دنیا کے متعدد ممالک کی طرح امریکی ریاستوں کی حکومتیں بھی خواتین کے جسم کے نچلے حصے کے طبی معائنے کو قانونی بنانے کے لیے متحرک ہوگئی ہیں اور امکان ہے کہ جلد ہی مزید ریاستوں میں اسے قانونی قرار دے دیا جائے گا۔

خواتین کے جسم کے نچلے حصے کے ٹیسٹ کو طبی زبان میں (pelvic exam) کہا جاتا ہے اور یہ امریکا کی 50 میں سے 20 ریاستوں میں جزوی طور پر قانونی ہے۔

تاہم اب موجودہ وقت میں خواتین میں بیماریاں یا طبی پیچیدگیاں بڑھنے کے بعد ریاستی حکومتیں چاہتی ہیں کہ وہاں کے طلبہ مذکورہ میدان میں بھی مہارت حاصل کریں۔

عام طور پر (pelvic exam) یا خواتین کے جسم کے نچلے دھڑ کا معائنہ زچگی کروانے والے ڈاکٹرز کرتے ہیں، تاہم وہ بھی محدود پیمانے پر معائنہ کرتے ہیں، کیوں کہ مذکورہ عمل کو شرمندگی کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ایسا ٹیسٹ کرنے سے قبل مریضوں کی رضامندی نہیں لی جاتی۔

لیکن اب امریکا کی متعدد ریاستیں (pelvic exam) کو قانونی بنانے اور ہر عورت کو ہسپتال میں جاتے وقت ایسے معائنےکی رضامندی پر دستخط کرنے کا قانون بنانے میں مصروف ہیں تاکہ میڈیکل کے طلبہ اور ڈاکٹرز کسی پریشانی کے بغیر ایسے معائنے کو سر انجام دے سکیں۔

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ (اے پی) کے مطابق خواتین کے نچلے دھڑ کے معائنے کے قانون پر ریاست مونٹانا کے گورنر نے گزشتہ ماہ اپریل میں دسخط کیے تھے، جس کے بعد اب مزید ریاستیں بھی ایسے قوانین بنانے میں مصروف ہیں۔

امید ہے کہ جلد ہی میسوری، اوہائیو اور کولاراڈو سمیت دیگر ریاستیں بھی جلد ہی ایسے قوانین منظور کریں گی۔

مذکورہ قوانین کے تحت ہسپتال میں آنے والی تمام خواتین کا ضرورت پڑنے پر بے ہوشی کے دوران (pelvic exam) معائنہ کیا جائے گا اور انہیں مذکورہ ٹیسٹ سے قبل تحریری طور پر بتایا جائے گا اور ان کی رضامندی کے لیے ان کے دستخط لیے جائیں گے۔

مذکورہ عمل بلکل ایسے ہی ہوگا جیسے اب ہسپتال میں داخلے کے وقت مریض یا اس کے ورثا ہسپتال کو تحریری طور پر لکھ کر دیتے ہیں کہ انہیں اپنے مریض کی پیچیدگیوں کا علم ہے اور وہ علاج میں رکاوٹ نہیں بنیں گے، ہسپتال عملے کو ہر طرح کے علاج کرنے کی اجازت ہے۔

مذکورہ قوانین کے منظور بن جانے کے بعد نہ صرف ڈاکٹرز بلکہ میڈیکل کے طالب علم بھی سیکھنے کی غرض سے خواتین کے جسم کے نچلے حصے کا معائنہ کر سکیں گے۔

جسم کے نچلے حصے کا معائنہ خواتین کی اندام نہانی، بیضہ یا بچہ دانی سے لے کر آنت تک ہوگا، تاہم ضرورت پڑنے پر ڈاکٹر یا طلبہ ٹیسٹ کا دائرہ بڑھا بھی سکیں گے۔

اس وقت امریکا کی کئی ریاستوں میں مذکورہ ٹیسٹ کا کوئی قانون موجود نہیں، اس لیے وہاں کے ڈاکٹرز مریضوں کو بتائے بغیر رازداری سے بے ہوشی کی حالت میں ان کا مختصر معائنہ کرتے ہیں، جس میں انہیں ڈر اور خوف کا سامنا بھی رہتا ہے کہ مریض یا اس کے ورثا کو علم ہونے پر ان کے خلاف کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔

امریکا کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی ایسے ٹیسٹس کو قانونی حیثیت حاصل نہیں جب کہ پاکستان جیسے اسلامی ممالک میں تو ایسے معائنوں کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔

نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے دیگر ممالک جن میں بھارت، نیپال، بنگلہ دیش، افغانستان، چین اور سری لنکا جیسے ممالک شامل ہیں، وہاں بھی ایسے معائنےکو معیوب سمجھا جاتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں