سیلاب متاثرین کی دلچسپ خیمہ بستی جہاں سیلون سے اسکول سب کچھ ہے

'زندگی یوں لمحوں میں بدل جائے گی یہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا، رات کی تاریکی میں اپنے آبائی گھر کو یوں زیرِ آب چھوڑنا کسی اذیت سے کم نہیں تھا مگر اب بھیک مانگنے کے بجائے خودمختار ہونا ہی اوّلین ترجیح ہے۔‘

یہ کہنا تھا سیلاب متاثرہ مومنت ارباب کا جو اس وقت کراچی اور بلوچستان کے سرحدی علاقے حب چوکی کے قریب پہاڑیوں کے درمیان قائم کردہ خیموں میں رہائش پذیر ہیں اور سندھ کی قدیم ثقافتی چادر 'رلی' تیار کرکے خود ہی روزگار کے مواقع پیدا کر رہی ہیں۔

39 سالہ مومنت ارباب اپنے خاوند اور 4 بچوں کے ساتھ دادو کی تحصیل میہڑ کے گاؤں حسین بخش ڈیپر میں رہتی تھیں۔ ایک ماہ قبل جب حالیہ سیلاب کے باعث ان کے گھر میں پانی داخل ہونے لگا تو وہ زندگی بھر کی جمع پونجی چھوڑ کر اپنے خاوند اور بچوں کے ہمراہ بس تن پر پہنے کپڑوں کے ساتھ زندگی بچا کر نکلیں۔

مومنت پہلے ایک سرکاری اسکول میں ٹھہریں مگر وہاں اپنا روزگار کرنا اور خود کفیل ہونا مشکل تھا کیونکہ وہاں سیکڑوں سیلاب متاثرین بھی مقیم تھے اور وہاں رہنے، سونے اور کام کرنے کے لیے کوئی سہولیات میسر نہ تھیں۔

سیلاب متاثرین کے لیے قائم خیمہ بستی —فوٹو: اعجاز کورائی
سیلاب متاثرین کے لیے قائم خیمہ بستی —فوٹو: اعجاز کورائی

مومنت ارباب نے پھر اس اسکول سے نکل کر کراچی آنے کا فیصلہ کیا اور کچھ دنوں تک وہ بچوں اور بیمار خاوند کے ہمراہ سڑکوں پر دربدر ہوتی رہیں اور بڑی کوششوں کے بعد وہ ماڑی پور میں پہاڑوں کے درمیان سیلاب متاثرین کی ایک خیمہ بستی تک پہنچیں اور اب وہ وہیں رہ رہی ہیں۔ وہاں انہوں نے روزگار کے لیے رلیاں بنانا شروع کیں، وہ یہ کام پہلے سے ہی کرتی آرہی تھیں۔

انہوں نے دکھی انداز میں بتایا کہ 'اپنا گھر اور آباؤ اجداد کی یادیں چھوڑنا، بغیر کسی وسائل کے نکلنا بہت مشکل کام تھا مگر ہمارے پاس یہ مشکل فیصلہ کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا'۔

مومنت نے بتایا کہ 'خیموں کی زندگی میں بڑی مشکلات ہیں۔ یہ چونکہ پہاڑی علاقہ ہے اس وجہ سے رات کو سونے سے قبل یہ بھی خوف ہوتا ہے کہ کہیں سے کوئی سانپ، بچھوں وغیرہ خیمے میں داخل نہ ہوجائے کیونکہ خیمے میں زمین پر چادر بچھا کر سونا پڑتا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'خیمہ بستی میں سب سے مشکل ترین لمحہ وہی ہوتا ہے جس سے ایک عورت ہر مہینے گزرتی ہے۔ جب پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے کچھ نہ ہو، جب صاف پانی تک نہ ہو پھر اس عمل سے گزرنا شدید ذہنی دباؤ کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک حاملہ خاتون کے لیے بھی خیمہ بستی میں رہنا دردناک تجربہ ہوتا ہے کیونکہ ہنگامی بنیادوں پر خاتون ڈاکٹر میسر نہیں ہوتی اور نہ ہی اتنے وسائل ہوتے ہیں کہ فوری طور پر اسپتال منتقل کیا جائے'۔

انہوں نے خیموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں آنے کے بعد پہلے سے کچھ چیزیں بہتر ہونے لگی ہیں کیونکہ اس خیمہ بستی میں کچھ منفرد ہو رہا ہے اور آپس میں سب مل کر رشتہ داروں کی طرح رہتے ہیں۔

مومنت ارباب اپنے خیمے میں رلیاں سی رہی ہیں —فوٹو: اعجاز کورائی
مومنت ارباب اپنے خیمے میں رلیاں سی رہی ہیں —فوٹو: اعجاز کورائی

کراچی کی اونچی عمارتوں سے 35 کلو میٹر دُور پہاڑی علاقے میں قائم سیلاب متاثرین کی اس خیمہ بستی میں لاڑکانہ، دادو، میہڑ، سانگھڑ، قمبر شہدادکوٹ، جوہی اور کاچھو سمیت کئی علاقوں سے سیلاب متاثرین آئے ہیں، مگر سب سے منفرد بات یہ ہے کہ یہ متاثرین اپنا روزگار خود تلاش کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

خیمہ بستی میں 300 سے زائد بچوں کو پرائمری تعلیم بھی دی جارہی ہے۔ دادو کے سیلاب زدہ علاقے سے تعلق رکھنے والے پرائمری استاد غلام مصطفیٰ پہنور تمام بچوں کو رضاکارانہ بنیادوں پر سہولیات کی عدم موجودگی کے باوجود تعلیم کے زیور سے آراستہ کررہے ہیں۔

استاد غلام مصطفیٰ پہنور نے ہمیں بتایا کہ 'میں گزشتہ 30 برس سے اس پیشے سے وابستہ ہوں مگر حالیہ مون سون بارشوں کے بعد جس طرح جان بوجھ کر ہمارے شہروں کو ڈبویا گیا اور تمام علاقے زیرِ آب آگئے تو مجبوری میں وہاں سے نکل کر کراچی آنا پڑا مگر مجھے اس بات نے بے چین کردیا تھا کہ جس اسکول کے بچوں کو میں تعیلم دیتا تھا وہ کس حال میں ہوں گے؟'

غلام مصطفیٰ پہنور نے کہا کہ 'جب میں کراچی آیا تو زندگی کی رونقیں چھن چکی تھیں، نہ وسائل تھے نہ گھر مگر کچھ دنوں تک کراچی کی سڑکوں پر گھومنے پھرنے کے بعد معلوم ہوا کہ ماڑی پور میں ایک خیمہ بستی قائم ہوئی ہے جہاں سیلاب متاثرین کو ٹھہرایا جارہا ہے، پھر میں نے فوری طور پر یہاں آنے کا فیصلہ کیا'۔

انہوں نے کہا کہ 'جب اس خیمہ بستی میں پہنچا تو سیلاب متاثرین کے سیکڑوں بچے اِدھر اُدھر گھوم رہے تھے، بس انہیں دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ جس پیشے سے میں وابستہ ہوں اگر میں اس صورتحال میں کسی کام نہیں آسکتا تو اس کا کیا فائدہ، آخر ان بچوں کا بھی ہم پر کچھ حق ہے کہ ان کو تعلیم جیسے بنیادی حق سے روشناس کریں'۔

غلام مصطفیٰ پہنور نے بتایا کہ 'اس خیمہ بستی میں بچوں کو پڑھاتے ہوئے ایک ماہ ہوگیا ہے۔ یہاں صبح 8 سے 12 بجے تک بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے مگر اب بچوں کی تعداد 300 سے تجاوز کرگئی ہے جس کی وجہ سے مشکلات کا سامنا بھی ہے کیونکہ نہ فرنیچر ہے، نہ کتاب اور قلم لہٰذا 3، 4 بچوں کو ساتھ بٹھا کر ایک کتاب سے پڑھایا جاتا ہے اور کوشش ہے کہ ان بچوں کو تعلیم کے حق سے محروم نہ رکھا جائے'۔

سیلاب متاثرین بچوں کو تعلیم دینے والے استاد غلام مصطفیٰ پہنور—فوٹو: اعجاز کورائی
سیلاب متاثرین بچوں کو تعلیم دینے والے استاد غلام مصطفیٰ پہنور—فوٹو: اعجاز کورائی

خیمہ بستی میں قائم اسکول میں بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں —فوٹو: اعجاز کورائی
خیمہ بستی میں قائم اسکول میں بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں —فوٹو: اعجاز کورائی

ایک کتاب سے 3، 4 بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں —فوٹو: اعجاز کورائی
ایک کتاب سے 3، 4 بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں —فوٹو: اعجاز کورائی

ماڑی پور میں قائم سیلاب متاثرین کی اس خیمہ بستی میں نہ صرف بچوں کو تعلیم دی جارہی ہے بلکہ وہاں ہنرمند خواتین دیگر بچیوں کو رلیاں بنانے کا ہنر بھی سکھا رہی ہیں تاکہ وہ بھی اپنی محنت سے آگے بڑھیں۔

اسی طرح اس خیمہ بستی کے سیکڑوں متاثرین اب اپنا روزگار کمارہے ہیں۔ اس خیمہ بستی میں ایک نوجوان محمد علی بلیدی نے حجام کا کام شروع کیا ہے اور وہ نہایت ہی مناسب قیمت پر خیمہ بستی کے سیکڑوں بچوں اور بزرگوں کے بال بناتے ہیں۔ محمد علی بلیدی کا تعلق جیکب آباد سے ہے۔ ان کے اپنے اہلِ خانہ بھی اس بستی میں مقیم ہیں۔

محمد علی کے مطابق 'میں جیکب آباد سے یہاں آکر پریشان تھا کہ اب کس طرح روزگار کا انتظام ہوگا، پیٹ کی بھوک نے ہمیں اتنا تنگ کیا کہ ایک دن بھی گزارنا مشکل تھا مگر چونکہ مجھے حجامت بنانے کا کام آتا تھا تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس خیمہ بستی میں ایک سیلون بنایا جائے جہاں سیلاب متاثرین کی مدد بھی ہوجائے گی اور مجھے روزگار بھی مل جائے گا'۔

انہوں نے کہا کہ 'ایک ماہ قبل میں نے یہاں سیلون شروع کیا جہاں اب ہر روز 10، 15 سیلاب متاثرین حجامت بنوانے آتے ہیں۔ ان سے مارکیٹ کے حساب سے 70 فیصد کم قیمت لی جاتی ہے تاکہ ان کو کوئی پریشانی نہ ہو'۔

جہاں اس خیمہ بستی میں سیلاب متاثرین خود کفیل ہونے کے لیے کوشاں ہیں وہیں مقامی و غیر ملکی فلاحی ادارے بھی ان کی بھرپور مدد کر رہے ہیں اور متاثرین تک طبّی کیمپ، کھانے پینے کی اشیا، کپڑے، چارپائیاں اور دیگر ضروری چیزیں سیلاب متاثرین تک پہنچانے کے لیے کوشاں ہیں۔

خیمہ بستی میں حجام کا کام کرنے والا نوجوان اپنے کام میں مصروف ہے —فوٹو: اعجاز کورائی
خیمہ بستی میں حجام کا کام کرنے والا نوجوان اپنے کام میں مصروف ہے —فوٹو: اعجاز کورائی

خیمہ بستی میں ایک چھوٹا بچہ اسٹال چلاتا ہے —فوٹو: اعجاز کورائی
خیمہ بستی میں ایک چھوٹا بچہ اسٹال چلاتا ہے —فوٹو: اعجاز کورائی

ہم نے دیکھا کہ ایک فلاحی ادارے کی طرف سے خیمہ بستی میں مقیم سیلاب متاثرین کے لیے طبّی کیمپ قائم کیا گیا تھا جہاں بچوں، خواتین اور بزرگوں کا طبّی معائنہ کرکے انہیں متعلقہ ادویات فراہم کی جا رہی تھیں۔ اس فلاحی ادارے کی نگرانی کرنے والے نوجوان سرمن بروہی نے کہا کہ 'ہم گزشتہ 2 ماہ سے سندھ کے مختلف اضلاع اور سیلاب زدہ علاقوں میں طبّی کیمپ لگا رہے ہیں مگر کہیں بھی حکومت کی طرف سے مکمل انتظامات نظر نہیں آئے'۔

سرمن بروہی نے کہا کہ ’یہ کام ریاست کا ہے کہ وہ لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرے اور ان کو روزگار اور دیگر وسائل فراہم کرے تاکہ کوئی بھی شخص احساسِ محرومی کا شکار نہ ہو مگر یہاں حکومت صرف عالمی دنیا سے قرض لینے میں مصروف ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو اپنی مدد آپ کے تحت سڑکوں پر نکلنا پڑا ہے'۔

خیمہ بستی میں لگے طبّی کیمپ میں ایک مریض کا معائنہ کیا جا رہا ہے —فوٹو: اعجاز کورائی
خیمہ بستی میں لگے طبّی کیمپ میں ایک مریض کا معائنہ کیا جا رہا ہے —فوٹو: اعجاز کورائی

سندھ بھر میں حالیہ مون سون بارشوں کے بعد شدید سیلاب نے تباہی مچا دی ہے، لاکھوں ایکڑ زرعی زمین تباہ ہوگئی ہے، سیکڑوں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ اس صورتحال میں یہ بات خوش آئند ہے کہ جہاں فلاحی ادارے ان متاثرین کی مدد کررہے ہیں وہاں یہ متاثرین کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے بجائے خود روزگار کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔