’رشتہ داروں‘ کی جانب سے نازیبا تصاویر شیئر کرنے پر خاتون کی خودکشی

03 اکتوبر 2022
ڈی پی او اوکاڑہ نے کہا کہ ملزمان نے متاثرہ خاتون کو بد کردار ثابت کرنے کے لیے تصاویر میں ایڈیٹنگ کی— فائل فوٹو: اے  ایف پی
ڈی پی او اوکاڑہ نے کہا کہ ملزمان نے متاثرہ خاتون کو بد کردار ثابت کرنے کے لیے تصاویر میں ایڈیٹنگ کی— فائل فوٹو: اے ایف پی

سوشل میڈیا اور واٹس ایپ پر ایڈٹ شدہ تصاویر اپ لوڈ اور شیئر کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر ضلع اوکاڑہ کے قصبہ دیپالپور میں دل برداشتہ خاتون نے مبینہ طور پر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر متاثرہ خاتون کے قریبی رشتہ دار ملزمان نے اس کی تصاویر میں رد و بدل اور ایڈیٹنگ کی اور بعد میں وہ تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیں اور واٹس ایپ کے ذریعے اس کے پڑوسیوں اور رشتہ داروں کو بھیج دیں۔

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ میں 18 جولائی کو جمع کرائی گئی اپنی شکایت میں خاتون نے تمام مشتبہ افراد کے نام بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے اس فعل نے اس کی زندگی کو ’جہنم‘ بنا دیا ہے اور اس کے خاندان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا پر خواتین کو ہراساں اور بلیک میل کرنے والا ملزم گرفتار

واقعے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ تصاویر اپ لوڈ کرنے سے قبل ملزمان نے مبینہ طور پر متاثرہ خاتون کی 7 سالہ بیٹی کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کے بازو توڑ دیے۔

تصاویر شیئر کیے جانے کے بعد بعد دونوں خاندان کے بزرگوں نے پولیس کو اطلاع دینے کے بجائے معاملہ اپنے طور پر حل کرنے کی کوشش کی اور حملہ آوروں کو کہا کہ وہ بطور زر تلافی بچی کے علاج معالجے کے اخراجات ادا کریں۔

تاہم ملزمان نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور معاوضے طے کردہ رقم کی ادائیگی میں تاخیر کی۔

متاثرہ خاتون کے اہل خانہ نے بتایا کہ کئی روز تک مجرموں کے خلاف کارروائی کی درخواستیں کرنے کے بعد 4 بچوں کی ماں نے زہر نگل کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

مزید پڑھیں: خاتون ہاؤس افسر کا یونیورسٹی اہلکاروں پر ہراسانی، قتل کی کوشش کا الزام

اہل خانہ نے شکایت کی کہ ایف آئی اے کے پاس ملزمان کے خلاف کارروائی کے لیے بہت وقت تھا لیکن بہت زیادہ تاخیر اور طریقہ کار کے تقاضے اس کو موت کی جانب لے گئے۔

اہل خانہ نے مزید بتایا کہ جب سے یہ تصاویر وائرل ہوئیں اس وقت سے اپنی بیٹی کو بت ساختہ روتے ہوئے دیکھ کر، شوہر اور قریبی رشتہ داروں کی جانب سے کیے جانے والے سخت سوالات کا سامنا کرنے کے باعث متاثرہ خاتون بہت زیادہ تکلیف اور اذیت کا شکار تھی۔

دوسری جانب، ڈی پی او اوکاڑہ فرقان بلال نے ڈان کو بتایا کہ پولیس نے متاثرہ خاتون کی جانب سے ایف آئی اے کے پاس جمع کرائی گئی شکایت میں نامزد 3 ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے اور دیگر نامزد ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزمان میں متوفیہ کے رشتہ دار تیمور، ذیشان اور ایک خاتون فاطمہ شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ نے طالبہ کی بلیک میل کیے جانے پر خودکشی کا نوٹس لے لیا

ڈان کو موصول ایف آئی اے کو درج کرائی گئی شکایت کے مطابق متاثرہ خاتون نے بتایا کہ مجرموں نے اس کی تصاویر حاصل کرکے اس کے چہرے کو برہنہ جسم پر ایڈٹ کیا اور وہ تصاویر اس کے پڑوسیوں اور رشتہ داروں کو واٹس ایپ کردیں۔

متاثرہ خاتون نے اپنی شکایت میں دعویٰ کیا کہ ملزمہ فاطمہ نے ایک وائس میسج ریکارڈ کیا اور اسے میری ایڈٹ شدہ تصاویر کے ساتھ شیئر کیا اور میرے رشتہ داروں سے کہا کہ وہ ان تصاویر مزید دیگر لوگوں کے ساتھ شیئر کریں۔

اہل خانہ نے کہا کہ ایف آئی اے نے کیس تحقیقات کے لیے لاہور کی ایک خاتون انسپکٹر کے حوالے کیا تھا لیکن تحقیقاتی ایجنسی نے شکایت کنندہ کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کیا اور مجرم اسے بلیک میل کرتے رہے۔

ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم پنجاب سرفراز خان ورک نے ڈان کو بتایا کہ ستمبر کے پہلے ہفتے میں لیڈی انسپکٹر نے مشتبہ شخص کو پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا تھا لیکن شکایت کنندہ نے اتھارٹی سے کہا کہ معاملہ خاندان کے بزرگوں نے حل کر دیا ہے اس لیے اسے بند کردیا جائے۔

بعد میں شکایت گزار خاتون ایک بار پھر ایف آئی اے لاہور دفتر گئیں اور حکام سے کہا کہ وہ کارروائی شروع کریں کیونکہ بزرگ اس کے کیس کا فیصلہ نہیں کرسکے۔

سرفراز خان ورک نے کہا کہ جب ہم نے کارروائی شروع کی تو ہمیں مشتبہ خاتون کے براہ راست ملوث ہونے کے شواہد نہیں مل سکے، انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے ایک اور مشتبہ شخص کو حراست میں لینے کی اجازت طلب کی تھی اور اس کے موبائل فون کے فرانزک تجزیے کا حکم دیا تھا۔

ایک سوال پر سرفراز خان ورک نے کہا کہ دوران تفتیش اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ ملزمان نے جان بوجھ کر متاثرہ خاتون کو بد کردار ثابت کرنے کے لیے اس کی تصاویر میں ایڈیٹنگ کی۔

مزید پڑھیں: سماجی کارکن کو سوشل میڈیا کے ذریعے دھمکی دینے والا ملزم گرفتار

انہوں نے مزید کہا کہ تفتیش جاری تھی کہ اسی دوران انہیں بتایا گیا کہ شکایت کنندہ انتقال کر گئی ہے۔

تاہم ایف آئی اے حکام نے ایسے کیسز تیز رفتار پیروی کے لیے وسائل اور افرادی قوت کی کمی کی شکایت کی۔

متاثرہ خاتون نبیلہ کا کیس ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے زیر التوا 44 ہزار کیسز میں سے ایک ہے، ان زیر التوا کیسز میں سے تقریباً 18 ہزار کیسز خواتین نے درج کرائے ہیں۔

ایف آئی اے حکام نے کہا کہ بہت زیادہ کیسز کے زیر التوا ہونے کے باعث تمام زیر التوا کیسز کی تحقیقات کرنا مشکل ہے جب کہ محکمے میں خواتین تفتیشی افسران کی تعداد بہت کم ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Kashif Oct 03, 2022 11:13am
تمام چینلز پر اخلاقیات ، معاشرت اور شہری قوانین سے متعلق کلپ چلانا چاہیں تاکہ ایک انسانی معاشرے کی تکمیل کے جانب بڑھ سکیں ۔