Dawnnews Television Logo

سابق صدر پرویز مشرف کا دورِ اقتدار: وہ دیگر آمروں سے کتنے مختلف رہے؟

جنرل پرویز مشرف کو چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے تقریر کرنی تھی تو ان کے پاس فوجی یونیفارم نہیں تھا اور انہوں نے اپنے ایس ایس جی کمانڈو کی جیکٹ پہنی جو کسی نہ کسی طرح پوری آگئی۔
شائع 06 فروری 2023 09:55am

سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف مارشل لا لگانے کے بعد طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والے تیسرے آرمی چیف تھے۔ ان سے پہلے طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والوں میں جنرل ضیاالحق اور جنرل ایوب خان سرِفہرست رہے۔

جنرل پرویز مشرف کا طویل علالت کے بعد خود ساختہ جلاوطنی میں انتقال ہوگیا ہے۔ وہ لگ بھگ 8 برس سے پاکستان سے باہر تھے۔ سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کا ان کے پیشرو جرنیلوں سے موازنہ کیا جائے تو کئی ایسی باتیں ہیں جو ان کے سینیئر یعنی جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاالحق سے مشترک ہیں لیکن انہوں نے بہت سے نئے تجربات بھی کیے۔

سابق وزیرِاعظم نواز شریف نے جنرل جہانگیر کرامت کے مستعفی ہونے کے بعد جنرل پرویز مشرف کو 1998ء میں آرمی چیف مقرر کیا لیکن 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو برطرف کردیا۔ اس طرح جنرل پرویز مشرف چوتھے آرمی چیف بنے جنہوں نے اقتدار سنبھالا۔

  8 اکتوبر 1998ء میں اس وقت کے وزیرِاعظم نواز شریف آرمی چیف پرویز مشرف سے ملاقات کررہے ہیں— تصویر: اے ایف پی
8 اکتوبر 1998ء میں اس وقت کے وزیرِاعظم نواز شریف آرمی چیف پرویز مشرف سے ملاقات کررہے ہیں— تصویر: اے ایف پی

  جنرل مشرف فروری 1999ء میں اس وقت کے وزیرِاعظم نواز شریف کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر— تصویر: اے ایف پی
جنرل مشرف فروری 1999ء میں اس وقت کے وزیرِاعظم نواز شریف کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر— تصویر: اے ایف پی

جنرل پرویز مشرف کا اقتدار میں آنا اپنے پیشرو جرنیلوں سے کچھ مختلف تھا۔ جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاالحق نے اس وقت حکومت کا تختہ الٹا جب وہ خود ملک میں تھے لیکن جنرل پرویز مشرف جب اقتدار میں آئے تو وہ اس وقت سری لنکا کے دورے سے واپس آرہے تھے۔

جنرل پرویز مشرف نے جس دن غیر ملکی دورے سے واپس وطن آنا تھا اسی روز نواز شریف نے انہیں برطرف کرکے ان کی جگہ آئی ایس آئی کے سربراہ یعنی جنرل ضیاالدین بٹ کو نیا آرمی چیف لگایا اور یہ فیصلہ اس قدر جلدی میں تھا کہ بیجز لگانے کے لیے پنز تک نہیں تھیں اور ماچس کا استعمال کیا گیا لیکن فوج نے اس تبدیلی کو تسلیم نہیں کیا۔

سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ ’ان کا ہوائی جہاز 7 بج کر 48 منٹ پر کراچی کے ہوائی اڈے پر اترا اور اس سے چند منٹ پہلے یعنی 7 بج کر 45 منٹ تک آپریشن مکمل ہوچکا تھا‘۔

جنرل پرویز مشرف نے اپنی تقریر بھی خود اپنے ہاتھ سے لکھی اور تمام ساتھیوں سے منظوری لی۔

رات ڈھائی بجے جب جنرل پرویز مشرف کو چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے سرکاری ٹی وی پر تقریر کرنی تھی تو ان کے پاس فوجی یونیفارم نہیں تھا اور انہوں نے اپنے ایس ایس جی کمانڈو کی جیکٹ پہنی جو کسی نہ کسی طرح پوری آگئی اور اسی میں تقریر کی اور اسکرین پر صرف جیکٹ ہی نظر آئی۔

سپریم کورٹ نے جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے خلاف درخواست پر فوجی سربراہ کو 2 برس کی مہلت دی۔ یہ درخواست اس وقت کے مسلم لیگ (ن) کے رہنما ظفر علی شاہ نے دائر کی تھی۔ یہ بات بھی تاریخ کا حصہ رہے گی کہ جب نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کی جگہ نئے آرمی چیف کو مقرر کیا تو اس وقت بھی نئے آرمی چیف کے لیے آئی ایس آئی کے سربراہ کو چنا گیا اور جب جنرل پرویز مشرف نے آرمی چیف کا عہدہ چھوڑا تو ان کی جگہ آنے والے نئے آرمی چیف بھی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی تھے۔

سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے بھی ضیاالحق کی طرح پارلیمان کی منظوری کے بغیر ہی 1973ء کے آئین میں ترامیم کیں۔ جنرل ضیاالحق کی ترامیم کو پارلیمان نے 8ویں ترمیم جبکہ جنرل پرویز مشرف کی ترامیم کو 17ویں کے ذریعے آئین کا حصہ بنایا۔

جنرل پرویز مشرف نے جو ترامیم کیں ان میں صدرِ مملکت کا اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اختیار واپس لینا بھی شامل تھا جو جنرل ضیاالحق نے آئین میں متعارف کروایا تھا۔ اس ترمیم کو نواز شریف نے اپنے دوسرے دورِ اقتدار میں ختم کیا اور پیپلزپارٹی نے 18ویں ترمیم کے ذریعے جنرل مشرف کے بحال کردہ اس اختیار کو آئین سے خارج کیا۔ جنرل ضیاالحق نے اسمبلی کی تحلیل کے اختیار کو 1988ء میں استعمال کیا، لیکن جنرل پرویز مشرف نے اس ترمیم کو سرے سے استمعال ہی نہیں کیا۔

سابق صدرِ مملکت جنرل پرویز مشرف نے نیشنل سیکیورٹی کونسل کو آئین کا حصہ بنایا۔ یہ وہی کونسل تھی جسے جنرل ضیاالحق نے متعارف کروایا تھا لیکن 8ویں ترمیم میں یہ نیشنل سیکیورٹی کونسل کو جگہ نہیں ملی تھی۔

  جنرل مشرف 17 اکتوبر 1999ء کو نیشنل سیکیورٹی کونسل کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے— تصویر: رائٹرز
جنرل مشرف 17 اکتوبر 1999ء کو نیشنل سیکیورٹی کونسل کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے— تصویر: رائٹرز

جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف دونوں نے ہی آئین کی بحالی اور عام انتخابات سے پہلے ریفرنڈم کروایا۔ جنرل ضیاالحق نے دسمبر 1984ء میں اور جنرل پرویز مشرف نے جون 2001ء میں ریفرنڈم کروائے۔ اسی طرح جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے بھی اپنے پیشرو جنرل ضیاالحق کی طرح عام انتخابات سے پہلے بلدیاتی انتخابات کروائے تاہم جنرل پرویز مشرف نے بلدیاتی نظام اور انتخابات کے ڈھانچے میں تبدیلی کی۔

  جنرل مشرف 2001ء میں صدرِ مملکت کا حلف لینے کا بعد— تصویر: اے پی
جنرل مشرف 2001ء میں صدرِ مملکت کا حلف لینے کا بعد— تصویر: اے پی

سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے جنرل ایوب خان کی طرح کتاب لکھی جس کا اردو میں ترجمہ ہوا۔ جنرل ایوب خان کی کتاب بھی 2 زبانوں یعنی انگریزی اور اردو میں شائع ہوئیں۔ جنرل پرویز مشرف کی کتاب کا نام ’ان دی لائن آف فائر‘ تھا اور یہ کتاب اردو میں ’سب سے پہلے پاکستان‘ کے نام سے شائع ہوئی۔

ویسے تو جنرل ایوب خان، جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف نے اپنی سہولت کے لیے کنگ پارٹیز بنائیں لیکن جنرل ایوب خان مسلم لیگ کنونشن کے سربراہ رہے اور جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے سیاسی جماعت بھی بنائی۔ کنونشن لیگ تو اب برائے نام ہی رہ گئی ہے اور ایوب خان کے خاندان کے ارکان پہلے مسلم لیگ (ن)، پھر مسلم لیگ (ق) اور اب تحریک انصاف میں شامل ہیں۔ جنرل ضیاالحق کے بیٹوں نے مسلم لیگ (ن) سے سیاست کا آغاز کیا اور اب ان کی اپنی جماعت مسلم لیگ ضیا ہے۔

جنرل پرویز مشرف کے خلاف وکلا متحرک رہے۔ وکلا کی مزاحمت پر ایل ایف او یعنی لیگل فریم ورک آرڈر میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ واپس لیا گیا۔ ایل ایف او کے تحت ہائیکورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 62 برس سے 65 برس اور سپریم کورٹ کے ججوں کی عمر 65 سے 68 برس کی گئی تھی۔

وکلا تحریک کے دوران جہاں کئی ماضی کے نعرے تحریک کا حصہ بنے وہیں پر کچھ ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کیا گیا۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وکیل خاور محمود کھٹانہ کی تجویز پر وکلا نے اپنے موبائل فون کی رنگ ٹون ’گو مشرف گو‘ کو بنالیا۔ جنرل پرویز مشرف نے وکلا مزاحمت کے دوران فائیو اسٹار ہوٹل میں حکومتی وکلا کنونشن سے بھی خطاب کیا جہاں وہ وردی پہن کر شریک ہوئے۔

سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف 2 مرتبہ وکلا تحریک چلی۔ وکلا تحریک کا پہلا مرحلہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو عہدے سے ہٹانے اور ان کی بحالی تک رہا جبکہ دوسرا مرحلہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو برطرف کرنے پر شروع ہوا جسے ججز بحالی تحریک کا نام دیا گیا۔

وکلا اور جنرل پرویز مشرف کا خوب آمنا سامنا رہا۔ سابق فوجی صدر جب صدارتی انتخاب کے لیے میدان میں اترے تو اس وقت ان کے مقابلے میں وکلا نے جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کو مدِمقابل کے طور پر اتارا۔

سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے جنرل ضیاالحق کی طرح اعلیٰ عدلیہ کے لیے پی سی او بھی جاری کیا۔ جنرل مشرف کے دور میں 2 مرتبہ پی سی او جاری کیا گیا۔ پہلی مرتبہ جنوری 2000ء اور پھر 3 نومبر 2007ء کو پی سی او جاری کیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب جنرل مشرف نے ملک میں ایمرجنسی لگائی جسے ایمرجنسی پلس کا نام دیا گیا۔

  صدر مشرف 3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے— تصویر: اسکرین گریب الجزیرہ
صدر مشرف 3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے— تصویر: اسکرین گریب الجزیرہ

جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے بھی جنرل ضیاالحق کی طرح نگران حکومت کی تشکیل کے لیے ایک نیا تجربہ کیا۔ جنرل ضیاالحق نے جونیجو حکومت کی برطرفی کے بعد وفاقی سطح پر نگران حکومت بنائی تو کوئی نگران وزیرِاعظم مقرر نہیں کیا۔ اس کے برعکس جنرل پرویز مشرف نے نگران وزیرِاعظم کے لیے اس وقت کے چیئرمین سینیٹ محمد میاں سومرو کو چنا۔ اس طرح محمد میاں سومرو چیئرمین سینیٹ ہونے کے ساتھ ساتھ نگران وزیرِاعظم بھی تھے۔

جنرل پرویز مشرف نے 5 وزرائے اعظم کے ساتھ کام کیا۔ ان میں نواز شریف، ظفر اللہ خان جمالی، چوہدری شجاعت حسین، شوکت عزیز اور یوسف رضا گیلانی شامل ہیں۔

جنرل پرویز مشرف نے انتخابی اصلاحات متعارف کروائیں جن میں سیاستدان کے لیے گریجویٹ ہونے کی پابندی لگانا بھی شامل تھا۔ اس طرح بہت سے سینیئر سیاستدان انتخاب نہیں لڑسکے تو کسی کی اہلیہ یا بچوں نے گریجویٹ ہونے پر انتخاب لڑا۔ اس کے علاوہ کئی سیاستدانوں نے بی اے کرنے کے لیے امتحان بھی دیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ہی کسی رکن اسمبلی کے تیسری مرتبہ وزیرِاعظم بننے پر پابندی بھی لگائی تھی۔

  جنرل مشرف 25 مارچ 2008ء کو وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی سے وزارت عظمیٰ کا حلف لیتے ہوئے
جنرل مشرف 25 مارچ 2008ء کو وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی سے وزارت عظمیٰ کا حلف لیتے ہوئے

پنجاب اسمبلی نے جنرل پرویز مشرف کے بارے میں 2 قراردادیں منظور کیں۔ پہلی ان کے حق اور دوسری مخالفت میں تھی۔ مسلم لیگ (ق) نے اپنے اقتدار میں پنجاب اسمبلی میں جنرل مشرف کے حق میں قرارداد منظور کی جس میں پرویز مشرف پر زور دیا گیا کہ وہ صدرِ مملکت اور آرمی چیف دونوں عہدے اپنے پاس رکھیں۔

یہ قرارداد اس وقت منظور کی گئی جب حزبِ مخالف ان سے آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کر رہی تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب معروف قانون دان اے کے ڈوگر نے لاہور ہائیکورٹ میں آئینی درخواست دائر کی جس میں نشاندہی کی گئی کہ وردی کے ساتھ کوئی صدرِ مملکت نہیں رہ سکتا۔

اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس افتخار حسین چوہدری نے درخواست مسترد کردی اور قرار دیا کہ آئین میں یہ درج نہیں ہے کہ وردی کے ساتھ صدرِ مملکت نہیں بنا جاسکتا۔ خود جنرل پرویز مشرف نے عالمی نشریاتی اداروں کو انٹرویو میں کہا تھا کہ وردی ان کی کھال کی طرح ہے۔

دوسری قراردار پنجاب اسمبلی میں اس وقت پیش کی گئی جب 2008ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے مل کر حکومت قائم کی اور مطالبہ کیا کہ جنرل پرویز صدرِ مملکت کے عہدے پر رہنے کے لیے اپنی اکثریت ثابت کریں یا پھر مستعفی ہوجائیں۔

جنرل پرویز مشرف کے مکا لہرانے کا بھی تذکرہ رہا اور ایک تقریب میں سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خطاب میں دونوں باوز کھڑے کرکے مکے بنائے اور کہا کہ ان کے مقدمے کا فیصلہ ہونے والا ہے۔

  جنرل مشرف 5 فروری 2001ء کو مظفرآباد میں خطاب کرتے ہوئے— تصویر: اے ایف پی
جنرل مشرف 5 فروری 2001ء کو مظفرآباد میں خطاب کرتے ہوئے— تصویر: اے ایف پی

  صدر مشرف 18 اگست 2008ء کو قوم سے خطاب میں اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے— تصویر: پی آئی ڈی
صدر مشرف 18 اگست 2008ء کو قوم سے خطاب میں اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے— تصویر: پی آئی ڈی

فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے بھی ہوئے لیکن وہ اس میں محفوظ رہے۔

نواز شریف کے تیسرے دور میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل شروع ہوا اور 2019ء میں ان کی عدم موجودگی میں انہیں سزائے موت ہوئی۔ اس سزا کے خلاف جنرل پرویز مشرف نے اپیل دائر کی لیکن وہ اس بنیاد پر واپس کردی گئی کہ وہ عدالت میں پیش ہوں۔ جنرل پرویز مشرف کو دی جانے والی سزا پر کبھی عمل نہیں ہوا اور یہ حکم نامہ ہمیشہ کے لیے داخل دفتر ہوگیا۔