• KHI: Zuhr 12:39pm Asr 5:19pm
  • LHR: Zuhr 12:09pm Asr 5:00pm
  • ISB: Zuhr 12:14pm Asr 5:09pm
  • KHI: Zuhr 12:39pm Asr 5:19pm
  • LHR: Zuhr 12:09pm Asr 5:00pm
  • ISB: Zuhr 12:14pm Asr 5:09pm
شائع July 15, 2020 اپ ڈیٹ August 11, 2020

کراچی کی ’نمائش چورنگی‘ کا نام ’نمائش چورنگی’ کیسے پڑا؟

اختر بلوچ

شہرِ کراچی میں یوں تو ملیر سے لے کر ٹاور تک اور نئی کراچی سے کیماڑی تک شاید ہی ایسی کوئی عوامی ٹرانسپورٹ ہو جو بندر روڈ سے نہ گزرتی ہو۔

بندر روڈ جو اب ایم اے جناح روڈ ہے، اس پر کئی اسٹاپ آتے ہیں جو مختلف عوامی ناموں سے مشہور و معروف ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ سب سے مقبول چوراہے کا نام 'نمائش چورنگی' ہے۔

کراچی کے قدیم باسی اسے 'پرانی نمائش' بھی کہتے ہیں۔ اگر اس چورنگی کے اطراف میں موجود عمارتوں کا جائزہ لیا جائے تو سب سے زیادہ مشہور مزارِ قائد ہے یعنی کہ بانی پاکستان محمد علی جناح کی آخری آرام گاہ۔ یہاں ایک اور تاریخی مقام محفل شاہ خراساں بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں ایک قدیم بنگلے میں قائدِاعظم اکیڈمی کا دفتر بھی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس چوراہے سے گزرنے والی ہر بس، منی بس یا کسی بھی پبلک ٹرانسپورٹ کا کنڈیکٹر جب اس چوراہے پر پہنچے تو بلند آواز میں کہتا ہے 'نمائش والے! نمائش والے!' وہ نہ تو مزارِ قائد کا نام لیتا ہے اور نہ ہی کسی اور تاریخی عمارت نام۔ تو آخر ایسا کیوں ہے؟

کراچی میں منعقدہ آل انڈیا صنعتی نمائش 1939ء کے موقعے پر شائع ہونے والے کتابچے میں موجود کراچی کی مشہور عمارتوں اور مقامات کی تصاویر

یہ سوال بڑے عرصے سے ہمارے ذہن میں تھا۔ کراچی کیا پاکستان میں بسنے والا شاید ہی کوئی ایسا شہری ایسا ہو جس نے نمائش چورنگی کا نام نہ سنا ہو۔ اس کی ایک بڑی وجہ اس چورنگی پر ہونے والے احتجاجی دھرنے، مظاہرے اور بھوک ہڑتالیں ہیں۔

دھرنے، مظاہرے اور احتجاج تو کراچی پریس کلب پر بھی ہوتے ہیں، اور یہاں ہونے والی سرگرمیاں ایک یا 2 روز نہیں بلکہ بعض اوقات تو مہینوں پر محیط ہوتی ہیں۔ ویسے یہ مظاہرے پریس کلب پر کیوں ہوتے ہیں یہ ایک الگ موضوع ہے، اس کا ذکر پھر کبھی لیکن یہ یاد رہے کہ پریس کلب پر ہونے والے مظاہروں سے صرف صدر اور شارع فیصل کا علاقہ متاثر ہوتا تھا۔ بدقسمتی سے سیاسی و مذہبی جماعتوں میں شامل ان کے میڈیا سیل نے انہیں مشورہ دیا کہ اگر نمائش چورنگی پر احتجاج کیا جائے تو اس کا مطلب پورا کراچی بند، یہ بات درست نکلی اور اب ایسے تمام مظاہرے نمائش چورنگی پر ہوتے ہیں۔

یہاں مظاہرے کے لیے کوئی بہت زیادہ افرادی قوت کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، فقط 40 سے 50 لوگ کافی ہیں۔ ویسے آپ چاہیں تو سیکڑوں لوگ بھی اکٹھے کرسکتے ہیں لیکن جب کام کم لوگوں سے ہورہا ہو تو سیکڑوں کو جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

کراچی میں منعقدہ آل انڈیا صنعتی نمائش 1939ء کے موقعے پر شائع ہونے والے کتابچے میں موجود کراچی کی مشہور عمارتوں اور مقامات کی تصاویر

ہمارے نوجوان صحافی دوست بلال ظفر سولنگی سے اس بارے میں بات ہو رہی تھی تو وہ بولے ہوسکتا ہے کہ اس مقام پر کوئی نمائش لگی ہو، کوئی تھیٹر ہو، یا پھر کوئی سنیما رہا ہو۔

ان کی بات تو ٹھیک تھی لیکن اس مقام پر ایسی کسی چیز کا کوئی سراغ نہیں تھا۔ لیکن پھر یہ نام آخر کیوں پڑا، ہم نے اس حوالے سے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔

ایک روز پاکستان انسٹیٹوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز (پی آئی آئی اے) لائبریری میں ڈان اخبار کی پرانی فائلوں کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک خبر پر نظر پڑی جس کی سرخی کچھ یوں تھی International Fair Opens Today۔ اس خبر کے مطابق یہ نمائش 20 نومبر تک جاری رہی تھی۔

— ڈان آرکائیوز
— ڈان آرکائیوز

اس کا افتتاح وزیرِ تجارت وحید الزماں نے کیا تھا۔ یہ نمائش کنٹری کلب روڈ پر ہوئی تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کنٹری کلب روڈ کہاں ہے۔ اس حوالے سے ہم نے استاد ماہرِ تعلیم ڈاکٹر معین الدین عقیل سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی روڈ ہی دراصل کنٹری کلب روڈ ہے۔

دوسرا معاملہ یہ تھا کہ اگر کنٹری کلب روڈ یہ ہے تو نمائش کہاں ہوتی تھی؟ قائدِاعظم اکیڈمی کے چیئرمین رضی حیدر عابدی نے بتایا کہ یہ بالکل وہی جگہ ہے جہاں آج ایکسپو سینٹر قائم ہے۔ وہ اپنے بچپن میں وہاں گئے تھے۔ روزنامہ ڈان کی خبر کے مطابق اس نمائش کی نمایاں بات ہالینڈ کی کمپنی فلپس کی جانب سے 200 ٹیلی وژن کراچی کے مختلف کلبوں، تنظیموں اور ہوٹلوں میں تقسیم کیا جانا تھا۔

— ڈان آرکائیوز
— ڈان آرکائیوز

اس وقت تک دوسری صنعتی نمائش کے لیے یکم مارچ 1952ء سے 16 اپریل کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔ بعدازاں اس کے افتتاح کی تاریخ بڑھا دی گئی۔

لیکن اب دوبارہ آتے ہیں اس بات پر کہ جب قیامِ پاکستان کے بعد صنعتی نمائشیں جو 1950ء اور 1952ء میں ہوئیں ان کا مقام کنٹری کلب روڈ پر تھا، اور یہ وہی جگہ ہے جہاں اب ایکسپو سینٹر قائم ہے، تو پھر نمائش چورنگی کا نام نمائش کیوں ہے؟

یہ عقدہ ہم پر اس وقت کھلا جب ریگل پر پرانی کتابوں کے تاجر یوسف بھائی نے ہمیں کہا کہ پیر کے روز ان کے گودام لائنز ایریا میں ان سے ملوں۔ میں نے کہا خیریت تو ہے جس پر انہوں نے کہا تمہارے کام کی ایک چیز ہاتھ لگی ہے، قیمت تم دے نہیں پاؤگے فوٹو کاپی کروالینا۔ خیر ہم اگلے روز یوسف بھائی کے گودام پہنچے اور انہوں نے کتاب نہیں بلکہ ایک کتابچہ دیا جو 1939ء میں کراچی میونسپل کارپوریشن کی جانب سے آل انڈیا صنعتی نمائش کے بارے میں تھا۔

ہمیں اندر سے خاصی مایوسی ہوئی لیکن ہم نے ایسا کوئی تاثر نہیں دیا۔ کتابچہ لے کر اردو بازار پہنچے اور فوٹو کاپی کروا کر کتابچہ دوبارہ یوسف بھائی کے حوالے کردیا۔

1939ء میں کراچی میونسپل کارپوریشن کی جانب سے آل انڈیا صنعتی نمائش کے بارے میں کتابچہ
1939ء میں کراچی میونسپل کارپوریشن کی جانب سے آل انڈیا صنعتی نمائش کے بارے میں کتابچہ

کافی دنوں بعد کتاب پر سرسری نگاہ ڈالی تو کتاب پر A-3 سائز کا نقشہ دیکھا۔ یہ نقشہ اس مقام کا تھا جہاں صنعتی نمائش منعقد ہوئی تھی اور یہ مقام بالکل وہی جگہ ہے جہاں اس وقت مزارِ قائد کے نقشے میں سماعت اور گویائی سے محروم بچوں کے اسکول آئی دار یو (IDARIEU) کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔

کتابچے میں مختلف اکابرین کے پیغامات بھی شامل ہیں۔ اس وقت کراچی کے میئر حاتم علوی کے پیغام میں لکھا ہے کہ کراچی میں پراپرٹی ٹیکس 14 فیصد ہے جبکہ بمبئی میں 10فیصد اضافے سے یہ دوگنا ہوجائے گا۔ بمبئی کے کاروباری حلقوں کو کھلی دعوت ہے کہ وہ کراچی پر نظر ڈالیں۔ وہ بجا طور پر کچھ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ بمبئی سے وزراء جن کا تعلق شہری علاقوں سے ہے، جب وہ ٹیکسوں میں 10فیصد اضافی بوجھ ڈال سکتے ہیں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ سندھ اسمبلی کے اراکین جو زیادہ تر دیہی مفادات کی ترجمانی کرتے ہیں ان کا عمل نئے قائم شدہ دارالحکومت کے ساتھ مختلف ہوگا۔

صنعتی نمائش کی ایگزیٹو کمیٹی کے چند ممبران
صنعتی نمائش کی ایگزیٹو کمیٹی کے چند ممبران

صنعتی نمائش کا لے آؤٹ پلان
صنعتی نمائش کا لے آؤٹ پلان

یعنی کہ آج سے 80 برس پہلے بھی سندھ میں دیہی اور شہری تضاد موجود تھا۔ خیر نمائش کے کتابچے میں مختلف کمپنیوں کے اشتہارات میں موجود ایک منفرد اشتہار چندو حلوائی کا بھی ہے۔ پنجابی چندو حلوائی تقسیمِ ہند کے بعد ہندوستان منتقل ہوگئے تھے، ان کے خانوادے کی برانچیں ہندوستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں موجود ہیں۔

نمائش کے کتابچے میں مختلف کمپنیوں کے اشتہارات میں موجود ایک منفرد اشتہار  چندو حلوائی کا بھی ہے
نمائش کے کتابچے میں مختلف کمپنیوں کے اشتہارات میں موجود ایک منفرد اشتہار چندو حلوائی کا بھی ہے

کتابچے میں شامل مختلف اشتہارات
کتابچے میں شامل مختلف اشتہارات

نمائش کے اسپیشل افسر ٹی جے بھوجوانی اپنے مضمون میں چندو حلوائی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ہوٹل اور ریسٹورینٹ کے ساتھ ایک اسٹال پر چندو حلوائی کی مٹھائی خصوصاً بادامی حلوہ دستیاب ہے جو 'میرٹھ' کے کاریگر تیار کرتے ہیں۔ اب اس کا انحصار میلے میں آنے والوں پر ہے کہ وہ حلوہ چکھنے کے بعد طے کریں کہ ہوٹلوں پر ملنے والی اشیاء زیادہ لذیذ ہیں یا چندو کا حلوہ۔ چندو حلوائی کا وہ حلوہ اب بھی بھارت میں کراچی حلوہ کے نام سے مشہور و معروف ہے۔

اب چونکہ جناح صاحب کے انتقال کے بعد ان کی تدفین کے لیے اسی مقام کا انتخاب کیا گیا تھا اس لیے اس کے بعد صنعتی نمائشوں کے لیے مقام تبدیل کردیا گیا۔ گمان غالب ہے کہ 1939ء کی آل انڈیا صنعتی نمائش کے بعد اس علاقے کا نام نمائش پڑ گیا تھا۔


اختر بلوچ سینیئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (21) بند ہیں

Murad Ali janjua Jul 15, 2020 06:51pm
Thanks alot Akhtar sahb, time to time apni tehqeeq sy hamary elm main ezafa karty rehty hain
یمین الاسلام زبیری Jul 15, 2020 08:56pm
بہت خوب، ایک بات یہ ہے کہ ڈان کے تراشوں کے سن نہیں لکھے۔
Sadia Baloch Jul 15, 2020 10:15pm
Bohot dilchasp maloomaat Kisi achy likhari khas kar jo tarikh k hawaly se mozoosst zabt e tehrir main laey us ka ehem hissa hawaly or tarikhi cheezon k sath mazmoon ko paish karna hy Baqi logon ki yaadasht ya sina ba sina qisy kahaniyan apni jagha or un se bhi inkar mumkin nahi Behtareen mazmoon Ye halwai k zikr ne mazees maloomat ki taraf raghbat bardha di hy Thnks dear
Polaris Jul 16, 2020 12:16am
Thanks for another nice article on KARACHI. Please keep up the good work.
Shazia Jul 16, 2020 05:39am
Bahut achaa article he ,chando halwai ke barey me perh kr yaad aaya ke hamarey barey bataty thae ke , karachi ke mashoor bundoo khan kabab ke koi barey numaish pr kabaaboon ka stall lagatey thae or wahan se hi un ki shuhret shru hoi thi . Wo numaish jis ka barey zikr krtey thae wo ye hi ho gi jo iss kitaab me batai gai he
Talib Hussain Jul 16, 2020 08:27am
Sir you are a great social researcher of our country, extremely interesting and send me virtually in the past before my birth
Talib Hussain Jul 16, 2020 08:28am
great
Sameer Jul 16, 2020 11:13am
Nice article, Karachi was an multicultural, industrial, business hub and a beautiful and cultured city. Sharif and Zardari has ruined it. Still they are untouchables.
Saeed jan Baloch Jul 16, 2020 12:07pm
اختر بلوچ نے ہمیشہ کی طرح کراچی والوں کو ان کے شہر کے بارے میں ایک اور تاریخی موضوع کا انتخاب کرکے پھر ثابت کردیا ہے وہ نہیں بلکہ اختر بلوچ ہی حقیقی کرانچی والا ہیں
ناصر سجاد Jul 16, 2020 12:14pm
بہت خوب ، آپ اتنی محنت کرتے ہیں ماشاللہ ۔ میں نے اب تک آپکی کتابیں نہیں پڑھیں ہیں لیکن جیسے ہی میری پڑھنے کی گاڑی روانی پکڑے گی تو سب سے پہلے میں آپکی کتابیں جو کراچی پر ہیں پڑھوں گا ۔ میری خواہش ہے تربت شہر کی تاریخ اسی طرح لکھی جائے ۔ میں نہ آپکی طرح لکھاری ہوں نہ ہی محقق۔
اختر سومرو Akhtar soomro Jul 16, 2020 01:09pm
ever since I knew Akhtar Balouch Sahab’ he is the one who is not only documenting and producing the well researched pieces about the once glorious city called Karachi and about its people or otherwise the city which lost it’s grandeur past... which is also impossible without going through the dusty archives, libraries office records finding and meeting people who knew about in one hand but also from roadside book stalls where precious books have no space from the feet of the knowledge seekers and only picked by those who have thirst of learning. He has keen eye to convey the very details of ordinaries which engages readers and gives them feelings of the places he discovered or narrates... Its my privilege and honour to be amongst the friends and people he knew and always available for them.... wishing Balouch Sahab every good thing’ always
Jawwad Jul 16, 2020 01:11pm
Splendid research efforts Mr. Akhter Baloch. I wish to meet you I do have interests.
Jawwad Jul 16, 2020 01:12pm
.Very nice Akhter Baloch sahib I wish to meet you I do share same passion.
omer Jul 16, 2020 02:09pm
excelent
nadeem Jul 16, 2020 04:38pm
Zabardast, bohat acha aour tahqiqi mazboon , musanif shehri aour dehi sind ka zaroor kartay hain,
SALMAN TARIQ Jul 16, 2020 05:02pm
Very nice article. Proud to be a part of Karachi. itni rich history hony k bawajood hum itna pechy q chaly gae ?
SYED YOUSUF ALI Jul 16, 2020 07:04pm
بہت زبردست اختر بلوچ صاحب اب مستند تحقیق کے حوالے سے ایک منفرد شناخت بنا چکے ہیں۔ بہت مبارک ہو جناب
شکیل انجم لاشاری Jul 16, 2020 10:28pm
اختر بلوچ صاحب نے نمائش چورنگی کے نام کے متعلق بہترین حوالوں کے ساتھ حقائق بیان کئے ۔ یہ ہی ان کا خاصہ ھے کہ ان کی تحقیق جاندار ھوتی ھے
Razzak Abro Jul 17, 2020 09:35am
Its an informative write up about Karachi. Hope Akhtar Baloch will continue explore the city.
Kashif Hafeez Jul 17, 2020 03:41pm
V good article on numaish Karachi. Research is good Akhter sb. Keep it up
Asif jawed Jul 17, 2020 04:05pm
Bismillahir... Assalam o Aliakum, Dear Editor Dawn/Akhtar Sahib, Your column is the one of best column on Karachi History for history students like me & all I am proud of you & I think Daily Dawn newspaper also proud on you. Asif Jawed, best wishes from Piscataway New Jersey USA