لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔
لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔

موجودہ الیکشن کمیشن کے پہلے بڑے امتحان میں اب 90 دن سے بھی کم وقت رہ گیا ہے، درحقیقت یہ پوری قوم کا بھی امتحان ہوگا۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے ساتھ ہی نئی اسمبلیوں کے انتخاب کے آئینی تقاضے کے لیے اب الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے۔

جس دوران دونوں صوبوں میں نگران حکومتوں کے حوالے سے مشورے جاری تھے اس دوران الیکشن کمیشن نے بلآخر 15 جنوری کو سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کا انعقاد کروادیا۔ اس مرحلے میں انتہائی حساس کراچی اور حیدرآباد ڈویژن شامل تھے جہاں انتخابات ڈھائی سال کی تاخیر سے ہورہے تھے اور بار بار التوا کا شکار ہوئے تھے۔

15 جنوری کی تاریخ پر بھی پہلے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان اور بعد ازاں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سندھ حکومت کی جانب سے انتخابات ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔ ایم کیو ایم پاکستان کو یونین کمیٹیوں کے غیر متناسب حجم کے بارے میں کچھ شکایات تھیں لیکن الیکشن کمیشن اور عدالتیں انتخابات کو مزید مؤخر کرنے پر قائل نہیں تھیں۔ یوں ناراض ایم کیو ایم نے سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن سے شکایت کرتے ہوئے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔

پولنگ کے دن ہنگامہ آرائی کی پیشگوئی کے برعکس الیکشن کا دن مجموعی طور پر پُرامن رہا اور پولنگ منظم انداز میں ہوتی رہی۔ تاہم، پریزائیڈنگ اور ریٹرننگ افسران کی جانب سے نتائج کی تیاری پر خاص طور پر جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے زبردست احتجاج کیا گیا۔

ضروری نہیں ہے کہ سخت احتجاج انتخابات کی ساکھ ختم ہوجانے کا مظہر ہو، جیسا کہ ہم نے 2014ء میں پی ٹی آئی کے دھرنے کے دوران دیکھا۔ اس وقت کے چیف جسٹس کی سربراہی میں بننے والے جوڈیشل کمیشن کے فیصلے میں یہ بات سامنے آئی کہ 2013ء کے انتخابات کے نتائج رائے عامہ کا مظہر تھے اور یوں پی ٹی آئی کے الزامات مسترد ہوگئے۔

تاہم اس کمیشن نے انتخابی عمل میں کچھ کمزوریوں کی ضرور نشاندہی کی تھی جنہیں الیکشن کمیشن اور دیگر اسٹیک ہولڈرز نے دُور کرنا تھا۔

کراچی کے بلدیاتی انتخابات پر ہونے والا تنازع آئندہ عام انتخابات کے بہت نزدیک کھڑا ہوا ہے اور اگر مناسب اور مؤثر انداز میں اس سے نہیں نمٹا گیا تو یہ موجودہ الیکشن کمیشن کی ساکھ کو بُری طرح متاثر کرسکتا ہے۔

ماضی کے انتخابات میں اکثر طاقتور اداروں کی جانب سے دھاندلی کا بوجھ اٹھانے کے بعد الیکشن کمیشن نے نئے چیف الیکشن کمشنر اور چاروں ممبران کے تقرری کے بعد اپنی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے کچھ ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔

بظاہر اعلیٰ عدالت کے اندر اور باہر سے آنے والے دباؤ کے باوجود بھی الیکشن کمیشن نے 2021ء کے سینیٹ انتخابات میں آئین کے مطابق بیلیٹ کی رازداری کی حمایت کی جو اس کی آزادی اور خودمختاری کا اظہار تھا۔

فروری 2021ء میں ڈسکہ میں ہونے والے ضمنی انتخابات کو کالعدم قرار دینا، حالیہ وقتوں میں الیکشن چوری کرنے کی سب سے زیادہ مذموم کوششوں میں سے ایک میں شامل افراد کی نشاندہی کرنا اور سول انتظامیہ کے سینیئر افسران کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا، دوبارہ انتخابات کے معاملے پر عدالت کی توثیق حاصل کرنا جس سے انتخابات میں کی جانے والی ہیرا پھیری کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی تحقیقات کی بھی تصدیق ہوئی، یہ سب کچھ الیکشن کمیشن کی تاریخی کامیابیاں ہیں جن کو بہت زیادہ سراہا نہیں گیا۔

پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ ​​کیس میں سابقہ الیکشن کمشنوں کی طرف سے 8 سال سے زائد تاخیر کے بعد ایک تحقیق شدہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ دینا بھی ایک اہم کامیابی تھی۔

الیکشن کمیشن نے جولائی 2022ء میں پنجاب اسمبلی کے 20 حلقوں میں ضمنی انتخابات کا کامیاب انعقاد کروایا۔ اس دوران کمیشن نے انتہائی پُرجوش ماحول میں دباؤ کا مقابلہ کیا کیونکہ زیادہ تر نتائج مسلم لیگ (ن) کے خلاف آئے جبکہ مرکز اور اس وقت پنجاب میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی تھی۔ اس سے الیکشن کمیشن کی ساکھ میں اضافہ ہی ہوا۔ ساتھ ہی بلوچستان، خیبر پختوخوا اور سندھ میں صوبائی حکومتوں کی طرف سے قانونی چارہ جوئی اور التوا کی کوششوں کے باوجود بلدیاتی انتخابات کا کامیاب انعقاد بھی کمیشن کی کامیابی ہے۔

تاہم الیکشن کمیشن کے اصرار کے باوجود پنجاب اور اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کا بار بار ملتوی ہونا ہماری انتخابی تاریخ کا ایک افسوسناک باب ہے۔

سیاسی پولرائزیشن اور ایک بڑی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن کمیشن پر سخت لیکن بلاجواز تنقید کی وجہ سے عام انتخابات کا انعقاد ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔

سیاسی مالیات کا محتاط ضابطہ، پولنگ عملے کے ذریعے جس میں زیادہ تر صوبائی حکومت کے ملازمین شامل ہیں، حال ہی میں تحلیل ہونے والی صوبائی حکومتوں کے غیر ضروری سیاسی اثر و رسوخ سے انتخابات کی حفاظت کرنا، کسی ایک فریق یا دوسری طرف سے اشتعال انگیزی کے باوجود یکساں اور غیر جانبدارانہ طرزِ عمل کو برقرار رکھنا۔ سندھ کے ضمنی انتخابات کے دوران اٹھائے جانے والے اعتراضات سے فوری نمٹنا اور عوام سے رابطے کو بہتر بنانا الیکشن کمیشن کے کچھ اہم چیلنجز ہیں۔

صرف الیکشن کمیشن ہی نہیں بلکہ تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول سیاسی اور نگران حکومتیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور تمام سیاسی جماعتوں کو اگر اگلے الیکشن کو قابلِ اعتبار بنانا ہے تو اپنی اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہوگی۔


یہ مضمون 21 جنوری 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں