اسلام آباد میں 108 سرکاری عمارتیں غیر مجاز ہیں، رپورٹ

اپ ڈیٹ 29 جولائ 2020
سی ڈی اے کی لاپروائی کی وجہ سے  اسلام آباد میں بڑی تعداد میں غیر مجاز نجی کمرشل عمارتیں موجود  ہیں — فائل فوٹو:ڈان
سی ڈی اے کی لاپروائی کی وجہ سے اسلام آباد میں بڑی تعداد میں غیر مجاز نجی کمرشل عمارتیں موجود ہیں — فائل فوٹو:ڈان

اسلام آباد: حال ہی میں وفاقی کابینہ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے ) کی ناقص ریگولیٹری کارکردگی کے باعث وفاقی دارالحکومت میں تعمیر کردہ 108 سرکاری عمارتیں غیرمجاز ہیں۔

وفاقی کابینہ کو پیش کی گئی سمری-کم-رپورٹ کے مطابق منظوری کے بغیر تعمیر کرنا خلاف ورزی ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کو جرمانے کا سامنا ہوتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اگر کسی سرکاری محکمے میں اگر کسی ڈیزائن میں کوئی خرابی پیش آتی ہے تو اس سے حکومت کو مالی نقصان بھی ہوگا۔

تاہم سی ڈی اے کی لاپرواہی کی وجہ سے، اسلام آباد میں بڑی تعداد میں غیر مجاز نجی کمرشل عمارتیں موجود ہیں۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد: سی ڈی اے کے نئے ضمنی قوانین سے غیرقانونی عمارتوں کے مالکان کو فائدہ ہوگا

رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں ای-11 میں کثیر منزلہ بلند و بالا اپارٹمنٹس سی ڈی اے کی منظوری کے بغیر تعمیر کیے گئے۔

اسی طرح H-10 اور دارالحکومت کے دیہی علاقوں بشمول بھارہ کہو، روات، ترنول ،ترامڑی میں غیر مجاز عمارتیں تعمیر کی گئیں۔

علاوہ ازیں اکثر ہاؤسنگ سوسائٹیز میں، عمارتوں کے منصوبوں کی منظوری کے بغیر ان کی تعمیر کی گئی۔

1960 کے آرڈیننس کے تحت سی ڈی اے پر پورے وفاقی دارالحکومت میں عمارتیں ریگولیٹ کرنے کی ذمہ داری عائد لیکن شہری ایجنسی نے خود کو صرف ان شعبوں تک ہی محدود رکھا جس کے نتیجے میں غیر منظور شدہ عمارتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔

تاہم اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ دارالحکومت میں 108 سرکاری عمارتیں بھی غیر منظور شدہ ہیں جو بطور ریگولیٹر سی ڈی اے کی کارکردگی پر سوال ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ غیر منظور شدہ اور غیر مجاز عمارتیں، بلڈنگ پلانز کی منظوری کے بغیر تعمیر کی گئیں لیکن بہت کم سرکاری محکموں نے سی ڈی اے سے تعمیر کی منظوری حاصل کی۔

رپورٹ کے مطابق مذکورہ سرکاری عمارتیں سی ڈی اے کی منظوری کے بغیر تعمیر کی گئیں، جن میں انسٹی ٹیوٹ آف اسٹیٹکس اسٹڈیز، فارن سروسز اکیڈمی، پاک برونائی فرینڈشپ ہال، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروسز، اے جے کے کونسل لاجز، جموں کشمیر ہاؤس، گلگت بلتستان ہاؤس اور سندھ ہاؤس شامل ہیں۔

علاوہ ازیں غیرقانونی عمارتوں میں پلاٹ نمبر 13 اور 13-اے پر پی ٹی ڈی سی کی عمارت، قائداعظم یونیورسٹی، انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) آفس، پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ، پی اے آر سی، این آئی آر سی، آل پاکستان بدھسٹ سوسائٹی، دفتر خارجہ لاج، پیٹرولیم ہاؤس، فیڈرل فلڈ کمیشن، واپڈا ہاؤس، پولی کلینک، اسٹاف ویلفیئر آرگنائزیشن سینٹر کا انتظامی بلاک، جی-6 لائبریری، جی -6 میں جی پی او شامل ہیں۔

غیرقانونی عمارتوں میں آبپارہ پولیس اسٹیشن، ورکنگ ویمن ہاسٹل، ورکنگ ویمن اسٹاف ویلفیئر ہاسٹل، سرائے عام، جی 7 میں لیسکو کے 2 دفاتر، پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان، پی ایچ اے فلیٹس، سینئر اکاؤنٹنٹ آفیسرز ٹیلی کام بلڈنگ، اے ڈی بی پی ہیڈ آفس بلڈنگ، ماہر معاشیات کی اشاعت،جی ۔7 میں پوسٹ آفس، جی-7 میں پی ٹی سی ایل آفس، ورکنگ ویمن ہاسٹل جی ۔7، پی ایچ اے بلڈنگ جی ۔7، نیشنل پریس ٹرسٹ بلڈنگ، پاکستان مین پاور انسٹی ٹیوٹ بلڈنگ، پمز، واپڈا سہولت مرکز ، ڈیوٹی فری شاپ بلڈنگ اور نیوکلیئر میڈیکل سنٹر کی عمارت شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بنی گالا تجاوزات کیس: اسلام آباد کی حالت کراچی اور لاہور سے بدتر ہے، سپریم کورٹ

رپورٹ میں کہا گیا کہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی عمارت، پاسپورٹ آفس کی عمارت، جی -9 میں واپڈا گرڈ اسٹیشن، نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کی عمارت، ایف آئی اے کا دفتر، سیڈز ہیلتھ لیبارٹری، فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن(ایف ڈی ای)، ایس ایس پی آفس، لیڈیز کلب، جی۔ 10 میں سی ڈی اے انکوائری آفس، جی -10 میں پاکستان انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کی عمارت بھی غیر مجاز ہیں۔

اس کے ساتھ ہی جی-10 میں نادرا کی عمارت، انٹرنیشنل بزنس سینٹر بلڈنگ، واٹر ٹیسٹ لیبارٹری بلڈنگ، کسٹمز اینڈ کسٹمز انٹیلی جنس بلڈنگ، جی-10 میں سروے آف پاکستان، جی-11 میں پولیس اسٹیشن، ایچ-8 میں محکمہ موسمیات کی عمارت، علامہ اقبال یونیورسٹی، نسٹ، کامسیٹس یونیورسٹی،این ڈی ایم اے، ایچ-9 میں ایکسائز آفس، جوڈیشل اکیڈمی، سہالہ میں اسپارکو کی عمارت، نیسکام ہسپتال اور ایچ-16 میں ماڈل جیل بھی غیر مجاز ہیں۔

اس حوالے سے جب ترجمان سی ڈی اے مظہر حسین سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق تمام سرکاری اور نجی عمارتوں کو سی ڈی اے سے بلڈنگ پلانز کی منظوری حاصل کرنی چاہیے تھی۔

انہوں نے کہا کہ نجی عمارتوں کے علاوہ کئی سرکاری عمارتیں بلڈنگ پلانز کی منظوری کے بغیر تعمیر کی گئیں، ہم قانون کے مطابق ان تمام عمارتوں سے نمٹیں گے۔


یہ خبر 29 جولائی، 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں