موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ’نیٹ زیرو‘ کیوں ضروری ہے؟

اپ ڈیٹ 05 مئ 2022
موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ’نیٹ زیرو‘  کی پالیسی وقت کی ضرورت ہے۔ — فوٹو: اے ایف پی
موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ’نیٹ زیرو‘ کی پالیسی وقت کی ضرورت ہے۔ — فوٹو: اے ایف پی

'نیٹ زیرو' سے مراد انسانی ساختہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج اور فضا سے ان کا خاتمہ ہے۔

اس توازن کو حاصل کرنے کے لیے جی ایچ جی کے اخراج کو صفر کے قریب کم کرنا ضروری ہے، بقیہ اخراج کو طویل مدتی کاربن کیپچر کے حل کے ذریعے بے اثر کیا جا سکتا ہے جس میں درخت لگانا یا کاربن آفسیٹ منصوبوں کو فنڈ دینا شامل ہے۔

حال ہی میں آب و ہوا کی تبدیلی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے عالمی سطح پر عزم کیا گیا ہے جس میں 70 سے زائد ممالک نے شرکت کی اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو 2050 تک موجودہ سطح سے صفر سطح پر لے جانے کا عزم کیا گیا۔

تاہم موسمیاتی تباہی کو روکنے کے لیے عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 19ویں صدی کے اوائل سے اوپر 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود رکھنے کے لیے سائنسی اتفاق رائے کے باوجود قومی سطح پر آب و ہوا میں بہتری کے منصوبے اخراج میں مطلوبہ کمی کےلیے ناکافی ہیں۔

مزید پڑھیں: موسمیاتی تبدیلی کس طرح پاکستان میں خوراک کا بحران پیدا کرسکتی ہے؟

تاہم، حکومتیں اس پر سستی سے عمل کر رہی ہیں جبکہ نجی ادارے آب و ہوا کی ایجنڈا کو اٹھا رہے ہیں، کم از کم 2 ہزار کاروباری اور معاشی اداروں نے آب و ہوا کی تباہی کے سلسلے میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کا عزم کیا ہے۔

یہ رفتار سرمایہ کاروں اور صارفین کی جانب سے کمپنیوں کے اخراج کو محدود کرنے کے لیے دباؤ، اور حاصل کیے جانے والے مسابقتی فوائد کی تفہیم سے ہے۔

کچھ حکومتوں نے کمپنیوں کو اپنے ای ایس جی اثرات کو تسلیم کرنے اور سرمایہ کاروں اور صارفین کو باخبر فیصلے کرنے کی اجازت دینے کے لیے ماحولیاتی، سماجی اور گورننس کے ضوابط متعارف کرائے ہیں۔

یو ایس سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمپنی نے ایسی تجاویز پیش کی ہیں جن میں کمپنیوں سے کاروباروں کو درپیش آب و ہوا کے خطرات کو ظاہر کرنے کی ضرورت ہے اور کمپنیوں کے آب و ہوا کے اثرات کے لازمی انکشاف کے ساتھ ان خطرات سے نمٹنے کا منصوبہ شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے متاثرہ کراچی کی ساحلی پٹی

یورپی یونین کے پائیدار مالیاتی ضابطے اور کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کی ہدایت کا مقصد اختتامی سرمایہ کاروں کے ذریعہ فنڈز کے پائیدار اور پروفائلز کے موازنہ کو بہتر بنانا ہے۔

بھارت اور بنگلہ دیش نے بھی عالمی رجحانات کے مطابق قانون سازی کی ہے۔

تاہم پاکستان میں کوڈ آف کارپوریٹ گورننس گائیڈلائنز (2017) کے تحت کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز ای ایس جی، صحت اور حفاظت کے کاروباری طریقوں کے نفاذ کے ذمہ دار ہیں جس میں کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کی سرگرمیوں اور تعمیل کی حیثیت سے متعلق رپورٹ شامل ہے۔

ملٹی نیشنل کارپوریشنز اور وہ لوگ جو جن کے پاس بین الاقوامی صارفین ہیں رضاکارانہ طور پر سالانہ پائیداری کی رپورٹس شائع کرتے ہیں جو ان کی موجودہ ای ایس جی اثرات اور مستقبل کے پائیداری کے اہداف کو ظاہر کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ماحولیات پر ہونے والا اجلاس احمقانہ کوشش سے کم کیوں نہیں؟

مالیاتی کارکردگی سے متعلق موسمیاتی تبدیلی اور کم کاربن سے متعلق مطالعے کے 59 ویں جائزے سے معلوم ہوا کہ کارپوریٹ سیکٹر سے 57 فیصد مثبت نتائج موصول ہوئے ہیں، انہوں نے ای ایس جی سے رابطہ قائم کرتے ہوئے مثبت مالیاتی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

مذکورہ کارکردگی زیادہ پائیدار پیداوار کی طرف منتقلی قابل تجدید توانائی، اختراعی، اعلیٰ کارکردگی والے مینوفیکچرنگ کے عمل اور بند پیداواری لوپس کی طرف تبدیلی کی خصوصیات رکھتی ہے۔

پاکستان کے پاس پہلے سے ہی ایسی سرگرمیوں کی حمایت کے لیے سبز مالی مراعات موجود ہیں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی فنانسنگ اسکیم برائے قابل تجدید توانائی قابل تجدید ذرائع کی طرف تبدیلی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور اس کے علاوہ عسکری بینک کا اُجالا فنانس روایتی ہائیڈرو کاربن پر مبنی توانائی کے ذرائع کی کھپت کو کم کرنے کے لیے پائیدار توانائی کے منصوبوں کے لیے سبسڈی والے فنانسنگ کی پیشکش کرتا ہے۔

پاکسان بزنس کونسل کا سینٹر آف ایکسی لینس ان ریسپانسبل بزنس اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بہت سی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں جہاں کیپٹل مارکیٹ رپورٹنگ کے لیے بنیادی محرک ہیں وہاں ای ایس جی میٹرکس اسٹاک لسٹنگ کی ضروریات پر تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔

پاکستان اسٹاک ایکسچینج اپنے سالانہ رپورٹنگ ایوارڈز اور ایوارڈ پوائنٹس میں ’جنسی نمائندگی اورایسی کمپنیاں جو کم از کم پائیدار ترقی سے متعلق مقاصد پر رپورٹ کرتی ہیں ان کی غیر مالیاتی امور کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا ہے‘۔

پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے بڑے کھلاڑی اپنی سپلائی چین کو ڈیکاربونائز کرنے، توانائی، پانی اور کاربن کے اثرات کو بہتر بنانے اور بین الاقوامی منڈیوں میں مسابقتی رہنے کے لیے بین الاقوامی پائیداری کے بہترین طریقوں کے مطابق بنانے کے مضبوط منصوبوں کے ساتھ ای ایس جی گیم میں آگے ہیں۔

مزید پڑھیں: سالنامہ: ماحولیاتی اعتبار سے پاکستان ایک عالمی رہنما کے طور پر سامنے آیا

سائنس پر مبنی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کے اہداف کو پورا کرنا ماحولیاتی نقطہ نظر سے اہم ہے لیکن ایسا کرنے سے کمپنیوں کو درپیش اہم کاروبار اور شہرت کے خطرات بھی کم ہوتے ہیں۔

پاکستانی کمپنیوں کو ای ایس جی رپورٹنگ کو مضبوط بنانے اور آب و ہوا اور کمپنیوں کی مستقبل کی مسابقت دونوں کے لیے پائیداری کے وعدوں کی طرف پیش رفت کرنے کے لیے فوری طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ خالص صفر کاروباری ماحول میں منتقل ہو رہی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں