لکھاری این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے شعبہ پلاننگ اینڈ آرکیٹکچر کے چیئرمین ہیں۔
لکھاری این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے شعبہ پلاننگ اینڈ آرکیٹکچر کے چیئرمین ہیں۔

اخباری رپورٹوں کے مطابق کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) پر اپنے ملازمین کو رٹائرمنٹ کے بعد واجب الادا رقم 4 ارب 20 کروڑ روپے تک پہنچ چکی ہے۔ اس سال کے لیے کے ایم سی کا سالانہ بجٹ 24 ارب روپے ہے۔

اب عدالتی تجویز پر سندھ حکومت کے ایم سی کے کچھ اثاثوں کو نیلام کرنے کا سوچ رہی ہے۔ دوسری طرف کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کو بھی کچھ اسی قسم کی صورتحال درپیش ہے۔

گزشتہ نصف صدی کے دوران ان دونوں بلدیاتی اداروں نے بہت خوبی سے کام کیا ہے لیکن اب انہیں مالی مشکلات اور کارکردگی کے فقدان کا سامنا ہے۔ ان دونوں کے علاوہ کچھ دیگر ادارے بھی اسی طرف جارہے ہیں۔

مزید پڑھیے: کراچی میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟

جیسے ٹرانسپورٹ، فراہمی و نکاسی آب اور سالڈ ویسٹ منیجمنٹ کے ذمہ دار بلدیاتی اداروں کا انحصار بھی صوبائی حکومت پر ہی ہے۔ اگرچہ 18ویں ترمیم کے بعد سندھ حکومت کو دستیاب وسائل بہت زیادہ ہیں لیکن پھر بھی وہ ان بلدیاتی اداروں کی مستقل مالی معاونت کے لیے ناکافی ہیں جنہیں انتظامی اور مالی بدانتظامی کا سامنا ہے۔

کنٹونمنٹ بورڈز کے علاوہ کراچی کے باقی بلدیاتی ادارے سندھ حکومت کے ماتحت کام کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ صوبائی حکومت ان اداروں کے لیے مالی معاونت کا اعلان تو کرتی ہیں لیکن وہ انہیں مالی طور پر کمزور ہی رکھنا چاہتی ہے۔ ملیر ندی کے ساتھ ایک ایکسپریس وے تعمیر کیا جارہا ہے جس سے صرف اعلیٰ طبقے کے افراد کو ہی فائدہ ہوگا۔ یہ راستہ 27 ارب روپے کی لاگت سے تعمیر ہورہا ہے جو کے ایم سی کے کل سالانہ بجٹ سے زیادہ ہے۔

کراچی میں 10 ہزار کلومیٹر سے زیادہ طویل سڑکوں کا جال موجود ہے جس کا زیادہ حصہ خستہ حال ہے۔ ایسی صورتحال میں کہ جب موجودہ سڑکوں کی مرمت لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کو سہولت فراہم کرسکتی ہے، ایک ایسی سڑک کی تعمیر سمجھ سے باہر ہے جس پر اربوں خرچ ہونے کے باوجود محض چند لوگوں کو ہی فائدہ ہوگا۔ اس کے علاوہ بلدیاتی اداروں کی بہتر کارکردگی اسی وقت ممکن ہے کہ جب یہ ادارے مالی طور پر مستحکم ہوں، اہل ہوں اور ان میں احتساب کا کوئی نظام بھی موجود ہو۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اداروں کی مالی صورتحال کو ازسرِ نو دیکھا جائے۔ اس وقت شہر کی آمدنی کے اکثر ذرائع صوبائی یا وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ مرکزیت کی حامل پالیسیوں کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کراچی کی آمدن کے مقامی ذرائع میں کمی آئی ہے۔

نواز شریف کے دورِ حکومت میں آکٹرائی ٹیکس (octroi tax) کو ختم کردیا گیا تھا جو شہر کی آمدن کا ایک اہم ذریعہ تھا۔ اس ٹیکس کی جگہ وفاقی معاونت نے لے لی تھی۔

اگر موجودہ دور کی بات کریں تو تنخواہوں اور پینشن کی ادائیگی سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس وجہ سے بلدیاتی ادارے سندھ حکومت پر انحصار کرتے ہیں۔ بلدیاتی ادارے نئے منصوبوں اور روزمرہ امور کے لیے بھی وزیرِاعظم کے خصوصی پیکج یا پھر صوبائی اور وفاقی حکومت کی جانب سے مالی امداد کے منتظر رہتے ہیں۔ مالی طور پر ماتحت رہنے کا نتیجہ یقینی طور پر انتظامی ماتحتی کی صورت میں نکلتا ہے۔

مزید پڑھیے: کراچی کا کون سا ماسٹر پلان؟

ضرورت اس بات کی ہے کہ آمدن کے حصول اور ٹیکس کی تقسیم کے نئے طریقے کھوجے جائیں۔ ان نئے ذرائع میں پراپرٹی ٹیکس کا نئے سرے سے نفاذ، موٹر وہیکل ٹیکس اور ماحولیاتی ٹیکس شامل ہوسکتے ہیں۔ کراچی میں پراپرٹی ٹیکس کے نام پر صرف 2 ارب روپے جمع ہوتے ہیں۔ یہ رقم ممبئی جیسے بڑے شہروں کے مقابلے میں بہت کم ہے، جہاں اس مد میں کئی گنا ٹیکس جمع ہوتا ہے۔

بلدیاتی ادارے اب ایک خریدار کے طور پر کام کرتے ہیں۔ کوئی معمولی مرمت کا کام ہو یا بڑا منصوبہ یہاں ٹھیکے داروں کی ہی مرضی چلتی ہے۔ ڈونر ایجنسیاں شہر کے انتظامی امور میں بہت عمل دخل رکھتی ہیں اور وہ نجی شعبے کی شراکت داری کی بھرپور حمایت بھی کرتی ہیں۔ نجی سرمایہ کاری میں اضافہ، حکومتی ذمہ داری میں کمی، آزاد منڈی کی معیشت کے فروغ، مسابقتی قیمت پر اشیا اور خدمات کی فراہمی اور روزگار میں اضافے کو نئے ٹھیکوں کے جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن کارکردگی پھر بھی ناقص ہی رہتی ہے۔

کراچی کے اکثر علاقوں میں سالڈ ویسٹ منیجمنٹ کو ٹھیکے پر دے دیا گیا ہے۔ اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی شہر میں جا بجا کچرے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کی سربراہی میں قائم کمیشن نے بھی کراچی اور پورے سندھ میں ویسٹ منیجمنٹ کی صورتحال پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔

مزید پڑھیے: زمین بوس ہوتا کراچی

متعلقہ افسران کی تربیت اور ادارہ جاتی سطح پر کارکردگی کی نگرانی سے بہتری ممکن ہے۔ بلدیاتی اداروں کی ذمہ داریوں اور کردار کو ایک مشاورتی عمل کے ذریعے دوبارہ وضع کرنا بھی ضروری ہے۔

ان اداروں میں بہتری کے لیے داخلی سیاسی عزم کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے لیے پہلے مرحلے میں ٹھیکے دینے کے عمل کو محدود کرنا ہوگا۔ اس کے برعکس حکومت موجودہ بلدیاتی اداروں کو آزاد اداروں کے طور پر کام کرنے کی اجازت دے کر انہیں مضبوط کرسکتی ہے۔

سیاسی عمل دخل کو روکنا، قابل افراد کو ان اداروں میں شامل ہونے کی ترغیب دینا، ادارہ جاتی نظم ونسق کو فروغ دینا، ایک غیرجانبدار ضابطہ اخلاق کی تیاری اور اداروں کے مابین تنازعات کو حل کرنا وہ امکانات ہوسکتے ہیں جن سے بہتری کی امید ہے۔


یہ مضمون 20 دسمبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں