لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

ٹیلی ویژن میں عید کی چھٹی کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیلی ویژن میں کام کرنے والے لوگ عید شوز سے بخوبی واقف ہیں۔ جس دوران رمضان کے آخری ہفتے میں عبادت گزار اعتکاف کے لیے مسجدوں یا اپنے گھر کے کسی گوشے کا رخ کرتے ہیں وہیں ہم ٹی وی والوں کے لیے عید شو ریکارڈ کروانے کی دوڑ شروع ہوجاتی ہے۔

یہ شوز اس وجہ سے ریکارڈ کیے جاتے ہیں تاکہ عید پر کچھ چھٹیاں مل سکیں، ظاہر ہے کہ ایسا اپنے آجر کی مرضی سے کیا جاتا ہے۔ ان ریکارڈنگز کے لیے ایسے موضوعات کی تلاش شروع ہوجاتی ہے جو ذرا ہٹ کے ہوں۔ ساتھ ہی ایسے مہمان بھی تلاش کرنے ہوتے ہیں جو خود بھی کچھ ہٹ کے ہوں یا نہ ہوں۔

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ کسی شو کی ریکارڈنگ سے آپ کسی چیز کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ جیو کے رانا جواد اور ڈان میں 'ریڈ زون فائلز' کے فہد حسین کے ساتھ ایک شو کی ریکارڈنگ کے بعد میرے ساتھ ہوا۔ ہم ان دونوں سے میڈیا کے بدلتے ہوئے رجحانات پر بات کررہے تھے۔

مزید پڑھیے: برانڈنگ اور مارکیٹنگ کے چنگل میں پھنسی بے چاری صحافت

ہم 'صحافت'، 'پرنٹ'، 'الیکٹرانک' اور 'سوشل میڈیا' جیسی اصطلاحات پر بات کررہے تھے کہ فہد حسین نے کہا کہ وہ کسی چیز کا اعتراف کرنا چاہتے ہیں۔ پھر انہوں نے اپنے اس حالیہ فیصلے کے بارے میں بتایا کہ وہ تمام اخباروں کی پرنٹ سبسکرپشن کو بند کرچکے ہیں اور ہر صبح اپنے فون پر خبریں پڑھتے ہیں۔

وہاں ایسے 3 صحافی بیٹھے تھے جنہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز اس وقت کیا تھا کہ جب صحافیوں کے سامنے صرف اخبارات کا ہی ایک میدان ہوا کرتا تھا۔ ہمارے سامنے یہ بات کرکے انہوں نے ہمیں حیران ضرور کردیا تھا۔ ہم نے ان سے سوال کیا کہ وہ اس صورتحال سے کیسے نمٹ رہے ہیں۔ یہ سوال ایسا ہی تھا جیسے سگریٹ نوشی ترک کردینے والے کسی شخص سے پوچھا جارہا ہو۔ ظاہر ہے کہ وہ صبح ہی کیا ہوگی جس میں آپ اخبار پڑھتے ہوئے چائے کی چسکیاں نہ لے رہے ہوں؟

فہد حسین نے تسلیم کیا کہ یہ مشکل کام تھا لیکن اس کے کچھ فوائد بھی ہیں۔ وہ اب اخبار کے صفحات (جن میں تمام طرح کی خبریں ہوتی ہیں) کی ورق گردانی نہیں کرتے اور صرف ان خبروں پر توجہ دیتے ہیں جو ان کی دلچسپی کی ہوتی ہیں۔ یوں وہ بہت زیادہ مواد دیکھ لیتے ہیں۔ ہم نے خبروں کے صارفین اور خبر دینے والوں کے حوالے سے آنے والی تبدیلوں پر بات چیت شروع کی تو گفتگو خبر کے مواد اور دیگر چیزوں کی جانب چلی گئی۔

رانا جواد ٹیلی ویژن میں کام کرنے کے باوجود ذرا پرانی طرز کے شخص ہیں، ان کا اس بات پر یقین تھا کہ بھلے صارف کاغذ پر چھپا ہوا اخبار پڑھ رہا ہو یا پھر اسے آئی پیڈ یا فون پر پڑھ رہا ہو، اس کی دلچسپی ہمیشہ 'خبر' میں ہی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ خبر کے لیے قاری کی پیاس کبھی نہیں بجھے گی۔ انہوں نے ڈیجیٹل دنیا میں مغربی میڈیا کو حاصل ہونے والی کامیابی کا ذکر کیا جس نے ابتدائی مشکلات کے بعد اپنی ڈیجیٹل سبسکرپشن میں اضافہ کیا۔

یہاں یہ سوال کرنا بہت ضروری تھا کہ کیا اس وقت پاکستان میں اخبارات، نیوز چینل یا ویب سائٹس ایک فائر وال کے پیچھے جاکر اپنی ڈیجیٹل سبسکرپشن میں اضافے کے متحمل ہوسکتے ہیں؟ فہد حسین کی جانب اس کا جواب نفی میں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مواد اس قابل ہی نہیں جس کے لیے پیسے خرچ کیے جائیں۔

مزید پڑھیے: پاکستانی صحافت: آگ کا دریا

یہ شاید اس صنعت کو درپیش سب سے سنگین چیلنج ہے۔ خبروں اور دیگر مواد کا معیار مسلسل گرتا جا رہا ہے۔ اخبارات کے صفحہ اوّل پر چینلز کے رات 9 بجے کے خبرناموں کا خلاصہ ہی نظر آتا ہے۔ اگر خبرناموں کی بھی بات کی جائے تو ان میں 'اِس نے کہا'، 'اُس نے کہا' اور 'فلاں نے جواب دیا' کی تکرار ہی ہوتی ہے۔ ایک گھنٹہ چلنے والے خبرناموں کے اوسطاً ابتدائی 20 منٹ سرخیوں پر مشتمل ہوتے ہیں جن میں بس یہی بتایا جاتا ہے کہ فلاں سیاستدان یا سرکاری افسر نے کیا کہا۔ پھر شام کے وقت تقریباً 5 گھنٹوں تک وہی سیاستدان وہی تمام باتیں اسٹوڈیو میں کسی میزبان کے سامنے دہرا رہے ہوتے ہیں۔

جہاں باقی دنیا میں ملٹی میڈیا پلیٹ فارمز، خبر دینے کے مختلف طریقوں اور خبروں اور تجزیوں کے درمیان توازن تلاش کیا جارہا ہے وہیں ہم واقعات کو رپورٹ کرنے کے بجائے اب بیانات کو رپورٹ کرنے پر آگئے ہیں۔

آپ نیویارک ٹائمز کو ہی دیکھ لیجیے، ایکسپریس ٹریبیون کی مہربانی سے یہ پاکستان کے کچھ گھروں میں آجاتا ہے۔ اس کے صفحہ اوّل پر بائیں جانب ایک مضمون ہوتا ہے اور دائیں جانب ایک تجزیہ۔ ان دونوں کے درمیان میں عموماً کوئی انسانی دلچسپی کی خبر ہوتی ہے جس کی بنیاد حالاتِ حاضرہ پر ہوتی ہے۔ اس کے نیچے عموماً کوئی فیچر ہوتا ہے۔ آپ انفرادی قارئیں کے حوالے سے ان کے معیار اور دلچسپی پر بحث کرسکتے ہیں لیکن صحافتی زبان میں ان تمام کو ایکسکلیوسیو اسٹوری کہا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ اگر نیوز ویب سائٹس کی بات کی جائے تو پوڈکاسٹ، ویڈیوز، گرافکس اور دیگر بے شمار چیزوں کی مدد سے ان میں تنوع آتا جارہا ہے۔ لیکن یہاں پاکستان میں ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں میں ہم نے پیچھے کی جانب سفر شروع کردیا ہے۔ یہاں مواد اپنے معیار اور تعداد دونوں اعتبار سے کم ہوتا جارہا ہے، رپورٹنگ کے معیار میں بھی تنزلی دیکھنے کو مل رہی ہے، یہاں تنوع بہت کم ہے اور جدّت کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا۔ اس کی وجہ کسی حد تک تو ریاستی سنسرشپ اور مالی مشکلات کو قرار دیا جاسکتا ہے لیکن مکمل طور نہیں۔

مزید پڑھیے: صحافت سے دم توڑتی مزاحمت دیکھ کر ڈر لگتا ہے

سچ کہا جائے تو اس میں فنانشل ماڈل کا بھی قصور ہے جس کا ذکر پہلے بھی ایک سے زائد مرتبہ آچکا ہے۔ پاکستان میں نجی میڈیا جس طرح کام کرتا ہے اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مالی معاملات کا تعلق ناظرین یا قارئین کی تعداد سے نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہاں کوئی بحران میڈیا کو جدّت کی جانب لے کر جاتا جیسے کہ ہم نے مغربی دنیا میں دیکھا۔ مغرب میں آنے والے سوشل میڈیا انقلاب نے روایتی میڈیا کو مجبور کیا کہ وہ ڈیجیٹل میڈیا میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرے۔

سرمایہ کاری دراصل محنت کا پھل حاصل کرنے کے لیے کی جاتی ہے لیکن ہمارے یہاں تو انتظار کیا جاتا ہے کہ سرمایہ کاری ہو تو مواد میں بہتری لائی جائے۔ اس دوران روایتی یا نئے پلیٹ فارمز میں جدّت لانے یا انہیں بہتر بنانے کی بھی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ وسائل کے ساتھ ساتھ مواد بھی گھٹتا چلا جارہا ہے اور ویب سائٹس پر اب وہی 'روایتی' بریکنگ نیوز خبریں ہی غالب ہوتی ہیں۔

تو کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صنعت میں آمدن کا قارئین/ ناظرین سے کوئی تعلق نہیں ہے؟ کبھی کبھی تو ایسا ہی لگتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ روایتی میڈیا ہماری نوجوان آبادی سے کٹا ہوا ہے اور آبادی کا وہ حصہ کہیں اور سے خبریں حاصل کررہا ہے۔ یہ دُوری اتنی زیادہ پیچیدہ ہے کہ ہم میڈیا میں بیٹھے لوگ اسے مکمل طور پر سمجھ ہی نہیں سکتے۔


یہ مضمون 26 اپریل 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں