• KHI: Partly Cloudy 25.7°C
  • LHR: Partly Cloudy 19.6°C
  • ISB: Rain 13.2°C
  • KHI: Partly Cloudy 25.7°C
  • LHR: Partly Cloudy 19.6°C
  • ISB: Rain 13.2°C

ویژن 2025

شائع August 27, 2013

فائل السٹریشن --.
فائل السٹریشن --.

وہ اسے ایک 'ویژن' کہتے ہیں، جو ممکن ہے ایک برے خواب میں تبدیل ہو جاۓ- کہیں ایسا نہ ہو کہ حکومت کا ویژن 2025 (vision 2025) نامی 'اقتصادی ترقیاتی منصوبہ'، ناقص منصوبہ بندی اور عمل درآمد کی وجہ سے نہ صرف اچھی اقتصادی پیداوار فراہم کرنے میں ناکام ہو بلکہ یہ قوم کو پہلے سے بھی زیادہ مقروض بنا دے-

پلاننگ اور ڈویلپمنٹ کے وزیر، احسن اقبال نے حال ہی میں اقتصادی ترقی کے لئے حکومت کا نظریہ پیش کیا ہے جس کا مقصد تمام اقتصادی سیکٹرز کی نۓ سرے سے منصوبہ بندی ہے-

ابھی اس منصوبے کو حتمی شکل دی جانی باقی ہے جو 2025 تک اکنامک ڈویلپمنٹ  کا انتظام کرے گا- منسٹر صاحب نے منصوبے کے لئے تجاویز مانگی ہیں جو 31 دسمبر تک تیار ہو جاۓ گا-

پاکستان میں اقتصادی ترقی اور پالیسی پر مباحثے زیادہ تر حقائق اور ثبوت سے محروم رہے ہیں- حقائق  کی بنیاد پر منصوبہ بندی کے ذریعہ بنائی گئی غلطیوں سے مبرا اقتصادی پالیسی پر انحصار کرنے کی بجاۓ اقتصادی پالیسی سازی، زیادہ تر تخیلاتی مشق رہی ہے-

اگر موجودہ حکومت پاکستان میں غربت کا خاتمہ اور انسانی ترقی میں بہتری لانے کے لئےایک اعلیٰ  اقتصادی ترقیآتی ایجنڈا کی جستجو پر سنجیدہ ہے تو اسے خودساختہ اقتصادی استادوں پر انحصار چھوڑنا ہوگا جنکی ماضی کی پالیسی نے آج پاکستان کو اپنے آخری نجات دہندہ، قرض خواہ کا بری طرح مقروض کرچھوڑا ہے. اس کی بجاۓ  ضروری ہے کہ با خبر ماہرین اور راۓ دہندہ  سے رابطہ کیا جاۓ-

پاکستان کو بہ یک وقت منفرد مواقع اور خطرات کا سامنا ہے. ایک طرف تو دنیا کی سب سے بڑی ورکنگ ایج پاپولیشن والی آبادیاتی تقسیم ہے- دوسری طرف اتنا ہی بڑا انفراسٹرکچر خسارہ موجود ہے جو ممکن ہے آبادیاتی تقسیم کو خوشحالی فراہم کرنے میں پہلے ہی پیش بندی کر دے-

پاکستان، محتاط منصوبہ بندی کے ذریعے، اعلی اقتصادی ترقی حاصل کرنے کے لئے بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے تاکہ  اس کی آبادیاتی تقسیم سے استفادہ حاصل کرسکے-

ورلڈ بینک کی طرف سے جاری کردہ حالیہ پیپر میں، جوکو کنونین اور ہانس لوفگرن  نے یہ دلیل دی ہے کہ پاکستانی انفراسٹرکچر میں کی جانے والی محتاط سرمایہ کاری میں  اتنی صلاحیت ہے کہ 2022 تک ملینیم ڈویلپمنٹ گولز (ایم ڈی جیز) کے حصول کی طرف مناسب پیشرفت کرتے ہوئے غربت اور بے روزگاری کو کم کر کے بہتر انسانی ترقی لا سکے-

خصوصاً پاکستان کے لئے تیار کیے گۓ ایک مثالی میکرو اکنامک ماڈل کو استعمال کر کے، مصنفین نے پاکستان میں انفراسٹرکچر سرمایہ کاری کے لئے کئی مصنوعی منظر ناموں کا تجزیہ کیا اور اس نتیجے پر پنہچے کہ انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے لئے، حکومت کے دیگر غیر ضروری اخراجات کو ختم کر کے حاصل ہونے والی بچت سے نا صرف اقتصادی پیداوار کی رفتار 4.5 فیصد سے بڑھ کر 7 فیصد ہو جاۓ گی بلکہ یہ پاکستان میں ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکیٹرز کو بھی بہتر بناۓ گی-

مصنفین نے مستقبل میں پیداوار کا جو منظرنامہ تیار کیا ہے اس میں 2013 سے 2022 کے دوران سالانہ جی ڈی پی پیداوار میں 4 تا 5 فیصد سے لے کر 7 فیصد تک اضافے کا ہدف مقرر کیا ہے- ساتھ ہی ساتھ وہ بنیادی ڈھانچے پر اخراجات میں اضافہ کے لئے مالیاتی گنجائش  پیدا کرنے کےراستوں  کی تلاش میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں- اس کے لئے جو دو راستے تلاش کے گۓ ہیں ان میں ڈومیسٹک ٹیکسز میں اضافہ اور غیرترقیاتی حکومتی اخراجات میں کمی شامل ہیں-

سبسڈیاں دینے والوں کا عدم اطمینان:

ملک کی مستقل سیاسی عدم استحکام کی موجودگی میں، ہر حکومت پیٹرول، خوراک اور دیگر اشیا پر رعایت کے ذریعہ مختصر مدّتی امداد پیش کر کے ووٹروں کو جیتنے کی کوشش کرتی ہے-

اس طرح کی  شارٹ ٹرم سوچ عہدے داروں کو اگلے انتخابات جیتنے میں تو مدد کر سکتی ہے، تاہم، ایسی شارٹ سائٹڈ پالیسیاں لانگ ٹرم فائدہ پنہچانے میں ناکام رہتی ہیں-

وہ لکھتے ہیں، "ٹرانسفر پروگرامز سے فلاح و بہبود کے فوری فائدے تو پیدا  کیے جاسکتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ انکی افادیت کم ہو جاتی ہے، جبتک انھیں پیداوار بڑھانے کی غرض سے ڈیزائن نہ کیا جاۓ، شاید صحت، غذا اور تعلیمی نتائج میں بہتری لا کر"-

اس کی بجاۓ مصنفین نے یہ بحث کی ہے کہ تیز ترین اکنامک ڈویلپمنٹ کے لئے بچت، سرمایہ کاری اور ٹوٹل فیکٹر پروڈکٹیوٹی (وہ اقتصادی پیداوار جو سرمایہ اور مزدوری سے الگ ہوتی ہے) میں نمایاں اضافے کی ضرورت ہے-

مصنف یہ بھی لکھتے ہیں کہ غیر ضروری اخراجات (وہ اخراجات جو پیداوار، انسانی فلاح بہبود اور ترقی پر اثرانداز نہیں ہوتی) پر قابو پا کر حاصل کی جانے والی انفراسٹرکچر سرمایہ کاری کے فلاح و بہبود اور پیداواری اثرات  کہیں زیادہ ہوتے ہیں-

انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ ڈومیسٹک ٹیکسیشن میں اضافے اور توانائی میں دی جانے والی رعایت میں کمی سے مثبت نتائج حاصل نہیں کے جا سکتے، جبکہ حکومت کے غیر ضروری اخراجات میں کمی سے ایسا ممکن ہے-

مصنفین یہ بھی کہتے ہیں کہ  ڈومیسٹک ٹیکس میں اضافے کے ذریعہ انفراسٹرکچر میں کی جانے والی سرمایہ کاری کا جی ڈی پی پیداوار پر معمولی اثر پڑا ہےاور ساتھ ہی ساتھ غربت کے خاتمے اور پرائیویٹ کنزمپشن میں یہ رکاوٹ کا سبب بنا ہے-

اس کی بجاۓ غیر ضروری حکومتی اخراجات کے خاتمے سے پیدا ہونے والی مالیاتی گنجائش کے ذریعہ اقتصادی پیداوار میں تیزی اور غربت میں کمی دیکھنے میں آئ ہے- مصنفین نے دکھایا ہے کہ ایسا ہائی گروتھ سیناریو (اعلیٰ پیداواری خاکہ) 2022 تک بےروزگاری کی شرح 3.1 فیصد تک لے جا سکتا ہے جو کہ معمول کے کاروبار کے تحت  8.6 فیصد ہوگی- اسی کے ساتھ ملینیم ڈویلپمنٹ گول کے لحاظ سے ہیومن ڈولپمنٹ انڈیکیٹرز (انسانی ترقیاتی عناصر) میں بھی نمایاں بہتری آۓ گی-

2022 تک اقتصادی شرح 7 فیصد تک پہنچانا پاکستان کے لئے بالکل ممکن ہے- تاہم، اس کے لئے ضرورت ہے محتاط منصوبہ بندی، مؤثر عمل درآمد اور ذمہ دار انتظامیہ کی-

چنانچہ، ورلڈ بینک کی یہ رپورٹ پڑھنا ان کے لئے بہت ضروری ہے جنہیں ملک کی مالیاتی پالیسی وضع کرنے کا کام سونپا گیا ہے- رپورٹ میں موجود اقتصادی تجزیہ، منصوبہ سازوں کو اپنے مفروضے آزمانے میں مدد دے سکتا ہے اس  سے پہلے کہ وہ اس سے پہلے کہ وہ ایسے منصوبوں میں بلین ڈالر لگا دیں جو ممکن ہے ان کے اندازے کے مطابق فائدہ نہ پہنچا سکے-


مرتضیٰ حیدر، پی ایچ ڈی، ریرسن یونیورسٹی، ٹورنٹو، میں ٹیڈ راجر اسکول آف مینجمنٹ کے ریسرچ اینڈ گریجویٹ پروگرامز کے ایسوسیٹ ڈین ہیں -

ترجمہ: ناہید اسرار

مرتضیٰ حیدر

مرتضیٰ حیدر ٹورنٹو میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، اور regionomics.com کے ڈائریکٹر ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: regionomics@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025