عالمی ادارہ صحت کی جانب سے دنیا بھر میں کورونا وائرس کی 10 نئی اقسام پر باریک بینی سے نظر رکھی جارہی ہے۔

ان اقسام میں سے 2 کو امریکا میں دریافت کیا گیا تھا، ایک بھارت سے تعلق رکھتی ہے جو وہاں کورونا کی دوسری لہر کی بڑی وجہ سمجھی جارہی ہے۔

کورونا وائرس کی نئی اقسام روزانہ کی بنیاد پر سامنے آرہی ہیں کیونکہ یہ وائرس مسلسل باشعور ہورہا ہے، مگر ان میں سے چند ہی عالمی ادارہ صحت کی ویرینٹ آف انٹرسٹ یا ویرینٹ آف کنسرن کی فہرستوں کا حصہ ہیں۔

ان اقسام کو میں ایسی میوٹیشنز موجود ہیں جو ان کو ممکنہ طور پر زیادہ متعدی، زیادہ جان لیوا اور ویکسین یا علاج کے خلاف زیادہ مزاحمت کی طاقت دیتی ہیں۔

عالمی ادارے نے برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم بی 117، جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی قسم بی 1351 اور برازیل میں دریافت ہونے والی قسسم پی 1 کو باعث تشویش سمجھی جانے والی اقسام کی فہرست میں شامل کیا ہے۔

اسی طرح بھارت میں دریافت ہونے والی قسم کو بی 1617 فی الحال ویرنٹ آف انٹرسٹ کی فہرست میں شامل ہے مگر ادارے کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ اس کے بارے میں مزید تحقیق سے اس قسم کے بارے میں معلوم ہوسکے گا۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں وائرس کی متعدد اقسام گردش کررہی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کو مناسب تجزیہ ہونا چاہیے۔

سائنسدانوں کی جانب سے دیکھا جارہا ہے کہ ہر قسم کس حد تک مامی خطوں میں گردش کررہی ہیں، ان میں میوٹیشنز سے بیماری کی شدت یا پھیلاؤ میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں اور دیگر عناصر کو بھی مدنظر رکھا جارہا ہے۔

عالمی ادارے کے ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ تفصیلات بہت تیزی سے آرہی ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر نئی اقسام سامنے آرہی ہیں مگر ان میں سے سب اہم نہیں۔

ویرینٹ آف انٹرسٹ کی فہرست میں شامل دیگر اقسام میں بی 1525 (سب سے پہلے برطانیہ اور نائیجریا میں سامنے آئی)، بی 1427/ بی 1429 (امریکا میں سامنے آئی)، پی 2 (برازیل میں سامنے آئی)، پی 3 (جاپان اور فلپائن میں سامنے آئی)، ایس 477 این (امریکا میں دریافت ہوئی) اور بی 1616 (سب سے پہلے فرانس میں سامنے آئی) شامل ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق ان ممالک کے ماہرین کے ذریعے نئی اقسام کی شناخت اور ان سے پیدا ہونے والی صورتحال کو سمجھا جارہا ہے۔

ادارے کے مطابق ہم نے ماہرین کو ایک کمرے میں اکٹھا کیا ہے اور عالمی برادری کو اکٹھے مل کر کام کرنا چاہیے۔

بیان میں کہا گیا کہ متعدد ممالک میں پریشان کن رجحانات نظر آئے ہیں، کچھ میں کیسز کی تعداد میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے، ہسپتالوں اور آئی سی یو میں داخلے کی شرح بڑھی ہے۔

یہ وہ ممالک ہیں جن کو ابھی تک ویکسینز تک رسائی نہیں ملی۔

تبصرے (0) بند ہیں