لکھاری این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے شعبہ پلاننگ اینڈ آرکیٹکچر کے چیئرمین ہیں۔
لکھاری این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے شعبہ پلاننگ اینڈ آرکیٹکچر کے چیئرمین ہیں۔

7 جون کو کراچی کی ایک اور عمارت زمین بوس ہوگئی اور اس بار یہ واقعہ لیاری کے علاقے لیاقت کالونی میں پیش آیا۔ ابتدائی خبروں کے مطابق رہائشیوں کو عمارت کی خستہ حالی کے باعث عمارت خالی کرنے کا نوٹس بھی دیا گیا تھا۔

حالیہ مہینوں میں شہر کی عمارتیں متعدد ہولناک واقعات کا شکار ہوئی ہیں۔ 22 مئی کو رہائشی علاقے میں پی آئی اے کی پرواز پی کے 8303 گر کر تباہ ہوئی جس کے نتیجے میں قریب 20 گھر تباہ ہوگئے۔ حالیہ دنوں میں رنچھوڑ لائن اور گل بہار کے علاقوں میں عمارتوں کے گرنے کے مزید واقعات پیش آئے جبکہ سوشل میڈیا پر صارفین نے شہر کے مضافاتی علاقے میں واقع ایک ایسی عمارت کی تصویریں شیئر کی ہیں جو پسا ٹاور جتنی ہی ایک طرف سے جُھکی نظر آتی ہے۔

عمارتوں کے زمین بوس ہونے کے واقعات، بے ضابطہ آبادیوں اور صنعتی سرگرمیوں کے مقامات یا گوداموں میں آتشزدگی کے حادثات، آبی گزرگاہوں میں طغیانی اور دیگر کئی اقسام کے سانحات شہرِ کراچی میں معمول کی بات بن چکے ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کسی مناسب شہری منصوبہ بندی، زوننگ ضابطوں کے بغیر اور ترقی و انتظامی وسائل کی مختص کردہ معمولی رقم کے ساتھ ادارہ جاتی عدم دلچسپی کا عذاب بھگت رہا ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے اداروں میں اتنی صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ شہر کی عمارتوں کی نگرانی اور زمین کے استعمال سے متعلق ضابطگیوں کی نشاندہی کرسکیں۔

متعدد مرتبہ سپریم کورٹ کی مداخلت کے باوجود کم اور زیادہ گھنی آبادی والے علاقوں میں زمین کے استعمال کی تبدیلی کا عمل شدت کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ بلڈروں، ڈیویلپروں اور عہدیداران کے گٹھ جوڑ نے پُرکشش منافع کے لیے زمین کے استعمال کے معاملات میں مشکوک حاکمیت قائم کرلی ہے۔

اب چونکہ زوننگ کوڈ پرانے اور فرسودہ ہوچکے ہیں اور ترقیاتی کاموں کا انتظام سنبھالنے کے لیے کوئی مناسب پلان دستیاب نہیں ہے ایسے میں یہ سرگرمیاں زور و شور سے جاری ہیں جبکہ بدنام زمانہ قبضہ مافیا اس جرم میں خوب خوب ساتھ دے رہی ہے۔ قانون کے نفاذ سے متعلق نظام اس قدر کمزور ہے کہ یہ بڑے پیمانے پر کمرشل سرگرمیاں کرنے والوں کے آگے بے بس سا نظر آتا ہے۔

عام طور پر شہری پلان متعلقہ پلاننگ ادارہ تیار کرتا ہے جسے پھر تمام اسٹیک ہولڈرز کی آرا کے مطابق تبدیلیوں کے بعد نوٹیفائی کیا جاتا ہے اور زوننگ و بلڈنگ کنٹرول حکام کی جانب سے نافذالعمل کیا جاتا ہے۔ کراچی میں یہ عمل کچھ عرصے سے بگاڑ کا شکار ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے حکومتِ سندھ کو صوبے کے شہری اور علاقائی پلاننگ کے معاملات پر قانون سازی کرنے کی ہدایت کی تھی۔ قانون کا مسودہ تیاری مراحل میں ہے اور ممکنہ طور پر ایوان کو بھیج بھی دیا گیا ہے۔

تاہم اس وقت جو بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ پلاننگ سے متعلق ایک باصلاحیت اور آزاد خودمختار ادارے کی تشکیل کا ہے۔ شہروں میں بڑھتے ہوئے ہولناک واقعات ان زیرِ التوا کاموں کو انجام دینے کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی اداروں کو بھی ان واقعات کے پیش نظر ریلیف اور امدادی صلاحیتوں کو بڑھانا ہوگا۔

کراچی کا built environment تعمیراتی ماحول بہت ہی کٹھن ہے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ بلڈنگ کنٹرول کے اصولوں کے مطابق شہر کے تعمیر شدہ حصوں میں صرف جنوب، مشرق اور شمال مشرق ایسے حصے ہیں جہاں مناسب ڈیزان اور تعمیرات کے اصولوں کو اپنایا گیا ہے۔

زیادہ تر (رہائشی، کمرشل، صنعتی وغیرہ) عمارتوں کو نہ تو کوئی ڈیزائن موصول ہوئے ہیں اور نہ ہی یہ نگرانی کے مناسب عمل سے گزریں جس کے باعث عمارتوں کے تعمیراتی کام میں حسبِ منشا منصوبوں اور غیر معیاری مٹیریل کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ کئی مختلف کمیٹیوں کی جانب سے درجنوں عمارتوں کو خطرناک قرار دیا جاچکا ہے لیکن ان میں اب بھی کئی بے حد جذباتی کرایہ دار رہائش پذیر ہیں۔ پنجاب کالونی، نیلم کالونی، شاہ رسول کالونی اور دہلی کالونی اور بالائی و زیریں گزری کے علاقے ایسی کئی بے ترتیب کثیر المنزلہ عمارتوں سے بھرے ہوئے ہیں۔

لوگ مہنگے ٹرانسپورٹ اخراجات سے بچنے کے لیے غیر انسانی اور غیر محفوظ حالات میں رہتے ہیں۔ ان علاقوں تک آگ بجھانے والی گاڑیوں، ایمبولینسوں اور دیگر ایمرجنسی گاڑیوں کا پہنچنا محال ہے، شہر میں آتشزدگی اور عمارتوں کے گرنے کے بڑھتے واقعات نے جہاں غیر معمولی جانی نقصان پہنچایا ہے وہیں ان مسائل کو آشکار کردیا ہے۔

شہریوں کی زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے متعدد بنیادی اقدامات درکار ہیں۔ مثلاً گزشتہ ماہ جس مقام پر طیارہ گر کر تباہ ہوا تھا وہاں عمارتوں کو پہنچنے والے نقصان اور متاثرہ عمارتوں کی فٹنس کا جائزہ لینے اور مطلوبہ مرمتی اقدامات کا پتا لگانے کے لیے ایک مفصل انجینئرنگ تحقیقات درکار ہوگی۔

اسی طرح وہ تمام بے ضابطہ آبادیاں جہاں کثیر المنزلہ تعمیرات موجود ہیں وہاں بھی مفصل جائزوں کی ضرورت ہے۔ عمارتوں کا ان کی موجودہ حالت کے مطابق جائزہ لیا جائے، یعنی جائزے کے دوران اس بات کا دھیان رکھا جائے کہ

  • عمارت نے کتنی جگہ گھیری ہوئی ہے اور اسے کس طرح استعمال کیا جا رہا ہے،
  • عمارت مضبوط ہے یا نہیں،
  • آیا حفاظتی اصولوں کا خیال رکھا گیا ہے یا نہیں،
  • عمارتوں کا ڈیزائن کس نوعیت کا ہے اور تعمیراتی کام کے بعد ان میں کون سی تبدیلیاں کی گئیں،
  • عمارتوں کو کن جگہوں سے خطرہ ہوسکتا ہے،
  • ان میں پارکنگ کی سہولت ہے یا نہیں، اور
  • جس ماحول میں عمارت کھڑی ہے اس سے کون سے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں

اسی طرح زیرِ تعمیر عمارتوں کے منصوبوں کا بھی جائزہ لیا جائے۔ جائزے سے متعلق مذکورہ جامع فہرست کو زیرِ غور لاتے ہوئے عمارتوں کے حفاظتی معیارات کو مرتب دیا جائے۔

ضلعی سطح پر انسانی زندگی کے لیے خطرناک سرگرمیوں سے متعلق معلومات حاصل کرنا ہوں گی۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسی سرگرمیاں بغیر بلا روک ٹوک شہری علاقوں میں پھیل چکی ہیں۔ گیس سلنڈروں، کیمیائی مادوں، آتش گیر مواد و دیگر ایسی چیزوں کے ذخیرہ خانوں کو حفاظتی ضابطوں کے مطابق دستاویز کیا اور نمٹا جائے۔

دیگر کئی ایسے بڑے مسائل بھی اپنی جگہ موجود ہیں جو براہِ راست تعمیراتی سرگرمیوں اور خلاف ورزیوں کو متاثر کرتے ہیں۔ اداروں کی ایک بڑی تعداد خاص طور پر کینٹونمنٹ ترقیاتی کاموں سے جڑے مسائل پر صوبائی یا مقامی حکومتوں کی رٹ کی پرواہ ہی نہیں کرتے جس کے باعث معیارات میں تفریق پیدا ہوجاتی ہے۔

ہمارے ہاں زمین کے استعمال سے متعلق اعداد و شمار دستیاب ہی نہیں جو کسی بھی ضابطے کے نفاذ کے لیے ایک بنیادی ضرورت ہوتے ہیں۔ شہری ترقیاتی کاموں کے لیے اداروں کی مطلوبہ پلاننگ اور ضابطہ بندی و نگرانی کے میکینزم کے بغیر مزید حادثات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔


یہ مضمون 9 جون 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں