• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:31pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:32pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:31pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:32pm

پہلی ڈیجیٹل مردم شماری بھی متنازع، سیاسی جماعتوں کو کیا تحفظات ہیں؟

تاحال حالیہ مردم شماری کے حتمی نتائج سامنے نہیں آئے لیکن مختلف اسٹیک ہولڈرز اور ماہرین اس کے طریقہ کار اور ممکنہ نتائج پر شکوک و شبہات کا اظہار کر چکے ہیں۔
شائع June 5, 2023

1947ء میں آزادی حاصل کرنے کے بعد دنیا کے کئی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ہر 10 سال بعد مردم شماری کروانے کا عزم کیا گیا تھا، سب سے پہلی مردم شماری آزادی کے 4 سال بعد 1951ء میں ہوئی تھی، 1951ء سے 1981ء تک پہلی 4 مردم شماریاں اپنے وقت پر ہو ئیں مگر پانچویں (1998ء) اور چھٹی (2017) مردم شماری تاخیر کا شکار ہوئی۔

مردم شماری صرف آبادی کی گنتی کا نام نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے مسائل کا تخمینہ اور وسائل کی تقسیم کا فیصلہ کیا جاتا ہے، آبادی کے تناسب سے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) کے ذریعے صوبوں کو فنڈز مہیا کرنا اور سرکاری ملازتوں میں کوٹے بھی مردم شماری کی بنیاد پر مختص کیے جاتے ہیں۔ اسمبلی میں نشستیں اور حلقہ بندی کا عمل بھی مردم شماری سے نتھی ہے، تاہم پاکستان میں مردم شماری ہمیشہ سے ایک انتہائی متنازع امر رہا ہے اور ہر مردم شماری کے نتائج سیاست کی نذر ہوجاتے ہیں، 2017 کی مردم شماری کے نتائج بھی بری طرح تنازعات کا شکار ہوگئے تھے جس کے سبب دوبارہ مردم شماری کروانے کا فیصلہ کیا گیا، اس فیصلے پر رواں برس عمل درآمد ہوا۔

مردم شماری 2017ء

ملک میں 1998 میں ہونے والی پانچویں مردم شماری کے 19 برس بعد 2017ء میں چھٹی مردم شماری ہوئی جوکہ 2 مراحل میں مکمل ہوئی تھی، پہلے مرحلے کا آغاز 15 مارچ 2017 کو ہوا اور یہ 14 اپریل 2017ء کو اختتام پذیر ہوا، دوسرا مرحلہ 10 روز کے وقفے کے بعد 25 اپریل کو شروع ہوا اور 24 مئی 2017ء کو ختم ہوا۔

2017ء مردم شماری کے لیے ادارہ شماریات نے مجموعی طور پر 16 لاکھ 8 ہزار 943 بلاکس بنائے تھے۔ ہر بلاک اوسطاً 200 سے 250 مکانوں پر مشتمل تھا، اِس مردم شماری کے حتمی نتائج مئی 2021ء میں جاری کیے گئے تھے جس کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی 20 کروڑ 76 لاکھ 84 ہزار 626 تھی اور سالانہ شرح نمو 2.40 فیصد رہی۔

پنجاب کی آبادی 10 کروڑ 99 لاکھ 90 ہزار، سندھ کی آبادی 4 کروڑ 78 لاکھ 50 ہزار، خیبر پختونخوا کی آبادی 3 کروڑ 5 لاکھ 10 ہزار، فاٹا کی آبادی 49 لاکھ 90 ہزار، بلوچستان کی آبادی تقریباً ایک کروڑ 23 لاکھ 40 ہزار جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی آبادی 20 لاکھ بتائی گئی۔ بڑے شہروں کی بات کریں تو 2017ء کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی 1 کروڑ 60 لاکھ 24 ہزار جبکہ لاہور کی آبادی ایک کروڑ 11 لاکھ 26 ہزار تھی۔

نتائج کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی کا 63.56 فیصد دیہی جبکہ 36.44 فیصد شہری آبادی پر مشتمل تھا، مذاہب کی بنیاد پر آبادی کی کل تعداد میں 96.47 فیصد مسلمان، 1.27 فیصد عیسائی، 1.73 فیصد ہندو، 0.09 فیصد احمدی، 0.41 فیصد شیڈول ذات اور 0.02 فیصد دیگر شامل تھے۔

  2017ء کی مردم شماری کے بعد ملک کی آبادی 20 کروڑ 76 لاکھ 84 ہزار 626 تھی
2017ء کی مردم شماری کے بعد ملک کی آبادی 20 کروڑ 76 لاکھ 84 ہزار 626 تھی

ڈیجیٹل مردم شماری 2023ء

حالیہ مردم شماری کی خاص بات یہ ہے کہ یہ پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری ہے جو اس وقت اپنے اختتامی مراحل میں ہے، اس کا مقصد 2017ء کی مردم شماری سے جڑے تنازعات کا خاتمہ اور شفاف طریقے سے آبادی کو شمار کرنا تھا جس کے نتائج پر تمام اسٹیک ہولڈرز کو اتفاق ہو۔

ڈیجیٹل مردم شماری کے تحت خودشماری کا آغاز رواں برس 20 فروری سے ہی ہوگیا تھا جس میں شہریوں کو گھر بیٹھے ویب پورٹل کے ذریعے اپنی اور اپنے گھرانے کی معلومات کے خود آن لائن اندراج کی سہولت دی گئی تھی، بعدازاں مردم شماری کا فیلڈ آپریشن یکم مارچ سے شروع کیا گیا تھا جسے ابتدائی طور پر 4 اپریل کو مکمل ہونا تھا تاہم اس کی آخری تاریخ میں 5 بار توسیع کے بعد بالآخر 15 مئی کو اس کا فیلڈ آپریشن ختم ہوگیا۔

تاحال حالیہ مردم شماری کے حتمی نتائج سامنے نہیں آئے لیکن مختلف سیاسی جماعتیں، سماجی گروہ اور ماہرین اس کے طریقہ کار اور ممکنہ نتائج پر شدید شکوک و شبہات کا اظہار کر چکے ہیں، خصوصاً پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی اہم اسٹیک ہولڈر سمجھی جانے والی جماعتیں ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی اس بار بھی مردم شماری پر شدید تحفظات ظاہر کرچکی ہیں جبکہ سندھ کی قوم پرست جماعتیں بھی اپنی شناخت کو درپیش خطرات کا اظہار کررہی ہیں، حتیٰ کہ پیپلزپارٹی نے بھی حالیہ مردم شماری پر اعتراضات اٹھا دیے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 22 مئی کو چیف مردم شماری کمشنر اور پاکستان ادارہ شماریات کے چیف اسٹیٹسٹیشن نعیم ظفر نے پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ پاکستان کی کل آبادی اب 24 کروڑ 95 لاکھ 66 ہزار 743 تک پہنچ چکی ہے۔

صوبے کے لحاظ سے آبادی کے اعداد و شمار بتاتے ہوئے ہوئے نعیم ظفر نے کہا تھا کہ پنجاب اب بھی سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے جس کی آبادی 12 کروڑ 74 لاکھ 74 ہزار سے زیادہ ہے جبکہ سندھ کی آبادی5 کروڑ 79 لاکھ 31 ہزار ہے، اسی طرح خیبرپختونخوا کی آبادی 3 کروڑ 98 لاکھ 23 ہزار ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کی آبادی 2 کروڑ 19 لاکھ 77 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ دریں اثنا وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی آبادی تقریباً 23 لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔

مردم شماری کمشنر نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ پاکستان کی آبادی میں پچھلی مردم شماری کے بعد سے 4.9 کروڑ کا نمایاں اضافہ ہوا ہے جو کہ خاطر خواہ شرح نمو کی نشاندہی کرتا ہے۔

پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے انعقاد کی لاگت کے بارے میں کمشنر نے انکشاف کیا کہ اس کے لیے قومی خزانے سے 34 ارب روپے خرچ ہوئے ہیں۔

ایم کیو ایم کا کیا مؤقف ہے؟

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) نے ڈیجیٹل مردم شماری پر سخت اعتراض اٹھایا ہے، اُن کے مطابق سندھ کے مختلف شہروں اور خصوصاً کراچی کی آبادی کو درست طور پر نہیں گنا گیا۔

رہنما ایم کیو ایم ڈاکٹر فاروق ستار نے ڈان سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ ’2017ء کی مردم شماری 17 سال بعد ہوئی تھی جس میں کراچی کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی، اس وقت بھی ہمارے اعتراضات کی نوعیت یہی تھی کہ کراچی کی آبادی کو ٹھیک گِنا نہیں گیا، موجودہ مردم شماری 5 سال بعد ہوئی جس کا کریڈٹ ایم کیو ایم کو جاتا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’کراچی کی آبادی صحیح نہ گنے جانے کے پیچھے سیاسی محرکات ہیں جس کی پیپلزپارٹی براہ راست ذمہ دار ہے، یہ نہیں چاہتے کے کراچی کی آبادی بڑھ جائے اور اگلا وزیراعلیٰ کراچی سے آجائے، غیراعلانیہ طور پر (unofficially) پیپلزپارٹی بھی تسلیم کرتی ہے کہ کراچی کی آبادی 3 کروڑ سے زائد ہے، سابق صدر مملکت آصف زرادری پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر کہہ چکے ہیں کہ کراچی کی آبادی 3 کروڑ ہے‘۔

ایم کیو ایم رہنما فاروق ستار
ایم کیو ایم رہنما فاروق ستار

انہوں نے کہا کہ ’کراچی کی آبادی کو ہرممکن حد تک کم گننے اور دیہی سندھ کی آبادی کو زیادہ گننے کی پالیسی کے نتیجے میں کراچی میں جہاں 25 ہزار بلاکس بننے چاہئیں تھے وہاں 16 ہزار بلاک بنائے گئے، سازش کے تحت ان 16 ہزار بلاکس میں بھی گڑبڑ کر کے محض ڈیڑھ دو کروڑ آبادی ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہزاروں کچی آبادیوں اور سوسائیٹیز کو نہیں گنا گیا، کراچی میں ہر بلاک میں آبادی کی اوسط تعداد 1100 سے 1200گنی گئی جبکہ پورے سندھ میں ہر بلاک میں اوسط آبادی 1500، 2000 یا 3000 ہزار گنی گئی‘۔

ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ’جیکب آباد کی آبادی 5 برس میں 50 فیصد بڑھ گئی، لاڑکانہ کی آبادی 35 فیصد بڑھ گئی اور کشمور کی 40 فیصد بڑھ گئی لیکن کراچی کی آبادی 5 برس میں محض 15 فیصد بڑھی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’نادرا نے 2013ء میں کہا تھا کہ کراچی کی آبادی 2 کروڑ 14 لاکھ ہے، اب بھی نادرا نے جو ڈیٹا دیا ہے اس کے مطابق صرف کراچی میں رجسٹرڈ لوگوں کی آبادی ایک کروڑ 90 لاکھ ہے، اس کا مطلب دیگر شہروں سے یہاں آکر رہنے والوں کی تعداد 50، 60 لاکھ تو ہوگی، اس لحاظ سے کراچی کی آبادی کم از کم ڈھائی کروڑ سے تو اوپر ہوگی۔ اسی طرح کے الیکٹرک کے کنزیومرز کی تعداد 40 لاکھ ہے، 40 لاکھ کو 5.8 سے ضرب دیں تو بات 2 کروڑ سے بہت اوپر جاتی ہے، حالیہ مردم شماری میں ہماری کوششوں کی ہی بدولت بار بار توسیع کے بعد کراچی کی آبادی ایک کروڑ 91 لاکھ تک گنی گئی ہے‘۔

  ایم کیو ایم نے ڈیجیٹل مردم شماری پر سخت اعتراض اٹھایا ہے
ایم کیو ایم نے ڈیجیٹل مردم شماری پر سخت اعتراض اٹھایا ہے

کراچی کی آبادی کم گنے جانے کا ذمہ دار پیپلزپارٹی کو ٹھہرانے کے باجود پیپلزپارٹی کے ساتھ پی ڈی ایم اتحاد میں شامل رہنے سے متعلق سوال پر ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ’پیپلزپارٹی کے ساتھ ہمارا ’Love-Hate ریلیشن شپ‘ ہے، اس میں 90 فیصد Hate ہے اور 10 فیصد Love ہے اور اس 10 فیصد میں بھی ہمیں کچھ نہیں ملا، پی ٹی آئی چھوڑنے کا ہمیں اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا پیپلزپارٹی سے معاہدہ کرنے کا ہوا، میں اُس وقت ایم کیو ایم کا حصہ نہیں تھا لیکن میں نے یہ کہا تھا، پی ڈی ایم کے ساتھ جانے میں بھی نقصان ہی ہوا، بہرحال ہم نے جو دباؤ رکھا اسی کی بدولت حالیہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ 43 لاکھ سے 48 لاکھ بڑھ کر ایک کروڑ 91 لاکھ ہوگئی، یعنی ہمارا حکومت کے ساتھ رہنے کا فائدہ ہی ہوا‘۔

جماعت اسلامی کیا کہتی ہے؟

جماعت اسلامی نے 2017ء کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی کے حوالے سے اعتراضات اٹھائے تو اب حالیہ مردم شماری پر بھی جماعت اسلامی نے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے نائب امیر جماعت اسلامی کراچی اسامہ رضی نے کہا کہ ’2017ء کی مردم شماری پر بھی ہمارے تحفظات کی نوعیت یہی تھی، اس میں کئی ایسے لوگوں کو شناختی کارڈ پر درج مستقل پتے کے مطابق شمار کرلیا گیا تھا جو 40، 40 برس سے یہاں آباد ہیں، کراچی میں تو آدھی سے زیادہ آبادی ایسی ہے جن کا مستقل پتا کسی اور شہر کا ہے‘۔

حالیہ ڈیجیٹل مردم شماری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اس مردم شماری پر 30 ارب سے زائد روپے خرچ کردیے گئے لیکن اصل معاملہ تو انتظامی مسائل کا ہے، مردم شماری ڈیجیٹل ہو یا مینوئل لیکن اس کا طریقہ کار منصفانہ ہونا چاہیے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’کراچی میں کئی کئی فلیٹوں پر مشتمل بلند و بالا عمارتوں کے پراجیکٹس ہیں، اگر ان کی بالائی منزلوں پر موجود فلیٹوں میں رہائش پذیر افراد کو شمار ہی نہ کیا جائے تو یہ مردم شماری نہیں فراڈ عمل ہے جسے کہیں اور سے بیٹھ کر کنٹرول کیا جارہا ہے‘۔

  اسامہ رضی کے مطابق اگر بالائی منزلوں کے فلیٹوں کو شمار نہ کیا جائے تو یہ فراڈ عمل ہے— فائل
اسامہ رضی کے مطابق اگر بالائی منزلوں کے فلیٹوں کو شمار نہ کیا جائے تو یہ فراڈ عمل ہے— فائل

انہوں نے کہا کہ ’سندھ میں تمام تر انتظامی مشینری پیپلزپارٹی کے پاس ہے، انہوں نے رشوت لے کر ہر جگہ پارٹی ورکرز کو بھرتی کیا ہوا جن سے اپنی مرضی کے کام لیتے ہیں، اسی طرح سندھ کی مردم شماری کی پوری انتظامی مشینری بھی حکومت سندھ کی گرفت میں ہے جو اس عمل کو 3 اور ایک کے تناسب سے مینیج کرنے کی کوشش کررہی ہے، مثلاً یہ لاڑکانہ کی آبادی 81 لاکھ 88 ہزار اور کراچی کی آبادی ایک کروڑ 88 لاکھ بتارہے ہیں یعنی کراچی کی آبادی لاڑکانہ سے محض 50 فیصد زیادہ ہے حالانکہ کراچی جتنا بڑا شہر ہے اس میں 10 لاڑکانہ آسکتے ہیں، لہذا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی مرضی کے اعدادوشمار فراہم کیے جارہے ہیں تاکہ سندھ اسمبلی میں جاگیردار اور وڈیرہ شاہی طبقے کا تناسب بڑھ جائے اور شہری آبادی میں موجود ’پیپلزپارٹی مخالف ووٹ بینک‘ ایک تہائی سے بھی کم ہوجائے‘۔

جماعت اسلامی کے رہنما اسامہ رضی
جماعت اسلامی کے رہنما اسامہ رضی

مردم شماری میں ہر توسیع کے ساتھ کراچی کی آبادی میں اضافے اور مزید توسیع سے انکار کے بعد جماعت اسلامی کے آئندہ لائحہ عمل سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’یہ بادشاہ لوگ ہیں، یہ اپنی مرضی سے کراچی کی آبادی سوا لاکھ بھی بتادیں تو ہم ان کا کیا کرسکتے ہیں، اس حوالے سے ہماری سیاسی جدوجہد اور عوام کو بیدار کرنے کا عمل جاری ہے، لوگ ہمارا پیغام سمجھ رہے ہیں اور پورے شہر میں ہر قومیت اور زبان بولنے والا شخص اس مردم شماری کے خلاف ایک پیج پر ہے‘۔

امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کی جانب سے کراچی کی آبادی 3 کروڑ سے زائد ہونے کے دعوے سے متعلق سوال کے جواب میں اسامہ رضی نے کہا کہ ’یہ دعویٰ صرف جماعت اسلامی کا نہیں بلکہ تمام ماہرین اور اداروں کا بھی یہی کہنا ہے، صرف 3 کروڑ نہیں کراچی کی آبادی ساڑھے 3 کروڑ سے زیادہ ہے، اس حوالے سے اقوام متحدہ کے مردم شماری کے معیارات کا جائزہ لے لیں، 2017ء سے پہلے ہونے والی مردم شماریوں کا جائزہ لیں کہ آبادی میں کس تناسب کے ساتھ اضافہ ہونا چاہیے، ہر سال آبادی میں ایک مخصوص تناسب میں لازمی اضافہ ہوتا ہے جوکہ ایک انٹریشنل اسٹینڈرڈ ہے۔

ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کی جانب سے مشترکہ پلیٹ فارم کے ذریعے کراچی کی درست مردم شماری کے لیے آواز اٹھائے جانے کے امکان سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’ہر پارٹی جو اس مؤقف سے اتفاق رکھتی ہے اس کو آواز اٹھانا چاہیے لیکن ایم کیو ایم کے حوالے سے ہمارے شدید تحفظات ہیں کیونکہ ایم کیو ایم کے پاس 30 برس سے زائد عرصے تک اس شہر کی نمائندگی رہی ہے اور اسی نمائندگی کے ذریعے حکمران طبقہ کراچی میں ظالمانہ انتظام اور سوداگری کرتا آیا ہے، ایم کیو ایم صرف گورنری اور 2، 3 وزارتوں کے عوض کراچی کے بنیادی حقوق پر سمجھوتہ کرلیتی ہے، اسی وجہ سے کراچی تباہ و برباد ہوکر کھنڈر بن گیا ہے جس میں ایم کیو ایم جونیئر پارٹنر ہے، اب بھی انہوں نے ایک جانب شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ دیا اور دوسری جانب یہ کہہ رہے ہیں کہ مردم شماری صحیح نہیں ہوئی ہے، اسی لیے ہمارے ایم کیو ایم سے تحفظات ہیں لیکن اگر وہ اپنے پلیٹ فارم سے اس حوالے سے آواز اٹھاتے ہیں تو ہم اسے اچھی نظر سے دیکھتے ہیں‘۔

قوم پرست جماعتیں کیا کہتی ہیں؟

مردم شماری کے حوالے سے سندھ کی قوم پرست جماعتوں میں بھی تشویش پائی جاتی ہے اور یہ جماعتیں اسے استحصال قرار دیتی ہیں۔

اس بارے میں جب ہم نے قومی عوامی تحریک کے سربراہ اور ماہرِ قانون ایاز لطیف پلیجو سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ’گزشتہ مردم شماری کے بعد 10 سال بعد نئی مردم شماری کروائی جانی تھی لیکن اس بار ایک سازش کے تحت 5 سال بعد مردم شماری کروائی جا رہی ہے، وقت سے پہلے مردم شماری کے انعقاد کا مقصد سندھ میں غیر قانونی تارکین کو آباد کرنا ہے‘۔

ایاز لطیف نے کہا کہ ’وفاقی ادارہ شماریات اب ایک خود مختار ادارہ نہیں رہا اور اس پر بہت زیادہ دباؤ ہے، غیر قانونی تارکین وطن کو آبادی میں شمار کرکے صوبے کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی سازش رچی گئی ہے‘۔

ایاز لطیف پلیجو نے کہا کہ ’صوبے میں سیلاب کے بعد کی صورتحال لوگوں کی درست گنتی کو یقینی نہیں بنائے گی، سیلاب کی وجہ سے 2 کروڑ لوگ اپنے علاقوں سے بے گھر ہو چکے تھے، ایسے بے گھر ہونے والوں کا شمار کیسے کیا جائے گا، مردم شماری کے انعقاد کا ایک مقصد مقننہ میں مخصوص گروہوں کی نشستوں کو بڑھانا تھا اور اس عمل سے صوبے کے باشندے اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے‘۔

ایاز لطیف پلیجو
ایاز لطیف پلیجو

انہوں نے کہا کہ ’سیلاب متاثرین کی بحالی اور غیر قانونی تارکین وطن کی بے دخلی تک مردم شماری نہیں ہونی چاہیے، ضلع اور ٹاؤن، ریونیو ذرائع، محققین اور مقامی میڈیا کی تفصیلات کے مطابق سندھ کی کل آبادی 7 کروڑ 60 لاکھ کے لگ بھگ ہے جس میں سے ایک کروڑ 40 لاکھ افراد کراچی ڈویژن اور 6 کروڑ 20 لاکھ سندھ کے بقیہ 5 ڈویژن سے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اس حوالے سے میں نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کو خط بھی لکھے ہیں جن میں انہیں کہا ہے کہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ اس حقیقت کے باوجود کہ بین الاقوامی اصولوں اور آئین کے مطابق ہر 10 سال بعد ایک نئی مردم شماری کی ضرورت ہوتی ہے، کچھ گروہوں کے زیر اثر صرف 5 سال بعد دوسری مردم شماری کروائی جارہی ہے، آپ جانتے ہوں گے کہ سندھ کے لوگ مردم شماری پر پریشان ہیں اور اگر سندھ کے ساتھ ناانصافی ہوئی تو خاموش نہیں رہیں گے اور اس حوالے سے قومی عوامی تحریک اور سندھ کی دیگر سیاسی جماعتیں جنوری 2023ء سے خبردار کر رہی ہیں کہ اگر ان کے تحفظات دور نہ کیے گئے تو وہ نتائج کو مسترد کر دیں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’تازہ ترین رپورٹس اور اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دیہی سندھ کی آبادی کو ایک خاص منصوبے کے تحت کم دکھایا گیا ہے اور مردم شماری کی تاریخ میں توسیع کے لیے 6 شہری اضلاع کا انتخاب امتیازی ہے اور یہ پالیسی سازوں کے دیہی سندھ کے حوالے تعصب کی عکاسی کرتا ہے‘۔

  یاز لطیف نے کہا کہ ’وفاقی ادارہ شماریات اب ایک خود مختار ادارہ نہیں رہا‘
یاز لطیف نے کہا کہ ’وفاقی ادارہ شماریات اب ایک خود مختار ادارہ نہیں رہا‘

ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی سے بات کرتے ہوئے عوامی تحریک کے صدر لال جروار نے کہا کہ ’وفاقی حکومت وقت سے پہلے غیر قانونی اور غیر آئینی ڈیجیٹل مردم شماری میں شناختی کارڈ کی شرط ختم کرکے سندھ میں مقیم لاکھوں افغانیوں، برمیوں اور دیگر غیر ملکیوں کو شمار کرکے سندھی قوم کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے‘۔

لال جروار نے کہا کہ ’ڈیجیٹل مردم شماری کا اعلان اس وقت کیا گیا جب سندھ کے بیشتر اضلاع بشمول خیرپور، نوشہروز فیروز، نواب شاہ، دادو، لاڑکانہ، قمبر شہداد کوٹ، سانگھڑ، میرپورخاص اور دیگر اضلاع سیلاب میں مکمل طور پر ڈوبے ہوئے تھے، لاکھوں لوگ جانیں بچانے کے لیے وہاں سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور لاکھوں گھر تباہ ہوگئے جبکہ دوسری طرف گھوٹکی شکارپور، کشمور، کندھ کوٹ، جیکب آباد جیسے علاقے فسادات، لاقانونیت، قبائلی دہشت گردی کا شکار ہیں جہاں ڈاکوؤں کے ہاتھوں روزانہ لوگوں کے اغوا برائے تاوان کی وجہ سے یہ اضلاع نوگو ایریا میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ ان اضلاع میں مردم شماری کے عملے کی کمی کے باعث لاکھوں افراد ایسے ہیں جن کی گنتی نہیں ہو سکی۔

لال جروار
لال جروار

انہوں نے کہا کہ ’عوامی تحریک سمیت سندھی عوام پہلے ہی ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کی درخواست پر ہونے والی جعلی ڈیجیٹل مردم شماری کو مسترد کرچکے ہیں، عوامی تحریک کا یہ واضح موقف رہا ہے کہ قبل از وقت ڈیجیٹل مردم شماری میں لاکھوں افغانوں اور دیگر غیر ملکیوں کی گنتی کرکے، 5 ہزار سال پرانی تاریخی قوم کی نسل کشی، سندھی قوم کے وجود اور وسائل پر حملہ اور سندھ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ ہے۔

لال جروار نے کہا کہ’عوامی تحریک کا واضح مؤقف ہے کہ پہلے لاکھوں غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جائے، سندھ میں بڑھتی ہوئی بدامنی، لاقانونیت، قبائلی دہشت گردی اور ڈاکوؤں کا خاتمہ کیا جائے، امن و امان بحال کیا جائے اور سیلاب میں بےگھر ہونے والے لاکھوں افراد کے لیے مکانات تعمیر کیے جائیں، جس کے بعد سندھ میں مقررہ وقت پر صاف اور شفاف مردم شماری کروائی جائے’۔

جیے سندھ محاذ کا مؤقف

ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی سے بات کرتے ہوئے قوم پرست رہنما اور جیے سندھ محاذ کے چیئرمین ریاض چانڈیو نے کہا کہ ’اس ملک میں مردم شماری ہمیشہ متنازعہ رہی ہے، اسٹیبلشمنٹ اپنے مخصوص مفادات کے لیے مردم شماری کرتی ہے جس میں بڑا مفاد یہ ہے کہ ایک بڑا صوبہ آبادی کی بنیاد پر وفاق پر قابض ہے۔

ریاض چانڈیو نے کہا کہ ’یہ دنیا کا واحد وفاق ہے جہاں ملک کے وسائل اور ملکیت کو آبادی کی بنیاد پر تقسیم کیا جاتا ہے جس سے روزگار، ملازمتوں اور وسائل پر ایک ہی صوبے کو غلبہ حاصل ہے اور اپنے اس تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے بالخصوص سندھ میں غیر مقامی لوگوں کو آباد کرتا رہا ہے اور یہ سب اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے منصوبہ بندی کے تحت کیا جا رہا ہے‘۔

ریاض چانڈیو
ریاض چانڈیو

ریاض چانڈیو نے کہا کہ ’پاکستان میں مردم شماری بھی انتخابات کی طرح ہمیشہ ایک فراڈ رہی ہے، 2023ء کی مردم شماری پر سندھ کو سخت اعتراضات تھے مگر پھر بھی خصوصی فرمائش پر پیپلز پارٹی کی سہولت کاری سے ڈیجیٹل مردم شماری کرکے سندھ کے عوام میں مزید تشویش پیدا کردی گئی ہے‘۔

ریاض چانڈیو نے کہا کہ ’ہمیں اعتراض اس بات پر ہے کہ کراچی میں غیر ملکیوں بشمول افغانوں اور دیگر غیر قانونی مقیم باشندوں کو شمار کرکے صوبائی و قومی اسمبلی کی نشستیں بڑھا کر سندھ کے تاریخی باشندوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازشیں کی جارہی ہے لہٰذا سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے اس غیر منصفانہ مردم شماری کو مکمل طور پر مسترد کردیا ہے‘۔

ریاض چانڈیو نے مزید کہا کہ ’کراچی اور حیدرآباد کی آبادی میں مصنوعی اضافہ کرکے سندھ کے دیگر علاقوں کیساتھ ناانصافی کی جا رہی ہے، کراچی کے حقیقی رہائشیوں کو شمار کیا جائے ہمیں اس پر اعتراض نہیں ہوگا کیونکہ مردم شماری کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ریاست عوام کے لیے تعلیم، روزگار اور خوراک سمیت دیگر انسانی سہولیات کے منصوبے لائے جائیں لیکن یہاں انسانی مردم شماری کا مطلب ہی فراڈ ہے اور اس فراڈ سے اسٹیبلشمنٹ، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم سمیت پیپلز پارٹی بھی سندھ کی تاریخی حدود کو محدود کرنے کی سازش میں ملوث ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مردم شماری دوبارا کروائی جائے جس میں سے غیر ملکیوں اور دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والوں کو الگ کیا جائے‘۔

واضح رہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری کے خلاف جیے سندھ محاذ کی اپیل پر 28 مئی کو سندھ کے مختلف شہروں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی تھی۔

سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کا مؤقف

اس حوالے سے جب ہم نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیئر رہنما اور سینیٹر تاج حیدر سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ’ہماری جماعت کی سینٹرل ایگزیکیوٹو کمیٹی نے ڈیجیٹل مردم شماری کو مسترد کردیا ہے۔ اس مردم شماری پر ہمیں بہت خدشات ہیں‘۔

تاج حیدر نے کہا کہ ’2017ء کی مردم شماری کے نتائج کو بھی پیپلز پارٹی نے مسترد کردیا تھا، 6 برس بعد ڈیجیٹل مردم شماری کرنے کا مطلب ہے کہ 2017ء کی مردم شماری ٹھیک نہیں ہوئی تھی اور موجودہ مردم شماری میں ادارہ شماریات کا حوالہ دینا دھوکہ دہی ہے‘۔

پیپلز پارٹی رہنما نے کہا کہ ’مشترکہ مفادات کی کونسل (سی سی آئی) میں اس حوالے سے ایک ایڈوائزری کمیٹی تشکیل دی گئی لیکن سندھ سے کسی کو بھی اس میں شامل نہیں کیا گیا تھا اور اس کمیٹی کے اجلاس میں ایک پیپر پیش کیا گیا کہ کس طرح سے مردم شماری ہونی ہے جس پر ہم نے احتجاج کیا کہ ایڈوائزری کمیٹی میں سندھ کی نمائندگی نہیں ہے‘۔

سینیٹر تاج حیدر
سینیٹر تاج حیدر

انہوں نے مزید کہا کہ ’المیہ یہ بھی ہے کہ اس ایڈوائزری کمیٹی میں وہی لوگ شامل تھے جو 2017ء کی مردم شماری میں دھوکہ دہی میں ملوث تھے اور ہم نے ایک اجلاس میں یہ بھی کہا کہ سوچ سمجھ کر سندھ کے ساتھ ناانصافی کی جارہی ہے‘۔

تاج حیدر نے کہا کہ ہمیں کہا گیا کہ یہ مردم شماری ڈیجیٹل ہوگی جس کے لیے 13 ارب روپے کے ٹیبلیٹس خریدے گئے لیکن وزیر اعلیٰ سندھ نے تجویز دی تھی کہ ٹیبلیٹس خریدنے کے بجائے یہ ذمہ داری جامعات کو سونپی جائے اور جامعات اپنے طلبا سے یہ کام کروائیں کیونکہ آج کل 90 فیصد طلبا کے پاس موبائل فون کی سہولت موجود ہے’۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’یہ تمام باتیں تسلیم تو کی گئیں لیکن جب میٹنگ منٹس سامنے آئے تو اس میں ہماری تجاویز شامل نہیں تھیں‘۔

تاج حیدر نے مزید کہا کہ ہم نے وفاقی حکومت کے سامنے متعدد بار یہ اعتراضات رکھے ہیں لیکن مسئلہ وہیں کا وہیں ہے کیونکہ ڈی جیور کے تحت مردم شماری کا آغاز کیا گیا جس پر ہمیں اعتراضات تھے اس لیے پیپلز پارٹی نے اپنے حالیہ اجلاس میں اس مردم شماری کو مسترد کردیا ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ’مردم شماری کے لیے سندھ میں 43 ہزار 438 بلاک تھے اور ہر بلاک میں کم از کم 50 خاندان ہونے چاہئیں لیکن یہاں 6 سے 7 سو خاندان ہیں اور ابھی تک وہی پرانے بلاک سسٹم پر کام چلایا جا رہا ہے‘۔

تاج حیدر نے مزید کہا کہ ’سوچ سمجھ کر یہ سب کیا جا رہا ہے، 8 کروڑ 50 لاکھ کی آبادی کو جان بوجھ کر 5 کروڑ 50 لاکھ دکھایا جا رہا ہے جس پر دیگر چھوٹے صوبے بھی اعتراضات کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کہتے ہیں کہ ہم نے پہلی بار ڈیجیٹل مردم شماری کی ہے، اب اس پر 13 ارب خرچ تو ہوگئے لیکن پاکستان کے عوام نے اس کو مسترد کردیا ہے‘۔

سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ دوسری طرف سندھ کی قوم پرست جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ سندھ کی آبادی 10 کروڑ کے قریب ہے جس کو ’سازش‘ کے تحت 5 کروڑ 50 لاکھ دکھایا گیا ہے اور وہ اس مردم شماری کو مسترد کر چکے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ’مجھے خود شمار نہیں کیا گیا، میرے گھر پر عملہ نہیں پہنچا، 3 کروڑ کی آبادی گھٹائی گئی ہے’۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’2013ء کے انتخابات میں کراچی کی آبادی 2 کروڑ 13 لاکھ تھی جس کی نادار نے تصدیق کی تھی، ’اب اگر نیت خراب ہے، نقشہ غلط ہے، شمار کرنے کا طریقہ غلط ہے تو ڈوائسز کی کیا غلطی‘۔

تاج حیدر نے کہا کہ ’موجودہ صورتحال میں یہی مثال ہے کہ جانوروں کو گنا جائے لیکن ’سندھ‘ کو نہ گنا جائے، بہت زیادتی ہو رہی ہے‘۔

مردم شماری ہر بار متنازع کیوں؟

مردم شماری کا عمل ہر بار متنازع ہونے کی وجوہات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے معروف ماہر معیشت، ڈیموگرافر اور پبلک فنانس ایکسپرٹ ڈاکٹر عاصم بشیر خان نے کہا کہ ’سب اسے اہم مسئلہ آبادی کے لحاظ سے وسائل کی تقسیم کا ہے۔ اس کی وجہ سے ہر صوبے کی خواہش ہوگی کہ اس کا آبادی میں حصہ بڑھے جس کی وجہ سے وسائل میں حصہ خود بخود بڑھ جائے گا، یہ اہم معاملہ ہے جو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مردم شماری کا عمل مکمل طور پر ’ڈی سینٹرلائزڈ‘ ہے، یعنی مردم شماری کی اِبتدائی منصوبہ بندی کو دیکھ لیں، ڈیجیٹل نقشے، عملے کو ٹریننگ ادارہ شماریات نے دی ہے، جب کہ فیلڈ میں جتنے شمار کنندگان کام کر رہے ہیں یہ سب صوبائی حکومتوں سے تعلق رکھتے ہیں‘۔

انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’مردم شماری کا فیلڈ آپریشن 100 فیصد صوبوں کے پاس ہے، آبادی کی گنتی میں کسی بھی قسم کی کمی بیشی کی کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے مگر اس کا تعلق ادارہ شماریات سے نہیں ہے بلکہ صوبوں سے ہے، یہ ایک اہم نکتہ ہے لیکن میڈیا میں جو رپورٹنگ ہورہی ہے اُس میں اس حوالے سے کوئی وضاحت نہیں دی جارہی، میڈیا کی رپورٹنگ سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ مردم شماری ادارہ شماریات کررہا ہے حالانکہ اس مشق میں تمام صوبوں کے محکمہ تعلیم کا عملہ مصروف عمل ہے جبکہ مقامی اسسٹنٹ کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز اس تمام عمل کی نگرانی کررہے ہیں‘۔

ڈاکٹر عاصم بشیر
ڈاکٹر عاصم بشیر

انہوں نے نشاندہی کی کہ صوبوں کی جانب سے آبادی بڑھا کر دکھانے کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کیونکہ پاکستان میں وسائل کی تقسیم کا بڑا حصہ آبادی پر مبنی ہے اور قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے مطابق پاکستان میں آبادی کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم 82 فیصد ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر صوبہ چاہتا ہے کہ اس کی آبادی زیادہ سے زیادہ گنی جائے۔

ڈاکٹر عاصم بشیر خان نے کہا کہ ’جتنے پوائنٹس سے کسی ایک کا این ایف سی میں حصہ بڑھے گا اتنا دوسروں کا کٹے گا، پارلیمنٹ میں جتنی سیٹیں کسی ایک کی بڑھیں گی اتنی دوسروں کی گھٹیں گی، لہٰذا اگر کسی ایک صوبے نے جان بوجھ کر زیادہ آبادی شمار کی تو دوسرے صوبے اس کی بھاری قیمت ادا کریں گے، یعنی اس سے کُل 4 چیزیں لازمی متاثر ہوں گی، نمبر ایک آرٹیکل 51 کے مطابق پارلیمنٹ میں سیٹوں کی تقسیم، دوسرا حلقہ بندیاں، تیسرا انتخابی عمل اور چوتھا اور اہم ترین معاملہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ‘۔

ڈاکٹر عاصم بشیر خان نے کہا کہ ’2017ء، 1998ء یا 1981 یا اس کی قبل کسی بھی مردم شماری کے طریقہ کار کا موازنہ حالیہ مردم شماری سے نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ پاکستان کی تاریخ کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری ہے اور اس میں آپ کو فوری ڈیٹا مل رہا ہے جبکہ اِس سے پہلے ڈیٹا کا اندراج ’مینوئل‘ تھا، اس وجہ سے 2017ء کی مردم شماری کے حتمی نتائج 2021ء میں آئے جبکہ 1981ء کی مردم شماری کی حتمی نتائج آتے آتے 1984ء آگیا تھا۔

’جنوبی ایشیا میں پاکستان ڈیجیٹل مردم شماری کروانے والا پہلا ملک ہے۔ اس مرتبہ ایک اہم تبدیلی یہ تھی کہ لوگوں کو خود آن لائن مردم شماری کا اختیار بھی دیا گیا تھا، علاوہ ازیں مردم شماری کے عمل میں عدم شمولیت کی شکایت کے لیے ڈیجیٹل ہیلپ لائن کی سروس بھی دی گئی، تاہم جب کوئی عمل سیاست کی نذر ہوجائے تو آپ چاہے کتنا بھی سپر فول پروف سسٹم بنالیں لیکن مختلف محرکات کی بنا پر لوگ اسے متنازع بنا دیتے ہیں‘۔

  پاکستان ڈیجیٹل مردم شماری کروانے والا جنوبی ایشیا کا پہلا ملک ہے
پاکستان ڈیجیٹل مردم شماری کروانے والا جنوبی ایشیا کا پہلا ملک ہے

انہوں نے کہا کہ ’مردم شماری غیر متنازع ایک ہی صورت میں ہوسکتی ہے کہ آپ آبادی کی بنیاد پر مراعات دینا بند کردیں، بلکہ آپ یہ کہیں کہ جو صوبہ آبادی کنٹرول کرے گا اُسے زیادہ مراعات ملیں گی کیونکہ آگر آپ آبادی بڑھائیں گے تو ملک کی ناصرف یہ کہ فی کس آمدن کم ہو جائے گی بلکہ پاکستان کا نمبر انسانی ترقی کے اشاریوں میں بھی کم ہو جائے گا‘۔

’مردم شماری کے لیے 10 سال کی مقرر کردہ فریکوئنسی تبدیل کرنا ٹھیک نہیں تھا‘

اس صورتحال پر جب ہم نے معروف تجزیہ نگار اور ڈیولپمنٹ پروفیشنل نصیر میمن سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ’سیاسی دباؤ پر مردم شماری کے لیے 10 سال کے مقرر کردہ فریکوئنسی تبدیل کرنا ٹھیک نہیں تھا، اسی روایت کو برقرار رکھا جاتا جس طرح ہر 10 برس بعد مردم شماری کی جاتی ہے۔ سب سے پہلے اس طریقہ کار پر سندھ کو خدشات رہے ہیں‘۔

نصیر میمن نے کہا کہ ’جب ڈیجیٹل مردم شماری کا آغاز کیا گیا تو شروع میں ہی ہم نے کہا کہ اس کے لیے مقرر کیا گیا وقت غیرحقیقی ہے، بلاکس کی تعداد اور شمار کنندہ گان کی تعداد کا جب تعین کیا گیا تو مقررہ وقت ناکافی تھا‘۔

نصیر میمن نے وضاحت کی کہ ’ڈیجیٹل ڈوائسز کا استعمال پہلی بار ہو رہا تھا، اگر ان پر پہلے سے ہی تجربہ کیا جاتا تو ٹیکنیکل خرابیوں جیسے مسائل درپیش نہ ہوتے لیکن بدقسمتی سے اس پر بھی عمل نہ کیا گیا اور پھر جان بوجھ کر سیاسی دباؤ کی بنیاد پر ادارہ شماریات نے بالخصوص کراچی اور پنجاب کے 20 ہزار سے زائد بلاکس کو دوبارہ کھولا گیا لیکن سندھ کے دیگر اضلاع میں اس طرح کی کوششیں نہیں کی گئیں‘۔

نصیر میمن
نصیر میمن

انہوں نے کہا کہ ’جس طرح کراچی اور پنجاب میں دوبارہ گنتی کے لیے بلاکس کھولے گئے اور خصوصی ٹیمیں تعینات کی گئیں اگر یہی اقدام سندھ کے دیگر اضلاع کے لیے بھی کیے جاتے تو یہ سیاسی معاملہ نہ بنتا۔ جس طرح گنتی کی گئی وہ سیاسی طور پر غلط طریقہ کار تھا۔ جس طرح سیاسی دباؤ کی بنیاد پر اعداد و شمار میں تبدیلی کی جارہی ہے اس سے خدشات جنم لے رہے ہیں اور ممکن ہے کہ حتمی نتائج متنازع بن جائیں گے کیونکہ اس پر پنجاب بھی مطئمن نہیں ہے اور سندھ کو بھی شدید خدشات ہیں‘۔

نصیر میمن نے مردم شماری کو متنازع بنانے سے گریز کرنے کے لیے کچھ تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ ’مردم شماری کو درست طریقہ کار کے تحت کرنا چاہیے اور طویل وقت تک اس کو جاری رکھنا چاہیے۔ ڈیٹا کی تصدیق کے لیے بھی طریقہ کار اپنانے چاہئیں اور جو بھی ڈیٹا موصول ہوتا ہے اس پر کم از کم حکومت کو رسائی ہونی چاہیے کہ اس کو ’کراس چیک‘ کرسکے اور اس کی تصدیق کرکے گزشتہ ڈیٹا سے موازنہ کرسکے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’تنازع کا سب سے زیادہ اہم سبب این ایف سی ایوارڈ اور پارلیمان میں نشستیں مختص کرنا ہے، این ایف سی تقسیم کے فارمولا کا اس وقت تناسب 82 ہے جس کو بدتریج کم کرکے زیادہ سے زیادہ 50 فیصد تک لایا جائے جبکہ این ایف سی کے دیگر عوامل کو بڑھایا جائے جس سے آبادی کے پیچھے صوبوں کے درمیان دوڑ کم ہوگی‘۔

نصیر میمن نے کہا کہ پاکستان کو مردم شماری کو سرکاری اور نجی شعبے کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کرنا چاہیے نہ کہ سیاسی فیصلہ سازی کے لیے اس کو آلہ کار بنایا جائے۔

عمار احمد

عمار احمد ڈان کے سابق اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
امام بخش

امام بخش ڈان کے سابق اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔