خیبر پختونخوا میں ہزاروں مظاہرین کا پائیدار امن کی بحالی کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 06 فروری 2023
اس موقع پر کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی—فوٹو:ڈان
اس موقع پر کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی—فوٹو:ڈان

خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں مسلسل تیسرے روز بھی ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور پشاور میں ملک سعد شہید پولیس لائنز پر ہونے والے وحشیانہ حملے اور صوبے میں عسکریت پسندی کے سر اٹھانے کی مذمت کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مہمند، مالاکنڈ، لکی مروت اور دیگر علاقوں میں اولاسی پاسون (عوامی احتجاج) کے نعرے کے تحت امن ریلیاں نکالی گئیں۔

مہمند ریلی میں شریک اہم رہنمائوں میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما منظور پشتین اور عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی جنرل سیکریٹری سردار حسین بابک شامل تھے۔

امن مارچ کرنے والوں میں زیادہ تر نوجوان تھے جنہوں نے سفید جھنڈے، پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے، مظاہرین حکومت سے عسکریت پسندی کے خاتمے اور پائیدار امن کو یقینی بنانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

اس موقع پر کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔

ریلی سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی ایم رہنما منظور پشتین نے کہا کہ عسکریت پسندی اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال نے بچوں، خواتین، بزرگ شہری اور قبائلی عمائدین سمیت معاشرے کے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پختون علاقے پر مسلط کی گئی جنگ میں ہر سیاسی جماعت کے کارکنوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک سازش کے تحت پختونوں کو تقسیم کیا گیا، انہوں نے زور دیا کہ وہ اپنی برادری کے وسیع تر مفاد میں اتحاد کا مظاہرہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ صرف قبائلی ضلع مہمند کے علاقے مومند گٹ میں کم از کم 3 درجن افراد مارے گئے ہیں۔

پی ٹی ایم رہنما نے عمائدین، رہنماؤں اور علمائے کرام پر زور دیا کہ وہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے آواز اٹھانے میں اتحاد کا مظاہرہ کریں۔

اس موقع پر اے این پی کے رہنما سردار حسین بابک نے کہا کہ قبائلیوں کے بچوں کو اپنے علاقے میں امن و امان فراہم کرنے اور اپنے وسائل پر اختیار دینے کی ضرورت ہے۔

سردار حسین بابک نے کہا کہ ہم اس خطے کو اپنا سمجھتے ہیں اور اسے ماں کی طرح اہمیت دیتے ہیں، انہوں نے علمائے کرام سے مطالبہ کیا کہ وہ جاری دہشت گردی اور بے گناہوں کے قتل کے خلاف فتویٰ دیں، انہوں نے کہا کہ ہمارے وسائل کو لوٹا جا رہا ہے اور ہمارے بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانے اور اس کے ساتھ فوجی چوکیاں قائم کرنے کے بعد عسکریت پسند پاکستان میں کیسے داخل ہوئے اور پشاور پہنچے۔

لکی مروت میں بھی علاقہ مکینوں نے امن ریلی نکالی۔

ریلی شہید عابد علی چوک سے نکالی گئی جو لکی مروت شہر کے مین بس اسٹینڈ پر قاضی اشفاق چوک پر پہنچی۔

شرکا نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر امن اور ہم آہنگی کے قیام کے مطالبات درج تھے۔

اس موقع پر پی ٹی آئی کے ڈاکٹر محمد اقبال، انجینئر احسان، ملک وقار، انعام خداداد خیل اور شاہد تاجوریوال نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ضلع کے رہائشی امن پسند ہیں اور وہ اپنے علاقے میں پائیدار امن چاہتے ہیں۔

ان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ علاقے کے لوگ کسی کو امن تباہ کرنے اور ریاست مخالف سرگرمیوں کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ امن و امان کی خراب صورتحال کے ساتھ مقامی لوگوں کو گیس اور بجلی کی طویل بندش کا سامنا کرنا پڑتا ہے، موبائل اور انٹرنیٹ سروسز کی معطلی نے ان کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب کو گیس کی فراہمی کے لیے پائپ لائن بچھائی جا رہی ہیں لیکن مقامی لوگوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

مقررین نے عمائدین اور عوامی نمائندوں پر زور دیا کہ وہ ’اپنی خاموشی توڑیں‘ اور لاقانونیت کے خاتمے اور لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کردار ادا کریں۔

مالاکنڈ میں سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے کارکنان بٹ خیلہ میں سڑکوں پر نکلے اور اپنی سرزمین پر پائیدار امن کے قیام کا مطالبہ کیا۔

شرکا نے سفید جھنڈے، بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، مظاہرین نے ظفر پارک سے اولڈ بس اسٹینڈ تک مارچ کیا اور امن کی بحالی کے نعرے لگائے۔

اس موقع پر جماعت اسلامی کے سابق صوبائی وزیر شاہ راز خان، سابق ایم این اے بختیار مانی، اے این پی کے ضلعی صدر اعجاز خان، سابق صوبائی وزیر شکیل خان، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا عمران ہلالی، مولانا جاوید، مسلم لیگ (ن) کے سٹی صدر علی محمد اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔

ریلی میں آل چیئرمین اور کونسلر اتحاد کے صدر پیر عظمت شاہ، پاکستان پیپلز پارٹی کے مسلم خان، سکندر حیات، ظفر علی خان اور تاجر یونین کے صدر زوار خان نے بھی شرکت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی زمین پر مزید تشدد برداشت نہیں کر سکتے، ان کا کہنا تھا کہ ریاستی ادارے امن کے ضامن ہیں، اس لیے انہیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہیے اور عوام کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں