Dawnnews Television Logo
—فوٹو: رائٹرز

’ویکسینیشن کے بعد حمل ٹھہرنے سے ثابت ہوا کہ انجکشن بانجھ نہیں بناتا‘

ملک میں چند حاملہ خواتین اسی وجہ سے ہی کورونا سے زندگی کی بازی ہارگئی تھیں کہ انہوں نے ویکسینیشن نہیں کروائی تھی، ماہرین
اپ ڈیٹ 15 جنوری 2022 03:38pm

پاکستان میں فرنٹ لائن ورکرز کے بعد جیسے ہی عام افراد کو کورونا سے تحفظ کی ویکسین لگانے کا سلسلہ شروع ہوا تو عاصم اختر نے کوئی تاخیر کیے بغیر اپنے تمام بہن، بھائیوں، والدین، اہلیہ اور بھابھیوں کو بھی ویکسین لگوائی۔

اگرچہ عاصم اختر کے اہل خانہ کے کچھ افراد کے ذہن میں کورونا کی طرح اس سے تحفظ کی ویکسین سے متعلق بھی خدشات تھے، تاہم بطور سماجی ورکر انہوں نے اپنے خاندان کے اراکین کو ویکسین لگوانے پر قائل کیا۔

ویکسینیشن کروانے کے بعد عاصم اختر کی والدہ کو ہلکا درد اور بخار محسوس ہوا جب کہ باقی کسی بھی اہل خانہ نے کسی بھی سائیڈ افیکٹ یعنی منفی اثرات کا سامنا نہیں کیا۔

ویکسینیشن کروانے والے افراد میں عاصم اختر کے چھوٹے بھائی اور بھابھی بھی شامل تھیں جن کے ہاں ویکسین کے بعد اب بچے کی پیدائش بھی متوقع ہے۔

عاصم اختر نے بتایا کہ ان کے بھائی اور بھابھی نے آغاز میں ہی ویکسینیشن کروائی تھی، جس کے چند ہفتوں بعد ہی ان کے ہاں حمل ٹھہرا اور اب ان کے ہاں جلد بچے کی پیدائش متوقع ہے۔

ان کے مطابق ان کی بھابھی کے ہاں جڑواں بچوں کی پیدائش متوقع ہے اور ان کے خاندان میں پہلی بار جڑواں بچوں کی پیدائش ہوگی۔

متعدد عالمی تحقیقات کے مطابق کورونا ویکسین خواتین کی تولیدی صحت پر اثر انداز نہیں ہوتیں—فوٹو: فری پک
متعدد عالمی تحقیقات کے مطابق کورونا ویکسین خواتین کی تولیدی صحت پر اثر انداز نہیں ہوتیں—فوٹو: فری پک

انہوں نے اپنے خاندان میں جڑواں بچوں کی متوقع پیدائش کو ویکسینیشن سے نہیں جوڑا، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ان کے بھائی کے ہاں بچوں کی متوقع پیدائش سے ثابت ہوتا ہے کہ ویکسین سے متعلق پھیلائی جانے والی افواہوں میں کوئی صداقت نہیں۔

انہوں نے دلیل دی کہ اگر ویکسین مرد یا خاتون کو بانجھ بناتی تو ان کے بھائی کے ہاں بچے کی پیدائش متوقع نہ ہوتی۔

ایک سوال کے جواب میں عاصم اختر نے بتایا کہ ان کے محلے کے 90 فیصد افراد نے ویکسینیشن کروا رکھی ہے اور متعدد افراد کے ہاں بچوں کی پیدائش بھی متوقع ہے۔

عاصم اختر کی طرح حیدرآباد کے ایاز کے ویکسین سے متعلق بھی یہی خیالات ہیں کہ وہ نہ تو بانجھ پن کا سبب بنتی ہے اور نہ ہی اس سے کوئی کمزوری یا دیگر پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔

ایاز اور ان کی اہلیہ نے اس وقت کورونا ویکسین لگوائی تھی جب کہ ایاز کی اہلیہ امید سے ہوچکی تھیں اور دیگر ہزاروں پاکستانیوں کی طرح ان میں بھی ویکسین سے متعلق کئی خدشات تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کووڈ ویکسین خواتین میں بانجھ پن کا باعث نہیں بنتی، تحقیق

انہوں نے بھی سن رکھا تھا کہ کورونا ویکسین لگوانے کے بعد مرد و خواتین بانجھ پن کا شکار بن جاتے ہیں جب کہ خواتین نسوانی بیماریوں و پیچیدگیوں اور مرد حضرات کمزوری جیسے مسائل سے دوچار ہوجاتے ہیں۔

تاہم اپنے قریبی رشتے داروں کو کورونا کی وجہ سے موت کے منہ میں جاتا دیکھ کر انہوں نے ویکسینیشن کروائی۔

ایاز اور ان کی اہلیہ سمیت ان کے تمام اہل خانہ نے افواہوں کے باوجود نہ صرف اپنے محلے میں سب سے پہلے ویکسین لگوائی بلکہ انہوں نے دوسری خوراک بھی اپنے وقت پر لی۔

ایاز بتاتے ہیں کہ انہوں نے ویکسین لگوانے کے بعد کسی طرح کی کوئی بے ترتیبی، کوئی کمزوری یا مسئلہ محسوس نہیں کیا۔

ایاز نیم سرکاری تعلیمی ادارے میں پڑھاتے ہیں جب کہ ان کی اہلیہ گھر سنبھالتی ہیں، انہیں پہلے سے ہی دو بچے ہیں اور ان کے ہاں بچے کی پیدائش متوقع تھی مگر بدقسمتی سے بعض پیچیدگیوں کے باعث ان کا بچہ پیدائش سے قبل ہی چل بسا۔

ایاز کے مطابق انہیں اور ان کی ایک اہلیہ کو ایک لمحے کے لیے بھی یہ شک نہ گزرا کہ ان کا حمل کورونا ویکسین کی وجہ سے ضائع ہوا ہے، کیوں کہ انہیں پہلے سے ہی اپنی پیچیدگیوں کا بخوبی علم تھا۔

ایاز کی اہلیہ ذیابطیس سمیت دیگر مسائل کا شکار ہیں اور ایسی ہی پیچیدگیوں کی وجہ سے پہلے بھی ان کے بچے پیدائش کے فوری بعد انتقال کر گئے تھے جب کہ حالیہ حمل ضائع ہونے کے بعد جب انہوں نے ٹیسٹس کروائے اور ڈاکٹرز سے مشورے ہوئے تو معلوم ہوا کہ اس بار بھی ذیابطیس ہی ان کے بچے کی موت کا سبب بنا۔

مزید پڑھیں: حاملہ خواتین کو کووڈ سے بچاؤ کیلئے ویکسینیشن کرانی چاہیے، سی ڈی سی

ایاز کے بچے کی پیدائش سے قبل ماں کے پیٹ میں اس کی موت ہوجانے اور حاملہ خواتین پر ویکسین کے اثرات سے متعلق جب ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی نے ماہر وبائی امراض ڈاکٹر رانا جواد اصغر سے رابطہ کیا تو انہوں نے واضح کیا کہ آغاز میں کچھ حاملہ خواتین اسی وجہ سے ہی زندگی کی بازی ہار گئی تھیں کہ انہوں نے ویکسینیشن نہیں کروائی تھی۔

ڈاکٹر رانا جواد کے مطابق متعدد تحقیقات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ حاملہ خواتین کے کورونا میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کا مدافعتی نظام پہلے سے ہی کمزور پڑ چکا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ویکسین کے آغاز سے اب تک کسی بھی ملک میں ویکسینیشن کی وجہ سے حمل کے ضائع ہوجانے یا دیگر پیچیدگیوں کے کیسز سامنے نہیں آئے اور اگر کسی بھی خاتون کے ساتھ کوئی پیچیدگی ہوتی ہے تو اس کے دیگر اسباب ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر رانا جواد اصغر کا کہنا تھا کہ تمام کورونا ویکسینز میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو حاملہ یا کمسن بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین کی پیچیدگیوں کا باعث بنے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں تو دیر سے حاملہ خواتین کی ویکسینیشن کی گئی مگر امریکا اور یورپی ممالک میں شروع سے ہی خواتین کی ویکسینیشن کرکے انہیں محفوظ بنایا گیا اور کئی خواتین کے ہاں بچوں کی پیدائش بھی ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: کووڈ سے حاملہ خواتین کو لاحق ہونے والی ایک اور پیچیدگی کا انکشاف

بعض افراد کے ساتھ ہونے والی معمولی پیچیدگیوں اور سائیڈ افیٹکس پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر رانا جاوید نے دلیل دی کہ حکومتیں اور ادارے کسی ایک فرد کے ساتھ پیش آنے والے منفرد مسئلے کے بجائے زیادہ ڈیٹا پر توجہ دیتے ہیں اور اسی طرح اگر کسی ایک شخص کو تھوڑے بہت مسئلے ہو رہے ہیں تو اس کی دوسری وجوہات بھی ہوں گی۔

ڈاکٹر جواد اصغر کا کہنا تھا کہ میڈیکل سائنس میں ایسے واقعات بھی ہو چکے ہیں کہ بعض لوگوں پر عام گولی ڈسپرین نے بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں مگر ان انتہائی کم واقعات کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دوائی جان لیوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بطور عالمی ماہر وبائی امراض انہیں دیگر ممالک کے ساتھیوں یا اداروں سے بھی ویکسینز کے منفی اثرات کے زیادہ کیسز دیکھنے اور سننے کو نہیں ملے، البتہ تھوڑے بہت منفی اثرات رپورٹ ہوئے ہیں جب کہ عالمی سطح پر ہونے والی کچھ اموات کو زبردستی ویکسین سے بھی جوڑ دیا گیا۔

ماہرین نے دودھ پلانے والی ماؤں کو بھی خصوصی طور پر ویکسینیشن کرانے کی تجاویز دیں—فوٹو: یونیسیف
ماہرین نے دودھ پلانے والی ماؤں کو بھی خصوصی طور پر ویکسینیشن کرانے کی تجاویز دیں—فوٹو: یونیسیف

کورونا ویکسینیشن کے بعد سندھ میں حاملہ ہونے والی خواتین کے ریکارڈ سے متعلق جب محکمہ صحت سندھ سے رابطہ کیا گیا تو ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو بتایا گیا کہ اعلیٰ سطح پر اس طرح کا کوئی ڈیٹا یا ریکارڈ مرتب نہیں کیا جا رہا۔

سندھ کووڈ کے فوکل پرسن ڈاکٹر سکندر میمن نے رابطہ کرنے پر واضح کیا کہ ویکسینیشن کے بعد حاملہ ہونے والی خواتین کا ڈیٹا مرتب نہیں کیا جا رہا، البتہ اس طرح کا خصوصی ڈیٹا یونین کونسل، تعلقہ یا ضلع سطح پر حکام کے پاس ہوسکتا ہے لیکن اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ اس طرح کا خصوصی ڈیٹا اکٹھا جا رہا ہوگا۔

مزید پڑھیٓں: کیا زچگی کے دوران بچوں میں ماں سے کورونا وائرس منتقل ہوسکتا ہے؟

انہوں نے کہا کہ اگر نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) یا دیگر ادارے ضرورت پڑنے پر محکمہ صحت سے اس طرح کا ڈیٹا مانگیں گے تو یونین کونسل سطح پر ایسے ڈیٹا کو جمع کیا جا سکتا ہے، تاہم اس وقت ایسا کوئی ڈیٹا مرتب نہیں کیا جا رہا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نےبتایا کہ محکمہ صحت ایسا ڈیٹا بھی اکٹھا نہیں کر رہا کہ ویکسینیشن کروانے کے بعد کتنی حاملہ خواتین نے بچوں کو جنم دیا، تاہم اس طرح کا ڈیٹا ہسپتالوں کے پاس ہوسکتا ہے۔

پاکستان میں مارچ 2021 کے بعد ویکسینیشن کا عمل تیز کیا گیا تھا اور ابتدائی ہفتوں میں زیادہ تر لوگ غلط معلومات کی وجہ سے ویکسینیشن سے اجتناب کرتے دکھائی دیے مگر پھر میڈیا اور حکومت کے ذمہ دارانہ کردار کے بعد ویکسینیشن میں تیزی دیکھی گئی۔

دوران حمل ویکسینیشن کروانے والی متعدد شوبز اداکاراؤں کے ہاں بھی بچوں کی پیدائش ہوئی جب کہ ملک بھر میں ہزاروں خواتین نے دوران حمل ویکسنیشن کرواکر نہ صرف خود کو محفوظ کیا بلکہ اپنے پیدا ہونے والے بچے کی حفاظت بھی یقینی بنائی۔