سفرِ ترکی قبل از لاک ڈاؤن اور بعد از لاک ڈاؤن (آخری حصہ)

سلسلے کی گزشتہ اقساط: پہلی قسط، دوسری قسط۔


2021ء کا سارا گھومنا پھرنا اچھی طرح یاد ہے۔ اس مرتبہ بھی ہمیں انطالیہ سے استنبول جانا تھا۔ انطالیہ میں ہمارے 4 روزہ قیام کا انتظام ایک بہت ہی خوبصورت مقام پر تھا۔ یہاں سے استنبول تک کا سفر مقامی ترک ایئر لائن پگساس کی پرواز کے ذریعے طے کیا گیا۔

اس ایئر لائن کے جہاز ہم نے کراچی سے لاہور تک پرواز بھرتے اس وقت بھی دیکھے تھے جب پی آئی اے نے محدود عرصے کی لیز پر اسی ایئر لائن کے جہاز لیے تھے۔ ان پروازوں کو بجٹ فلائٹ پکارا جاتا تھا جس میں اگر کچھ کھانا پینا ہوتا تو اضافی پیسے ادا کرنے پڑتے تھے ورنہ فضائی میزبان کی مسکراہٹ اور سلام دعا پر ہی اکتفا کرنا پڑتا تھا۔ سستی فلائٹ کی سہولت فراہم کرنے کے لیے بچت اس قدر کہ بورڈنگ پاس بھی گتے کے بجائے کاغذ پر پرنٹ ہوتا۔

انطالیہ ایئرپورٹ کی تصویر (2021ء)
انطالیہ ایئرپورٹ کی تصویر (2021ء)

خیر ماضی کو چھوڑ کر حال میں آتے ہیں۔ ایک گھنٹے بعد جہاز استنبول کے صبیحہ ایئرپورٹ پر اترچکا تھا جو 'شہر والا ایئرپورٹ' بھی کہلاتا ہے۔ صبیحہ ترکی کی سب سے پہلی خاتون پائلٹ تھیں اور ایئرپورٹ انہی کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ چھوٹا ایئرپورٹ پکارے جانے کے باوجود یہ ہمارے کراچی کے ایئرپورٹ سے بھی بڑا ہی محسوس ہوا۔ ایئرپورٹ سے ایک مرتبہ پھر تاریخی ضلع سلطان محمد فاتح کی جانب سفر شروع ہوچکا تھا۔

ستمبر کے آخری ایام تھے لیکن استنبول کا موسم بھی کراچی جیسا معتدل گرمی مائل تھا۔ استنبول میں ویسے تو کبھی ٹریفک جام کی پریشانی بھگتنی نہیں پڑتی لیکن شام کے اوقات میں شدید سست روی سے سرکتی گاڑیاں فاصلے طویل کردیتی ہیں۔

استنبول شہر مجھے اپنے لاہور کے قریب قریب محسوس ہوتا ہے۔ شریف برادران نے استنبول سے ہی متاثر ہوکر جدید لاہور کا نقشہ ترتیب دیا تھا۔ سڑکیں کراچی سے چھوٹی لیکن لاہور جیسی ہیں۔ کسی جگہ گٹر کا بہتا پانی یا گڑھے دکھائی نہیں دیے۔

فلائی اوورز اور انڈر پاسز پر مشتمل سڑکوں کا زبردست جال بچھا ہوا ہے۔ سگنل فری ماحول ہے۔ لاہور میٹرو بس جیسی ہی سرخ رنگت والی اندرونِ شہر چلنے والی بسیں سڑک کے بیچ میں دوڑتی ہیں ٹھیک جس طرح لاہور میں دوڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ پیلے رنگ کی بڑی مرسڈیز بسیں اس کے علاوہ ہیں۔ یہاں اربن ٹرانسپورٹ کا ایک مربوط نظام پایا جاتا ہے۔

اگرچہ یہاں دبئی جیسا کنکریٹ جنگل نہیں ہے لیکن جدید تعمیرات ضرور دکھائی دیں گی۔ صفائی کا نظام عمدہ ہے۔ سارا دن ہی صفائی ہوتی رہتی ہے اور دن کے ہر پہر سڑکوں پر بلدیاتی ادارے کے ٹرک گھومتے دکھائی دیں گے۔

سڑک کے مشاہدے سے پتا چلا کہ یہاں زیادہ تر گاڑیاں یورپی ساختہ اور تھوڑی بہت جاپانی ساختہ ہیں۔ پیلی ٹیکسی کے لیے اٹلی کی طاقتور ڈیزل انجن والی فیاٹ گاڑی استعمال ہوتی ہے۔ کورونا سے بچاؤ کے لیے بہت سی ٹیکسیوں میں مسافر اور ڈرائیور کے درمیان پلاسٹک شیٹ کا استعمال کیا گیا تھا لیکن ہر ٹیکسی میں ایسا انتظام موجود نہیں تھا۔

ٹیکسی میں کورونا سے بچاؤ کے لیے استعمال ہونے والی پلاسٹک شیٹ (2021ء)
ٹیکسی میں کورونا سے بچاؤ کے لیے استعمال ہونے والی پلاسٹک شیٹ (2021ء)

اس مرتبہ ہم آن لائن ٹیکسی سروس کے ذریعے صرف پیلی ٹیکسی ہی منگواسکتے تھے کیونکہ پرائیوٹ گاڑیوں پر پابندی لگ چکی ہے۔ اتفاق سے اس بار بھی ہمارا ہوٹل سلطان احمد میں آیا صوفیا کے بالکل سامنے تھا جہاں ہم 2017ء میں قیام و طعام کی خدمات وصول کرچکے تھے۔

ہوٹل کی عمارت کے ساتھ ہی میٹرو ٹرین کی بل کھاتی پٹری گزرتی ہے۔ راہ گیروں کو رواں دواں رکھنے کے لیے بڑی ہی خوبصورتی سے راستہ بنایا گیا ہے۔ لوگ بھی کافی پُرسکون ہیں اور میٹرو ٹرین کے گزر جانے کے بعد پیدل یا موٹر سوار افراد اپنا سفر جاری رکھتے ہیں، اور ہاں یہاں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑ دینے کی کوئی ریس نہیں لگی ہوتی۔

سلطان احمد کے سیاحتی مقامات کے لیے ہمیں علیحدہ 'سیاحتی پولیس' تعینات دکھائی دی۔ اس کا مطلب یہ کہ پولیس سیاحوں سے بات کرنے کا سلیقہ ضرور جانتی ہوگی۔ ہماری کوشش تھی کہ استنبول کو اس مرتبہ اس زاویے سے دیکھیں اور بیان کریں جو پچھلی مرتبہ کسی وجہ سے رہ گیا تھا۔

ترکی میں بھی صرف شاپنگ مال ہی وہ واحد جگہ تھی جہاں ماسک لازمی لگانا پڑتا ورنہ دیگر مقامات پر حال ہمارے جیسا ہی ہے۔ میں نے پایا کہ ترکی میں زیادہ تر سیاح یورپی ممالک اور کسی حد تک عرب ممالک سے تعلق رکھتے تھے ورنہ دنیا کے بہت سے ممالک میں پاکستانی اور ہندوستانی سمیت ایشیائی باشندے بھی کثیر تعداد میں جا بجا دکھائی دے جاتے ہیں۔

آیا صوفیا میں اب باقاعدگی سے نماز ہوتی ہے۔ نیلی مسجد اور آیا صوفیا میں اذان کی ترتیب کچھ اس طرح ہے کہ ایک جانب سے اذان کا ایک فقرہ ادا ہوتا ہے تو دورانِ توقف دوسری جانب سے اذان کا دوسرا فقرہ بلند ہورہا ہوتا ہے۔ دونوں اذانیں آپس میں ٹکراتی نہیں ہیں۔ نماز کے اوقات میں سیاحوں کا داخلہ مساجد میں کچھ دیر کے لیے بند کردیا جاتا ہے۔

نیلی مسجد میں موجود مختلف زبانوں میں ترجمہ شدہ قرآن مجید
نیلی مسجد میں موجود مختلف زبانوں میں ترجمہ شدہ قرآن مجید

آیا صوفیا کے مرکزی ہال میں اس مرتبہ نماز کی ادائیگی کے لیے مطلوبہ بندوست کیا گیا تھا۔ صفیں تھیں اور قالین بچھے تھے۔ اس سے پہلے یہیں پر بے ترتیبی سے چلتے پھرتے لوگ نظر آتے تھے۔

نیلی مسجد کے سامنے میدان ہے اور میدان کے سامنے میٹرو ٹرین کی پٹری بچھی ہوئی ہے۔ یہاں ایک جانب گرینڈ بازار کا راستہ اور دوسری جانب اترائی والا راستہ شہر کے دیگر علاقوں سے ملانے والی شاہراہ سے ملتا ہے۔ شہر کے مختلف مقامات پر مختلف سلطانوں کے مقبرے اور یادگاری ستون نظر آجاتے ہیں۔

ستون (2017ء)
ستون (2017ء)

ستون (2017ء)
ستون (2017ء)

ستون (2017ء)
ستون (2017ء)

بڑی سڑک کے دامن میں ساحل ہے۔ جہاں تفریحی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی بہت سی کشتیاں ڈولتی نظر آتی ہیں۔ کروز کی سیر ہم پچھلی مرتبہ کرچکے ہیں بس یوں سمجھ لیں جہاز سمندر میں گھومے گا، آپ کھانا کھاتے ہوئے مختلف تفریحی خاکے دیکھتے جائیں گے، پھر ایشیا اور یورپ کو ملانے والے تاریخی باسفورس پل کے دیدار کا شرف حاصل کرکے آپ واپس آجائیں گے۔

باسفورس پل اور کروز سے شہر کا منظر (2017ء)
باسفورس پل اور کروز سے شہر کا منظر (2017ء)

باسفورس پل اور کروز سے شہر کا منظر (2017ء)
باسفورس پل اور کروز سے شہر کا منظر (2017ء)

نیلی مسجد کے پیچھے آراستہ نامی بازار ہے جہاں پردیس سے اپنوں کے لیے یادگاری تحفے تحائف لیے جاسکتے ہیں۔

چونکہ قالین بانی کی صنعت بھی ترکی میں منفرد مقام رکھتی ہے اس لیے بازار میں قالین کی کافی دکانیں دکھائی دیں گی۔

اس شہر میں پاکستان کے چند دوستوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان سے ہونے والی گفتگو کا لب لباب یہی تھا کہ اگر آپ کو ترکی پسند آجائے تو آپ یہاں شفٹ تو ہوسکتے ہیں لیکن اس سے پہلے فکرِ ملازمت ضروری ہے۔ کوئی جگاڑ شاید نہ چلے۔

آراستہ بازار کا داخلی دروازہ 2021ء
آراستہ بازار کا داخلی دروازہ 2021ء

اس شہر میں جگہ جگہ سڑکوں پر رواں یا پارک شدہ الیکٹرک اسکوٹی دکھائی دے گی۔ اسکوٹی کو موبائل ایپ کے ذریعے باآسانی بُک کیا جاسکتا ہے، بس بکنگ کیجیے اور پھر مطلوبہ راستے پر مطلوبہ دُوری تک اس پر سواری کے بعد کسی مناسب جگہ پارک کردیجیے۔ یوں سمجھیے کہ اگر کہیں پیدل چلتے چلتے تھک جائیں اور کہیں جلدی پہنچنا ہے تو اسکوٹی آپ کے لیے حاضر ہے۔

خوش بختی کی علامت تصور کیا جانے والا نیلا پتھر
خوش بختی کی علامت تصور کیا جانے والا نیلا پتھر

اسکوٹی کی تصویر (2021ء)
اسکوٹی کی تصویر (2021ء)

کچھ چیزوں کا مزہ فطرت خود اپنے اصولوں سے دوبالا کردیتی ہے، مثلاً جب ہم تقسیم اسکوائر پر کھانا کھانے گئے تو تیز طوفانی بارش شروع ہوگئی۔ ہم نے وہاں 15 سے 20 لیرا یعنی پاکستانی 300 سے 400 روپے میں شفاف چھتریاں خریدیں اور موسم سے خوب لطف اندوز ہوئے۔ جس دن بارش شروع ہوئی اس کے بعد موسم مستقل خنکی مائل ہی رہا جیسے سردیوں کی آمد ہوچکی ہو۔ یہاں تک کے ہمیں جیکٹ نکالنی پڑگئی۔

تقسیم اسکوائر
تقسیم اسکوائر

2017ء میں ہم نے استنبول اور ازمیر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کا بھی رُخ کیا تھا۔ شاہکار طرز کی عمارتوں والے تعلیمی ادارے مقامی زبان میں تعلیم دینے سے بالکل بھی نہیں ہچکچاتے۔ خوشگوار ماحول تھا اور سب سے بڑھ کر کلاسز کے ساتھ مختلف عملی تجربات کے لیے بہترین سامان سے آراستہ لیبارٹریز بھی موجود تھیں۔ محسوس تو یہی ہوا کہ تعلیم پر اچھا خاصا بجٹ خرچ ہو رہا ہے بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ تعلیم ترجیحات میں شامل ہے۔

ترک پکوان

اگر آپ کو بھوک بہت زیادہ لگی اور جلدی پیٹ بھرنا ہے تو شوارما کھالیں کیونکہ پوری دنیا میں حلال کھانا کھانے کا فوری حل یہی ہے۔ ویسے ترکی میں حلال و حرام کا زیادہ مسئلہ پیش نہیں آتا، البتہ یہ بھی بتاتے چلیں کہ بہت سے مسلمان ممالک ایسے بھی ہیں جہاں کھانا حلق سے اتارنے سے پہلے بیسیوں بار تسلی کرنی پڑجاتی ہے۔

ترک پکوانوں کی ظاہری شکل و صورت پر نہیں جائیے گا، کیونکہ ان میں مصالحہ جات کی مقدار آپ کی پسند سے بڑی حد تک کم بھی ہوسکتی ہے۔ بہت سے سلاد اور چٹنیاں اپنی شکل سے دھوکا دیتی ہیں اس لیے پلیٹ بھرنے سے پہلے پکوان یا کوئی بھی کھانے کی چیز چکھ لی جائے تو اچھا ہے۔ یہاں نمکین لسی کو آئرن کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

ترک بار بی کیو کا ذائقہ بھی نرالہ ہے۔ ترکی جانے کے خواہاں خواتین و حضرات کو میرا مشورہ ہے کہ وہ عرفا اور ادانہ کباب ضرور کھائیں۔ اس ڈش میں ایک بڑا سا سیخ کباب تھوڑے سے چاول، ماش کی دال اور سبز مرچ وغیرہ کے ساتھ پیش کیا جائے گا جبکہ تندوری روٹی حسبِ ضرورت دی جاتی ہے۔ میٹھے میں تو ترک ڈیلائٹ کا کوئی ثانی ہی نہیں۔ سرخی مائل ترک چائے بہت سے لوگوں کا یہاں پسندیدہ مشروب ہے۔ یہ مجھے بالکل پسند نہیں لیکن آپ کو موقع ملے تو ٹرائی کرلیجیے گا ہوسکتا ہے آپ کو پسند آجائے۔

ترک پکوانوں کی ظاہری شکل و صورت پر نہیں جائیے گا
ترک پکوانوں کی ظاہری شکل و صورت پر نہیں جائیے گا

ترک پکوان
ترک پکوان

ترک پکوان
ترک پکوان

کچھ ترک ریسٹورینٹس پر آپ کو ایک بزرگ خاتون بڑے سے توے کے سامنے بیٹھی دکھائی دیں گی۔ یہ خالہ جی آپ کو بہت ہی مزے کی قیمے اور پالک یا آلو والی چپاتی بنا کردیں گی جس میں پنیر کا تڑکہ حسبِ ذائقہ لگوایا جاسکتا ہے۔ توے والی خالہ جی کو جب بھی دیکھیں گے تو مسکراتا پائیں گے۔ یہاں شہد پیش کرنے کا انداز بھی کافی منفرد ہے کیونکہ لوگوں کو چھتے سمیت شہد دیا جاتا ہے اور لوگ بھی چھتے کی موم کھا رہے ہوتے ہیں۔

اکثر ریسٹورینٹس پر بزرگ خاتون بڑے سے توے کے سامنے بیٹھی دکھائی دیں گی
اکثر ریسٹورینٹس پر بزرگ خاتون بڑے سے توے کے سامنے بیٹھی دکھائی دیں گی

یہاں شہد پیش کرنے کا انداز بھی کافی منفرد ہے
یہاں شہد پیش کرنے کا انداز بھی کافی منفرد ہے

راہ چلتے یہ مشاہدہ بھی ہوا کہ یہاں لوگ کافی پُرسکون ہیں۔ نہ چہرے سے کوئی کرختگی ٹپکتی ہے اور نہ ہی لہجے میں کوئی چڑچڑاہٹ ہوتی ہے۔ اکثر پوچھا جائے گا کہ کہاں سے آئے ہو، جب آپ کہیں گے 'پاکستان' تو 99 فیصد لوگ مسرت کا اظہار کریں گے اور کاردیش پاکستان کاردیش جیسے الفاظ سن کر آپ کو خوش کردیں گے۔ (ترک زبان میں بھائی چارگی کے لیے لفظ کاردیش استعمال کیا جاتا ہے)۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں اچھی خاصی عزت ملے گی، یاد رکھیے کہ اس عزت اور احترام کو قائم رکھنا ہماری عین ذمہ داری ہے۔

اب کچھ تذکرہ ہوجائے ترکی کے دیگر سیاحتی مقامات کا۔ استنبول کے علاوہ جتنے بھی سیاحتی مقامات دیکھے وہ یورپ سے متصل تھے۔ وہاں زیادہ تر یورپی سیاح ہی دکھائی دیے اور معاشرے کا رنگ ڈھنگ بھی یورپی طرز کا دکھائی دیا۔

2017ء میں ہم ازمیر گئے تھے۔ ازمیر ترکی کا تیسرا بڑا اور اہم ترین بندرگاہ کا حامل شہر ہے۔ ازمیر کی تاریخ بھی تقریباً ساڑھے 8 ہزار سال پرانی ہے۔ یہاں بھی مختلف ادوار میں حکمران بدلتے رہے۔ یہ شہر طویل عرصے تک سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ رہنے کے بعد 1919ء سے 1922ء تک یونان کا حصہ بھی رہا۔

ازمیر میں استنبول جیسا رش دکھائی نہیں دیتا۔ ساحل کے اردگرد کا علاقہ بہت ہی دلکش ہے اور سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ میٹرو ٹرین کا جال ایئرپورٹ سمیت شہر کے اہم مقامات کو آپس میں جوڑتا ہے۔ ہم ایئرپورٹ سے اپنے ہوٹل تک بھی میٹرو ٹرین میں آئے اور شہر کے مرکزی بازار تک بھی کئی مرتبہ بذریعہ ٹرین ہی جانا ہوا۔

ازمیر کا ایک نظارہ(2021ء)
ازمیر کا ایک نظارہ(2021ء)

ازمیر شہر میں مٹر گشتی(2021ء)
ازمیر شہر میں مٹر گشتی(2021ء)

ازمیر تاریخی مقامات سے زیادہ اپنی شہری زندگی کی رونق کے لیے مشہور ہے۔ ازمیر کی ایک یونیورسٹی میں بھی جانا ہوا۔ یہاں کافی تعداد میں پاکستانی طالب علم بھی زیرِ تعلیم ہیں۔ یونیورسٹی کا انفرااسٹرکچر جدید اور ماحول یورپی طرز کا محسوس ہوا۔ ازمیر سے ہی ہم اپنے پاکستانی دوست اسد کے ترک دوست باتوہان کردومان کے ساتھ سیاحتی مقام آلاچاتی اور چشمی بھی گئے۔

باتوہان کافی حد تک انگریزی سے واقف تھا۔ ہمارے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی اس نے نہ صرف اپنی گاڑی ہمارے لیے حاضر رکھی بلکہ خوب گھمایا پھرایا۔ چشمی اور آلاچاتی کے علاقے میں سیاحوں کی دلچسپی کا سامان موجود ہے۔ چشمی کے ساحل سے دوسری جانب پہاڑوں کے اس پار یونان شروع ہوجاتا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ سخت سردیوں کے دنوں میں جب دھند کی وجہ سے کچھ دکھائی نہیں دیتا تو غیر قانونی تارکینِ وطن اپنی جان پر کھیل کر اس راستے سے یورپ میں داخل ہونے کی کوششیں کرتے ہیں۔

ازمیر میں واقع ایک یونیورسٹی (2017ء)
ازمیر میں واقع ایک یونیورسٹی (2017ء)

آلاچاتی کا رہائشی علاقہ (2017ء)
آلاچاتی کا رہائشی علاقہ (2017ء)

چشمی سمندر کے کنارے پر بسا ایک خوبصورت رہائشی علاقہ ہے جو ازمیر سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ میں تو کہوں گا کہ ان 2 علاقوں کو ملانے والا راستہ ہی آپ کو دلفریب نظاروں سے بھرپور ملے گا۔ دونوں جانب سرسبز پہاڑ ہیں اور ان پر پن چکیاں آلودگی سے پاک توانائی پیدا کر رہی ہیں۔ لہراتی اور بل کھاتی صاف ستھری سڑک پر ڈرائیو کا لطف بھی کسی طور پر کم نہیں۔

چشمی ہوٹل (2017ء)
چشمی ہوٹل (2017ء)

چشمی ہوٹل (2017ء)
چشمی ہوٹل (2017ء)

ہم نے ازمیر سے استنبول کے لیے بذریعہ سڑک سفر بھی کیا تھا۔ تقریباً 450 کلومیٹر پر محیط راستہ ساڑھے 5 گھنٹوں میں طے کیا گیا تھا۔ ترکی کے کسی مقام پر مجھے 6 رویہ یا 3 لین موٹر وے یا ایکسپریس وے نظر نہیں آیا۔ ہر جگہ 4 رویہ یا 2 لین والی سڑک ہی موجود تھی جہاں صفائی مثالی ملی۔ دونوں جانب کبھی پہاڑی سلسلہ تو کبھی کھیت کھلیان کے نظارے ملتے۔

ازمیر سے استنبول جاتے ہوئے ایک دلچسپ تجربہ ہوا۔ دورانِ سفر شام کے سائے گہرے ہوئے تو نیند غالب آگئی۔ آنکھ کھلی تو گاڑی سڑک پر چلنے کے بجائے ہچکولے کھاتی محسوس ہوئی۔ جلدی سے دائیں بائیں نگاہ ڈالی اور دوستوں کو جگایا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہماری ہی نہیں بلکہ بہت سی گاڑیاں، ٹرک اور بسیں بھی ایک بڑے سے بیڑے پر سوار تھیں۔ سوار کیا تھیں بس جیسے ترتیب سے پارک کی گئیں تھیں۔

ہم لوگ گاڑی سے اتر کے بیڑے کے بالائی حصے سے سمندر کا نظارہ کرنے لگے۔ ایک جانب خوبصورت روشنیوں سے جھلملاتا تاریخی باسفورس پل تھا جو یورپ اور ایشیا کو ملاتا ہے تو دوسری جانب استنبول شہر کی روشنیاں جگمگا رہی تھیں۔ بتایا گیا کہ استنبول میں داخلے کا شارٹ کٹ استعمال کیا گیا ہے۔ بیڑا کچھ دیر بعد جیٹی کے پاس رُک گیا اور گاڑی دوبارہ سڑک پر باآسانی چڑھ گئی۔ ایسا انتظام کم از کم ہم نے تو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

بیڑے میں کھڑی گاڑیاں (2017ء)
بیڑے میں کھڑی گاڑیاں (2017ء)

ویسے تو ترکی کا ہر مقام ہی سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں سال قدیم تاریخ رکھتا ہے لیکن تاریخ میں انطالیہ کا ایک بڑا ہی منفرد مقام ہے۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد یہ شہر اٹلی کے قبضے میں چلا گیا تھا اور ترکی کی مشہور جنگِ آزادی کے دوران اسے دوبارہ حاصل کیا گیا۔ ابن بطوطہ نے بھی انطالیہ کی خوبصورتی اور تاریخی حیثیت کو بہت ہی اچھے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ یہ بحیرہ مرمر کے کنارے آباد ترکی کا سب سے بڑا تاریخی مقام ہے جہاں پورے علاقے کو سیاحوں کی جنت بنایا گیا ہے۔

یہاں ہم جس ریزورٹ میں قیام پذیر تھے وہ زمین پر جنت کا نمونہ سا تھا۔ ریزورٹ کا اپنا ساحلی قطعہ تھا۔ رہائشی کمرے کے ساتھ ہی سوئمنگ پول اور نہ جانے کیا کیا پُرتعش سہولیات دی گئی تھیں۔ وہاں ہمارا سب سے پہلا اور مزیدار تجربہ فل بورڈ کی سہولت سے مستفید ہونا تھا۔ فل بورڈ سے مراد یہ ہے کہ آپ 24 گھنٹے بغیر پیسے خرچ کیے جو چاہے کھا یا پی سکتے ہیں۔ یعنی آپ نے کمرہ بُک کرانا ہے اور باقی تمام سہولیات مفت۔

ریزورٹ میں جہاں جہاں بیٹھنے کی جگہ ہے اس کے ساتھ ہی کھانے پینے میں برگر سے لے کر شوارما رول تک ہر چیز کے چھوٹے چھوٹے اسٹال اور پینے کے لیے مختلف مشروبات کے بڑے بڑے شیڈز موجود ہیں۔ ریزورٹ میں صرف ساحل اور سوئمنگ پول ہی نہیں بلکہ ان ڈور گیمز، ٹینس کورٹس، ان ڈور سوئمنگ پول، تھیٹر، بچوں کے لیے علیحدہ تفریحی مقامات بھی موجود ہیں۔

4 روزہ قیام کے دوران ہم نے ہر کونے کا رخ کیا مگر پھر بھی کئی حصے ان دیکھے رہ گئے۔ ساحل پر واٹر اسپورٹس یعنی پیرا سیلنگ یا جیٹ اسکی وغیرہ کا ایڈونچر کرنے کے لیے تھوڑی رقم دینی پڑجاتی ہے کیونکہ یہ سہولیات کسی دوسری پارٹی کے ذمے ہیں۔ اس ریزورٹ پر شکر ہے انگریزی باآسانی سمجھی اور بولی جا رہی تھی۔ یورپی لوگوں سے بات چیت کرنا بھی اس لیے آسان تھا۔

انطالیہ کے ریزورٹ کا ایک نظارہ
انطالیہ کے ریزورٹ کا ایک نظارہ

انطالیہ کا اہم تاریخی مقام شہر کی فصیل یا حادرین دروازہ ہے۔ حادرین سلطنت روم کا بادشاہ تھا اور یہ دروازہ اسی کے نام سے منسوب ہے۔ گیٹ سے اندر کی جانب قدیم شہر شروع ہوجاتا ہے۔ یہاں ایک بڑے میدان کے ساتھ ایک خوبصورت پارک بھی موجود ہے۔ گیٹ سے سمندر کے کنارے تک جانے والی گلی کی دونوں جانب دکانیں اور ریسٹورینٹ ہیں جہاں انواع و اقسام کے کھانے ملتے ہیں۔

حادرین دروازہ (2021ء)
حادرین دروازہ (2021ء)

حادرین دروازہ (2021ء)
حادرین دروازہ (2021ء)

استنبول کا نیا ایئرپورٹ
استنبول کا نیا ایئرپورٹ

ہماری واپسی دونوں مرتبہ استنبول سے ہی ہوئی تھی۔ 2017ء میں انٹرنیشنل ایئرپورٹ پرانی تعمیرات کا حامل لیکن وسیع اور پُرہجوم تھا۔ اس وقت بتایا گیا تھا کہ نیا ایئرپورٹ زیرِ تعمیر اور تکمیل کے قریب ہے۔ اس مرتبہ واپسی نئے ایئرپورٹ سے تھی۔

جلدی جلدی میں گاڑی سے بیرونی جائرہ لیا تو شاید 8 سے 10 لیول دکھائی دیے۔ شاندار اور جدید ایئرپورٹ ہمیں واپس اپنے دیس لے جانے کے لیے میزبانی کا منتظر تھا۔


لکھاری نیو ٹی وی کے پروگرام کرنٹ افیئرز کی میزبانی کرتے ہیں۔