پاکستان میں سال کے سب سے بڑے اسپورٹنگ ایونٹ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی آمد آمد ہے اور جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز مکمل ہوتے ہی ہر طرف 'پی ایس ایل' کا ہی ہنگامہ ہوگا۔

لیکن چھٹے سیزن کا یہ میلہ کورونا وائرس کی وجہ سے 4 کے بجائے محض 2 شہروں لاہور اور کراچی تک ہی محدود رہے گا، یعنی ان 2 ٹیموں کے شہروں میں جنہوں نے حیران کُن طور پر گزشتہ سال فائنل تک رسائی حاصل کی تھی۔

'حیران کُن' اس لیے کیونکہ پی ایس ایل کی تاریخ میں سب سے بُری کارکردگی دکھانے والی دونوں ٹیمیں یہی ہیں لیکن پچھلے سال جیسے ہی سپر لیگ پہلی بار متحدہ عرب امارات کے بجائے مکمل طور پر پاکستان منتقل ہوئی، گویا دونوں ٹیموں کی کایا ہی پلٹ گئی، یہاں تک کہ چیمپیئن شپ کا تاج کراچی کے سر پر سج گیا۔

اسکواڈ

لیکن کیا تبدیلی کا یہ عمل مستقل تھا؟ کیا واقعی کراچی اور لاہور اب بدترین کے بجائے بہترین ٹیموں میں شمار ہوں گی؟ اس کا اندازہ ہمیں اس سیزن میں ہوجائے گا۔ اگر کراچی کنگز کی منتخب کی گئی ٹیم دیکھیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ اپنے اعزاز کے دفاع کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ کنگز نے اپنا 'وننگ کمبی نیشن' برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے اور ٹیم میں زیادہ تر کھلاڑی وہی ہیں جو گزشتہ سال کی کامیاب مہم کا حصہ تھے۔

کپتان عماد وسیم، بابر اعظم، محمد عامر، کولن انگرام، شرجیل خان اور چیڈوِک والٹن ایک مرتبہ پھر 'بلو جرسی' میں نظر آئیں گے لیکن اس سیزن کے لیے 2 انتخاب ایسے ہیں جو فیصلہ کُن کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ایک افغان آل راؤنڈر محمد نبی اور دوسرا آسٹریلیا کے ڈین کرسچن۔

ڈین کرسچن ابھی چند روز پہلے ہی آسٹریلیا کی بگ بیش لیگ جیتنے والے 'پرتھ اسکارچرز' کی جانب سے کھیل رہے تھے یعنی کہ وہ اس وقت فاتحانہ موڈ میں ہیں۔ ٹیم کراچی کو اس مرتبہ ایلکس ہیلز کی خدمات تو میسر نہیں ہوں گی لیکن ان کی جگہ کولن انگرام کی ٹیم میں واپسی حوصلے بڑھائے گی۔

مزید پڑھیے: لاہور قلندرز: تجربے کار اور نو آموز کھلاڑیوں کا امتزاج

مجموعی طور پر اسکواڈ متوازن نظر آتا ہے، اوپننگ کا شعبہ خاصا مضبوط ہے، مڈل آرڈر میں پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا، کے بہترین بیٹسمین بابر اعظم موجود ہیں البتہ ان کے ساتھ کسی دوسرے مستند بلے باز کی کمی ضرور محسوس ہوگی۔ ڈاؤن دی آرڈر عماد وسیم اور ڈین کرسچن ہوسکتے ہیں اور وکٹ کیپر چیڈوِک والٹن اور محمد نبی بھی 'فنش' کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ماضی

ماضی پر نظر دوڑائیں تو وہ کراچی کنگز کے لیے اتنا حوصلہ افزا نہیں ہے، خاص طور پر پہلے 4 سیزنز۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ کنگز ماضی کو بھول جائیں۔ 2016ء سے اب تک کراچی نے کُل 54 میچ کھیلے ہیں جن میں سے 23 میں کامیابی حاصل کی اور 27 میں شکست کھائی۔ یعنی جیت کا تناسب 46.15 رہا ہے جو لاہور قلندرز کے بعد پاکستان سپر لیگ کی کسی بھی ٹیم کی بدترین شرح ہے۔

پہلے سیزن میں تو کراچی اپنے 9 میں سے صرف 2 میچ ہی جیت پایا تھا اور 5 ٹیموں میں چوتھے نمبر پر آیا۔ 2017ء میں کارکردگی میں کچھ بہتری تو آئی اور کنگز نے 10 میں سے 5 میچ جیتے لیکن کہانی پلے آف سے آگے نہیں بڑھ پائی بلکہ پہلے چاروں سیزن میں وہ پلے آفس تک ہی محدود رہا، جن میں 2018ء میں 12 میں سے 5 اور 2019ء میں 11 میں سے 5 میچ جیت پایا۔ لیکن 2020ء میں وہ 12 میں سے 4 میچ میں شکست کھانے کے باوجود چیمپیئن بن گیا۔

مخالف ٹیموں کے خلاف کراچی کی کارکردگی

اگر مخصوص ٹیموں کے خلاف کارکردگی دیکھیں تو

  • کراچی کنگز نے ملتان سلطانز کے خلاف اپنے 5 میں سے 3 میچ جیتے ہیں، یعنی کہ تین چوتھائی مقابلوں میں کامیابی حاصل کی ہے جو کسی بھی ٹیم کے خلاف اس کی بہترین کارکردگی ہے۔
  • 'روایتی حریف' لاہور قلندرز کے مقابلے میں کراچی کو 11 میں سے 7 میچوں میں کامیابی ملی ہے۔
  • اسلام آباد کے خلاف 13 میں سے صرف 5،
  • پشاور کے خلاف 12 میں سے محض 4 اور
  • کوئٹہ کے خلاف تو 10 میں سے صرف 3 میچ ہی جیت پایا ہے اور 7 میں شکست کھائی ہے۔

امکانات

یہ بات کہیں تو غلط نہیں ہوگی کہ لیگ کرکٹ میں ہر سیزن میں ہر ٹیم کے امکانات تقریباً برابر ہی ہوتے ہیں۔ کیونکہ جیت میں اہم کردار محض اچھے کھلاڑیوں اور ٹیم 'کمبی نیشن' کا ہی نہیں ہوتا بلکہ ڈریسنگ روم کا ماحول اور کھلاڑیوں کی ایک دوسرے سے ہم آہنگی سمیت دیگر کئی عوامل بھی اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ماضی میں دنیا بھر میں کئی ایسی ٹیموں کو چیمپیئن بنتے دیکھا گیا ہے جن کے بارے میں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ ٹیمیں بھی جیتیں گی۔ خود پی ایس ایل کا پچھلا سیزن دیکھ لیں، آخر کس نے سوچا تھا کہ کراچی اور لاہور فائنل کھیلیں گے؟

اس لیے یہ کہنا ہی مناسب ہوگا کہ کراچی کے ایک مرتبہ پھر چیمپیئن بننے کے امکانات بھی اتنے ہی ہیں جتنا کہ کسی دوسری ٹیم کے۔ وسیم اکرم باؤلنگ کوچ اور 'گرو' کی حیثیت سے اب بھی ٹیم کے ساتھ ہیں البتہ جنوبی افریقہ کے سابق بلے باز ہرشل گبز کو رواں سال ہیڈ کوچ بنایا گیا ہے۔

گزشتہ سال کی کارکردگی سے تحریک پاتے ہوئے ہوسکتا ہے کراچی کنگز دیگر ٹیموں سے بہتر کارکردگی دکھائے اور اپنے اعزاز کا کامیابی سے دفاع کر لے جو یقیناً ایسا کارنامہ ہوگا جو آج تک پاکستان سپر لیگ کی تاریخ میں کسی ٹیم نے انجام نہیں دیا۔

نمایاں کھلاڑی

کراچی کے نمایاں ترین کھلاڑی بلاشبہ بابر اعظم ہیں۔ دنیا کے بہترین ٹی20 بلے بازوں میں شمار ہونے والے بابر اب تک 40 میچوں میں کراچی کنگز کی نمائندگی کرچکے ہیں لیکن گزشتہ سال ان کی کارکردگی زبردست تھی۔ انہوں نے 12 میچوں میں 59.12 کے اوسط اور 124.14 کے اسٹرائیک ریٹ سے سب سے زیادہ 473 رنز بنائے تھے۔ ان میں فائنل میں 49 گیندوں پر 63 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز بھی شامل تھی، جس کی بنیاد پر وہ میچ بلکہ سیریز کے بہترین کھلاڑی کے حقدار بھی قرار پائے۔

محدود اوورز کی کرکٹ میں بابر اعظم کی حالیہ کارکردگی بھی بہترین ہے۔ یہاں ان کی آخری 5 اننگز بالترتیب 63، 65، 51، 82 اور 125 رنز کی ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ وہ 'مین اِن فارم' ہیں۔

بابر کے علاوہ شرجیل خان اور کولن انگرام کی اوپننگ جوڑی بھی پی ایس ایل 6 میں قہر ڈھا سکتی ہے اور کسی بھی ٹیم کے لیے ڈراؤنا خواب ہوگی۔

چھپا رستم

یہ تو سب وہ نام ہیں جو سب جانتے ہیں، ان کے ماضی اور حالیہ کارکردگی سے واقف ہیں لیکن ٹیم کراچی میں کون سا کھلاڑی 'چھپا رستم' کہلا سکتا ہے؟ ہمارے خیال میں وہ نوجوان جو کلارک ہوسکتے ہیں۔ گولڈ کیٹیگری میں منتخب ہونے والے نوجوان انگلش بیٹسمین ٹی20 میں 149 سے زیادہ کا اسٹرائیک ریٹ رکھتے ہیں اور اس فارمیٹ میں 2 سنچریاں اور 9 نصف سنچریاں بھی بنا چکے ہیں۔ حالیہ بگ بیش سیزن میں پرتھ اسکارچرز کی نمائندگی کر رہے تھے جو فائنل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔ ابھی وہ ابوظہبی ٹی10 میں بھی ایکشن میں نظر آئے کہ جہاں ایک میچ میں انہوں نے 50 رنز کی ناٹ آؤٹ اننگز بھی کھیلی۔

مزید پڑھیے: اسلام آباد یونائیٹڈ نے پی ایس ایل 2021ء کے لیے کیسی تیاری کی ہے؟

پی ایس ایل 6 کا آغاز 20 فروری کو کراچی کنگز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے درمیان مقابلے سے ہوگا۔ سیریز کا پہلا مرحلہ 20 فروری سے 7 مارچ تک جاری رہے گا جس کے میچ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ہوں گے، جس کے بعد تمام ٹیمیں لاہور منتقل ہوں گی جہاں 10 مارچ سے آخر تک تمام میچ ہوں گے جن میں 22 مارچ کا فائنل بھی شامل ہوگا۔ کیا کراچی کنگز ایک مرتبہ پھر فائنل کھیلتا نظر آئے گا؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن کاغذ پر دیکھیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایسا ممکن ہے!

کمزور کڑی

ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی کراچی کنگز کی باؤلنگ کمزور نظر آ رہی ہے۔ محمد عامر کے علاوہ کوئی ایسا بڑا نام باؤلنگ لائن اپ میں موجود نہیں ہے۔ گوکہ ڈین کرسچن اور محمد نبی ان کا بھرپور ساتھ نبھا سکتے ہیں لیکن جس طرح لاہور قلندرز میں شاہین آفریدی اور حارث رؤف مل کر 'شکار' پر نکلتے ہیں، ویسے کسی پیس اٹیک کمبی نیشن کی کراچی کنگز کو سہولت میسر نہیں ہوگی۔

گزشتہ سال کراچی چیمپیئن تو بن گیا تھا لیکن خامی اپنی جگہ موجود تھی۔ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ کراچی کے لیے پچھلے سیزن میں سب سے زیادہ وکٹیں محمد عامر نے لی تھیں، اور وہ پی ایس ایل V میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلرز میں 10 ویں نمبر پر تھے۔ وکٹوں کے حصول میں لاہور قلندرز کے 5 باؤلرز ان سے آگے تھے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی بیٹنگ کے بل بوتے پر فائنل تک آیا تھا جبکہ لاہور باؤلرز کی بدولت۔

اس بار بھی یہ خامی و کمزوری دُور ہوتی نظر نہیں آتی لیکن امید ہے کہ ڈین کرسچن، محمد نبی اور ان کے ہم وطن نوجوان افغان نور احمد اور موقع ملنے پر وقاص مسعود، ارشد اقبال اور محمد الیاس اس خامی کو پورا کریں گے، ورنہ کراچی کی یہ کمزوری اس کی مہم پر فیصلہ کُن ضرب ثابت ہوگی۔

مکمل اسکواڈ

کولن انگرام، بابر اعظم، شرجیل خان، ذیشان ملک، دانش عزیز، عماد وسیم، عامر یامین، محمد نبی، ڈین کرسچن، قاسم اکرم، چیڈوِک والٹن، جو کلارک، محمد عامر، وقاص مسعود، ارشد اقبال، محمد الیاس، نور احمد اور عباس آفریدی۔

تبصرے (0) بند ہیں