2015ء میں کھیلے جانے والے ایک روزہ ورلڈ کپ کے بعد انگلینڈ نے تو جیسے وائٹ بال کرکٹ کھیلنے کا طریقہ ہی بدل دیا اور اب وہ ایک نئی طرز کی کرکٹ کھیلنے لگ ہیں۔

انگلینڈ کی یہ نئی پالیسی کچھ ایسی کامیاب رہی کہ اب وائٹ بال کا کوئی بھی ٹورنامنٹ ہو، کوئی بھی تجزیہ کار سیمی فائنل کی دوڑ سے اسے باہر نہیں رکھتے۔

کچھ ایسا ہی رواں ٹی20 ورلڈکپ سے پہلے ہوا تھا۔ یعنی جب بھی گروپ 1 سے سیمی فائنل میں پہنچنے والی 2 ٹیموں سے متعلق سوال ہوتا تو ہر جواب میں انگلینڈ کی ٹیم لازمی شامل ہوتی۔ جبکہ دوسری ٹیم کے بارے میں مقابلہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہی ہوتا۔

لیکن حیران کن طور پر انگلینڈ کے لیے اس ٹورنامنٹ کا آغاز ہرگز ویسا نہیں تھا، جیسی امیدیں وابستہ تھیں۔

افغانستان کے خلاف پہلے ہی میچ میں 113 رنز کے تعاقب میں انگلینڈ نے نہ صرف 18.1 اوورز کھیلے بلکہ اس کی آدھی ٹیم پویلین لوٹ چکی تھی۔ اگر افغانستان 140 رنز تک اسکور کرلیتا تو نتیجہ کچھ اور بھی ہوسکتا تھا۔

پھر جو کام افغانستان نہیں کرسکی، وہ کام آئرلینڈ کر گئی۔ آئرلینڈ کے 157 رنز کے جواب میں ایک بار پھر انگلینڈ کی بیٹنگ مشکلات کا شکار رہی اور 14 اوورز کے اختتام تک 93 رنز پر 5 کھلاڑی آؤٹ ہوچکے تھے۔ 15ویں اوور کا آغاز اگرچہ انگلینڈ کے لیے اچھا رہا اور ابتدائی 3 گیندوں پر معین علی نے 10 رنز بنالیے تھے، مگر بارش نے ایسی رکاوٹ ڈالی کہ پھر دوبارہ یہ میچ شروع نہیں ہوسکا اور ڈک ورتھ لوئس کے تحت آئرلینڈ یہ میچ 5 رنز سے جیتنے میں کامیاب ہوگیا۔

یہ انگلینڈ کی راہ میں بارش پہلی مرتبہ نہیں آئی بلکہ آسٹریلیا کے خلاف ہونے والا اہم ترین مقابلہ بھی بارش کی وجہ سے منعقد نہیں ہوسکا اور یوں جیت کی متلاشی دونوں ٹیموں کو ایک، ایک پوائنٹ ہی مل سکا۔

لیکن اس کے بعد ان دونوں ہی ٹیموں کے لیے اب پورا مرحلہ ناک آؤٹ بن چکا تھا۔ لیکن آسٹریلیا کے مقابلے میں انگلینڈ کی پریشان زیادہ تھی کیونکہ ان 2 مقابلوں میں سے اس کا ایک میچ خطرناک نیوزی لینڈ سے ہونا تھا۔

دوسری جانب جب اس ورلڈ کپ کا آغاز ہوا تو نیوزی لینڈ کی ٹیم اس گروپ میں انڈر ڈاگ جیسی تھی کیونکہ نیوزی لینڈ کا آسٹریلیا میں ریکارڈ کسی بھی طور پر اچھا نہیں ہے۔ لیکن آئی سی سی ٹورنامنٹس میں نیوزی لینڈ کو سیمی فائنل سے دُور رکھنا کافی مشکل کام ہے۔

ایونٹ کے پہلے ہی میچ میں جس طرح نیوزی لینڈ نے میزبان آسٹریلیا کو چاروں شانے چت کیا اور 89 رنز کی بڑی شکست سے دوچار کیا، اس نے باقی تمام ہی ٹیموں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی تھی۔

بہرحال آج ہونے والے میچ میں انگلینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ اگر گزشتہ 2، 3 سالوں میں اس ٹیم کی کارکردگی پر روشنی ڈالی جائے تو یہ فیصلہ کافی حیران کن فیصلہ تھا کیونکہ انگلینڈ کی ٹیم ہدف کا تعاقب کرنا پسند کرتی رہی ہے۔ لیکن شاید یہ فیصلہ اس لیے لیا گیا ہو کہ 2022ء میں کچھ گڑبڑ ہوگئی۔ اس سال انگلینڈ نے 12 مقابلوں میں دوسری بیٹنگ کی ہے مگر ان میں سے صرف 3 میں اسے کامیابی ملی۔

عام حالات میں تو انگلینڈ کی کوشش ہوتی ہے کہ پاور پلے کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھالیا جائے، لیکن آج کے اس اہم میچ میں اگرچہ تیز رنز کرنے کی نیت نظر تو آئی مگر ساتھ وکٹیں بچانے کی سوچ بھی جھلک رہی تھی۔ اسی بیٹنگ اپروچ کی وجہ سے 10ویں اوور کے اختتام تک انگلینڈ نے کوئی وکٹ تو نہیں کھوئی، مگر اس کا اسکور صرف 77 تک ہی پہنچ سکا۔

پانی کے وقفے کے دوران ایسا لگا جیسے اب انگلینڈ نے اپنی نیت میں تبدیلی کی ہے کیونکہ بڑے شاٹس کھیلنے کے چکر میں جہاں ایلیکس ہیلز آؤٹ ہوئے تو وہیں کپتان جوز بٹلر نے کُھل کر کھیلنا شروع کردیا۔ یہی نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ رنز بنانے کی کوشش کے سبب بیٹنگ آرڈر میں بھی تبدیلی کردی گئی اور ڈیوڈ ملان کی جگہ معین علی کو تیسرے نمبر پر زور آزمائی کے لیے بھیجا گیا۔

لیکن یہ تمام کوشش رنگ نہیں لائی اور لیام لوِنگسٹن کے علاوہ کوئی بھی کھلاڑی کپتان بٹلر کا ساتھ نہیں دے پایا۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم بہترین فیلڈنگ کے لیے جانی جاتی ہے لیکن ڈیرل مچل نے جوز بٹلر کا ایک کیچ چھوڑا تھا جو نیوزی لینڈ کو بہت مہنگا پڑ گیا۔ جہاں نیوزی لینڈ کے فاسٹ باؤلرز 10 سے زیادہ اکانومی سے باؤلنگ کرتے رہے وہی مچل سینٹنر اور اش سوڈھی نے 8 اوورز میں صرف 48 رنز ہی دیے اور شاید یہی 179 اور 200 کے درمیان فرق بن گیا۔

فن ایلن اور گلین فلپس اس ٹورنامنٹ میں سنچری بنا چکے ہیں اور ڈیون کونوے بھی بہترین فارم میں تھے، اسی لیے نیوزی لینڈ کے لیے 180 کا ہدف ناممکن نہیں لگ رہا تھا۔

انگلینڈ نے جب نیوزی لینڈ کے اسپنرز کو کامیاب ہوتے دیکھا تو پھر اپنی اننگ کا آغاز فاسٹ باؤلر کے بجائے معین علی سے کروانے کا فیصلہ کیا۔ معین علی نے پہلے اوور میں صرف 4 رنز دیے۔ لیکن جب دوسرے اوور کے لیے کرس ووکس باؤلنگ کے لیے آئے تو ان پر اٹیک کرنے کی کوشش کی گئی جو ناکام ہوئی کیونکہ دوسرے ہی اوور میں کونوے آؤٹ ہوگئے۔

پاور پلے کے اختتام سے پہلے ہی فن ایلن بھی پویلین لوٹ گئے تو ساری ذمہ داری کپتان کین ولیمسن اور اِن فارم گلین فلپس پر آ پڑی۔ گلین فلپس کو بھی جوز بٹلر کی طرح ایک موقع ملا جب معین علی نے ان کا ایک آسان کیچ چھوڑ دیا۔ ایک طرف فلپس زوردار ہٹس لگا رہے تھے تو دوسری طرف کین ولیمسن صرف سنگلز پر ہی اکتفا کر رہے تھے۔ مطلوبہ رن ریٹ بڑھتا جا رہا تھا لیکن یہ ابھی اتنا زیادہ نہیں ہوا تھا کہ ناممکن ہوجاتا۔

لیکن کین ولیمسن کی وکٹ گری تو جمی نیشم اور ڈیرل مچل بھی کچھ زیادہ نہیں کرسکے اور جلدی آؤٹ ہوگئے۔ لیکن اب تک امید اس لیے باقی تھی کیونکہ فلپس اب بھی وکٹ پر موجود تھے اور وہ میچ کا نقشہ بدلنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن سام کرن نے ان کو بھی آؤٹ کیا اور اس اہم ترین میچ میں انگلینڈ کو کامیابی مل گئی۔

اس کامیابی کے بعد گروپ 1 میں اب نیوزی لینڈ، انگلینڈ اور آسٹریلیا تینوں 5، 5 پوائنٹس کے ساتھ ٹیبل پر موجود ہیں۔ دوسری طرف آج افغانستان کو شکست سے دوچار کرنے والی سری لنکا کے 4 پوائنٹس ہیں۔

اب نیوزی لینڈ کا آخری میچ آئرلینڈ، انگلینڈ کا سری لنکا اور آسٹریلیا کا افغانستان کے خلاف ہے۔ اگر تینوں ٹیمیں اپنے میچ جیت جاتی ہیں تو معاملہ نیٹ رن ریٹ پر آجائے گا اور نیوزی لینڈ اس وقت اس معاملے میں بہت بہتر پوزیشن میں ہے۔

دوسری طرف آسٹریلیا کو اپنا نیٹ رن ریٹ انگلینڈ سے بہتر کرنے کے لیے افغانستان کو کافی بڑے مارجن سے شکست دینا ہوگی یا باقی دونوں (نیوزی لینڈ، انگلینڈ) میں سے ایک ٹیم کی شکست کا انتظار کرنا ہوگا۔

سری لنکا بھی ابھی سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر نہیں ہوئی لیکن سری لنکا کو سیمی فائنل تک رسائی کے لیے نہ صرف انگلینڈ کو شکست دینی ہوگی بلکہ نیوزی لینڈ یا آسٹریلیا کی شکست کے لیے دعائیں بھی کرنی ہوں گی۔ اس لیے یہاں یہ کہنا کسی بھی طور پر غلط نہیں ہے کہ گروپ 1 میں معاملہ کچھ زیادہ ہی گھمبیر ہوچکا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں