لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔
لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔

معیشت اس وقت مشکل صورتحال سے دوچار ہے، مہنگائی عوام کی کمر توڑ رہی ہے اور ملک شدید بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہے۔ اس صورتحال میں پاکستانی سیاستدانوں کا ردِعمل کیا ہے؟

وہ اس چیز پر سوچ و بچار کررہے ہیں کہ جب (اور اگر) رواں سال نومبر میں موجودہ آرمی چیف ریٹائر ہوں گے تو اس کے بعد نیا آرمی چیف کسے تعینات کیا جائے گا۔ حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے حامی یہ اعتراض کرسکتے ہیں کہ انہیں بھی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی طرح ہی سمجھا جارہا ہے۔ وہ یہ بات بھی کرسکتے ہیں اس وقت وزیرِاعظم سیلاب متاثرین کی مدد اور ملکی معیشت کی بحالی کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

ان سے میں یہی کہوں گا کہ وہ ایک بار پھر تحریک عدم اعتماد پر نظر دوڑائیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ذرائع نے مجھے بتایا تھا کہ نواز شریف سابق وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے حق میں نہیں تھے لیکن جماعت میں ہونے والی بحث میں ان کے سامنے زبردست دلائل پیش کیے گئے۔ اس میں 2 عوامل یا منظرناموں پر بحث کی گئی۔

اس وقت معاشی بحران شروع ہوچکا تھا اور بڑھتا ہوا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ خطرے کی نہیں بلکہ موت کی گھنٹیاں بجا رہا تھا۔ آئی ایم ایف کا پیکج بھی تعطل کا شکار تھا۔ ایسے میں پی ٹی آئی کے معاشی منتظم یہ سوچ رہے تھے کہ عالمی منڈی میں توانائی کی بڑھتی قیمتوں کے باوجود انہوں نے ایندھن کی قیمتوں میں جو سبسڈی دی ہے وہ اس کے لیے کہیں نہ کہیں سے پیسے حاصل کرلیں گے۔

مزید پڑھیے: کون بنے گا اگلا آرمی چیف؟

اس پس منظر میں ایک احساس یہ تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو مداخلت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور یہ کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنی ہی نااہلی کے بوجھ تلے دب جائے گی۔ اس رائے کو کئی ضمنی انتخابات کے نتائج سے بھی تقویت مل رہی تھی اور یہ بات سامنے آرہی تھی کہ حکمران جماعت کی مقبولیت کم ہورہی ہے۔

لیکن اگر پی ٹی آئی کو سال کے آخر تک حکومت کرنے دیا جاتا تو یہ بات طے تھی کہ عمران خان اپنے من پسند فرد کو آرمی چیف تعینات کریں گے۔ ایسی صورتحال میں حزبِ اختلاف کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا اور شاید اپوزیشن کو اگلی 2 مدت تک اقتدار سے دُور رکھا جاتا۔

یہی وہ منظرنامہ تھا جس کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ ہوا۔ ظاہر ہے کہ جس شخص کو عمران خان کا انتخاب ہونا تھا اسے ان کے سیاسی مخالفین کی جانب سے ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھا جارہا تھا جس کا ریکارڈ میڈیا کی زبان بندی، 2018ء کے انتخابات میں مداخلت اور پھر ‘آزاد’ امیدواروں کو پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈالنے پر مشتمل تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے حوالے سے آنے والے عدالتی فیصلوں میں بھی اسی شخص کا عمل دخل سمجھا جاتا تھا۔

جب عمران خان کو وزیرِاعظم بنانے کے صرف 3 سال بعد ہی دیگر افراد کا ان پر سے اعتماد اٹھ گیا تھا تب بھی وہ شخص ‘پروجیکٹ عمران’ کے ساتھ وابستہ رہا۔

عمران خان کی جگہ جیسے ہی شہباز شریف وزیرِاعظم بنے تو مسلم لیگ (ن) اور پی ڈی ایم میں شامل ان افراد کی تعداد کم ہوگئی جو فوری انتخابات چاہتے تھے۔ شہباز شریف گروپ اقتدار میں رہنا چاہتا تھا اور اس کے جواز کے طور پر یہ کہا گیا کہ ملک کو معاشی بدحالی سے بچانے کے لیے قومی مفاد میں سخت فیصلے لینے کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب عمران خان نے اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد جارحانہ رویہ اختیار کرلیا اور عدلیہ سے فوج تک ہر کسی کو اپنے نشانے پر لے لیا۔ انہوں نے کُھل کر اس خواہش کا اظہار کیا کہ تمام ریاستی ادارے نیوٹرل نہ رہیں اور اس لڑائی میں ان کا ساتھ دیں (جو آئین کے منافی کام ہے)۔ انہوں نے اس لڑائی کو ‘حق اور باطل’ کی لڑائی قرار دیا۔ انہوں نے ان لوگوں کا مذاق اڑایا ہے جنہوں نے اچانک ‘غیر جانبداری’ اختیار کرلی جبکہ وہ سوائے عمران خان کے تمام سیاستدانوں کے خلاف برسوں سے مہم چلا رہے تھے۔

اس کے نتیجے میں جو غیر یقینی پھیلی اس کی وجہ سے ہر قیاس آرائی اور افواہ پر مکمل یا جزوی یقین کیا جاتا رہا۔ ایسی صورتحال میں وہ استحکام جاتا رہا جو معاشی بحالی کے لیے ضروری تھا۔ جو بھی تاریخ پر نظر ڈالے گا وہ یہ جان لے گا کہ آرمی چیف کوئی بھی بنے لیکن ایک بار اس عہدے پر آنے کے بعد وہ اس وزیرِاعظم کی احسان مندی میں کام نہیں کرتا جس نے اس کا انتخاب کیا ہوتا ہے بلکہ اس کے پیچھے دیگر عوامل ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیے: معاملہ محب وطن آرمی چیف کا: آئین اس معاملے میں کیا کہتا ہے؟

جنرل ڈگلس گریسی 1947ء میں چیف آف جنرل اسٹاف اور قائم مقام کمانڈر ان چیف تھے (تب پاکستان کے پہلے کمانڈر ان چیف جنرل فرینک میسروی چھٹیوں پر برطانیہ گئے ہوئے تھے)۔ اس وقت کے سویلین گورنر جنرل یعنی قائدِاعظم نے انہیں کشمیر میں فوج بھیجنے کا حکم دیا لیکن جنرل گریسی نے ‘سپریم کمانڈر’ کلاڈ آچنلیک کے حکم کو ترجیح دیتے ہوئے فوج نہیں بھیجی۔ اس کے باوجود انہیں 1948ء میں ترقی دے کر آرمی چیف بنایا گیا اور وہ 1951ء تک اس عہدے پر رہے۔

وزیرِاعظم لیاقت علی خان نے کمانڈر ان چیف جنرل گریسی کے متبادل کے لیے جنرل ایوب خان کو 3 سینیئر افسران پر ترجیح دی لیکن یہ بات کوئی راز نہیں ہے کہ وزیرِاعظم کے مشیر اسکندر مرزا نے اس کے لیے بہت کوششیں کی تھیں۔ کچھ ہی عرصے بعد اسکندر مرزا صدرِ پاکستان منتخب ہوگئے تھے۔

حزبِ اختلاف کی جانب سے اسکندر مرزا کی جماعت کو چیلنج کیے جانے پر اسکندر مرزا نے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا اور ایوب خان کو مسلح افواج کا سپریم کمانڈر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تعینات کردیا۔ کچھ ہی مہینوں بعد ایوب خان نے اسکندر مرزا کو صدارت سے ہٹاکر انہیں جلا وطن کردیا۔

اس کے ایک دہائی بعد تاریخ نے خود کو دہرایا۔ ایوب خان کی حکومت کے خلاف خصوصاً مشرقی پاکستان میں پُرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے۔ ایوب خان چاہتے تھے کہ ان کے کمانڈر ان چیف یحییٰ خان مارشل لا نافذ کرکے صورتحال کو کنٹرول کریں۔ دوسری جانب یحییٰ خان کا کہنا تھا اگر وہ مارشل لا نافذ کریں گے تو پھر کنٹرول بھی انہی کا ہوگا اور ایوب خان کو گھر جانا پڑے گا۔

مزید پڑھیے: پاکستان کی سیاسی بساط

تاریخ نے پھر خود کو دہرایا اور وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 3 بہترین لیفٹیننٹ جنرل کو نظرانداز کرکے جنرل ضیاالحق کا انتخاب کیا جنہوں نے بھٹو حکومت کا تخت الٹا دیا۔ اس کے بعد جنرل عبدالوحید کاکڑ کو صدر غلام اسحٰق خان نے آرمی چیف تعینات کیا اور انہوں نے ہی غلام اسحٰق خان اور وزیرِاعظم نواز شریف کو گھر بھیجا۔

1999ء میں جنرل مشرف نے نواز شریف کی حکومت ختم کی حالانکہ انہوں نے ہی جنرل مشرف کو آرمی چیف تعینات کیا تھا۔ جنرل مشرف نے آرمی چیف کے لیے جنرل اشفاق پرویز کیانی کا انتخاب کیا جنہوں نے مخلوط حکومت کے مطالبے پر جنرل مشرف کو ملک سے باہر بھیجنے میں مدد کی۔ نواز شریف نے جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف تعینات کیا جنہوں نے ان کی زندگی مشکل بنائے رکھی اور پھر ان کے بعد آنے والے آرمی چیف کے دور میں نواز شریف کو اقتدار اور سیاست سے ہاتھ دھونا پڑے۔

ان تمام مثالوں سے یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ جو بھی شخص آرمی چیف بنتا ہے وہ اس منصب پر آنے کے بعد یہ بھول جاتا ہے کہ اسے یہاں کون لے کر آیا۔ اس کے بعد وہ صرف اپنے ذاتی اور ادارے کے مفادات کے تحت ہی کام کرتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ مؤثر حکمرانی پر توجہ دیں اور عوام کی خدمت کریں۔ یہی وہ چیز ہے جو ان کی مقبولیت اور طاقت میں اضافہ کرے گی نہ کہ کسی خاص عہدے پر بیٹھا شخص۔


یہ مضمون 18 ستمبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں