پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ چاروں بلز ایک ساتھ منظور کروانا ہماری نہیں بلکہ حکومت کی خواہش تھی۔

اسلام آباد میں دیگر اپوزیشن رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے بتایا کہ اقوام متحدہ ترمیمی ایکٹ اور انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم متفقہ طور پر منظور کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان ترامیم کے حوالے سے گزشتہ چند روز سے قومی اسمبلی اور پریس کانفرنسز میں حکومتی وزرا جو باتیں کررہے ہیں ان کے حقائق بیان کرنا چاہتا ہوں تاکہ پاکستان کے عوام کو علم ہو کہ حقیقت کیا ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آج سے 10 روز پہلے ہم سے حکومت نے رابطہ کیا اور کمیٹی کے اجلاس میں کہا تھا کہ 4 بلز منظور کروانا چاہتے پیں، ان میں سے 3 بلز ہیں جو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے مطالبات کو پورا کرتے ہیں جبکہ ایک بل قومی احتساب بیورو (نیب) سے متعلق ہے۔

مزید پڑھیں: ایف اے ٹی ایف سے متعلق دونوں بلز سینیٹ سے بھی منظور

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ حکومت نے بل پیش کیے اور خواہش کا اظہار کیا کہ ہم چاروں بلز ایک ساتھ منظور کروانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بل پر بحث شروع ہوئی، آج (30 جولائی کو) سلامتی کونسل سے متعلق جو منظور ہوا اس میں ہم نے 4 الفاظ کی ترمیم کی جسے حکومت نے قبل کیا، اس کے علاوہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی ترمیم میں ہم نے پرسن کی تعریف پر سوال اٹھایا ہوا تھا اور وہ بات بھی منظور ہوئی تھی کہ پرسن کی تعریف پاکستان کے دیگر قوانین کے مطابق ہوگی۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ان 2 بلز کا فیصلہ 20 سے 25 منٹس میں ہوگیا، اکنامک ٹیرارزم سے متعلق تیسرے بل پر ہم نے سوال کیا تھا کہ یہ بل تکنیکی طور پر غلط ہیں، اس کے الفاظ بھی غلط ہیں اور یہ قانونی طور پر نافذ نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سے زیادہ خوفناک بل میں نے اپنی 32 سال کی پارلیمانی زندگی میں نہیں دیکھا، اس بل میں اختیار دیا جارہا تھا کہ کسی پاکستانی کو 90 دن کے لیے لاپتا کردیں اور پھر مزید 90 دن رکھ لیں، اس شخص کو جہاں مرضی رکھیں وہ کسی عدالت میں نہیں جاسکتا جو بھارت، مقبوضہ کشمیر میں ہورہا ہے یہ اس سے بھی زیادہ خوفناک بل تھا۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جو کمیٹی اس حوالے سے فیصلہ کررہی تھی کہ کس کو اٹھانا ہے اور کیسے اٹھانا ہے، اس کے لیے ایک کمیٹی وفاقی اور دوسری صوبائی سطح پر تھی جس میں پاکستان کے حساس ترین اداروں کے افسران کو شامل کیا گیا تھا، جس پر ہم نے کہا کہ آپ میں کوئی عقل اور سمجھ ہے کہ کیا کررہے ہیں جس کے بعد حکومت اس بل سے دستبردار ہوگئی۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم نے سوال کیا کہ اس بل کا ایف اے ٹی ایف سے کیا تعلق تھا جس پر جواب دیا گیا کہ غلطی ہوگئی اس کا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سے کوئی تعلق نہیں۔

شاہد خاقان عباسی نےکہا کہ ہم نے پوچھا تھا کہ کون سا ایسا ملک ہے جس نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے مطالبات پورا کرنے کے لیے ایسا بل پاس کیا جس پر کوئی بات نہیں کرسکے۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن نے نیب آرڈیننس میں 35 ترامیم تجویز کیں، جو ممکن نہیں، وزیر خارجہ

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے سوال پر یہ جواب بھی نہیں دیا گیا کہ بل وزیر قانون نے بنایا تھا یا کسی اور نے اور ایف اے ٹی ایف کے لیے جو ضروری بلز تھے وہ 20 سے 25 منٹس میں منظور ہوگئے تھے۔

نیب سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت ایک مسودہ لائی، ہم نے کہا کہ یہ مسودہ تو نیب میں پھنسے اور پھنسنے والے حکومتی افراد کو این آر او دینے کے لیے ہے اور قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کو بلیک میل کرنے کے لیے ان کی مدت میں توسیع بلکہ تاحیات توسیع کی گنجائش بھی دی تھی۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت نے اسے تبدیل کرکے دوسرا بل دیا جس میں چیئرمین نیب کی مدت میں توسیع کی گنجائش نکال دی اور اس میں ایک شق شامل کی گئی جو پاکستان کے قانونِ شہادت سے متصادم ہے اور وہ یہ تھی کہ نیب جو ریفرنس دائر کرے گا اور اگر 14دن میں اس کے کسی صفحے یا شق پر اعتراض نہیں کیا گیا تو وہ آپ کے خلاف قبول ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پھر حکومت اور اپوزیشن کی غیر رسمی کمیٹی کی جانب سے قومی احتساب آرڈیننس پر شق وار بات چیت کا فیصلہ کیا گیا، اس کمیٹی میں وزیر دفاع، وزیر خارجہ اور وزیر قانون سمیت 2 مشیر شامل تھے، جبکہ پیپلزپارٹی کی طرف سے نوید قمر، شیری رحمٰن اور فاروق نائیک اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے میں خود، رانا ثنااللہ اور خواجہ آصف شامل تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں