پی ٹی آئی حکومت کا دوسرا سال پچھلے برس سے زیادہ کٹھن

تحریک انصاف کے تنازعات سے بھرپور 2 سال

تحریر: سمیر سلیم

وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت اپنے 2 سال مکمل کر چکی ہے۔

حکومت اگرچہ اس عرصے میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی، کئی ممالک سے تجارتی تعلقات مستحکم کرنے، سرمایہ کاری میں بہتری، شعبہ ٹیکس میں اصلاحات اور ٹیکس کا نیا نظام متعارف کرانے میں پیشرفت کرنے، کورونا وائرس کے خلاف مؤثر حکمت عملی کے تحت کامیابی حاصل کرنے اور کاروبار میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے منظم اور مؤثر حکمت عملی بنانے میں کامیاب رہی۔

تاہم اسی عرصے میں ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا اور بنیادی اشیائے ضروریات کی قیمتوں پر قابو نہیں پایا جاسکا، اس کے علاوہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے حکومت میں آنے کے بعد کئی مواقع پر انتخابات سے قبل اپنائے گئے مؤقف سے 'یو ٹرن' لیا، جس سے اس کے 'تبدیلی' کے دعوے اپنی اہمیت کھو بیٹھے اور عوام میں مقبولیت کا گراف گرنے لگا۔

ان وجوہات نے اپوزیشن جماعتوں کو، جو شروع سے ہی پی ٹی آئی پر عوام کا ووٹ چوری کرکے اقتدار میں آنے کا الزام لگا رہی ہیں، تنقید کے بھرپور مواقع فراہم کیے اور متعدد مواقع پر خود حکومتی اقدامات اور بیانات نے تنازعات کو جنم دیا۔

حکومت و نیب کا 'گٹھ جوڑ' اور 'سیاسی انتقام' کا الزام

پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان بارہا ملک سے کرپشن و لوٹ کھسوٹ کے خاتمے اور کرپٹ سیاستدانوں کو جیلوں کے پیچھے ڈالنے کا اعلان کرتے رہے۔

تاہم ان کی جماعت کے اقتدار میں آنے کے بعد نیب کی کارروائیوں میں تیزی ضرور آئی لیکن یہ کارروائیاں 'انتقامی سیاست' کے الزام میں بدل گئیں کیونکہ احتساب ادارے کے شکنجے میں زیادہ تر اپوزیشن رہنما بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت آئی، یوں نیب کی طرف سے یکطرفہ کارروائی کا تاثر ملا۔

تحریک انصاف کے حکومت میں آنے کے چند ماہ بعد ہی ایک خطاب میں خود چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے یہ کہا تھا کہ 'حکومتی وزرا اور عہدیداران کے خلاف کارروائی ہوئی تو حکومت گر جائے گی'۔

— فوٹو: نیب ویب سائٹ
— فوٹو: نیب ویب سائٹ

ایسا نہیں ہے کہ نیب نے حکمران جماعت کے قانون سازوں اور وزرا پر بالکل ہاتھ نہیں ڈالا، عمران خان کے قریبی سمجھے جانے والے اور پنجاب کی اہم وزارت کا قلمدان رکھنے والے علیم خان سمیت دیگر وفاقی و صوبائی وزرا کے خلاف بھی نیب حرکت میں آئی، لیکن اس میں وہ پھرتی نظر نہیں آئی جو اپوزیشن اراکین کے خلاف ادارہ ظاہر کرتا رہا۔

نیب کی کارروائیوں اور بلاثبوت گرفتاریوں پر اعلیٰ عدالتوں اور سپریم کورٹ کے معزز ججز بھی کئی بار نالاں اور برہم نظر آئے اور حال ہی میں عدالت عظمیٰ نے چیئرمین نیب کی کارکردگی پر سنجیدہ سوالات اٹھائے، جس کے بعد اپوزیشن کی جانب سے ان کے استعفے کے لیے دباؤ بڑھتا جارہا ہے لیکن جاوید اقبال 'فیس نہیں کیس' کی گردان کرتے ہوئے کسی مصلحت کے بغیر ادارے کی 'غیر جانبدارانہ' کارروائیاں جاری رکھنے کا عزم ظاہر کرتے نظر آرہے ہیں۔

دسمبر 2019 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ملک کے احتساب قانون، قومی احتساب آرڈیننس 1999 میں سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور کاروباری برادری کو فائدہ پہنچانے کے لیے غیر معمولی تبدیلیاں کردیں اور قومی احتساب (ترمیمی) آرڈیننس 2019 کے ذریعے احتساب بیورو کو غیر مؤثر بنادیا تھا۔

وفاقی حکومت کی جانب سے اس اقدام کو ناقدین نے کاروباری شخصیات، بیوروکریٹس اور سیاست دانوں کے لیے 'تمام این آر اوز کی ماں' قرار دیا تھا۔

اپوزیشن جماعتوں نے بھی شروع میں حکومت کے اس فیصلے کو تحریک انصاف کا یوٹرن قرار دیتے ہوئے کافی تنقید کی لیکن بعد میں نہ صرف حکومت سے مذاکرات کے لیے تیار ہوئے بلکہ چند سیاست دانوں نے فائدہ بھی اٹھایا۔

تاہم یہ آرڈیننس 120 روز کی آئینی مدت مکمل ہونے پر 25 اپریل 2020 کو غیر مؤثر ہوگیا۔

مجموعی طور پر دو سال کے اس عرصے میں نیب کے قوانین میں ترمیم یا اسے ختم کرنے کے لیے بھی کئی بار آوازیں اٹھیں، لیکن قانون میں ترامیم کے لیے اب تک حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے کوئی ٹھوس اقدامات سامنے نہیں آئے ہیں۔

کورونا وائرس پر ردعمل و اقدامات پر تنقید

دسمبر 2019 میں چین سے شروع ہونے والی اس عالمی وبا نے رواں سال 26 فروری کو پاکستان میں اپنا اثر دکھانا شروع کیا اور ایران سے آنے والے زائرین میں سے ایک نوجوان میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی، جس کے بعد یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا۔

ابتدا میں پاکستان میں کورونا کے تمام کیسز کی بیرون ممالک بالخصوص ایران سے آنے والے افراد میں تشخیص ہوئی، تاہم پھر وائرس مقامی سطح پر پھیلنا شروع ہوا اور یوں حالات قابو سے باہر ہوتے چلے گئے۔

حکومت نے ایران سے آنے والے زائرین کے لیے تفتان میں قرنطینہ سینٹر قائم کیا لیکن ناقص انتظامات کے باعث کوئی خاطر خواہ نتائج نہ ملے جبکہ دیگر ممالک سے آنے والے پاکستانی شہریوں کے لیے ایئرپورٹ پر کورونا کی علامات جانچنے کے لیے مختلف انتظامات کیے گئے، تاہم یہاں سے بھی مسلسل انتظامیہ کی غفلت اور لاپروائی کی شکایات سامنے آتی رہیں اور وبا ملک بھر میں پھیل گئی۔

— فائل فوٹو / رائٹرز
— فائل فوٹو / رائٹرز

ملک بھر سے بالخصوص سندھ سے تیزی سے کیسز سامنے آنے کے بعد مارچ کے آخر میں صوبوں نے اپنے طور پر سخت لاک ڈاؤن کا نفاذ کردیا اور مختلف پابندیاں عائد کردیں جس سے معاشی پہیہ پوری طرح رُک گیا اور لوگ گھروں تک محدود ہوگئے۔

تاہم وفاقی حکومت بالخصوص وزیر اعظم عمران خان مکمل لاک ڈاؤن کی مخالفت میں سامنے آئے اور ان کا مؤقف تھا کہ معاشی سرگرمیاں رکنے سے کورونا سے زیادہ افراد بالخصوص غریب طبقہ شدید متاثر ہوگا، لیکن حیران کن بات یہ تھی کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا، جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، وہاں بھی مکمل لاک ڈاؤن اور بندشیں عائد کی گئیں۔

عالمی وبا کا پھیلاؤ روکنے اور اس سے نمٹنے کے لیے اس مختلف سوچ اور اقدامات پر تنقید اور تنازعات کا سلسلہ شروع ہوا اور وفاق و سندھ حکومت مسلسل ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہے، یہاں تک کہ حکومت سندھ نے ملک میں کورونا کے پھیلاؤ کی ذمہ داری بھی مرکزی حکومت پر عائد کی اور وبا پر اس کے ردعمل کو 'غیر سنجیدہ' قرار دیا۔

دوسری جانب اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) نے بھی پی ٹی آئی حکومت پر کورونا پر ردعمل میں 'سست روی کا مظاہرہ' کرنے کا الزام عائد کیا۔

لیگی رہنماؤں نے بارہا یہ کہا کہ حکومت کی جانب سے تفتان سرحد کے علاقے میں ناکافی اقدامات کے باعث لوگوں کی ایک بڑی تعداد قرنطینہ مراکز سے فرار ہوگئی۔

وائرس کے پھیلنے کے بعد اپریل میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے بھی کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات پر ازخود نوٹس لیا اور ایک سماعت میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور اس وقت کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کی کارکردگی پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔

مئی کے وسط میں لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی اور معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) کے ساتھ مختلف کاروبار کھولنے کی اجازت دی گئی جبکہ کاروباری اوقات کار بھی بڑھائے گئے تاہم اس کے بعد کیسز مزید تیزی سے سامنے آنے لگے اور جون اس حوالے سے بدترین ثابت ہوا۔

اس وقت حکومت نے ملک گیر لاک ڈاؤن کی بجائے 'اسمارٹ لاک ڈاؤن' کے نفاذ کا فیصلہ کیا اور چاروں صوبوں میں جن اضلاع سے کورونا وائرس کے زیادہ کیسز (ہاٹ اسپاٹس) سامنے آرہے تھے لاک ڈاؤن کو صرف ان اضلاع تک محدود کردیا گیا، جبکہ دیگر اضلاع اور علاقوں میں معمولات زندگی کے لیے نرمی کردی گئی اور کئی پابندیاں اٹھا لی گئیں۔

حکومت کی اس 'موثر' حکمت عملی کے باعث جولائی سے وبا کی صورتحال میں بہتری آنا شروع ہوگئی اور اب یومیہ کیسز میں بڑی حد تک کمی آگئی ہے جس کے بعد معمولات زندگی تقریباً پوری طرح بحال ہوچکے ہیں۔

آٹا و چینی اسکینڈل

تحریک انصاف کی حکومت کو دو سال کے عرصے میں جہاں دیگر مسائل، تنازعات کا سامنا کرنا پڑا وہیں ان میں چینی و آٹے کا اسکینڈل بھی شامل تھا۔

رواں سال کے اوائل میں ملک میں چینی و آٹے کا شدید بحران سامنے آنے آیا اور دونوں اشیائے ضروریات کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئیں جس کے بعد فروری میں وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو ملک میں چینی اور آٹے کے بحران سے متعلق مکمل تحقیقات کرکے رپورٹ جمع کروانے کے احکامات صادر کیے۔

— فائل فوٹو / ڈان
— فائل فوٹو / ڈان

کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی جس کے بعد حکومت کا نیا امتحان شروع ہوگیا کیونکہ رپورٹ میں چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں میں عمران خان کے انتہائی قریبی ساتھی جہانگیر خان ترین اور وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار خان کے گروپوں کے نام شامل تھے۔

رپورٹ میں کسانوں سے گنے کی خریداری کے معاملے سے لے کر مارکیٹوں میں چینی کی قیمت کے تعین تک کے تمام مراحل کے حوالے سے حیران کن انکشافات کیے گئے تھے۔

تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی آٹا بحران کی بڑی وجہ بنی جبکہ بحران باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیا گیا، جس میں سرکاری افسران اور اہم سیاسی شخصیات بھی ملوث ہیں۔

رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد اپوزیشن کی توپوں کا رُخ ایک مرتبہ پھر حکومت کی جانب ہوگیا اور حزب اختلاف کی جماعتیں، جو پہلے ہی وفاقی وزیر اور حکومتی جماعت کے رہنما پر بحران کی ذمہ داری کا الزام عائد کرتی آئی تھیں، ان کے الزامات کو تقویت ملی۔

5 اپریل کو وزیر اعظم عمران نے عوام کو یقین دہانی کروائی کہ 25 اپریل کو اعلیٰ سطح کے کمیشن کی جانب سے آڈٹ رپورٹ کا تفصیلی نتیجہ آنے کے بعد گندم اور چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

تاہم فرانزک رپورٹ میں تاخیر ہوتی رہی اور بالآخر اسے 21 مئی کو کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا گیا جہاں اسے عوام کے سامنے پیش کرنے کی منظوری دے دی گئی تھی۔

ملک کی 2 بڑی اپوزیشن جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے شوگر فرانزک کمیشن (ایس ایف سی) رپورٹ پر سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’گمراہ کن اور ’اصل مجرمان‘ کو محفوظ کرنے کی کوشش قرار دیا۔

رپورٹ پر ردِعمل میں علیحدہ علیحدہ بیان جاری کرتے ہوئے پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے وزیراعظم عمران خان، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کے نام رپورٹ میں نہ ہونے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں نے اس وقت چینی کی برآمدات کی اجازت دی جب ملک میں اس کی قلت تھی۔

بعد ازاں جہانگیر ترین لندن روانہ ہوگئے جس سے اپوزیشن کی حکومت پر الزامات کی بوچھاڑ میں تیزی آگئی اور وزیر اعظم پر پی ٹی آئی رہنما کو 'این آر او' دینے کا الزام عائد کیا گیا۔

ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانون سازی پر تنازع

پیرس سے تعلق رکھنے والے مالیاتی جرائم کے عالمی واچ ڈاگ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے پلانری گروپ نے انسداد منی لانڈرنگ/دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے عمل میں پائی گئی ’اسٹریٹجک خامیوں‘ کی بنا پر جون 2018 میں پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا تھا اور اس سے نکلنے کے لیے 27 نکاتی ایکشن پلان پر عملدرآمد کا وقت دیا جس میں کئی بار توسیع بھی ہوئی۔

عالمی ادارے کے اس اقدام نے تحریک انصاف کی نومنتخب حکومت کو شروعات میں ہی مشکل میں ڈال دیا اور 'گرے لسٹ' سے نکلنے کے لیے قانون سازی کے علاوہ اداروں کی سطح پر بھی مشکل اور سنجیدہ اقدامات اٹھانا حکومت کی مجبوری بن گئی۔

اس سلسلے میں اگرچہ حکومت نے موجودہ قوانین کے تحت اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے اور مالی معاملات میں خامیوں کو دور کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے، لیکن کئی معاملات میں قانون سازی کی ضرورت تھی جس کے لیے اپوزیشن کو ساتھ ملانا ضروری تھا۔

— فائل فوٹو / ایف ایس سی ڈاٹ جی او ڈاٹ کے ای
— فائل فوٹو / ایف ایس سی ڈاٹ جی او ڈاٹ کے ای

اس صورتحال میں کبھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان معاملات پر اتفاق کیا گیا تو کبھی بیان بازیوں اور دیگر وجوہات کی بنا پر بات پھر بگڑ گئی اور رواں سال جولائی میں حکومتی نمائندوں کی طرف سے یہ باتیں سامنے آنے لگی کہ اپوزیشن، ایف اے ٹی ایف سے متعلق بلز پارلیمنٹ سے منظور کرانے کے لیے قومی احتساب آرڈیننس میں مجوزہ ترامیم قبول کرانا چاہتی ہے۔

جولائی کے آخر میں ایک موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہم اپوزیشن کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوں گے اور قومی احتساب آرڈیننس میں اپوزیشن کی مجوزہ ترامیم قبول کر کے انہیں کسی قسم کا این آر او نہیں دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اپوزیشن نے ایف اے ٹی ایف بلز کو احتساب آرڈیننس کی 34 دفعات ختم کرنے کے لیے ’پلی بارگین‘ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی، اپوزیشن رہنما دعویٰ کر رہے تھے کہ انہوں نے پی ٹی آئی حکومت سے کبھی این آر او نہیں مانگا لیکن ان کی تجویز کردہ ترامیم ان کے این آر او مانگنے کا ثبوت ہیں'۔

تاہم چند روز قبل ہی حکومت اور اپوزیشن بالآخر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سے متعلق 8 میں سے 6 بلز پر اتفاق رائے کرانے میں کامیاب ہوگئے اور 5 بلز کی قومی اسمبلی نے منظوری بھی دے دی۔

مختلف منصوبوں پر تنقید

تحریک انصاف نے 2013 سے 2018 تک اپوزیشن میں رہتے ہوئے سابق حکومت کے مختلف منصوبوں پر خوب تنقید کے تیر برسائے اور اپنی جماعت کو اس حیثیت میں پیش کیا جو برسر اقتدار آتے ہی ملک کے دہائیوں سے چلے آرہے مسائل مہینوں میں ختم کردے گی اور حقیقی طور پر عوامی مفاد کے منصوبوں کا آغاز کرے گی۔

تاہم اقتدار میں آنے کے بعد اس کے عوام سے کیے گئے وعدے ایک، ایک کرکے ٹوٹتے چلے گئے، کئی منصوبے شروع ہی نہ کیے جاسکے جبکہ کئی وقت پر مکمل نہ ہوسکے جس نے اپوزیشن کو اس میدان میں بھی حکومت پر تنقید کا خوب موقع فراہم کیا۔

بی آر ٹی منصوبہ — فائل فوٹو / شہباز بٹ
بی آر ٹی منصوبہ — فائل فوٹو / شہباز بٹ

خیبر پختونخوا میں گزشتہ دور میں تحریک انصاف کی حکومت نے 14 ارب 32 کروڑ روپے سے 'بلین ٹری سونامی' منصوبہ شروع کیا تھا، موجودہ وزیراعظم عمران خان اس منصوبے کو انقلابی قرار دیتے ہیں اور عالمی فورمز پر بھی اس کا اظہار کرتے ہیں۔

اپوزیشن کی جانب سے تحریک انصاف کی صوبائی حکومت پر بلین ٹری منصوبے میں مسلسل کرپشن کے الزامات عائد کیے جاتے رہے جبکہ رواں سال جنوری میں نیب خیبر پختونخوا کی جانب سے منصوبے میں اس وقت تک قومی خزانے کو 46 کروڑ روپے کا نقصان پہنچانے کی رپورٹ بھی سامنے آئی۔

اسی طرح تنقید کی زد میں آنے والا پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا حکومت کا دوسرا بڑا منصوبہ پشاور کا بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) کا تھا جسے 6 ماہ میں مکمل ہونا تھا لیکن اس میں 3 سال لگ گئے جبکہ اس کی لاگت بھی کئی گنا بڑھ گئی۔

پشاور میں بننے والے اس منصوبے کا آغاز بھی پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت میں گزشتہ دور میں ہوا تھا۔

اکتوبر 2017 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے اس منصوبے کو شروع کیا تھا، ساتھ ہی 49 ارب روپے کی لاگت سے 6 ماہ یعنی اپریل 2018 میں اس کے مکمل ہونے کی تاریخ دی گئی تھی۔

تاہم اس منصوبے کے ڈیزائن میں مسلسل تبدیلی اور نئی چیزوں کے شامل کرنے کی وجہ سے نہ صرف منصوبے کی تکمیل کی پہلی ڈیڈلائن کو گزار دیا گیا تھا بلکہ اس کی لاگت میں بھی 17 ارب روپے کا اضافہ ہوا اور اسے 66 ارب 43 کروڑ روپے تک پہنچا دیا۔

پشاور بی آر ٹی کے اس منصوبے میں نہ صرف تاخیر ہوئی بلکہ اسے تحقیقات کا بھی سامنا کرنا پڑا جبکہ یہ معاملہ سپریم کورٹ تک بھی پہنچا۔

علاوہ ازیں غریب اور متوسط طبقے کے لیے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے منصوبے کا بھی ابھی تک عملی طور پر آغاز نہیں ہوا جبکہ کروڑوں نوکریوں کا وعدہ بھی کسی صورت وفا ہوتا نظر نہیں آرہا جس بنا پر حکومت مسلسل اپوزیشن رہنماؤں کے نشانے پر ہے۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ

تحریک انصاف کی حکومت کے دو سال کے عرصے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ بھی متنازع بنا، لیکن اس معاملے میں سیاسی جماعتوں سے زیادہ سپریم کورٹ پیش پیش رہی اور حکومت کو عدالت عظمیٰ کے حکم کی روشنی میں مسلح افواج کے قوانین میں ترامیم کرنا پڑیں۔

وزیراعظم عمران خان نے اگست 2019 میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کی تھی کیونکہ وہ 29 نومبر کو متوقع طور پر ریٹائر ہوجاتے لیکن اس سے قبل ہی وزیراعظم نے ان کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کر دی تھی۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ — فائل فوٹو / رائٹرز
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ — فائل فوٹو / رائٹرز

تاہم 29 نومبر سے قبل ہی عدالت میں اس توسیع کے خلاف درخواست سامنے آئی جس پر سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس نے سماعت کی اور 26 نومبر کو اس مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹی فکیشن کو معطل کردیا تھا۔

جس کے بعد 3 روز تک عدالت میں طویل اور اہم ترین سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے 28 نومبر کو پارلیمنٹ کو ہدایت کی تھی کہ وہ 6 ماہ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع/دوبارہ تعیناتی پر قانون سازی کرے اور اس دوران جنرل قمر باجوہ ہی آرمی چیف رہیں گے۔

بعد ازاں اس کیس کا 43 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا، جس کے جائزے کے بعد حکومت نے 26 دسمبر کو عدالت عظمیٰ میں نظرثانی درخواست دائر کی۔

یکم جنوری کو پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں آرمی ایکٹ میں ترامیم کی منظوری دی۔

3 جنوری 2020 کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کی مشترکہ قائمہ کمیٹی برائے دفاع نے آرمی ایکٹ، نیوی ایکٹ اور ایئرفورس ایکٹ میں ترامیم سے متعلق تینوں ترامیمی بل منظور کرلیے۔

7 جنوری کو قومی اسمبلی میں پاکستان آرمی، نیوی اور ایئرفورس ایکٹس ترامیمی بلز 2020 کثرت رائے سے منظور کرلیے گئے۔

8 جولائی کو سینیٹ میں بھی پاکستان آرمی، نیوی، ایئرفورس ایکٹس ترامیمی بلز 2020 کثرت رائے سے منظور کرلیے گئے تھے، جس کے بعد آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کردی گئی۔

کراچی میں 'صفائی مہم' اور سیاست

کراچی کی صفائی کے معاملے میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) ہمیشہ تنقید کی زد میں رہی ہے کیونکہ اس کی گزشتہ 12 برس سے سندھ میں حکومت ہے جبکہ کراچی کے شہری ادارے بشمول کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (کے ڈبلیو ایس بی)، سندھ سولِڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ (ایس ایس ڈبلیو ایم بی) اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) صوبائی حکومت کے زیر انتظام آتے ہیں۔

اسی موقع اور خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اگست 2019 کے اوائل میں وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی نے 'کلین کراچی' مہم کے آغاز کا اعلان کیا جس کا باضابطہ آغاز 4 اگست سے ہوا۔

اس مہم میں وفاق کا ساتھ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کی بلدیاتی حکومت، فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) اور نیشنل لاجسٹک سیل (ایم ایل سی) دے رہی تھیں اور پہلے مرحلے میں نالوں کی صفائی کی جانی تھی۔

— فائل فوٹو / وائٹ اسٹار
— فائل فوٹو / وائٹ اسٹار

تاہم آغاز کے چند روز بعد ہی صفائی مہم سیاسی بیان بازیوں اور الزام تراشیوں کا شکار ہوگئی اور مختلف علاقوں کی سڑکوں اور گل محلوں میں کچرے کے ڈھیر جوں کے توں موجود رہے۔

اگلے ماہ یعنی ستمبر میں حکومت سندھ کی جانب سے کراچی میں 30 روزہ صفائی مہم کا آغاز کیا گیا اور ڈی ایم سی کے لیے تقریباً 5 کروڑ روپے جاری کیے گئے۔

اس مہم کے شہر کے تمام چھ اضلاع سے کچرا اُٹھانے کے بعد ڈی ایم سیز کو صفائی برقرار رکھنے کا پابند کیا جانا تھا، لیکن جو تھوڑی بہت صفائی ہوئی اس پر بھی چند ماہ میں پانی پھیر دیا گیا۔

شہر میں مون سون کی حالیہ بارشوں کے متعدد اسپیلز میں ایک بار پھر نالے اور گٹر ابل پڑے اور بارشوں کی پیش گوئی کے باوجود نکاسی آب کے لیے کوئی انتظامات نہ کیے گئے۔

جس کے بعد یہ معاملہ سپریم کورٹ جاپہنچا اور عدالت عظمیٰ نے صوبائی حکام کی سخت سرزنش اور کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کراچی میں مدد کے لیے وفاقی حکام کے آنے کو سندھ حکومت کی ناکامی قرار دیا اور 13 اگست کو این ڈی ایم اے کو کراچی کے تمام نالوں کی صفائی کا کام دیکھنے کا ٹاسک دیا اور اسے 3 ماہ کے عرصے میں تجاوزات کے خاتمے کی ہدایت کی۔

کراچی میں لوڈشیڈنگ کا بے قابو جن

یوں تو ہر سال گرمیوں کے موسم میں شہر قائد کے باسیوں کا گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ سے صبر آزمایا جاتا ہے، لیکن رواں سال کورونا وائرس کے ستائے شہریوں کا مئی کے آخر میں صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور شدید گرم اور مرطوب موسم میں کراچی کے مکینوں اور تاجروں کو طویل دورانیے کی بجلی کی بندش اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے علاوہ کے-الیکٹرک کی جانب سے زائد بلنگ کے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

توانائی کی تقسیم کار کمپنی نے بجلی کی بندش کو طلب و رسد میں فرق اور فرنس آئل کی قلت سے منسلک کیا تاہم سوئی سدرن اور وزارت توانائی نے کے الیکٹرک کے ان دعوؤں کو مسترد کردیا اور کہا کہ بجلی کی فراہمی کے نظام میں موجود خامیاں اس مسئلے کو حل کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔

— فائل فوٹو / اے ایف پی
— فائل فوٹو / اے ایف پی

معاملے کی سنگینی کے باعث اس کی بازگشت ایک بار پھر حکومتی ایوانوں تک جا پہنچی جبکہ 10 جولائی کو نیپرا نے اس حوالے سے عوامی سماعت کے بعد کراچی میں لوڈشیڈنگ کی انکوائری کے لیے 4 رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا جس کی رپورٹ آنے کے بعد 'کے الیکٹرک' کو شوکاز نوٹس بھی جاری کیا گیا۔

دوسری جانب کمپنی کے اعلیٰ حکام اور حکومتی وزرا نے مذاکرات کے بعد غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ جلد ختم ہونے کے دعوے کیے جو دھرے کے دھرے رہ گئے۔

اسی دوران مون سون کی بارشوں کے آغاز کے بعد عوام کی مشکلات دگنی ہوگئیں اور غیر معیاری تکنیکی نظام کے باعث متعدد علاقوں میں پورا پورا دن بجلی غائب رہی جبکہ کرنٹ لگنے سے درجنوں اموات بھی ہوئیں۔

لوڈشیڈنگ اور کرنٹ سے اموات پر کے الیکٹرک حکام کی عدالت عظمیٰ میں سخت سرزنش ہوئی اور 11 اگست کو چیف جسٹس گلزار احمد نے کرنٹ لگنے سے ہونے والی ہلاکتوں کے مقدمات میں سی ای او کے الیکٹرک کا نام شامل کرنے، ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے اور کمپنی کا تفصیلی آڈٹ کروانے کا حکم دیا۔

دوسری جانب قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے عوامی شکایات اور میڈیا رپورٹس کا نوٹس لیتے ہوئے کے الیکٹرک کے خلاف انکوائری کا حکم جاری کیا۔

آئی جی سندھ کلیم امام کے معاملے پر تناؤ

جنوری 2020 میں اس وقت کے آئی جی سندھ کلیم امام کے معاملے پر وفاق اور حکومت سندھ کے درمیان تناؤ پیدا ہوا تھا اور آئی جی سندھ پر اصولوں کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے سندھ کابینہ نے انہیں عہدے سے ہٹانے اور ان کی خدمات وفاق کو واپس دینے کی منظوری دی تھی۔

صوبائی حکومت کی جانب سے آئی جی سندھ پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان کے دور میں صوبے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی اور ساتھ ساتھ سندھ پولیس کے سربراہ پر حکومت کے احکامات نہ ماننے کا بھی الزام لگایا گیا تھا۔

حکومت سندھ نے گزشتہ ماہ کابینہ کی منظوری کے بعد کلیم امام کی خدمات وفاق کو واپس کرتے ہوئے نئے آئی جی کے لیے نام بھی دیے تھے۔

کلیم امام — فائل فوٹو / ڈان
کلیم امام — فائل فوٹو / ڈان

تاہم وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کی درخواست پر آئی جی سندھ کو فوری ہٹانے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ صوبائی حکومت کی درخواست زیر غور ہے جس پر کسی فیصلے تک کلیم امام ہی آئی جی سندھ رہیں گے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے بھیجے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ ماہرین اس درخواست کا جائزہ لے رہے ہیں اور درخواست پر فیصلہ ہوتے ہی آگاہ کردیا جائے گا اور حتمی فیصلہ ہونے تک کلیم امام ہی آئی جی سندھ رہیں گے اور قانون کے تحت کسی بھی ایڈیشنل آئی جی کو آئی جی کا اضافی چارج نہیں سونپا جائے گا۔

بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ نے وفاق کا جواب آنے تک کلیم امام کو آئی جی کے عہدے سے ہٹانے سے روک دیا تھا۔

وفاقی حکومت نے بالآخر 29 فروری کو انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس سندھ کلیم امام کی جگہ مشتاق مہر کو نیا آئی جی تعینات کرنے کی منظوری دی اور نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا گیا۔

کلبھوشن کے معاملے پر آرڈیننس کا تنازع

پاکستانی حکومت نے رواں سال مئی میں جاری کردہ ایک آرڈیننس کے ذریعے غیر ملکیوں، ان کے مجاز نمائندوں یا اپنے ملک کے وفد کے قونصلر عہدیداروں کو فوجی عدالتوں کی جانب سے سزا یا فرد جرم پر ہائی کورٹ کے ذریعے نظرثانی کرنے کی اجازت دی تھی۔

عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر صحیح طور سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان نے 28 مئی کو ’انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ریویو اینڈ ری کنسیڈریشن آرڈیننس 2020‘ نافذ کیا۔

اس آرڈیننس کے تحت 60 روز میں ایک درخواست کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نظرِ ثانی اور دوبارہ غور کی اپیل دائر کی جاسکتی ہے۔

کلبھوشن یادیو — فائل فوٹو
کلبھوشن یادیو — فائل فوٹو

آرڈیننس کے سیکشن 20 کے تحت گرفتار بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو بذات خود، قانونی اختیار رکھنے والے نمائندے یا بھارتی ہائی کمیشن کے قونصلر اہلکار کے ذریعے نظرِ ثانی اپیل دائر کرسکتے ہیں۔

علاوہ ازیں وفاقی حکومت نے بھارتی جاسوس کمانڈر کلبھوشن یادیو کے لیے سرکاری وکیل مقرر کرنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تا کہ سزا سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کیا جاسکے۔

اس آرڈیننس پر بھی اپوزیشن کی جانب سے تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ حکومت نے آرڈیننس کی شکل میں کلبھوشن یادیو کو 'این آر او' دیا ہے۔

تاہم وفاقی حکومت کی طرف سے وضاحت سامنے آئی کہ آرڈیننس لاکر بھارتی جاسوس کی سزا ختم نہیں کی بلکہ عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے فیصلے کے تحت پاکستان کلبھوشن کے فیصلے پر مؤثر نظرِ ثانی اور دوبارہ غور کرنے کا پابند ہے لیکن بھارت چاہتا تھا کہ ہم اس پر عمل نہ کریں۔

وزیر قانون فروغ نسیم نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں کہا کہ آرڈیننس کو چھپ چھپا کر نہیں بنایا گیا بلکہ گزیٹ کیا گیا اور اس آرڈیننس میں کلبھوشن کی سزا ختم نہیں کی گئی، اس لیے یہ این آر او نہیں ہے بلکہ یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے تمام کوششیں کرے گا۔