لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

یہ سال کا وہ وقت ہے جب ہر جگہ ہدف، ریوینیو، لارج اسکیل مینوفیکچرنگ، ٹیکس اور بیس لائنز کی باتیں ہورہی ہوتی ہیں۔ اسٹوڈیو، ٹاک شو اور ڈرائنگ رومز کی فضا اربوں اور کھربوں سے گونچ رہی ہوتی ہے اور ان کی اہمیت پر بحث ہورہی ہوتی ہے۔ ہر فریق کے پاس اپنے اعداد و شمار ہوتے ہیں، اپنی تشریح ہوتی ہے، اپنی پالیسیوں اور دوسروں کے جھوٹا ہونے پر یقین۔

تاہم ان سب چیزوں کے درمیان ایک ہنگامی کیفیت کا احساس بھی ہے۔ ہمیں اب خود کو درپیش بحران کا احساس ہورہا ہے اور اس مرتبہ یہ احساس بس ایک خیال نہیں ہے۔

سری لنکا سے آنے والی خبروں اور تصاویر نے دکھا دیا ہے کہ یہ بحران کیا صورت اختیار کرسکتا ہے۔ اپنی سیاست کی وجہ سے ہمارے حکمران عوام کو یہ حقیقت نہیں بتاتے۔ اس وقت حکومت میں موجود جماعتیں خود کو حکومت چلانے کا اہل ثابت کرنے کی پوری کوشش کررہی ہیں تو دوسری جانب حکومت سے باہر موجود جماعت اقتدار چھن جانے پر اتنی سیخ پا ہوچکی ہے کہ اس کی جانب سے ممکنہ بحران کی جو منظر کشی کی جارہی ہے اسے مبالغہ سمجھا جارہا ہے۔

اگر کوئی واقعی کوشش کرے تو اس کے لیے اشارے واضح ہیں۔ آپ دیکھیے کہ ہمارے گزشتہ 2 وزرائے اعظم نے حلف اٹھایا اور 'دوست' ممالک کے دوروں پر چلے گئے، اور اپنی واپسی پر ان دونوں نے ہی اس بات کا اظہار کیا کہ انہیں پیسے مانگتے ہوئے کتنی شرمندگی کا احساس ہوا۔

مزید پڑھیے: موجودہ سیاسی تصادم میں اصل نقصان کس کا ہے؟

شاید ان دونوں کے لیے یہ تسلیم کرنا مشکل ہو لیکن اس معاملے میں شہباز شریف اور عمران خان ایک پیج پر ہیں۔ ان سے پہلے آنے والوں نے شاید ہی کبھی اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہو۔ کیا یہ دونوں بہت زیادہ حساس ہیں یا پھر اپنی وہی پرانی درخواستیں لے جانے والے پاکستانیوں کا اب ماضی کی طرح استقبال نہیں کیا جاتا؟ شاید میزبان اب اپنی بیزاری چھپانے کا تکلف نہیں کرتے۔ یہ دورے، مؤخر ادائیگی پر تیل ملنا اور قرض کی مدت میں اضافہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن شاید شرمندگی کا یہ احساس نیا ہے۔ تو یہ چیز ہمیں اپنے بارے میں کیا بتاتی ہے؟

آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات پر بھی اب بہت زیادہ بات ہونے لگی ہے۔ وہ وقت گیا جب صرف امیر کاروباری حضرات اور بزنس رپورٹر ہی آئی ایم ایف کی جانب سے عائد شرائط پر طویل بحث کرتے تھے۔ اب تو ہم سب اس بحث میں شامل ہوچکے ہیں جو عام طور پر سیاسی جماعتوں کے اختلافات پر بات کررہے ہوتے تھے۔ اس کا نتیجہ ٹیکسوں کے حوالے سے شرائط، توانائی کے شعبے اور چینی قرضوں کے حوالے سے ایک نہ ختم ہونے والی (اور غیر نتیجہ خیز) بحث ہوتی ہے۔

ہم اس بات پر غور نہیں کرتے ہیں کہ آخر آئی ایم ایف کی شرائط ماضی کے برعکس اب اتنا بڑا مسئلہ کیوں بن گئی ہیں، ہم نے اس کے جواب کو ذاتی نوعیت کا بنادیا ہے۔ یہ سب افراد سے متعلق ہے۔

اسد عمر نے آئی ایم ایف کے پاس جانے میں بہت دیر کی اور پھر وہ آئی ایم ایف کو سنبھال بھی نہیں سکے۔ حفیظ شیخ نے بھی اس حوالے سے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ شوکت ترین کبھی ترقی کو ترجیح دیتے تو کبھی استحکام کو اور اب مفتاح اسمٰعیل بھی سخت مذاکرات نہیں کررہے۔

مزید پڑھیے: کیا مستقبل قریب میں تیل کی قیمتوں میں کمی ممکن ہے؟

ظاہر ہے کہ ٹیکنوکریٹس کو ذمہ دار ٹھہرانا بہت آسان ہے بجائے اس بات کا احساس کرنے کے کہ ہم بہت پہلے ہی مشکل حالات سے دوچار ہوگئے تھے۔ آخر کوئی اسٹرکچرل مسائل کو کیوں تسلیم کرے جب ہر چیز کا الزام 'بدانتظامی' پر ڈالا جاسکتا ہے؟ 'کرپٹ' اور 'نااہل' کی بحث ہمارے کسی کام کی نہیں ہے لیکن ہم اس میں بہت آرام سے الجھ جاتے ہیں کیونکہ یہ اس بات کے احساس سے زیادہ آسان ہے کہ آئی ایم ایف ہم سے تھک چکا ہے اور پھر ہم بار بار آئی ایم ایف کے پاس جاتے رہیں۔ پھر امریکا بھی اس حوالے سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا کہ وہ آئی ایم ایف کو پاکستان کے ساتھ تعاون پر قائل کرے۔

تو ان سب باتوں کا نتیجہ کیا ہے؟ نتیجہ یہ ہے کہ لوگ مستقبل میں آنے والی مشکلات کے بارے میں آگاہ نہیں ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس کا احساس رکھتے ہیں۔ لیکن وہ اپنی جماعت کی قیادت کے سامنے اسے بیان کرنے سے قاصر ہیں اور وہ قیادت مشکل فیصلوں سے کترا کر سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت (اور دیگر) کا رویہ بلاشبہ ملکہ اور ان کی جانب سے اپنے بیٹے شہزادہ اینڈریو کو عوامی زندگی سے بے دخل کرنے کے فیصلے جیسا ہی ہے۔ ہمیں لگتا تھا کہ بے دخلی ہوچکی ہے لیکن پھر شہزادہ اینڈریو ایک اہم تقریب میں دیکھے گئے۔ اسی طرح ہم مشکل فیصلوں کے بارے باتیں تو کرتے رہتے ہیں لیکن وہ فیصلے لیے نہیں جاتے۔

پھر برآمدات پر بھی ہماری توجہ کچھ اسی طرح کی ہے۔ دیگر معاملات، خاص طور پر ہمارے اخراجات بھی عجیب طرح کے ہیں۔ ہم نجکاری کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن آخری مرتبہ ہم نے جنرل مشرف کے دور میں کسی بڑے ادارے کی نجکاری کی تھی۔ اس کے بعد سے کیا ہوا؟ ہمارا عدالتی نظام، سیاسی نظام اور احتساب کا نظام کہاں گیا؟ کیا ہمیں اس کام کے لیے ایک اور آمر کا انتظار ہے؟

حکومت کچھ بھی کہتی رہے لیکن کوئی بھی حکومت ان سرکاری ملازمین کے سامنے نہیں کھڑی ہوسکتی جنہوں نے کورونا کے دوران اور پھر اس سال بھی تنخواہوں میں اضافہ کروایا تھا۔

مزید پڑھیے: بجٹ 23ء-2022ء کو رابن ہڈ بجٹ کیوں کہنا چاہیے؟

اگر ہم نجکاری کے حوالے سے یوں ہی بات بھی کریں تو شاید ہم اس بات کو تسلیم کرلیں کہ تنظیمِ نو کا کام بہت طویل اور مشکل ہوگا۔ ساتھ ہی اس کی سیاسی اور انسانی قیمت بھی چکانی ہوگی۔ یہ لباس تبدیل کرنے جیسا نہیں بلکہ مکان تبدیل کرنے جیسا ہوگا جس میں ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب آگ برساتے سورج میں ہمارے سر پر کوئی چھت نہیں ہوگی۔ لیکن اب جب کہ انتخابات قریب ہیں اور موجودہ حکومت بھی غیر مستحکم ہے تو پھر مکان تبدیل کرنے کی شروعات کون کرے گا؟ یا کیا ہم اسی مکان میں رہتے رہیں گے جو کہ اب گرنے کو ہے؟

میں آخر میں اس بات کی جانب بھی اشارہ کروں گی کہ ایک طرف ہم میثاق معیشت کی اہمیت پر زور دے رہے ہیں تو وہیں ستم ظریفی دیکھیے کہ تمام جماعتیں (اور دیگر اسٹیک ہولڈرز) ہر طرح کے منفی قدم پر پہلے ہی متفق ہیں۔ چاہے وہ پی آئی اے یا پاکستان اسٹیل ملز کے اخراجات ہوں یا ہر سال سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ہونے والا اضافہ، زرعی زمینوں پر شہرکاری ہو یا پھر بے اختیار مقامی حکومتیں، کسی قسم کی لڑائی اور بیان بازی ان چیزوں پر موجود اتفاق کو ختم نہیں کرے گی۔


یہ مضمون 14 جون 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں