اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کیلئے سعودی عرب کا جوہری پروگرام کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 11 مارچ 2023
گزشتہ سال کے دوران سعودی عرب کا بائیڈن انتظامیہ سے سویلین جوہری پروگرام کا مطالبہ پیش پیش رہا ہے— فائل فوٹو: رائٹرز
گزشتہ سال کے دوران سعودی عرب کا بائیڈن انتظامیہ سے سویلین جوہری پروگرام کا مطالبہ پیش پیش رہا ہے— فائل فوٹو: رائٹرز

سعودی عرب نے اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے بدلے امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ سے دفاعی ضمانت مانگنے کے ساتھ ساتھ سویلین جوہری پروگرام بنانے کی خواہش بھی ظاہر کردی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی ادارے نیویارک ٹائمز نے اپٌنی رپورٹ میں بتایا کہ اگر یہ معاہدہ ہو جاتا ہے تو جزیرہ نما عرب میں بہت بڑی پیش رفت ہو گی اور اس سے ایران کے خلاف اسرائیل کی سیکیورٹی میں اضافے کی وزیراعظم نیتن یاہو کی دیرینہ خواہش بھی پوری ہوجائےگی۔

گزشتہ سال العریبیہ کو انٹرویو دیتے ہوئے نیتن یاہو نے کہا تھا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع کے حل کا سبب بنے گا۔

رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں سعودی سفیر شہزادی ریما بنت بندر السعود نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے جبکہ امریکی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے بریٹ میک گرک اور اموس ہوشتن نے مذاکرات کی قیادت کی۔

سعودی عہدیداروں نے اس سے قبل کہا تھا کہ جب تک فلسطینی ریاست نہیں بن جاتی اس وقت تک وہ اسرائیل سے باضابطہ تعلقات بحال نہیں کریں گے البتہ کچھ اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ سمجھوتہ کرنے کے خواہش مند ہیں۔

وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق ایک سفارتکار نے بتایا کہ گزشتہ سال کے دوران سعودی عرب کا بائیڈن انتظامیہ سے سویلین جوہری پروگرام کا مطالبہ پیش پیش رہا ہے البتہ یہ معاہدہ ابھی کافی دور ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے اسرائیل کے تعلقات بحالی کے معاہدے پر دستخط کیے تھے جسے ابراہام معاہدے کا نام دیا گیا تھا۔

اسرائیل کے سابق ایلچی مارٹن انڈیک نے کہا کہ سویلین نیوکلیئر پروگرام کے لیے سعودی عرب کی درخواست امریکا کے لیے باعث تشویش ہے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اس سے جوہری ہتھیاروں کا بڑے پیمانے پر پھیلاؤ ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس معاہدے سے امریکا اور اسرائیل دونوں کو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن کانگریس اس کی مزاحمت کر سکتی ہے۔

مارٹن انڈیک نے کہا کہ سیکیورٹی معاہدے کی شرائط کا تعین ہونا ابھی باقی ہے لیکن توقع ہے کہ وہ باہمی دفاعی ضمانت سے محروم ہو جائیں گے۔

اس تجویز پر امریکا اور مشرق وسطیٰ کے حکام اور ماہرین کی جانب سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے، کچھ لوگ صدر جو بائیڈن اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان کشیدہ تعلقات کی وجہ سے اس کے امکان پر سوال اٹھا رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس مجوزہ ڈیل سے علاقائی اتحاد مضبوط ہوں گے لیکن مسئلہ فلسطین کی اہمیت میں بھی کمی آئے گی۔

سعودی رائے عامہ اس تجویز کی کامیابی میں رکاوٹ بن سکتی ہے، کیونکہ 76 فیصد سعودی ابرہام معاہدے کے بارے میں منفی خیالات رکھتے ہیں تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سعودی رہنما مشترکہ انٹیلی جنس اور اسپائی ویئر کے لیے اسرائیل کے ساتھ غیر سرکاری تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں