نیو کراچی ٹاؤن کے سیکٹر 5 ای کی کچی پکی سڑکوں سے گزریں تو ہر چہرہ خستہ حال سڑکوں سے اٹھتی دھول اور معاشی تنگی کی وجہ سے ہیجانی کیفیت میں نظر آئے گا۔ وہاں مقیم لوگوں میں سے چند کی پریشانی کا سبب حکومتِ سندھ کا وہ اقدام بھی ہے جس کا آغاز 2016ء میں ہوا تھا۔

چند برس قبل صوبائی وزیر برائے سماجی بہبود شمیم ممتاز نے نیم متوسط علاقے میں صوبے کے پہلے 'معمر افراد کی بحالی کے مرکز' کا سنگِ بنیاد رکھا تھا۔ کئی برسوں بعد عمارت تو کھڑی ہوگئی مگر اب تک فعال نہ ہوسکی۔ اس حوالے سے قابلِ ذکر پہلو اس وقت سامنے آیا جب وہاں کے رہائشیوں سے گفتگو ہوئی۔ انہوں نے والدین سے محبت کا دم بھرتے ہوئے حکومتِ سندھ کے اقدام کو ایک ’بھونڈا مذاق، خاندانی نظام کے خلاف مغربی سازش اور سرکاری عہدیداروں کے لیے جیب گرم کرنے کا ایک حربہ‘ قرار دیا۔

سندھ رورل سپورٹ پروگرام (ایس آر ایس او) کے ترجمان عبدالقدوس سے نیو کراچی ٹاؤن کے اس ’بحالی مرکز‘ کے بارے میں جب پتا چلا تو دوپہر ساڑھے 12 بجے اولڈ ایج ہوم کی عمارت کے پاس پہنچ گیا۔ اس وقت تک چوکیدار گھر کی راہ لے چکا تھا، عمارت کے مرکزی دروازے پر تالا لگا تھا اور اس کی دیوار کے سائے میں ایک شخص قضائے حاجت میں مصروف تھا۔

معمر افراد کی بحالی کے سرکاری مرکز کا بیرونی منظر—فوٹو: وقاص علی
معمر افراد کی بحالی کے سرکاری مرکز کا بیرونی منظر—فوٹو: وقاص علی

عمارت کے بالکل سامنے چھوٹے چھوٹے کارخانے ہیں جہاں سے اٹھنے والے کالے دھوئیں اور ریتی مٹی سے در و دیوار مستقل اور مزدور عارضی طور پر سرتا پاؤں سیاہ پڑچکے تھے۔ عمارت کی بائیں جانب 'عظمت رفتہ' کی باقیات تھیں۔ میرا مطلب ہے کہ منہدم شدہ متحدہ قومی موومنٹ کے دفتر کا ملبہ ابھی تک موجود تھا۔

اولڈ ایج ہوم کی عمارت کی دائیں جانب رہائشی علاقہ ہے جہاں میری ملاقات کنیز فاطمہ نامی 75 سالہ خاتون سے ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں اولڈ ایج ہوم کی نہیں بلکہ ایک سرکاری ہسپتال کی ضرورت ہے جہاں بزرگ افراد اپنا علاج معالجہ کراسکیں'۔

معمر خاتون نے حکومتی فیصلے کو عوام کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'جس پلاٹ پر صوبائی حکومت نے اولڈ ایج ہوم تعمیر کیا ہے وہاں کئی کچے پکے کمروں پر مشتمل ایک سینٹر تھا جہاں لڑکیوں کو سلائی کڑھائی سمیت دیگر کورسز کرائے جاتے تھے۔ ایک کمرے میں ڈسپنسری تھی، جہاں موجود ماہر امراضِ نسواں محلے کی حاملہ خواتین کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھیں اور یہاں بچوں کو پیدائشی ٹیکے بھی لگائے جاتے تھے‘۔

خم زدہ کمر اور عینک زدہ آنکھوں والی کنیز فاطمہ نے مدلل دلائل کے ساتھ اولڈ ایج ہوم کی تعمیرات کے فیصلے کو قدرے چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ’متوسط اور نیم متوسط طبقات میں والدین کی دیکھ بحال کا رجحان نسبتاً زیادہ ہوتا ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نیو کراچی ٹاؤن کی 13 کونسل یونینز میں معمر افراد کے لیے بحالی مرکز کی تعمیرات کا حتمی فیصلہ کرنے سے قبل ایک سروے کروا کر زمینی حقائق کا ادراک کیا جاتا'۔

75 سالہ معمر خاتون کنیز فاطمہ  نے اولڈ ایج ہوم کے بجائے سرکاری ہسپتال کی ضرورت پر زور دیا—فوٹو: وقاص علی
75 سالہ معمر خاتون کنیز فاطمہ نے اولڈ ایج ہوم کے بجائے سرکاری ہسپتال کی ضرورت پر زور دیا—فوٹو: وقاص علی

میں جب عمارت کے بیرونی حصے کی تصاویر بنانے لگا تو اس دوران چند نوجوان بھی اکٹھا ہوگئے۔ وہ قریبی کارخانوں کے مزدور تھے جس کا اندازہ مجھے ان کا لباس دیکھ کر بخوبی ہوگیا تھا۔ ان میں سے ایک نے اپنا نام فرحان بتایا جو کاسٹنگ کا کام کرتے ہیں۔ فرحان سمیت وہاں موجود دیگر نوجوانوں نے اولڈ ایج ہوم کے سنگِ بنیاد پر تعجب کا اظہار کیا۔ ان میں سے بیشتر نے اسلامی تعلیمات کا حوالہ دیا کہ کس طرح اسلام والدین کی خدمت کا درس دیتا ہے۔ ابھی گفتگو کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ سلیم نامی ایک اور مقامی بزرگ بھی وہاں پہنچ گئے۔

65 سالہ سلیم نے بھی اولڈ ایج ہوم کی مخالفت اور ہسپتال یا اسکول کے قیام کی حمایت میں پُرزور دلائل دیے۔ انہوں نے صوبائی حکومت کے فیصلے کو ’احمقانہ اور سندھ میں عائلی (خاندانی) نظام کے خلاف سازش‘ قرار دیا۔

سلیم صاحب کے مطابق ’مغربی معاشرے میں والدین کو اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ کر کئی برس تک رابطہ قائم نہ کرنے کا رجحان عام ہے لیکن اب کئی دہائیوں بعد مغربی ممالک میں ایک بار پھر خاندانی نظام کی بحالی پر زور دیا جارہا ہے لیکن ہمارے عاقبت نااندیش صوبائی حکمران غیر ارادی طور پر ’یہودی‘ ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کوشاں ہیں‘۔

اس دوران 69 سالہ محمد اسماعیل عرف نانا نے قدرے جذباتی اور خشونت لہجے میں کہا کہ ’ارے! اس میں یہودی کہاں سے آگئے، کیا وہ کہتے ہیں کہ اپنے بزرگ والدین کو اولڈ ایج ہوم میں منتقل کردو؟ (دراصل) یہ ساری کہانی صوبائی وزرا اور سرکاری افسران کی جیب بھرنے کے لیے ہوتی ہے، اگر یہاں ہسپتال، اسکول یا ڈسپنسری ہوتی تو ان کی جیبوں میں اتنا پیسہ نہیں جاتا اور اب وہ اولڈ ایج ہوم کے نام پر خوب پیسہ حاصل کریں گے‘۔

بزرگ شہری سلیم اور فرحان  نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا—فوٹو: وقاص علی
بزرگ شہری سلیم اور فرحان نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا—فوٹو: وقاص علی

کیا بے گھر بزرگ یا وہ معمر افراد جو گھر پر ملنے والی بنیادی توجہ سے محروم ہیں ان کے لیے اولڈ ایج ہوم کا قیام مؤثر ہے؟

ہمارے اس سوال پر محمد اسماعیل نے کہا کہ ’بھلے ہی نیو کراچی ٹاؤن میں تعمیر ہونے والے اس اولڈ ایج ہوم میں ہر سہولت میسر ہو، لیکن ایسی زندگی سے موت بہتر ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے دسمبر 2019ء میں سندھ ہائیکورٹ کے ججز کے ریمارکس کا حوالہ بھی دیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’قوانین ایسے بنالیے ہیں جس سے سندھ جنت لگنے لگتا ہے لیکن محض قانون سازی سے کیا ہوگا حکومت عمل کرکے دکھائے، معمر شہریوں کی فلاح و بہبود پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے‘۔ محمد اسماعیل عرف نانا اپنا جملہ مکمل کرکے رخصت ہوگئے اور میں انہیں روکنے کی ہمت نہیں کرسکا۔

صوبائی اسمبلی میں 20 اکتوبر 2014ء کو ’سندھ سینئر سٹیزن ویلفیئر ایکٹ‘ کی منظوری کا نوٹیفکیشن جاری ہوا جس کا مقصد صوبہ سندھ کے بزرگ شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت ایک کونسل کے قیام کو لازمی قرار دیا گیا جس میں صوبائی اسمبلی کے 2 ممبران سمیت وزرا، مختلف محکموں کے سیکریٹریوں، ریٹائرڈ سیشن جج یا ایڈیشنل جج اور 2 سول سوسائٹی کے بزرگ شہری شامل ہوں گے۔

محمد اسماعیل عرف نانا  نے شدید الفاظ میں اولڈ ایج ہوم کے قیام کی مخالفت کی—فوٹو: وقاص علی
محمد اسماعیل عرف نانا نے شدید الفاظ میں اولڈ ایج ہوم کے قیام کی مخالفت کی—فوٹو: وقاص علی

اس ضمن میں ہیلپ ایج انٹرنیشنل کے تعاون سے بزرگ شہریوں کے حقوق سے متعلق آگاہی فراہم کرنے والے سماجی ادارے سندھ رورل سپورٹ آرگنائزیشن نے اپریل 2021ء میں سینئر سٹیزن ویلفیئر ایکٹ کی کمیٹی کے رولز آف بزنس کو حتمی شکل دی اور صوبائی کابینہ میں منظوری کے لیے ارسال کردی۔ مئی 2021ء میں سینئر سٹیزن رولز 2021ء منظور ہوا اور یوں کابینہ کو آگاہ کیا گیا کہ سینئر سٹیزن یا معمر افراد کو 3 برس کے لیے کارڈ (آزادی کارڈ) جاری کیا جائے گا۔ معمر افراد کے لیے کارڈ کا اجرا فوری طور پر یقینی بنانے کے لیے نادرا اور محکمہ سماجی بہبود کے نمائندوں کے درمیان ملاقاتیں بھی ہوچکی ہیں۔

سندھ سینئر سٹیزن ویلفیئر ایکٹ کے اطلاق سے متعلق عدالت عدم اطمینان ظاہر کرچکی ہے۔ پپری میں موجود بزرگ بھی اسی رائے کا اظہار کرتے ہیں، وہ ایکٹ کے تحت قائم ہونے والی کونسل کے غیر سنجیدہ رویے سے خائف ہیں۔ کونسل کے بنیادی فرائض میں بزرگ شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے پالیسیاں مرتب کرنا، بزرگ شہریوں کو سینئر سٹیزن کارڈ کی فراہمی، بزرگ شہریوں کی جسمانی، ذہنی، سماجی اور معاشی بہتری کے لیے رہائشی عمارتوں اور گھروں کی تعمیر، بزرگ شہریوں کے مسائل کے حل، حکومتی ہسپتالوں میں صحت کی مفت خدمات (ادویات اور معائنہ) کی فراہمی شامل ہے۔

منصور رضا کے مضمون ’پاکستان میں نظروں سے اوجھل معمر افراد‘ میں لندن میں قائم این جی او ہیلپ ایج انٹرنیشنل کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ’2019ء تک پاکستان میں 60 سال سے زائد العمر افراد کی تعداد تقریباً ایک کروڑ 50 لاکھ بنتی ہے جو ملک کی کل آبادی کا 7 فیصد حصہ ہے اور پاکستان میں 2050ء تک 60 سال سے زائد العمر افراد کی تعداد 4 کروڑ تک پہنچ جانے پر آبادی میں معمر افراد کا تناسب 12 فیصد تک بڑھنے کی توقع ہے۔ کراچی میں بزرگ شہریوں (60 سال یا اس سے زائد العمر افراد کی آبادی) کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ تقسیمِ ہند کے وقت شہر میں صرف 47 ہزار 303 بزرگ شہری تھے، تاہم 1998ء تک یہ تعداد بڑھ کر 4 لاکھ 33 ہزار ہوگئی۔

22 گوٹھوں پر مشتمل بن قاسم پپری میں بزرگ دوست تنظیم (بی ڈی این) کے زیرِ اہتمام بزرگوں کی ایک نشست ہوئی جس میں شرکت کا موقع ملا۔

گلشن حدید کے سامنے سے گزرنے والی قومی شاہراہ اور اس کے اطراف زندگی کی مصنوعی رونقیں نظر آئیں۔ جب مرکزی شاہراہ سے اتر کر صوپن گوٹھ پہنچا تو وہاں اولڈر پیپل ایسوسی ایشن کے عہدیدار شفیق محمد ہکڑو کو اولڈ ایج ہوم کا تصور معاشرتی اقدار اور روایت کے منافی قرار دیتے ہوئے پایا۔ ان کے مطابق ’اس تصور کو کبھی پذیرائی نہیں ملے گی لہٰذا حکومتِ سندھ کو چاہیے کہ وہ اولڈ ایج ہوم کے قیام اور اس کے انتظام و انصرام پر خطیر رقم خرچ کرنے کے بجائے بزرگوں کے لیے ایک فنڈ قائم کرے جس کے تحت انہیں ادویات کی مد میں تھوڑی بہت ادائیگی کی جائے‘۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ بزرگ افراد اپنے اہلخانہ کے ہمراہ رہنا پسند کرتے ہیں اور یہی ان کی زندگی کا کُل سرمایہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے اولڈ ایج ہوم کی نفی اور نوجوان نسل میں بزرگوں سے ہمدردی کے پہلو کو قومی سطح پر اجاگر کرنے پر زور دیا۔ شفیق محمد ہکڑو نے سینئر سٹیزن ویلفیئر ایکٹ 2014ء کے تحت بننے والی کونسل کے حوالے سے بتایا کہ کونسل غیر مؤثر ثابت ہوئی، اس کے ممبران سندھ میں بزرگوں کو متحرک کرنے اور ان کی فلاح و بہبود پر توجہ دینے کے بجائے کمرے میں اجلاس کرکے چلے جاتے ہیں۔

شفیق محمد ہکڑو کے علاوہ دیگر بزرگوں نے بھی آزادی کارڈ پر معمر افراد کے لیے مخصوص میڈیکل اسٹورز سے ادویات پر رعایت دینے کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اوّل تو مخصوص میڈیکل اسٹورز کو تلاش کرنا ایک مشکل کام ہے، پھر اگر وہ مل بھی جائیں اور اگر وہاں ادویات دستیاب نہ ہوں تو پھر بزرگوں کی پریشانی میں دوگنا اضافہ ہوجائے گا۔

جرنل آف جیرونٹولوجی اینڈ جیریاٹرک ریسرچ میں شائع ایک مضمون کے مطابق حکومتِ پاکستان بزرگ آبادی کے لیے صحت کے نظام اور علاج پر سبسڈی نہیں دیتی اور ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن (ای او بی آئی) کو ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ (ای او بی) ایکٹ 1976ء کے نفاذ کے ساتھ تشکیل دیا گیا تھا تاکہ لازمی سوشل سیکیورٹی کے مقصد کو حاصل کیا جاسکے اور بزرگ شہریوں کو مالی تحفظ فراہم کیا جاسکے۔

منصور رضا کے مضمون کے مطابق ای او بی اسکیم کے تحت بیمہ شدہ افراد ریٹائرمنٹ کے بعد ’اولڈ ایج پنشن‘ سمیت دیگر فوائد حاصل کرنے کے مستحق ہیں جس میں پینشن کی کم از کم شرح 8 ہزار 500 روپے رکھی گئی ہے۔

بلاشبہ یہ رقم ناکافی ثابت ہوتی ہے لیکن اس حقیقت کے برعکس کہ رقم نمایاں طور پر انتہائی قلیل ہے یہ بات افسوسناک ہے کہ پاکستان کی 60 فیصد معیشت غیر رسمی ہے جہاں پر کام کرنے والوں کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا اور وہ ای او بی آئی میں رجسٹریشن سے مستفید نہیں ہوپاتے۔ رہی سہی کسر آجر پوری کردیتے ہیں جو اپنے ملازمین کو رجسٹریشن سے باز رکھتے ہیں۔

سماجی کارکن شفیق محمد ہکڑو نے بتایا کہ پاکستان میں نظامِ صحت کا ڈھانچہ تشکیل دیتے وقت کبھی بزرگوں کے بارے میں نہیں سوچا گیا، اسی طرح فیکٹریوں اور کارخانوں میں محکمہ لیبر کے سرکاری افسران آتے ہیں لیکن وہ رشوت لے کر رخصت ہوجاتے ہیں اور یوں ملازمین ای او بی آئی سمیت دیگر بنیادی حقوق سے محروم ہوجاتے ہیں۔

اربابِ اقتدار کو یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ان کے فیصلے ہمارے سماجی، مذہبی اور ثقافتی اقدار کی روشنی میں کیے گئے ہیں؟ کیا بزرگوں کی فلاح و بہبود کے لیے متبادل پائیدار انتظامات نہیں کیے جاسکتے ہیں، جن سے اپنے گھروں میں اہلِ خانہ کے ساتھ بیٹھے بزرگ افراد کی ایک بڑی تعداد حقیقی معنوں میں معاشی طور پر مستفید ہوسکے؟

تبصرے (0) بند ہیں