لکھاری پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ہیں۔
لکھاری پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ہیں۔

میں اپنے حالیہ کالموں میں پاکستانی سیاست پر اشرافیہ کے قبضے، ہماری حکومتوں کی نااہلی اور غلط درآمدی ماڈل کے بارے میں لکھ چکا ہوں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کے نتائج معیشت کی بدحالی کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔

ہمارے بیشتر وسائل پر اشرافیہ قابض ہے جو اقتصادی ترقی یا معیشت کی بہتری میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ اشرافیہ صرف اس معاشی نظام میں اپنا حصہ برقرار رکھنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔

ہماری حکومتوں کی نااہلی سے اشرافیہ خوب فائدہ اٹھاتی ہے۔ حکومتی نااہلی سماجی نقل و حرکت کو روک دیتی ہے اور اس کے نتیجے میں اسٹیٹس کو برقرار رہتا ہے۔ آخر میں درآمدات پر انحصار کی پالیسی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ تمام منافع انہی لوگوں کے پاس جائے جو پہلے سے ہی خوشحال ہیں۔

غربت کے اس جال سے نکلنا ہے تو ترقی کے لیے اشرافیہ کے ساتھ کوئی سودا کرنا ہوگا۔ یہ کام کیسے ہوگا وہ ایک اہم سوال ہے جسے میں فی الحال نہیں چھیڑوں گا۔ آج میں آپ کو ترقی کے لیے ان 6 ستونوں کے بارے میں مختصر طور پر بتاؤں گا جنہیں میں اہم سمجھتا ہوں۔

اگر ہماری حکومت صرف ایک کام انجام دے سکے تو میں چاہوں گا کہ وہ بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پائے۔ میری نظر میں یہ ترقی کا پہلا ستون ہے۔ تعلیم یا صحت پر چاہے ہم جتنے بھی وسائل خرچ کرلیں وہ تب تک ناکافی ہی رہیں گے جب تک ہم اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو نہیں پاتے۔

پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح بھارت اور بنگلادیش سے دگنی جبکہ سری لنکا سے تین گنا زیادہ ہے۔ جب تک ہم آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو نہیں پاتے تب تک پاکستان یونہی غربت اور ناخواندگی کی زنجیروں میں جکڑا رہے گا۔

1950ء کی دہائی میں امریکی ماہرِ معیشت چارلس ٹیبو نے شہریوں کے لیے ایک تصور پیش کیا جسے انگریزی میں ’ووٹنگ وِد دیئر فیٹ‘ کا نام دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ ان علاقوں سے نقل مکانی کرجائیں جہاں خدمات بہتر نہ ہوں یا پھر جہاں بہت زیادہ ٹیکس عائد ہوں۔ انہوں نے اپنے اس تصور کی دلیل یہ پیش کی کہ اس طرح مقابلے کی فضا پیدا ہوگی جس کے نتیجے میں شہر اور ریاستیں اپنے لوگوں کو بہتر خدمات فراہم کریں گی۔

امریکا میں ریاستوں کو ’جمہوریت کی تجربہ گاہوں‘ کا بھی نام دیا جاتا ہے جہاں مختلف خیالات پر تب تک تجربات کیے جاتے ہیں جب تک ایک کامیاب ماڈل کو مکمل طور پر اپنا نہیں لیا جاتا۔ امریکا میں اختیارات اور ذمہ داریاں صرف اس کی 50 ریاستوں میں منتقل نہیں کی جاتیں بلکہ اس کے ماتحت کاؤنٹیز (جنہیں ہم ڈویژنز کہتے ہیں، جو بہت سی خدمات فراہم کرتی ہیں) اور شہروں (جو ہوتے تو چھوٹے ہیں لیکن ان کے پاس کافی ذمہ داریاں منتقل ہوتی ہیں) میں بھی انہیں تقسیم کیا جاتا ہے۔

امریکی ریاستوں اور اس کے شہروں کو وسائل بھی اکثر خود ہی جمع کرنا ہوتے ہیں۔ یوں امریکا نے وفاق کا ایسا مؤثر نظام نافذ کیا ہے جہاں محصولات اور اخراجات دونوں کے فیصلے ایک ہی دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کیے جاتے ہیں۔ امریکا کی معاشی کامیابیوں میں اس وفاقی نظام کا بھی جزوی کردار ہے۔

جب چینی رہنما ڈینگ ژیاؤپنگ نے چین کی معیشت کو حکومتی روک ٹوک سے آزاد کیا تب انہوں نے صرف بیجنگ میں موجود مرکزی بیوروکریسی کو ہی نہیں بلکہ 4 علاقوں کی مقامی حکومتوں کے عہدیداران کو بھی خصوصی اقتصادی زون قائم کرنے کا حکم دیا۔

ان چاروں خطوں میں سے شینزین کا اقتصادی زون سب سے کامیاب رہا اور 5 سالوں میں شینزین سے متاثر ہوکر پورے چین میں 35 زونز کا قیام عمل میں آیا جنہوں نے چین کی برآمدات اور ترقی میں اہم حصہ ڈالا۔

حتیٰ کہ آج بھی، ان زونز میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے علاقائی عہدیداران کو ترقی دے کر چینی کمیونسٹ پارٹی اور حکومت کا اعلیٰ عہدیدار بنایا جاتا ہے۔ جوش اور لگن کی بنیاد پر آپس میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے والے ان مقامی عہدیدران کا چین کی اقتصادی ترقی میں اہم حصہ ہے۔

ہمارے 4 بڑے صوبے اقتصادی ترقی کے حوالے سے مقابلہ نہیں کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہمارے 38 ڈویژن اور 100 سے زائد اضلاع آپس میں مقابلہ شروع کردیں تو ہماری معاشی حالت یقینی طور پر بہتر ہوگی اور ہمیں ذمہ دار حکومتیں دیکھنے کو ملیں گی۔

صوبائی حدود کو برقرار رکھتے ہوئے ہمیں صرف اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہر ڈویژن کا ایک منتخب کمشنر ہو اور ہر ضلع کا ایک منتخب میئر ہو جن کے پاس اختیارات بھی ہوں اور ذمہ داریاں بھی۔

وسائل کی تقسیم کے حوالے سے میرے خیال میں ذیلی قومی حکومتوں کو جو رقم تقسیم کی جاتی ہے اس کا 60 فیصد حصہ اضلاع کو دیا جائے اور اس رقم کا 20 فیصد ڈویژن اور صوبے کو فراہم کیا جائے۔ اسی طرح اضلاع کو میٹروپولیٹن خدمات کا مرکز بنایا جاسکتا ہے۔

تو ترقی کے میرے تصور کا دوسرا ستون ایسی بااختیار مقامی حکومتیں ہیں جن کے پاس صحت، تعلیم، امن و امان اور زون وغیرہ کے اختیارات ہوں۔ ہمارے پاس ایسے بہت سے مواقع موجود ہونے چاہیے جو ہماری حکومتوں کو ذمہ دار اور مؤثر بنائیں۔

میری نظر میں ترقی کا تیسرا ستون چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا ہے اور مالیاتی خسارے کو ہماری شرح نمو سے کم کرنا ہے۔

خسارے کو کم کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ عوامی ترقیاتی منصوبوں کو بڑے بین الصوبائی منصوبوں تک محدود کردیا جائے۔ دفاع سمیت موجودہ اخراجات کی شرح کو مہنگائی کی شرح سے کم کردیا جائے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ذیلی سطح پر 5 سالوں میں ہونے والی ادائیگیوں کو موجودہ 57.5 فیصد سے کم کرکے تقریباً 40 فیصد کردیا جائے۔ ساتھ ہی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مقامی حکوتوں کو بھی اپنی آمدنی بڑھانے کی اجازت دے دینی چاہیے۔

یہاں بیرونِ ملک سے قرضے لے کر اور نجی سرمایہ کاری سے مالیاتی خسارے کی بھرپائی کی جاتی ہے۔ قرضہ لینا کوئی نہیں چاہتا اور نجی سرمایہ کاری کے نتائج کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔

اسی لیے ہمیں مالیاتی اور شرح مبادلہ کی ایسی پالیسیوں کا انتخاب کرنا چاہیے جن سے کرنٹ اکاؤنٹ میں توازن قائم کیا جا سکے۔

ترقی کے تصور میں چوتھا ستون درآمدات کے برعکس برآمدات کے فروغ کے لیے پالیسی سازی ہے۔ ہماری برآمدات تین اہم وجوہات کی بنا پر کم ہیں۔

  • ایک یہ کہ ہم مناسب نرخوں پر توانائی کی بلاتعطل فراہمی نہیں کرتے۔
  • دوسری یہ کہ ہمارا ملک غیر ملکی خریداروں کے لیے محفوظ نہیں سمجھا جاتا جبکہ
  • تیسری وجہ یہ ہے کہ ہماری کمپنیاں محفوظ مقامی منڈیوں میں فروخت کو ترجیح دیتی ہیں۔

پہلی دو وجوہات کا سبب تو گزشتہ 20 سالوں سے واضح ہے لیکن پھر بھی اس پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔ جبکہ تیسری وجہ کا حل یہ ہے کہ ان کمپنیوں پر اضافی ٹیکس عائد کیا جائے جو اپنی فروخت کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی برآمد نہیں کرتیں جبکہ انہیں تو کسٹم ڈیوٹی میں بھی رعایت حاصل ہوتی ہے جو مقامی صنعت کاروں کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ مندرجہ بالا اقدامات اور برآمدات کے لیے ڈویژن کی سطح پر ایکسپورٹ پراسیسنگ زونز کی تشکیل سے ہماری برآمدات میں یقینی طور پر اضافہ ہوگا۔

پانچواں ستون زرعی پیداوار کو بہتر بنانا ہے۔ ہم اپنے آپ کو زرعی ملک کہتے ہیں پھر بھی ہم صرف 8 ارب مالیت کی ہی گندم، کپاس، تیل، دالیں، لہسن، ادرک اور ایسی دیگر اشیا درآمد کرتے ہیں۔ ہماری فصل کی پیداوار نہ صرف چین بلکہ بھارت (جہاں حالات ہم سے مختلف نہیں) کی پیداوار سے بھی کم ہے۔

چونکہ ہماری آبادی میں سالانہ 50 لاکھ سے زائد افراد کا اضافہ ہو رہا ہے، اس لیے جب تک کہ ہم اپنی زرعی پیداوار میں اضافہ نہیں کریں گے تب تک ہمارے ملک میں خوراک کی قلت برقرار رہے گی۔ زرعی پیداوار میں اضافے سے کسانوں کی آمدنی بھی بڑھے گی اور یہ دیہی علاقوں میں غربت کم کرنے کا باعث بھی بنے گا۔

چھٹا اہم ستون تعلیم ہے جس پر ایک علیحدہ کالم لکھنے کی ضرورت ہے۔


یہ مضمون 8 دسمبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

ندیم سید Dec 13, 2022 10:20pm
ساری چیزیں درست ہیں ۔مگر کیا آسان اور فوری چیز ہے۔،؟ Lets start with quick and easy things stop land hoarding under government support