• KHI: Partly Cloudy 22.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.3°C
  • ISB: Cloudy 13.2°C
  • KHI: Partly Cloudy 22.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.3°C
  • ISB: Cloudy 13.2°C

گوتم بدھ، کچھوا اور ڈاکٹر دھماکہ

شائع July 30, 2013

ڈاکٹر عبدالقدیر خان --  فائل فوٹو --.
ڈاکٹر عبدالقدیر خان -- فائل فوٹو --.

انہیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا روح رواں کہیے، قومی ہیرو قرار دیجئے یا نسیم حجازی کے ناولوں سے کشید کردہ اسلامی ہیرو۔ واقعہ یہ ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان مہاتما بدھ کی حکایات کا اساطیری کچھوا ہیں۔

کچھوے میاں سے بار بار کہا جاتا ہے کہ سمندر کے پار اترنا ہے تو چھڑی کو منہ میں دبائے رکھو اور گل افشانی سے گریز کرو۔ مگر صاحب ڈاکٹر قدیر خان کو اپنی خوش بیانی پر ایسا غرّہ ہے اور ان کی خدا داد ذہانت کو ایسا میٹھا برس لگا ہے کہ منہ کھولے بغیر نہیں رہتے۔ نتیجہ یہ کہ خود بھی گہرے پانیوں میں غوطے کھاتے ہیں اور اپنے خوش عقیدہ مداحوں کو بھی پشیمان کرتے ہیں۔ تازہ کلام میں بھی ایسے ہی لولوئے گلفام ارزاں کیے ہیں۔

صدارتی انتخاب میں مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدواروں پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دودھ جلیبی بیچنے والوں اور مچھلی کا کاروبار کرنے والوں کو صدارتی امیدوار بنایا گیا ہے۔ اے صدقے! انگوروں کو کھٹا کہنے کا کیا ڈھنگ نکالا ہے۔ مراد یہ کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسا نابغہ روزگار دانہ موجود ہے تو ادھر ادھر کی خاک چھاننے کی کیا ضرورت ہے۔

سچ پوچھئے تو ڈاکٹر قدیر خان کا بھی کچھ ایسا دوش نہیں۔ ہمیں اجتماعی طور پر ہیرو تراشنے اور پوجنے کا خبط ہے۔ کمال اتاترک کو سفید گھوڑے پر ہم نے بٹھایا۔ جمال عبدالناصر کی بلائیں ہم نے لیں۔ رضا پہلوی کے راستے میں پھول ہم نے بچھائے۔

سرزمین عرب کے عمامہ پوش دیکھتے ہی ہمارے ہاں آشوب چشم کی وبا پھیل جاتی تھی۔

کویت پر جارحیت کے بعد دنیا بھر میں صدام حسین کی تھڑی تھڑی ہو رہی تھی۔ البتہ پاکستان کے اسلم بیگ صدام حسین پر لہلوٹ تھے۔

فلسطین میں یاسر عرفات کی مطلق العنانی کے چرچے عام تھے مگرہمارے ہاں 80 ء کی دہائی میں پیدا ہونے والا ہر تیسرا بچہ یاسر تھا اور اسامہ نام کے بہت سے برخوردار تو اب سکول کالجوں میں تعلیم پارہے ہیں۔

نفسیاتی اعتبار سے ہیرو کی پرستش ذہنی انفعالیت، احساس کمتری، غیر حقیقت پسندی اور ناقابل عبور مشکلات کے مقابلے میں شکست خوردگی کے جذبے سے جنم لیتی ہے۔

برٹولٹ بریخت کے کھیل "گلیلیو" میں ایک طالب علم گلیلیو سے مخاطب ہو کر کہتا ہے؛ "بد نصیب ہے وہ دھرتی جہاں ہیرو پیدا نہیں ہوتے۔ بوڑھا گلیلیو جواب دیتا ہے۔ "نہیں آندرے! بد نصیب ہے وہ دھرتی جسے ہر روز ایک ہیرو کی ضرورت پیش آتی ہے۔"

ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1936ء میں ریاست بھوپال میں پیدا ہوئے۔ والد محترم سکول میں استاد تھے۔ یہ گھرانہ 1952ء تک بھوپال ہی میں رہا۔ گویا ڈاکٹر صاحب کی پاکستان کو مراجعت 47ء کے ہنگام میں نہیں ہوئی۔ یہ وہ قافلہ تھا جو بہتر معاشی اور تعلیمی مواقع کے لیے پاکستان پہنچا۔

1961ء میں تعلیم کے لیے یورپ سدھارے۔ جرمنی، ہالینڈ اور بلجیئم میں دھاتی سائنس کی تعلیم پائی۔ وطن واپس آنے کی بجائے وہیں کے ہو رہے۔ جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والی، برطانوی پاسپورٹ کی حامل اور ہالینڈ میں مقیم خاتون سے رشتہ ازدواج استوار کیا۔ اس ذوق کے کچھ مرحلے برسوں بعد اسلام آباد میں بھی تکمیل کو پہنچے۔ 73-1972ء میں ہالینڈ کے ایٹمی ادارے FDO میں ملازم تھے۔ ابھی ہندوستان نے پوکھران میں 1974ء کا ایٹمی دھماکہ نہیں کیا تھا۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع نہیں ہوا تھا۔ مگر 35 برس کا پاکستانی نژاد قدیر خان ڈھیلے ڈھالے حفاظتی اقدامات سے فائدہ اٹھا کر ایک اجنبی زبان میں مختلف معلومات جمع کرتا رہتا تھا۔

پھر ایک روز وزیراعظم بھٹو کو خط لکھ کر ایٹمی پروگرام میں مدد کی پیشکش کی۔ شرط یہی کہ مجھے منصوبے کامدارالمہام بنایا جائے۔ مالیاتی جوابدہی نہ ہو۔ ادارہ جاتی ضابطے لاگو نہ ہوں اور پہلے سے کام کرنے والے سائنس دانوں کو بارہ پتھر باہر رکھا جائے۔

زمانہ بدل گیا تھا مگر ذہن کے نہاں خانے میں بھوپال کا دربار بسا تھا۔ دربار کی ثقافت سازش سے ترتیب پاتی ہے۔ یہاں ادارہ جاتی بندوبست کی بجائے قرب اقتدار اور شخصی جوڑ توڑ سے ترقی کی منزلیں ہاتھ آتی ہیں۔

دو برس بعد بھٹو صاحب کوٹ لکھپت جیل پہنچ گئے۔ ضیاالحق کی آمریت آئی۔ بھٹو صاحب کے کندھے سے کندھا ملانے کے خواہش مند ڈاکٹر قدیر خان نے دل و جان سے ضیا الحق کو گلے سے لگایا۔

خود ساختہ 'امیر المومنین' نے فوج کو اسلامی فوج قرار دیا تو ڈاکٹر قدیر کو بھی خیال پیدا ہوا کہ ایٹمی پروگرام کو مذہبی رنگ میں پیش کرنے سے سستی مقبولیت کا دروازہ کھولا جا سکتا ہے۔

قدیر خان کے تمدنی شعور کا یہ عالم تھا کہ انہیں بھٹو صاحب کی جمہوریت اور ضیاالحق کی آمریت پر زبان کھولنے کی کبھی توفیق نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر قدیر 20 ویں صدی کی آخری چوتھائی میں ان قوتوں کے انتہائی قریب تھے جن کا سیاسی نصب العین عسکری فتوحات اور تحکمانہ معاشرتی زندگی سے ترتیب پاتا ہے۔

ڈاکٹر قدیر شخصی اعتبار سے جاہ پسند اور نفسیاتی طور پر شہرت، عہدے اور دولت کے خواہش مند سمجھے جاتے ہیں۔ ایک سے زیادہ مرتبہ غیر محتاط طرز گفتار پر ضیاالحق سے ڈانٹ کھائی۔

کلدیپ نائر نے انہیں خود ستائی کا مریض قرار دیا۔ چاغی میں دھماکوں کی ذمہ داری پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کو ملی تو آرمی چیف سے جھگڑا کرنے پہنچ گئے۔

چاغی کے واقعات کی تفصیل موقع کے گواہ نذیر ناجی نے حال ہی میں لکھی ہے۔ ڈاکٹر قدیر خان جیسی پرفتوح ہستی پر انگشت نمائی کر کے نذیر ناجی نے بہت برا کیا۔ ڈاکٹر قدیر کو چاہیے کہ نذیر ناجی پر ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ کریں۔

ایک مقدمہ William Langewiesche پر بھی کریں جس نے قدیر خان پر پاک فوج کے خلاف خطوط لکھنے کا الزام رکھا۔

ڈاکٹر قدیر کو پرویز مشرف سے بہت گلے ہیں۔ انہوں نے قدیر صاحب کی دستار سر بازار اچھالی، انہیں ٹیلی ویژن پر کروڑوں لوگوں کے سامنے لرزتی ہوئی آواز میں معافی مانگنا پڑی، اگر وہ بیان دباؤ ڈال کر دلایا گیا تھا تو اب مشرف حراست میں ہیں۔ ہر زید، عمر، بکر ان کے خلاف عدالتوں میں پہنچ رہا ہے، حضرت قدیرخان بھی ہمت کریں، عدالت کا دروازاہ کھٹکھٹائیں اور اپنے نام نامی پر لگے دھبے صاف کر لیں۔

مذہبی سیاست کے علمبرداروں کی ڈاکٹرقدیر میں دلچسپی کا ایک خاص پس منظر ہے۔ فوج سے قربت، ہتھیار سازی سے شغف، سیاسی امور پر مذہبی لغت میں رائے زنی اور ہمسایہ ممالک سے ازلی دشمنی کی وکالت، مذہبی سیاست کا ہیرو ان عناصر ہی سے ترکیب پاتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کو دھاتی سائنس کے ماہر کی بجائے کسی اسلامی تاریخی ناول کا کردار بنا کر پیش کرنے سے عسکریت پسندی کی فضا برقراررکھی جا سکتی ہے۔

قدیر خاں کی پیشہ ورانہ مہارت سائنسی لیکن ذہنی اپج غیر سائنسی ہے، انھیں شہرت کی طلب اور بیان بازی کا شوق ہے، وہ اپنے پسندیدہ صحافیوں پر نوازشات کی بارش کر سکتے ہیں اور مغلیہ بادشاہوں کے مزار تعمیر کرانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

عہدہ صدارت کے لیے امیدواروں پر درجہ ثقاہت سے گری ہوئی زبان استعمال کر کے ڈاکٹر قدیر نے اپنے تمدنی شعور اور تہذیبی احساس کا پول کھولا ہے۔ حسب نسب تو ایک اساطیری مفروضہ ہے۔ اجداد کے کار ہائے نمایاں سے کوئی اعلیٰ یا کمتر قرار نہیں پاتا۔ تاجر تو انسانوں کی ضروریات پیدا کرتا ہے، اسلحہ بنانے والا موت اور تباہی کا کاروبار کرتا ہے۔

ڈاکٹر قدیر کو ایٹمی توانائی کے علمی اور تکنیکی زاویوں پر ایسا عبور ہوتا تو ایٹمی صلاحیت کو توانائی کے حصول کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ وہ دھاتی سائنس کے ماہر ہیں لیکن سائنسی طرز فکر سے انہیں واسطہ نہیں۔

سائنس کی کار گاہ میں ہر تجربہ علت و معلول کے معمولی اصولوں کے تابع ہوتا ہے۔ ڈاکٹر قدیر تو روحانیات کے شناور ہیں۔ چنانچہ جس تمدنی مسئلے پر منہ کھولا، جگ ہنسائی کا سامان کیا۔ سیاسی جماعت بنائی تو امیدوار ہی نہیں مل سکے۔

بھوپال تو اب قصہ پارینہ ہوا، پاکستان کے آئین میں جمہوریت کو واحد جائز طرز حکومت قرار دیا گیا ہے۔ یہاں دودھ دہی بیچنے والے اور مچھلی فروخت کرنے والے ہی نہیں، جوتے گانٹھنے اور کپڑے دھونے والے بھی انشااللہ حکمرانی کے مستحق ٹھہریں گے، یہاں راج کرے گی خلق خدا۔ حضرت قدیر خان ایسا کریں، اپنا حریری بستر لپیٹیں اورٹمبکٹو جا بسیں۔ ایک دکان ایٹمی رازوں کی کھولیں اور پیشانی پر سائن بورڈ لکھوائیں "Victoria's Atomic Secret", اللہ برکت دے گا۔

وجاہت مسعود
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (14) بند ہیں

nadia Jul 30, 2013 08:44pm
Loved the last line.... lol Magar aap nay sara mulba tau doctor sahib per hi dal diya, ye baat tau hazam nahi hosakti k ye sub army ki Marzi k baghair hota raha. Musharraf needed an escape goat, so he discarded him for the love of the West and the dear West was very aware of the fact but they closed their eyes since they needed Musharraf. Dirty games!
Israr Muhammad Khan Jul 30, 2013 11:32pm
بلکل انکو کم از کم اس بات کی صفائی تو کرنا چاہیے که ایٹمی راز کس نے بیرون ملک فروحت گئے انہوں نے یا کسی ادارے نے تاکہ ساکھ بحال هوجائے هندوستان سے آئے مهاجرون کی نسب وقوم پتہ کسی کو نہیں کچھ هندون کے ڈر اور اکثر بہتر مستقبل کیلئے یہاں آئے
Raheel Jul 30, 2013 11:46pm
Dear brother You just want to write wt you write you don't know. What the importantence of dr qadir people as of you don't know. The only man and only organization who deliver for nation. All other organization are zardari Thanks
Mirza taimur Jul 31, 2013 04:35am
admin aik bat ka jvb dyna huein misalien dyni to buht ati hy lekin sirf gairoon kki koi apno ki b misal dia kro ya phir munfqat chor do r saf bat kro Dr Khan ne jo kia ya jo ap ne likha be shak theek ho ga but ap ka andaz btata hy k ap ko koi zati ranj ho ga ya phir ap ka sir ghom gia hy apne apne ko muhazb kehne walo r Galileo ki example dyne walao kia Galileo aisi zuban istamal krta tha sauch to ye hy k bahasiat quam hum ne apne heros ko na sirf qatal kia balkey un ki izat ka jnaza b nikala r kaha k sub continent main to hero paida hi nai hote hero to bus magrab main paida hote hen aisa na likha krein k awam bjay dobara ap ka articale prehae hi na ap yehi bat achay treqe se b keh skte the
ilyasansari Jul 31, 2013 06:17am
ڈاکٹر قدیر سے اختلاف اپنی جگہ لیکن ایک قومی ہیرو کے خلاف عامیانہ تحریر قابل مذمت ہے
Fouad Khan Jul 31, 2013 10:52am
qadeer khan is not an expert in "dhaati science" but "dhaati engineering". Jis ko engineering aur science ka farq na pata ho us ka Qadeer Khan key bare mein baat karna aisa hi hai jaisey maindak chaand ki taraf munh kar ke dakar lay. Besides, itni sariyal urdu mein ne apni zindagi mein nahin parhi.
Abrar Baig Jul 31, 2013 01:25pm
jahan aamir liaquet kay program ki rating sub say ziada ho wahaan isss taray kay kay non sense piece of art hee milay ga.example quoted are Gen Zia .kuldeep nayer aur nazeer naji jinki aapni credibility zero hai. agar iss main neighbouring country ki example quote kar daytay jahan Dr Kalam ko president banaya gaya.
khan Jul 31, 2013 05:10pm
I must say its a paid post..........
Tahir Jul 31, 2013 08:32pm
well done sir
Syed Abdul Wahab Gilani Aug 01, 2013 07:03am
Reblogged this on I'm No Superman! and commented: Wonderful Piece. Worth Reading by Mr. Wajahat Masood
Ali Mohsin Goraya Aug 01, 2013 02:22pm
bilkul baja faraya aap nay. be-izti har lain... lekin tehzeeb bhi aakhir koi cheez hoti hai.
عمران خان Aug 02, 2013 04:10am
ٹھاکر جرا ای بتا کتنا پیسا ملا اس لکھای کا ارے اگر او بد دماغ، چور اور بد تمیز ھے تو آپ کی تہذیب کہاں گیء
عبدالباسط Aug 02, 2013 04:43pm
خدارا اپنے ملک کے عظیم سائنسدان پر کیچڑ نہ اچھالیں، شکریہ
شانزے Aug 03, 2013 06:47am
پاکستانی قوم نے ھمیشہ اپنے ھیروز کی بےقدری کی ھے رایٹر کی ذھنی پسماندگی پہ بہت افسوس ھے

کارٹون

کارٹون : 13 دسمبر 2025
کارٹون : 12 دسمبر 2025