لکھاری کراچی میں مقیم ایک مدرس اور محقق ہیں۔
لکھاری کراچی میں مقیم ایک مدرس اور محقق ہیں۔

حالیہ دنوں میں کراچی کے رہائشیوں نے شہر میں آگ لگنے کے کئی واقعات کا مشاہدہ کیا ہے۔ ان میں سے بڑے واقعات صدر کے مصروف علاقے میں رونما ہوئے۔ ایک مارکیٹ میں لگنے والی آگ سے 300 سے زائد دکانیں جل کر خاکستر ہوگئیں اور تقریباً 5 ارب روپے کا نقصان ہوا۔

چند روز بعد ایک اور مشہور مارکیٹ میں آگ بھڑک اٹھی اور وہاں بھی 100 سے زائد دکانیں جل گئیں۔ 20 نومبر کو تین ہٹی پر جھونپڑیوں میں آگ لگنے کا واقعہ رونما ہوا۔ اس واقعے میں کپڑے، سرکنڈے، جھاڑیوں اور پرانی لکڑی سے بنے گھر تباہ ہوگئے۔ اس واقعے نے غریبوں کی کئی سال کی جمع پونجی ختم کردی۔

اسی طرح پارکنگ پلازہ کے بالمقابل ایک پیٹرول پمپ پر ایندھن پہنچانے والے ٹینکر میں بھی آگ لگنے کا واقعہ سامنے آیا۔ انتظامیہ ان واقعات کی تفتیش کررہی ہے لیکن جیسے جیسے سردیاں قریب آرہی ہیں ویسے ویسے آگ لگنے کے مزید واقعات کا امکان بھی بڑھتا جارہا ہے۔

متاثرین سے بات چیت کرکے معلوم ہوا کہ کہیں تخریب کاری کا عنصر بھی موجود ہے۔ ماضی میں کراچی میں آگ لگنے کے ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جو ابتدا میں حادثہ نظر آئے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ آگ جان بوجھ کر لگائی گئی تھی۔ بلدیہ فیکٹری کا افسوسناک واقعہ بھی ایسی ہی ایک مثال ہے۔

اس قسم کے گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرنے والے افراد یا تو ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بے اختیار تصور کرتے ہیں یا انہیں چکما دینے کا کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کرلیتے ہیں۔ اس میں سیاسی سرپرستی کا بھی امکان رہتا ہے۔ یہ جو ہماری حکمران سیاسی اشرافیہ ہے، وہ حملے اور جلاؤ گھیراؤ کرنے والے گروہوں کو بہت چھوٹ دے کر رکھتی ہے۔

مزید پڑھیے: زبوں حالی کا شکار کراچی اور اس کے دم توڑتے بلدیاتی ادارے

بہرحال اگر حادثات کی بات کی جائے تو ان کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں آگ پکڑنے والے کپڑوں کو غیر محفوظ طریقے سے اسٹور کرنا بھی شامل ہے۔

اس کے علاوہ کمرشل عمارتوں میں بجلی اور پلمبنگ کے نقائص کو شاز ہی درست کیا جاتا ہے اور وہ وقت کے ساتھ ساتھ مزید خراب ہوتے جاتے ہیں۔ چونکہ مالکان اور انتظامیہ کو صرف اور صرف زیادہ منافع کمانے کی فکر ہوتی ہے اس وجہ سے وہ لیکیج، بجلی کی تاروں میں ہونے والے اسپارک اور جن نالیوں سے بجلی کی تاریں گزرتی ہیں ان میں خرابیوں کے باوجود ملازمین کو کام جاری رکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اکثر رہائشی اور کمرشل عمارتوں میں تو ضرورت کے مطابق بجلی کے کنیکشن لینے کی توفیق بھی نہیں کی جاتی۔

اسی طرح کام کی جگہوں کا مقام اور ان کی بناوٹ بھی محفوظ انخلا کو یقینی نہیں بناتی۔ انخلا کے لیے ضرورت سے کم راستوں کی وجہ سے نہ صرف بھگدڑ مچ سکتی ہے بلکہ لوگ پھنس بھی سکتے ہیں۔ اسی طرح ہوا کا مناسب گزر نہ ہونے کی وجہ سے آگ سے بچ کر نکلنے والوں کا دم بھی گھٹ سکتا ہے۔

اندرون شہر کے پُرہجوم علاقوں میں موجود گارمنٹ فیکٹریاں اور سلائی کڑھائی کی دکانیں اس حوالے سے خطرات کا شکار ہیں۔ جہاں جہاں بجلی کی تاروں کو گزارنے کے لیے پائپ، گیس کے پائپ یا سلینڈر، آگ پکڑنے والی اشیا یا تیل کے ڈپو موجود ہیں وہاں حفاظتی انتظامات ضرور ہونے چاہئیں۔

سب سے پہلے جو کام کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ پیداوار، فروخت اور اشیا کو اسٹور کرنے کی جگہوں کے بارے میں اعداد و شمار کو مزید بہتر بنایا جائے۔ ادارہ شماریات باقاعدگی سے سروے کرے جو اس اعداد و شمار کی بنیاد بن سکے۔

ان اعداد و شمار میں اضافے اور بہتری کے لیے ایک میونسپل منصوبہ بھی تیار کیا جاسکتا ہے۔ ان میں ایسے ضمرے بھی شامل کرنے چاہئیں جن کا براہِ راست تعلق انسانی جان کے تحفظ سے ہو۔ ہمارے تعمیراتی قوانین کسی بھی عمارت کی تیاری اور مرمت کے دوران آگ بجھانے کے انتظامات کا بنیادی ڈھانچہ بیان کرتے ہیں۔ اس فریم ورک میں اسٹینڈ پائپ، پانی چھڑکنے کا خود کار نظام، آگ بجھانے کے دستی آلات، فائر الارم سسٹم، سگنل اسٹیشنز، پانی کے بالائی ٹینک، آگ سے بچاؤ فراہم کرنے والی تعمیرات، فائر والز، پروٹیکٹڈ شافٹ اور آگ نہ پکڑنے والے دروازے شامل ہیں، تاہم ان کے نفاذ کے بارے میں کسی کو کوئی خبر نہیں۔

مزید پڑھیے: زمین بوس ہوتا کراچی

موجودہ عمارتوں کی جانچ پڑتال سے ناقص تعمیرات والی عمارتوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے تاکہ پھر ان کی مرت کی جاسکے۔ ان کاموں کو ہنگامی بنیاد پر انجام دینے کے لیے خصوصی ٹیمیں تیار کرکے انہیں متحرک کیا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی شراکت بہت ضروری ہے۔ تجارتی و کاروباری انجمنوں، سول سوسائٹی، سیاسی جماعتوں، بلڈنگ کنٹرول کے اداروں، مزدور یونین، جامعات اور میڈیا سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

کراچی کے پرپیچ اور پُرہجوم علاقوں میں اس قسم کی کئی عمارتیں موجود ہیں جنہیں سیفٹی آڈٹ کی ضرورت ہے۔ پرانے علاقوں میں موجود گودام اور پیداواری ادارے، ریلوے لائن، ہائی ٹینشن لائن اور سڑکوں اور ہائی وے کے ساتھ موجود جھونپڑیاں، ایسے گودام جہاں خطرناک مادے رکھے ہوں، پیٹرولیم تنصیبات، آئل ڈپو، بجلی گھر اور کچرا کنڈیاں ایسے مقامات ہیں جہاں لوگ نسبتاً منظم لیکن خطرناک زندگی گزارتے ہیں۔ ہمیں اکثر مزدور ٹھیلوں، فٹ پاتھ، ٹریفک آئی لینڈ، دکانوں کے باہر، چار دیواری، پارکوں میں اور پلوں کے نیچے سوتے ہوئے نظر آتے ہیں، یہ سب بھی انہی خطرات کا شکار ہیں۔

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ حفاظتی اقدامات اٹھانا حادثے کے بعد افسوس کرنے سے بہتر ہے۔ سندھ حکومت کو چاہیے کہ مارکیٹ کی موجودہ انتظامی کمیٹیوں، دکانداروں کی انجمنوں اور مقامی افراد کی تنظیموں کی آگ لگنے اور دیگر حادثات سے بچنے کے اقدامات کرنے میں مدد کرے۔ مقامات کے مشترکہ سروے، آتش گیر مادوں کی خرید و فروخت اور انہیں ذخیرہ کرنے کی جگہوں کی نشاندہی اور رضاکاروں کو کسی حادثے سے نمٹنے کی بنیادی تربیت میں مدد کرنا ایسے اقدامات ہیں جن سے جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔


یہ مضمون 23 نومبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں