مرزا عیسٰی ترخان: جو کبھی ٹھٹہ کو بھول نہ سکا!

مرزا عیسٰی ترخان: جو کبھی ٹھٹہ کو بھول نہ سکا!

تحریر و تصاویر: ابوبکر شیخ

زندہ رہنے کی تمنا اتنی شدید اس لیے ہوتی ہے کہ اس کے اختتام کا یقین ہر شک و شبہ سے مبرا ہوتا ہے۔ کسی نہ کسی کیفیت میں زندہ رہنے کی شدید تمنا موت کی ان تاریک گلیوں میں سے اپنا راستہ نکال ہی لیتی ہے۔ یہ تمنا جب حقیقت کا روپ لیتی ہے تو انسان کی گوناگوں صلاحیتوں سے بھرے اس دماغ کی صلاحیت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اس دماغ نے انسان کی اس زندہ رہنے والی تمنا کا جو حل نکالا، وہ اتنا نازک، نفیس اور شاندار تھا کہ انسان ہونے پر غرور ہونے لگتا ہے۔

کمال یہ بھی کہ پتھر سے اس تمنا کی تکمیل ہوئی۔ پتھر جس پر کبھی کوئی بیج نہیں اگ سکتا مگر انسان کی ذہانت، فطرت اور زندگی سے عشق کی انتہا نے ہتھوڑی کی نازک سی چوٹ سے جو حسن ان پتھروں کے سینے پر تراشہ اس نے ان کو لازوال کردیا۔

مرزا عیسیٰ ترخان جس کی پرورش شاہ بیگ نے کی تھی، وہ ایک سنجیدہ انسان تھا اور شاہ بیگ کے اہم امیروں میں سے تھا۔ یہ 1521ء میں اس کے ساتھ ہی سندھ آیا تھا۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ دوسرے امیر اکیلے سندھ آئے تھے جبکہ مرزا عیسیٰ اپنے پورے قبیلے کے ساتھ جس کے پاس ’ترخان‘ کا اعزاز تھا سندھ آیا۔ شاہ حسن ارغون تخت کا وارث چھوڑے بغیر یہ جہان چھوڑ گئے تھے۔ 1554ء میں اَرغونوں اور ترخانوں نے مل کر مرزا عیسیٰ (اوّل) کو اپنا سردار چُنا اور وہ تخت کے مالک ہوئے۔ مرزا کے 8 بیٹے اور 5 بیٹیاں تھیں۔ مگر تاریخ کے اوراق میں ہمیں اس کے 3 بیٹوں کے نام نظر آتے ہیں، کیونکہ اس زمانے کی سیاسی افق پر مرزا صالح بیگ، مرزا باقی بیگ اور مرزا جان بابا ہی متحرک تھے۔

مرزا صالح بیگ کو 1563ء میں مرید جت نامی شخص نے سرِ بازار قتل کردیا تھا، کیونکہ مرزا صالح نے اس کے باپ کو قتل کیا تھا۔ 1566ء میں مرزا عیسیٰ نے اس بے وفا زمانے کو الوداع کہا۔ مرزا باقی بیگ نے اپنے بھائی مرزا جان بابا کو 1570ء میں قتل کروایا تھا۔ اس کا بیٹا، جس کا نام اس نے اپنے باپ کے نام پر مرزا عیسیٰ رکھا تھا اس کو تاریخ کے صفحات میں ’مرزا عیسیٰ ثانی‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اپنے باپ کے قتل کے وقت وہ 2 برس کا تھا۔ چونکہ ترخانوں نے مقامی لوگوں سے رشتہ داریاں کیں، یہاں تک کہ مرزا باقی بیگ نے اپنی بیٹی کا نام سندھی بیگم رکھا تھا، تو مرزا جان بابا نے سندھ کے سمیجوں میں سے شادی کی تھی اور عیسیٰ ثانی مقامی سندھی سمیجا قبیلے سے تھا۔ مرزا باقی نے جب اس کے باپ کو قتل کردیا تو اس کی ماں اپنے خاندان کے پاس جنوبی سندھ کے مشرق میں ’ونگو‘ کی طرف چلی گئی۔

مرزا باقی کی زندگی کی سرحد 1585ء میں اپنے اختتام کو پہنچی۔ رات کی سیاہی میں اس نے خودکشی کی یا اسے قتل کردیا گیا یہ ایک الگ کہانی ہے جس پر کسی اور موقع پر بات ضرور کریں گے۔ مرزا باقی کے بعد، حکومت کی باگ ڈور مرزا جانی بیگ کے ہاتھ میں آئی تو وہ مرزا عیسیٰ ترخان کو منصب، جاگیر اور رشتہ دے کر 1586ء میں ٹھٹہ لے کر آیا۔ اب اگر ہم مرزا عیسیٰ ثانی کو رشتوں کے حوالے سے سمجھنا چاہیں تو یہ کچھ اس طرح بنیں گے کہ مرزا عیسیٰ ثانی، مرزا عیسیٰ کا پوتہ، مرزا جان بابا کا بیٹا، مرزا باقی کے بھائی کا بیٹا اور مرزا جانی بیگ کا چچا تھا۔

جب تک مرزا جانی بیگ کی سانسیں چلتی رہیں، مرزا عیسیٰ کے لیے ننگر ٹھٹہ کی گلیاں اپنی تھیں۔ مگر جیسے ہی برہانپور میں مرزا جانی بیگ کی سانس کی ڈوری نے بے وفائی کی، مرزا عیسیٰ کے لیے ٹھٹہ کی گلیاں تنگ ہونے لگیں۔ ’ترخان نامہ‘ کا مولف تحریر کرتا ہے کہ ’جب مرزا جانی بیگ فوت ہوا تو اکبر بادشاہ نے حکم جاری کیا کہ مرزا غازی بیگ بدستور ٹھٹہ کا حاکم رہے گا‘۔

جانی بیگ جتنا عرصہ اکبر کے پاس رہا اور وفات پائی تب تک ٹھٹہ کی حکومت تو غازی بیگ کے حوالے تھی مگر اس کو چلانے والے امیر تھے، جن میں خاص خسرو چرکس اور میر ابوالقاسم سلطان تھے۔ جب جانی کی وفات ہوئی اور غازی بیگ حکومت کے کاروبار کو سمجھنے لگا تو اس نے ان امیروں سے جان چھڑانی چاہی اور اختیارات واپس لینے شروع کیے، مگر چونکہ ان دونوں امیروں کا اثر و رسوخ بہت زیادہ تھا تو ان سے اختیارات واپس لینا انتہائی مشکل کام تھا اور اس لین دین نے جنوبی سندھ میں ایک سیاسی ہنگامہ برپا کر رکھا تھا۔

مرزا عیسیٰ نے سوچا کہ اگر وہ پرانے امیروں کی طرف ہوگا جو سیاسی حوالے سے طاقتور ہیں، اور مرزا غازی کی ناکامی کی صورت میں وہ اس کو تخت پر بٹھائیں گے اور شاہی دربار سے آسانی سے پروانہ حاصل کرلیں گے اور ساتھ میں ان کو سمیجا سرداروں کی مدد بھی تھی، اس لیے حکومت چلانا اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ مرزا عیسیٰ کا شاید زندگی کا یہ پہلا اور آخری غلط تجزیہ تھا۔

یہ خیال مرزا عیسیٰ کا تھا، مگر نصیبوں کے میدان میں چوگان کے گھوڑے کوئی اور کھیل کھیلنے والے تھے۔ مرزا غازی نے دیکھا کہ خسرو چرکس ایک برگد کے پیڑ کی طرح مضبوط کیفیت میں ہے اور اسے اس مقام سے فقط کاٹ کر ہی ہٹایا جا سکتا ہے۔ اس بات کی خبر مرزا عیسیٰ کے کانوں تک پہنچی اور اس نے چرکس کو اس کی آگاہی دے کر بچالیا۔

جب مرزا غازی کو اس بات کی خبر ملی کہ خسرو چرکس کو مرزا عیسیٰ نے بچایا ہے تو مرزا عیسیٰ کو مارنے کی تیاری شروع کردی گئی۔ جب اس سازش کی خبر مرزا عیسیٰ کو لگی تو اس نے اسی میں خیریت سمجھی کہ وہ ٹھٹہ کو الوداع کہے اور اپنے ننھیال چلا جائے اور یہی بہتر فیصلہ تھا جو مرزا نے کیا۔ ٹھٹہ کے تخت کے لیے جو ہنگامہ برپا تھا اس کا اختتام کچھ اس طرح ہوا کہ مرزا ابوالقاسم بیگلار پیش ہوا، آنکھوں سے اندھا کرکے قید کردیا گیا اور خسرو چرکس خاموش ہوکر بیٹھ گیا۔

مرزا عیسیٰ ترخان کے مقبرے کا مرکزی دروازہ
مرزا عیسیٰ ترخان کے مقبرے کا مرکزی دروازہ

مرزا عیسیٰ  نے اپنا مقبرہ خود تعمیر کروایا
مرزا عیسیٰ نے اپنا مقبرہ خود تعمیر کروایا

مرزا عیسیٰ کے مقبرے کا پتھر گجرات سے لایا گیا تھا
مرزا عیسیٰ کے مقبرے کا پتھر گجرات سے لایا گیا تھا

مرزا عیسیٰ اپنے ننھیال میں تھا اور شاید اچھا تجزیہ نگار بھی تھا جس کا اندازہ ہمیں اس کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوگا۔ مرزا غازی کی مستحکم حکومت میں اب اس کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ اس نے ایک اچھا فیصلہ کیا کہ وہ اکبر کے شاہی دربار آگرہ میں جا پہنچا۔ اکبر نے اسے اعلیٰ منصب پر فائز کیا اور وہ آگرہ میں ہی رہا۔

تاریخ کے اوراق ہمیں بتاتے ہیں کہ آخری 3، 4 برس اکبر بادشاہ کے لیے کوئی خوشگوار ثابت نہیں ہوئے۔ شہزادے سلیم نے اکبر کو پریشان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ 1602ء میں ابوالفضل کے قتل پر اکبر بہت دکھی ہوا اور کچھ دن تک تو اپنے حواس کھو بیٹھا تھا۔ 1604ء میں اکبر کی ماں اور مارچ 1605ء میں دوسرے بیٹے دانیال کی موت ہوگئی۔ جب ذہن میں خلل رہے اور سکون نام کی کوئی چڑیا دل و دماغ میں بسیرا نہ کرتی ہو تو نظام ہضم میں خلل پڑنا ایک عام بات ہے۔ اکبر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ساتھ میں افواہیں یہ بھی پھیلیں کہ، اکبر نے زہر کی گولی کھا کر خودکشی کرلی یا یہ کہ شہزادے سلیم نے باپ کو زہر دے دیا ہے۔ جو بھی ہوا 23 دن کی سخت بیماری کے بعد 16 اکتوبر 1605ء میں اکبر نے آنکھیں موند لیں۔

کتنا اچھا ہوتا کہ مرزا عیسیٰ کو تحریر سے دلچسپی ہوتی تو ان زمانوں کے بہت سارے راستوں، شہروں اور شاہی درباروں کے حالات ہم تک پہنچ سکتے کیونکہ مغلیہ سلطنت کے اہم بادشاہ اکبر کے آخری اہم برسوں میں مرزا عیسیٰ ترخان آگرہ میں ہی تھا، مگر افسوس کہ ایسا ہو نہ سکا۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ مرزا عیسیٰ کی پہلی مقرری جو جہانگیر کے زمانے میں دکن میں ہوئی اس کا ریکارڈ ملتا ہے۔

جہانگیر 1605ء میں تخت پر بیٹھا اور اکتوبر 1627ء میں کشمیر سے لوٹتے ہوئے راستے میں فوت ہوا۔ ان 23 برسوں میں، مرزا عیسیٰ پُر رعب طریقے سے منصبوں پر رہا اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا۔

ترخان نامہ کے مطابق ’مرزا عیسیٰ فراخ دل اور بہادر انسان تھا۔ وہ بادشاہ کے سوا کسی کی پرواہ نہیں کرتا تھا اور سلطنت کے مدارالمہاموں کے سامنے کبھی نہیں جھکا، جس کی وجہ سے اکثر امیر اس سے ناراض رہتے۔ اس نے بادشاہ کے دیے گئے احکامات کو مانتے ہوئے دُور دراز اور مشکل مہمات کو بہادری سے انجام دیا۔ لشکر بہت تھا عیسیٰ ترخان کے پاس اور ساتھ میں اپنے آپ پر بھروسہ بھی تھا اس لیے کبھی کسی سے سفارش نہیں کروائی‘۔

1622ء میں جب جہانگیر کشمیر سے واپس لاہور پہنچا تو قندھار میں شاہ عباس صفوی کے اشارے پر شورش پھوٹ پڑی۔ بادشاہ اس کو ختم کرنے کے لیے حکمتِ عملی میں مصروف تھا، جبکہ دکن سے دوسرے امیروں کے ساتھ مرزا عیسیٰ کو بھی بلایا گیا تھا۔

تزک جہانگیری میں ہے کہ ’دکن سے دوسرے امیروں کے ساتھ مرزا عیسیٰ بھی آیا اور دوسروں کے ساتھ اس کو بھی جہان خان کی مدد کے لیے بھیجا گیا۔ جہان خان کو پہلے ہی کچھ لشکر سمیت ملتان بھیجا گیا تھا کہ حملے میں آسانی رہے مگر اسی وقت شہزادے خرم نے بغاوت کی تو بادشاہ نے قندھار کی مہم ملتوی کی اور لاہور سے دہلی کی طرف نکلا۔ خرم آگرہ سے نکلا اور دونوں میں مڈبھیڑ ہوئی۔ مرزا عیسیٰ بھی اپنے لشکر سمیت واپس لوٹا اور بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا۔ بادشاہ نے اسے خاص آمدن والے منصب پر گجرات میں مقرر کرنے کے احکامات جاری کیے‘۔

خرم کی یہ بغاوت، جہانگیر کی وفات تک جاری رہی۔ یہ سارا کھیل مکافاتِ عمل کا تھا۔ یہ وہ ہی سلیم تھا جس کی ولادت کے لیے اکبر بادشاہ نے گرم ریت پر ننگے پاؤں چل کر دعائیں مانگیں۔ مگر اس شہزادے نے اکبر جیسے زرخیز دماغ کو کبھی سکون کی چھاؤں نہیں دی۔ اب باری اسی سلیم کی تھی کہ جو پریشانیاں اس نے اپنے والد کی جھولی میں ڈالی تھیں وہ سود سمیت اسے لوٹا دی جائیں۔ بالکل اسی طرح سلیم کو خرم نے سکون سے بیٹھنے نہیں دیا۔

1626ء میں شہزادہ اجمیر، ناگور، جودھپور اور جیسلمیر سے ہوتا ہوا ٹھٹہ پہنچا۔ اس کا خیال تھا کہ ٹھٹہ کو اپنے قبضے میں لے کر اسے اپنی بغاوت کا مرکز بنائے گا مگر ایسا صوبے دار شریف الملک کی وجہ سے ممکن نہ ہو سکا۔ اس نے ٹھٹہ میں خرم کو ٹکنے نہیں دیا جس کی وجہ سے وہ مایوس ہوکر گجرات کے راستے دکن کی طرف روانہ ہوا۔ وہ جب گجرات پہنچا تو وقت کو اپنی آنکھ سے ناپنے والے مرزا عیسیٰ نے چوری چھپے، اونٹوں، گھوڑوں، اناج اور رقم کی مدد کی۔ ان حالات میں یہ ایسی مدد تھی جس نے شہزادے کو بڑی مایوسی سے بچا لیا۔ بظاہر تو یہ مدد تھی مگر اس مدد کے بدلے مرزا عیسیٰ کی اس چال نے اس کا مستقبل محفوظ کردیا تھا۔ یہ شاید واحد امیر تھا جو 3 بادشاہوں کی حکومت میں رہا اور بڑے رعب اور سکون سے ریٹائر ہوا۔

تخت پر بیٹھنے کے کچھ وقت بعد جب خرم ’شاہ جہاں‘ بن کر گجرات پہنچا تو مرزا عیسیٰ کے منصب میں اضافہ کرکے ٹھٹہ کی صوبے داری کے لیے روانہ کیا۔ یہ بادشاہی احکام 26 دسمبر، بروز اتوار 1628ء کو جاری ہوا، مگر جلد ہی مرزا کا تبادلہ متھرا ہوا اور ٹھٹہ میں صوبے دار کے طور پر، شیر خواجہ کو مقرر کیا گیا۔ منصب سنبھالنے کے بعد مرزا عیسیٰ مارچ 1628ء سے نومبر 1628ء تک ٹھٹہ میں رہا۔

محترم حسام الدین راشدی کے مطابق ’ممکن ہے اس عرصے میں اس نے اپنے باپ جان بابا کا مقبرہ بنانے کا بندوبست کیا ہو کیونکہ یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ سندھ سے 1603ء میں جانے کے 25 برس کے بعد اسے پھر ٹھٹہ آنے کا موقع ملا تھا اور چونکہ خود اپنا 2 منزلہ مقبرہ بنانے میں پورے 17 سال لگے تھے اور 1644ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی تھی تو یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مرزا جان بابا کے مقبرے کا کام پہلے چل رہا تھا جو ایک اندازے کے مطابق ء1628 یا 1630ء میں مکمل ہوگیا ہوگا اور اس کے مکمل ہونے کے بعد اس کے مغرب میں مرزا نے 1628ء میں اپنے مقبرے کا نقشہ تیار کیا ہوگا اور ابتدائی کام شروع کرسکا ہوگا‘۔

اس مقبرے کی 2 منزلیں ہیں
اس مقبرے کی 2 منزلیں ہیں

مقبرے کی چھت پر بھی سنگ تراشی کی گئی ہے
مقبرے کی چھت پر بھی سنگ تراشی کی گئی ہے

1631ء میں مرزا کو، متھرا سے دولت آباد بھیج دیا گیا کہ وہ عبداللہ خان بہادر کی کمان میں دریا خان کی بغاوت کو ختم کرسکے۔ 1632ء میں مرزا کو جاگیر دے کر ایلچ پور بھیجا گیا۔ 1635ء میں ایلچ پور سے تبادلہ کرکے ’سورٹھ‘ (جوناگڑھ) میں مقرری کی گئی۔ یہاں سے مرزا عیسیٰ نے 1637ء اور 1640ء میں، 15 اور 40 کچھی گھوڑے بادشاہ کو بھیجے جو اسے بہت پسند آئے۔ 1642ء میں گجرات کے صوبے دار اعظم خان کی جگہ مرزا عیسیٰ کو صوبے دار مقرر کیا گیا، جبکہ سورٹھ میں مرزا کے بڑے بیٹے عنایت اللہ کو فوجدار کا عہدہ دیا گیا۔

تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ اعظم خان کی سختی اور ظلم نے کاشکاری کو برباد کرکے رکھ دیا تھا۔ بربادی کے اس عمل میں زمیندار، جاگیردار اور حکومتی اہلکار بھی شامل تھے اس لیے کوئی کاشتکار فصل بونے کے لیے تیار نہیں تھا جس کی وجہ سے گجرات زراعت کے حوالے سے برباد ہوکر رہ گیا۔

مرزا عیسیٰ نے زمینوں پر فصلوں کی دوبارہ کاشت کرنے کے لیے نظام بنایا جس کو ’بھاگ بٹائی‘ (ایک مخصوص مدت کے لیے کسان کو فصل سے کسی کو کوئی حصہ نہیں دینا پڑتا تھا، وہ سب کا مالک ہوتا ہے) کا نام دیا گیا۔ یہ ایک کامیاب نعرہ ثابت ہوا اور گجرات کی زمینوں میں پھر فصلوں کی شادابی لوٹ آئی۔ بادشاہ کے ہر حکم پر کامیابی سے عمل کرنے اور شاید پریشانیوں کے دنوں میں مدد کرنے کو یاد کرتے ہوئے شاہ جہاں نے ایک ہاتھی بھی مرزا کو بطور تحفہ گجرات بھیجا تھا۔ مرزا شاہ جہاں کے آخری زمانے تک اسی عہدے پر رہا۔ مرزا 1651ء میں 86 برس کا ہوچکا تھا۔ بادشاہ نے سورٹھ کی فوجداری، مرزا کے دوسرے بیٹے محمد صالح کے حوالے کی کیونکہ مرزا کا بڑا بیٹا، مرزا عنایت اللہ 1648ء میں وفات پاچکا تھا۔ مرزا کے بنائے گئے اس مقبرے میں پہلی لاش اس کے بڑے بیٹے کی دفن کی گئی۔

مقبرے کے ستونوں پر خوبصورت سنگ تراشی کی گئی ہے
مقبرے کے ستونوں پر خوبصورت سنگ تراشی کی گئی ہے

مرزا عیسیٰ کے بنوائے گئے مقبرے میں پہلی قبر اس کے بڑے بیٹے کی بنی
مرزا عیسیٰ کے بنوائے گئے مقبرے میں پہلی قبر اس کے بڑے بیٹے کی بنی

شاہ جہاں نے مرزا کو پینشن دے کر اپنے پاس ملاقات کے لیے بلایا۔ مرزا عیسیٰ نکل تو پڑے مگر ایک اندازے کے مطابق 600 کلومیٹر کے فاصلے پر، جے پور سے پہلے ’سانبھر‘ جھیل کے مقام پر سانس کی ڈوری ٹوٹ گئی۔ راشدی صاحب لکھتے ہیں کہ ’86 برس میں یہ جہان چھوڑنے کے بعد سانبھر یا رادھن پور سے مرزا کا ٹھنڈا جسم ٹھٹہ پہنچا اور اپنے بنائے ہوئے مقبرے میں تدفین کردی گئی۔ وہ جو 1603ء میں ننگر کی گلیوں سے نکلا تھا۔ جہاں بھی رہا مگر اتنے برسوں کے بعد واپس اس مٹی کے لیے ہی لوٹ آیا جہاں جنم لیا تھا‘۔

آپ اگر مکلی کے اس قدیمی گورستان میں جنوبی مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہیں تو راستے کے دائیں طرف آپ کو ترخانوں کے شاندار مقبرے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مرزا جانی بیگ، مرزا باقی بیگ اور اس کے شمال قریب میں وہ 2 منزلہ مقبرہ اس مرزا عیسیٰ ترخان (ثانی) کا ہے جس کی حیات پر، مختصر سا احوال ہم ابھی کر چکے ہیں۔

اس مکلی کے قبرستان میں اپنی شاندار تعمیر کے حوالے سے یہ مقبرہ اہم مقام رکھتا ہے۔ یہ نفیس سنگ تراشی، ستونوں، شاندار دالان اور مخصوص گنبد کی وجہ سے اپنی ایک الگ خوبصورتی رکھتا ہے۔

مقبرے میں کی گئی سنگ تراشی
مقبرے میں کی گئی سنگ تراشی

مقبرے میں ہونے والی سنگ تراشی کا نمونہ
مقبرے میں ہونے والی سنگ تراشی کا نمونہ

اس مقبرے کے متعلق ’قانع‘ لکھتے ہیں کہ ’اس مقبرے کی عمارت کے لیے مرزا عیسیٰ نے یہ پتھر گجرات سے بھیجا تھا۔ مرزا اس مقبرے کو اور بھی وسیع اور اس کو اور خوبصورت بنانا چاہتا تھا مگر حیاتی نے اجازت نہیں دی۔ اس عمارت کی تعمیر کے لیے ’نورائی جاگیر‘ کی آمدنی خرچ ہوتی تھی، یہ جاگیر شروع سے خاندانی مقبروں کی تعمیر اور مرمت کے لیے مختص تھی‘۔

راشدی صاحب لکھتے ہیں کہ ’جیسا کہ سارا پتھر گجرات سے لایا گیا تھا تو یہ بھی ممکن ہے کہ سنگ تراشی کا سارا کام گجرات میں ہی ہوا ہو اور یہاں لاکر ترتیب سے جما دیا گیا ہو‘۔

اس حوالے سے جب میں نے آثار قدیمہ سے دلچسپی رکھنے والے اور سندھی لینگویج اتھارٹی کے چیئرمین محترم محمد علی مانجھی سے بات کی تو جواب آیا کہ ’کچھ پتھر کی سلائیڈز جن پر خط تحریر ہے وہ پتھر گجرات سے آیا ہوگا۔ البتہ مقبرے میں جو دوسرا پتھر لگا ہے وہ ٹھٹہ کے قریب سونڈا کی پہاڑیوں کا ہے‘۔

قانع، راشدی اور مانجھی صاحب کی باتیں ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتیں جبکہ یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ترخانوں کے ان مقبروں سے قدیم مقبرے سمہ دور کے ہیں اور مکلی میں ہی بنے ہوئے ہیں اور انتہائی سحر انگیز سنگ تراشی کے نایاب نمونے ہیں۔ تو اس مقبرے کی تعمیرات پر ایک سی رائے کیوں نہیں؟

ہم پتھروں کی بحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہ پتھر کہاں سے آیا اور ممکن ہے کچھ پتھر گجرات سے بھی آیا ہو جس کا ذکر ہینری کزنس بھی کرتے ہیں لیکن باقی ٹھٹہ کے قرب و جوار سے آیا ہو۔ مگر یہ ممکنات کے دائرے سے باہر ہے کہ سارا کچھ وہاں بنا اور پھر یہاں آکر جمادیا گیا۔ البتہ یہ زیادہ مناسب بات رہے گی کہ چونکہ مرزا عیسیٰ کا اکثر حکومتی صوبہ گجرات رہا تو یہ کچھ بعید نہیں وہاں کے مشہور سنگ تراشوں کو یہاں ٹھٹہ بھیجا گیا ہو۔

اس عمارت کی تعمیر کے لیے نورائی جاگیر کی آمدن استعمال ہوئی
اس عمارت کی تعمیر کے لیے نورائی جاگیر کی آمدن استعمال ہوئی

محراب والی دیوار جسے مسجد کے طور بھی استعمال کیا جاتا تھا
محراب والی دیوار جسے مسجد کے طور بھی استعمال کیا جاتا تھا

دیوار کا عقبی حصہ
دیوار کا عقبی حصہ

ہینری کزنس اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’یہاں اس مقبرے پر جو پتھروں پر کاریگرانہ سنگ تراشی کا کام ہے وہ فتح پور سیکری (آگرہ) کی تعمیرات سے ملتا ہے۔ یہ مقبرہ آنگن سمیت 4900 فٹ چورس ہے۔ مقبرے کے مرکز میں قبریں ہیں۔ مقبرے کے گرد 2 منزلہ دالان ہے جو خوبصورت ستونوں پر کھڑا ہے۔ مقبرے کی دیواروں کے اوپر گنبد ہے۔ یہاں پھول پتیوں، بیلوں اور شہد جیسے نمونوں کی نفیس سنگ تراشی کے سوا، قرآن شریف کی آیات اور فارسی خط کی جو تحریریں ہیں ان کی خوبصورتی کی تو آپ مثال نہیں دے سکتے۔ دیکھنے والا اس طرح محسوس کرتا ہے جیسے وہ پرپیچ اقلیدسی طرز کا کوئی سونے کا پیچیدہ زیور دیکھ رہا ہے‘۔

کزنس کے مطابق ’اس زمانے میں یہ روایت تھی کہ کچھ مقبروں کے ساتھ مسجد کی تعمیر بھی شامل ہوتی تھی کہ فوت ہونے والوں کے رشتے دار وہاں آکر نماز ادا کرسکیں۔ مکلی کے مقبروں میں الگ مسجد تعمیر کرنے کے بجائے مغربی دیوار میں محراب بنادیے جاتے تھے تو وہ ایک مسجد بن جاتی تھی اور وہاں نماز ادا کی جاتی تھی’۔

یہاں بھی کونے پر ایسی شاندار دیوار موجود ہے جو اس مقبرے کی خوبصورتی کا شاندار نمونہ ہے۔ ساتھ میں آپ اگر اندر سے یہ مقبرہ دیکھ کر نکل رہے ہیں تو پیلے پتھر کے بنے سائبان والے اس مخروطی مرکزی دروازے کو ضرور دیکھیں جس کے سامنے کی دیوار پر 2 چھوٹے چھوٹے جھروکے بنے ہوئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ، یہ جھروکے بنانے کا خیال ضرور مرزا عیسیٰ کو اس حوالے سے آیا ہوگا کہ بالکل سامنے مشرق کی طرف دریا کے بہاؤ کے کنارے اس کے والد جان بابا کا مقبرہ ہے جس کو مرزا نے ہی بنوایا تھا۔

جان بابا کا مقبرہ، عقب میں مرزا عیسیٰ کا مقبرہ بھی دکھائی دے رہا ہے
جان بابا کا مقبرہ، عقب میں مرزا عیسیٰ کا مقبرہ بھی دکھائی دے رہا ہے

جب بچے چھوٹے ہوں تو ان زمانوں میں ماں باپ کا سہارا برگد کے گھنے پیڑ کی طرح ہوتا ہے جو زندگی کی گرمیوں سردیوں سے بچا رکھتا ہے۔ مرزا کو ماں کی شفقت کی چھاؤں تو نصیب میں تھی مگر اس کے والد کو اس کے بھائی، مرزا باقی بیگ نے قتل کروا دیا تھا۔ جان بابا نے جب ٹھٹہ کے آسمان کو آخری بار دیکھا تھا تب مرزا عیسیٰ چھوٹی عمر کا تھا۔ اس لیے تاحیات باپ کی شفقت کی پیاس اپنے دامن میں لیے زندگی گزاری۔

دروازے پر ان جھروکوں کو شاید مرزا نے یہ سوچ کر بنایا ہوگا کہ جب وہ اس دنیا میں نہیں رہے گا تو وہ ان جھروکوں سے اپنے خاندان اور اپنے والد کی آخری آرام گاہ کو ہر وقت دیکھ سکے گا کہ جھروکے، انتظار میں کھڑے ہونے اور دُور دیکھنے کی بھی نشانی ہے۔ اگر مرزا کو اپنے آباؤ اجداد سے انسیت نہ ہوتی تو شاید وہ اپنا ٹھنڈا وجود سانبھر سے ہزاروں کلومیٹر دُور یہاں دفن کرنے کی وصیت نہ کرتا۔


حوالہ جات:

۔ ’ترخان نامہ‘ ۔ سید میر محمد بن جلال۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد

۔ ’مکلی نام‘ ۔ میر علی شیر ’قانع‘۔ سندھی ادبی بورڈ۔ حیدرآباد

۔ ’تحفۃ الکرام‘ ۔ میر علی شیر ’قانع‘۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد

۔ ’تاریخ کے مسافر‘ ۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور

۔ ’تاریخ سندھ‘۔ اعجازالحق قدوسی ۔ سندھیکا اکیڈمی، کراچی

. The Antiquities of Sind. Henry Cousense. 1929

. Report of Antiquities of Kuch & Kathiawar. James Burgess. 1875


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔