹ تھے۔
فلسطین میں یاسر عرفات کی مطلق العنانی کے چرچے عام تھے مگرہمارے ہاں 80 ء کی دہائی میں پیدا ہونے والا ہر تیسرا بچہ یاسر تھا اور اسامہ نام کے بہت سے برخوردار تو اب سکول کالجوں میں تعلیم پارہے ہیں۔
نفسیاتی اعتبار سے ہیرو کی پرستش ذہنی انفعالیت، احساس کمتری، غیر حقیقت پسندی اور ناقابل عبور مشکلات کے مقابلے میں شکست خوردگی کے جذبے سے جنم لیتی ہے۔
برٹولٹ بریخت کے کھیل "گلیلیو" میں ایک طالب علم گلیلیو سے مخاطب ہو کر کہتا ہے؛ "بد نصیب ہے وہ دھرتی جہاں ہیرو پیدا نہیں ہوتے۔ بوڑھا گلیلیو جواب دیتا ہے۔ "نہیں آندرے! بد نصیب ہے وہ دھرتی جسے ہر روز ایک ہیرو کی ضرورت پیش آتی ہے۔"
ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1936ء میں ریاست بھوپال میں پیدا ہوئے۔ والد محترم سکول میں استاد تھے۔ یہ گھرانہ 1952ء تک بھوپال ہی میں رہا۔ گویا ڈاکٹر صاحب کی پاکستان کو مراجعت 47ء کے ہنگام میں نہیں ہوئی۔ یہ وہ قافلہ تھا جو بہتر معاشی اور تعلیمی مواقع کے لیے پاکستان پہنچا۔
1961ء میں تعلیم کے لیے یورپ سدھارے۔ جرمنی، ہالینڈ اور بلجیئم میں دھاتی سائنس کی تعلیم پائی۔ وطن واپس آنے کی بجائے وہیں کے ہو رہے۔ جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والی، برطانوی پاسپورٹ کی حامل اور ہالینڈ میں مقیم خاتون سے رشتہ ازدواج استوار کیا۔ اس ذوق کے کچھ مرحلے برسوں بعد اسلام آباد میں بھی تکمیل کو پہنچے۔ 73-1972ء میں ہالینڈ کے ایٹمی ادارے FDO میں ملازم تھے۔ ابھی ہندوستان نے پوکھران میں 1974ء کا ایٹمی دھماکہ نہیں کیا تھا۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع نہیں ہوا تھا۔ مگر 35 برس کا پاکستانی نژاد قدیر خان ڈھیلے ڈھالے حفاظتی اقدامات سے فائدہ اٹھا کر ایک اجنبی زبان میں مختلف معلومات جمع کرتا رہتا تھا۔
پھر ایک روز وزیراعظم بھٹو کو خط لکھ کر ایٹمی پروگرام میں مدد کی پیشکش کی۔ شرط یہی کہ مجھے منصوبے کامدارالمہام بنایا جائے۔ مالیاتی جوابدہی نہ ہو۔ ادارہ جاتی ضابطے لاگو نہ ہوں اور پہلے سے کام کرنے والے سائنس دانوں کو بارہ پتھر باہر رکھا جائے۔
زمانہ بدل گیا تھا مگر ذہن کے نہاں خانے میں بھوپال کا دربار بسا تھا۔ دربار کی ثقافت سازش سے ترتیب پاتی ہے۔ یہاں ادارہ جاتی بندوبست کی بجائے قرب اقتدار اور شخصی جوڑ توڑ سے ترقی کی منزلیں ہاتھ آتی ہیں۔
دو برس بعد بھٹو صاحب کوٹ لکھپت جیل پہنچ گئے۔ ضیاالحق کی آمریت آئی۔ بھٹو صاحب کے کندھے سے کندھا ملانے کے خواہش مند ڈاکٹر قدیر خان نے دل و جان سے ضیا الحق کو گلے سے لگایا۔
خود ساختہ 'امیر المومنین' نے فوج کو اسلامی فوج قرار دیا تو ڈاکٹر قدیر کو بھی خیال پیدا ہوا کہ ایٹمی پروگرام کو مذہبی رنگ میں پیش کرنے سے سستی مقبولیت کا دروازہ کھولا جا سکتا ہے۔
قدیر خان کے تمدنی شعور کا یہ عالم تھا کہ انہیں بھٹو صاحب کی جمہوریت اور ضیاالحق کی آمریت پر زبان کھولنے کی کبھی توفیق نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر قدیر 20 ویں صدی کی آخری چوتھائی میں ان قوتوں کے انتہائی قریب تھے جن کا سیاسی نصب العین عسکری فتوحات اور تحکمانہ معاشرتی زندگی سے ترتیب پاتا ہے۔
ڈاکٹر قدیر شخصی اعتبار سے جاہ پسند اور نفسیاتی طور پر شہرت، عہدے اور دولت کے خواہش مند سمجھے جاتے ہیں۔ ایک سے زیادہ مرتبہ غیر محتاط طرز گفتار پر ضیاالحق سے ڈانٹ کھائی۔
کلدیپ نائر نے انہیں خود ستائی کا مریض قرار دیا۔ چاغی میں دھماکوں کی ذمہ داری پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کو ملی تو آرمی چیف سے جھگڑا کرنے پہنچ گئے۔
چاغی کے واقعات کی تفصیل موقع کے گواہ نذیر ناجی نے حال ہی میں لکھی ہے۔ ڈاکٹر قدیر خان جیسی پرفتوح ہستی پر انگشت نمائی کر کے نذیر ناجی نے بہت برا کیا۔ ڈاکٹر قدیر کو چاہیے کہ نذیر ناجی پر ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ کریں۔
ایک مقدمہ William Langewiesche پر بھی کریں جس نے قدیر خان پر پاک فوج کے خلاف خطوط لکھنے کا الزام رکھا۔
ڈاکٹر قدیر کو پرویز مشرف سے بہت گلے ہیں۔ انہوں نے قدیر صاحب کی دستار سر بازار اچھالی، انہیں ٹیلی ویژن پر کروڑوں لوگوں کے سامنے لرزتی ہوئی آواز میں معافی مانگنا پڑی، اگر وہ بیان دباؤ ڈال کر دلایا گیا تھا تو اب مشرف حراست میں ہیں۔ ہر زید، عمر، بکر ان کے خلاف عدالتوں میں پہنچ رہا ہے، حضرت قدیرخان بھی ہمت کریں، عدالت کا دروازاہ کھٹکھٹائیں اور اپنے نام نامی پر لگے دھبے صاف کر لیں۔
مذہبی سیاست کے علمبرداروں کی ڈاکٹرقدیر میں دلچسپی کا ایک خاص پس منظر ہے۔ فوج سے قربت، ہتھیار سازی سے شغف، سیاسی امور پر مذہبی لغت میں رائے زنی اور ہمسایہ ممالک سے ازلی دشمنی کی وکالت، مذہبی سیاست کا ہیرو ان عناصر ہی سے ترکیب پاتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کو دھاتی سائنس کے ماہر کی بجائے کسی اسلامی تاریخی ناول کا کردار بنا کر پیش کرنے سے عسکریت پسندی کی فضا برقراررکھی جا سکتی ہے۔
قدیر خاں کی پیشہ ورانہ مہارت سائنسی لیکن ذہنی اپج غیر سائنسی ہے، انھیں شہرت کی طلب اور بیان بازی کا شوق ہے، وہ اپنے پسندیدہ صحافیوں پر نوازشات کی بارش کر سکتے ہیں اور مغلیہ بادشاہوں کے مزار تعمیر کرانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
عہدہ صدارت کے لیے امیدواروں پر درجہ ثقاہت سے گری ہوئی زبان استعمال کر کے ڈاکٹر قدیر نے اپنے تمدنی شعور اور تہذیبی احساس کا پول کھولا ہے۔ حسب نسب تو ایک اساطیری مفروضہ ہے۔ اجداد کے کار ہائے نمایاں سے کوئی اعلیٰ یا کمتر قرار نہیں پاتا۔ تاجر تو انسانوں کی ضروریات پیدا کرتا ہے، اسلحہ بنانے والا موت اور تباہی کا کاروبار کرتا ہے۔
ڈاکٹر قدیر کو ایٹمی توانائی کے علمی اور تکنیکی زاویوں پر ایسا عبور ہوتا تو ایٹمی صلاحیت کو توانائی کے حصول کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ وہ دھاتی سائنس کے ماہر ہیں لیکن سائنسی طرز فکر سے انہیں واسطہ نہیں۔
سائنس کی کار گاہ میں ہر تجربہ علت و معلول کے معمولی اصولوں کے تابع ہوتا ہے۔ ڈاکٹر قدیر تو روحانیات کے شناور ہیں۔ چنانچہ جس تمدنی مسئلے پر منہ کھولا، جگ ہنسائی کا سامان کیا۔ سیاسی جماعت بنائی تو امیدوار ہی نہیں مل سکے۔
بھوپال تو اب قصہ پارینہ ہوا، پاکستان کے آئین میں جمہوریت کو واحد جائز طرز حکومت قرار دیا گیا ہے۔ یہاں دودھ دہی بیچنے والے اور مچھلی فروخت کرنے والے ہی نہیں، جوتے گانٹھنے اور کپڑے دھونے والے بھی انشااللہ حکمرانی کے مستحق ٹھہریں گے، یہاں راج کرے گی خلق خدا۔ حضرت قدیر خان ایسا کریں، اپنا حریری بستر لپیٹیں اورٹمبکٹو جا بسیں۔ ایک دکان ایٹمی رازوں کی کھولیں اور پیشانی پر سائن بورڈ لکھوائیں "Victoria's Atomic Secret", اللہ برکت دے گا۔












لائیو ٹی وی
تبصرے (14) بند ہیں