Dawnnews Television Logo

عمران خان کے اسمبلیوں سے نکلنے کے فیصلے پر قانونی ماہرین کی رائے

ماہرین کے مطابق اہم نکتہ یہ ہے کہ کیا وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی عمران خان کے فیصلے سے متفق ہوں گے یا نہیں۔
شائع 26 نومبر 2022 11:52pm

پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے سسٹم کا حصہ نہ بننے اور ساری اسمبلیوں سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے قانونی ماہرین کی رائے لی گئی ہے۔

راولپنڈی میں لانگ مارچ سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ساری اسمبلیوں سے نکلنے لگے ہیں، ہم بجائے اپنے ملک میں توڑ پھوڑ کریں، اس سے بہتر ہے کہ ہم اس کرپٹ نظام سے باہر نکلیں اور اس سسٹم کا حصہ نہ بنیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عمران خان کی پنجاب، خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں حکومت ہے جبکہ ان کی جماعت کے اراکین اسمبلی پہلے ہی قومی اسمبلی سے استعفے دے چکے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ فیصلہ کررہا ہوں کہ اسلام آباد نہیں جانا کیونکہ مجھے پتا ہے تباہی مچے گی، میں نے وزیراعلیٰ سے بات کی ہے، پارلیمنٹری پارٹی سے بھی مشاورت کر رہا ہوں، آنے والے دنوں میں اعلان کریں گے کہ کس دن ہم ساری اسمبلیوں سے باہر نکل رہے ہیں۔

قانونی ماہرین نے ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے اس اقدام کے مؤثر ہونے پر شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی اس حوالے سے رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

معروف وکیل عبدالمعیز جعفری نے کہا کہ پی ٹی آئی کا نظام سے باہر نکلنا جمہوری خسارے کا باعث بن سکتا ہے اور قانون سازی کے عمل سے سیاسی جواز چھین سکتا ہے لیکن اس سے کوئی قانونی صورت حال پیدا نہیں ہوگی۔

عبدالمعیز جعفری نے بتایا کہ اہم نکتہ یہ ہے کہ پرویز الہٰی ایسا نہیں ہونے دیں گے، ان کے صاحبزادے مونس الہٰی احتساب کی وکٹ پر چل رہے ہیں اور وزیراعلیٰ کی اپنی سیاست اتنی تیزی سے تبدیل نہیں ہوسکتی کہ کسی عارضی چیز سے متاثر ہو سکے جیسا کہ گارڈز کی تبدیلی۔

ان کا کہنا تھا کہ پرویز الہٰی کی وردی سے وفاداری کو ان کے پسندیدہ سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے بارے میں اچھے طریقے سے بتایا تھا کہ یہ ان کی جلد کی طرح ہے، پرویز الہٰی ہر بار اپنی جلد کو محفوظ کر پاتے ہیں۔

بیرسٹر اسد رحیم نے بتایا کہ پارلیمنٹری نظام میں پی ٹی آئی کی بطور بڑی جماعت مقننہ میں جگہ ہے، جہاں پر بحث اور ریاستی قوانین کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔

اسد رحیم نے بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 107 اور 112 کے مطابق وزیر اعلیٰ کے مشورے پر گورنر صوبائی اسمبلی تحلیل کرسکتے ہیں، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ان کی اکثریت ہے، پی ٹی آئی نئے صوبائی الیکشن کروانے کی پوزیشن میں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی ایسی شق نہیں ہے جس کے تحت یہ مینڈیٹ دیا گیا ہو کہ عام انتخابات بھی ایک ہی وقت میں کروائے جائیں، وفاقی اور صوبائی انتخابات مختلف اوقات میں کروانا نقصان دہ ہو گا۔

انہوں نے اظہار خیال کیا کہ دوسری طرف، پی ٹی آئی ایک بار پھر سلسلہ وار استعفے دینے کا فیصلہ کر سکتی ہے، جو تحلیل کا مکمل عمل شروع ہونے سے کچھ عرصہ پہلے دیے جاسکتے ہیں، جس کی وجہ سے انتخابات کے اندر مزید ضمنی انتخابات کی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔

اسد رحیم نے بتایا کہ پارلیمنٹری نظام میں حکومت لازمی طور پر اکثریت اور عوام کی مرضی کے مطابق تشکیل دی جانی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے جیسا کہ غیر جمہوری قوتوں کی جانب سے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، خود کو اتنا زیادہ پولرائزڈ پاتے ہیں کہ وہ بنیادی تصور پر عمل کرنے سے قاصر ہیں۔

وکیل باسل نبی ملک نے بتایا کہ پی ٹی آئی کا اقدام ایسی صورت حال پیدا کرسکتا ہے کہ جہاں چند اسمبلیوں کے انتخابات ایک وقت میں جبکہ دیگر کے کسی دوسرے وقت میں منعقد ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے یہ اتنا غیرمعمولی نہ ہو، جتنا کوئی سوچ سکتا ہے، یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ماضی میں گلگت بلتستان میں انتخابات ہوچکے ہیں، جس کے لیے ضروری نہیں تھا کہ چاروں صوبوں میں بھی اسی دوران انتخابات ہوں، یہ ممکن ہے کہ علیحدہ علیحدہ وقت میں انتخابات ہوں، تاہم سیاسی دباؤ شدید ہوگا۔

باسل نبی ملک نے کہا کہ متعدد صوبائی انتخابات پاکستان کے لیے پہلے سے گرتی معیشت، استحکام اور سیاسی کش مکش کے حوالے سے دھچکا ثابت ہوں گے۔