جسٹس عائشہ کی ترقی: جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ملتوی نہ کرنے پر وکلا کی بائیکاٹ کی دھمکی

اپ ڈیٹ 04 جنوری 2022
اس سے قبل 9 ستمبر کو کمیشن کے اجلاس میں جسٹس عائشہ ملک کی ترقی پر غور کیا گیا تھا—فائل فوٹو: ڈان
اس سے قبل 9 ستمبر کو کمیشن کے اجلاس میں جسٹس عائشہ ملک کی ترقی پر غور کیا گیا تھا—فائل فوٹو: ڈان

اسلام آباد: وکلا برادری نے چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد سے لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں ترقی پر غور کے لیے 6 جنوری کو بلائے گئے جوڈیشل کمیشن پاکستان(جے سی پی) کے اجلاس کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اجلاس ملتوی نہ ہونے پر پاکستان بار کونسل اور تمام بار ایسوسی ایشنز اعلیٰ عدلیہ سے لے کر ماتحت عدالتوں تک کی تمام کارروائیوں کا بائیکاٹ کریں گی۔

اس بات کا اعلان پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین خوشدل خان اور ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین محمد مسعود چشتی اور دیگر نے ایک اجلاس کے بعد کیا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عائشہ ملک کی ترقی کا معاملہ آئندہ چیف جسٹس کیلئے مؤخر کرنے پر زور

چیف جسٹس کی جانب سے سپریم کورٹ میں ترقی کے لیے دوبارہ جسٹس عائشہ ملک کا نام دیے جانے پر جوڈیشل کمیشن کا اجلاس 6 جنوری جو طلب کیا گیا تھا۔

اس سے قبل یہ معاملہ 9 ستمبر کو جے سی پی کے اجلاس میں زیر غور آیا تھا لیکن اتفاق رائے نہ ہونے پر کمیشن جسٹس عائشہ ملک کی تعیناتی مؤخر کرنے پر مجبور ہوگیا تھا۔

جسٹس عائشہ ملک لاہور ہائی کورٹ میں سینیارٹی کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر ہیں اور سپریم کورٹ میں ترقی کی صورت میں وہ عدالت عظمیٰ کی پہلی خاتون جج ہوں گی۔

خوشدل خان نے زور دیا کہ پاکستان بار کونسل یا کوئی بار ایسوسی ایشن بھی جسٹس عائشہ ملک کو ان کی صنف کی وجہ سے نشانہ نہیں بنا رہی بلکہ وہ سب کا احترام کرتے ہیں اور کسی فرد کے خلاف کوئی برا ارادہ نہیں۔

مزید پڑھیں:جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں ترقی پر بحث کیلئے جے سی پی کا اجلاس 6 جنوری کو ہوگا

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارا زور سینیارٹی کے اصول کا احترام کرنے پر ہے، ہمارا ماننا ہے کہ پارلیمان کو آئین میں ترمیم کر کے سپریم کورٹ ججز کی 17 اسامیوں میں 2 خواتین ججز کے عہدوں کا اضافہ کرنا چاہیے‘۔

انہوں نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ میں ترقی کے لیے پشاور ہائی کورٹ کی مسرت ہلالی کے نام پر کیوں غور نہیں کیا جارہا جبکہ وہ جسٹس عائشہ ملک سے سینیئر بھی ہیں۔

اجلاس میں نمائندوں کا نقطہ نظر تھا کہ عدالت عظمیٰ میں تعیناتی کے لیے جسٹس عائشہ ملک کی نامزدگی نے سینیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی کی ہے، جنہیں نہ صرف لاہور ہائی کورٹ کے 3 ججز بلکہ متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پر بھی فوقیت دی گئی جو نہ صرف سروس کے لحاظ سے بلکہ ہائی کورٹ میں ترقی سے قبل قانونی پریکٹس کے اعتبار سے خاتون جج سے سینیئر ہیں۔

اجلاس میں اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی اور برطرفی سے متعلق آئین کی دفعہ 209 اور 175 اے میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ اور مہم چلانے کے لیے سیاسی تنظیموں سے رابطے کا عزم ظاہر کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:بار کونسل کی جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں ترقی کی مخالفت

خوشدل خان کا کہنا تھا کہ سپریم بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون سے بھی بائیکاٹ کے فیصلے پر مشاورت کی گئی۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ اگر بار کونسل کا مطالبہ نہ پورا کیا گیا تو کیا پاکستان بار کونسل سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کے اعزاز میں روایتی عشایے کا اہتمام کرے گی جو انہوں نے جواب دیا اس بارے میں مناسب وقت پر سوچا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن میں بار کونسل کے نمائندے گزشتہ 3 برس سے قواعد میں ترمیم کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن چونکہ وکلا برادری کے ’حقیقی مطالبات‘ پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اس لیے وہ درخواست کرتے ہیں کہ جے سی پی کے قواعد میں ترمیم اور سینیارٹی کے اصول سے متعلق تفصیلی رہنما ہدایات اور طریقہ کار وضع ہونے تک عدالت عظمیٰ میں کوئی تعیناتی نہ کی جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں