Dawnnews Television Logo

بجٹ 24-2023: 'کوئی نیا ٹیکس نہیں'، ترقیاتی منصوبوں کیلئے تاریخی 1150 ارب روپے مختص، کم از کم تنخواہ 32 ہزار روپے کرنے کی تجویز

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد تک اور پنشن میں 17.5 فیصد اضافہ، دفاع کیلئے 1804 ارب مختص کیے گئے ہیں، اسحٰق ڈار
اپ ڈیٹ 09 جون 2023 11:40pm


بجٹ تقریر


وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے مالی سال 24-2023 کے لیے 145 کھرب روپے کا بجٹ پیش کر دیا، جس میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر 1150 روپے کی تاریخی رقم مختص کی گئی ہے۔

اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے بجٹ پیش کیا۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ بجٹ پیش کرنے کا اعزاز حاصل کرنے پر خدا کا شکر گزار ہوں، مالی سال 24-2023 کے بجٹ کے اعداد و شمار پیش کرنے سے پہلے 2017 میں نواز شریف کی حکومت اور 2022 میں پی ٹی آئی کی نااہل حکومت کے بجٹ کا تقابلی جائزہ پیش کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ مالی سال 17-2016 میں پاکستانی معیشت کی شرح نمو 6.1 فیصد تک پہنچ چکی تھی، مہنگائی 4 فیصد تھی، غذائی اشیا کی مہنگائی صرف 2 فیصد تھی، پالیسی ریٹ ساڑھے 5 فیصد، اسٹاک ایکسچینج جنوبی ایشیا میں نمبر ون اور پوری دنیا میں پانچویں نمبر پر تھی۔


بجٹ کے اہم نکات

  • مالی سال 2024 کے بجٹ کا حجم 14 ہزار 460 ارب روپے رکھا گیا ہے
  • ترقیاتی منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر 1150 روپے کی تاریخی رقم مختص
  • اشیائے ضروریہ کی درآمدات پر ڈیوٹی میں کوئی اضافہ نہیں
  • پرائم منسٹر یوتھ لون کے لیے 10 ارب روپے مختص
  • ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے کرنٹ اخراجات میں 65 ارب اور ترقیاتی اخراجات کی مد میں 70 ارب روپے مختص
  • بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 260 ارب سے بڑھا کر 400 ارب کردیا گیا
  • 50 ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے 30 ارب روپے مختص
    • معاشرے کے غریب طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے استعمال شدہ (سیکنڈ ہینڈ) کپڑوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی کا خاتمہ
    • انفارمیشن ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے اس سے منسلک آلات سے ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز
    • اگلے مالی سال کے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا
  • معیاری بیجوں کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے ان کی درآمد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم
  • کم از کم تنخواہ 32 ہزار روپے کرنے کی تجویز، گریڈ 16-1 اور 22-17 کے سرکاری ملازمین کے لیے بالترتیب 35 اور 30 فیصد اضافہ
  • صحافیوں کی ہیلتھ انشورنس کے لیے ایک ارب روپے مختص
  • ڈیبٹ/کریڈٹ یا پری پیڈ کارڈز کے ذریعے نان-ریزیڈنٹ کو ادائیگی پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں ایک فیصد سے 5 فیصد تک اضافے کی تجویز
  • کیفے، فوڈ پارلر، وغیرہ اور اسی طرح تیار/پکا ہوا کھانا فراہم کرنے والی دیگر آؤٹ لیٹس وغیرہ میں ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈز، موبائل والٹ یا کیو آر اسکیننگ کے ذریعے ادائیگی کی صورت میں 5 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز

وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستانی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن تھی اور پاکستان 2020 تک جی-20 ممالک میں شامل ہونے والا تھا، پاکستانی کرنسی مستحکم اور زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر تھے، بجلی کے نئے منصوبوں سے 12-16 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ سے نجات مل چکی تھی، انفرااسٹرکچر، روزگار کے مواقع اور آسان قرضوں جیسے عوام دوست منصوبوں کی تکمیل کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جاچکا تھا، ملک میں امن و امان اور سیاسی استحکام تھا، ان حالات میں آناً فاناً سازشوں کے جال بچھا دیے گئے، اگست 2018 میں ایک سلیکٹڈ حکومت وجود میں آئی، اس سلیکٹڈ حکومت کی ناکام معاشی کارکردگی کے سبب پاکستان 24ویں بڑی معیشت کے درجے سے گر کر 47ویں نمبر پر آگیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج پاکستان تاریخ کے مشکل ترین مراحل سے گزر رہا ہے، خراب معاشی صورتحال کی ذمہ دار پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت ہے، اس لیے مالی سال 22-2021 تک کی معاشی صورتحال کا ایک جائزہ ایوان کے سامنے رکھوں گا۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی غلط معاشی حکمت عملی کے باعث کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 17.5 ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے تھے، آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل پاکستان کے لیے اہم تھی لیکن پی ٹی آئی حکومت نے اس صورتحال کو جان بوجھ کر خراب کیا۔

اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں سبسڈی دی، ایسے اقدامات اٹھائے جو آئی ایم ایف شرائط کی صریحاً خلاف ورزی تھی، سابقہ حکومت کے وزیر خزانہ نے 2 صوبائی وزارئے خزانہ کو فون کر کے آئی ایم ایف پروگرام سبوتاژ کروانے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ ان اقدامات سے نئی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھائی گئیں جس سے نہ صرف مالی خسارے میں اضافہ کیا بلکہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے تعلقات کو بھی نقصان پہنچایا۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کی معاشی حکمت عملی کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت مالی خسارے میں خطرناک حد تک اضافہ تھا، مالی سال 22-2021 کا خسارہ جی ڈی پی کے 7.89 فیصد کے برابر ہے جبکہ پرائمری خسارہ جی ڈی پی کے 3.1 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جون 2018 میں پاکستان کا قرضہ تقریباً 250 کھرب تھا، پی ٹی آئی کی معاشی بے انتظامی کے سبب یہ قرض مالی سال 22-2021 میں 490 کھرب تک پہنچ گیا، 4 سالہ دور میں اتنا قرض لیا گیا جو 1947 سے 2018 تک لیے جانے والے قرض کا 96 فیصد تھا۔

اسحٰق ڈار نے بتایا کہ اسی طرح قرضے اور واجبات اسی عرصے میں 100 فیصد سے بڑھ کر 300 کھرب سے 600 کھرب روپے تک پہنچ گئے، جون 2018 میں غیر ملکی قرضے اور واجبات 95 ارب ڈالر تھے جو کہ جون 2022 تک 130ارب ڈالر تک پہنچ چکے تھے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو 2013 میں 503 ارب روپے کا گردشی قرضہ ورثے میں ملا جو 208 تک بڑھ کر 1148 ارب روپے پر پہنچ گیا، پی ٹی آئی کے 4 سالہ دور میں یہ 1319 ارب روپے کے اضافے کے ساتھ 2467 ارب روپے پر پہنچ گیا۔

Title of the document


ان کا کہنا تھا کہ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے موجودہ حکومت نے خسارے کو کم کرنے کے لیے کفایت شعاری سے کام لیا اور اخراجات میں کمی گئی، ان اقدامات کے نتیجے میں بجٹ خسارہ پچھلے مالی سال میں جی ڈی پی کے 7.9 فیصد سے کم ہوکر رواں مالی سال میں جی ڈی پی کا 7.0 فیصد ہوگیا، بنیادی خسارے کو صرف ایک سال کی مدت کے دوران جی ڈی پی کے 3.1 فیصد سے کم کرکے 0.5 فیصد پر لایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کو ایک سال کے دوران کئی اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، سیلاب کے سبب معاشی نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے ادارے 'ایف اے او' کے تخمینے کے مطابق سال 2021 کے برعکس سال 2022 کے دوران عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں 14.3 فیصد کا اضافہ ہوا، تیل، گندم، دالیں، خوردنی تیل اور کھاد کی ہمیں زرمبادلہ میں ادائیگی کرنا پڑی جو مہنگائی میں اضافے کا باعث بنا، یوکرین جنگ، عالمی سطح پر تیل و گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور مغربی ممالک میں شرح سود میں اضافے نے ملک کی معاشی مشکلات میں اضافہ کیا۔

اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے مشکل فیصلوں کی وجہ سے ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں گرواٹ کو کم کیا گیا ہے، حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کر لیا ہے، باقاعدگی سے مذاکرات جاری ہیں، ہماری ہر ممکن کوشش ہے کہ جلد ایس ایل اے پر دستخط ہوں اور نواں جائزہ مکمل ہوجائے۔

انہوں نے کہا کہ مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے چند ماہ قبل بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت دیے جانے والے کیش ٹرانسفر میں 25 فیصد تک اضافہ کردیا ہے، بجٹ کو 260 ارب سے بڑھا کر 400 ارب کردیا گیا ہے، اس کا اطلاق یکم جنوری 2023 سے ہوچکا ہے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مفت آٹے کی تقسیم کی گئی، سستی اشیا کی فراہمی کے لیے 26 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی، گزشتہ ایک ماہ میں حکومت نے 2 مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کی، امید ہے اس کے نتیجے میں مہنگائی میں کمی آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال اندرونی اور بیرونی مشکلات کے سبب بڑی صنعتوں کی پیداوار میں منفی نمو کا رجحان رہا، اس کی بڑی وجہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا رجحان تھا، جس کے سبب خام مال کی دستیابی میں مشکلات پیدا ہوئیں، ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خام مال کو ترجیحی بنیاد پر ایل سی کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے، حکومت اگلے مالی سال اس رجحان کو ریورس کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ صنعتی شعبے پر آئندہ سال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، اسی طرح عالمی منڈیوں می قیمتوں میں گراوٹ، ترقی یافتہ ممالک میں انوینٹری میں کمی اور ملک میں خام مال کی بہتر دستیابی کی وجہ سے ایل ایس ایم میں بہتری آئے گی۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ اب میں آپ کو بجٹ مالی سال 24-2023 کی عمومی سمت کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں، معیشت میں بہتری کی سمت کے باوجود ابھی بھی چیلنجز کا سامنا ہے، ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے آئندہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی کا ہدف صرف 3.5 فیصد رکھا ہے جو کہ ایک مناسب ہدف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جلد ہی ملک عام انتخابات کی طرف جانے والا ہے، اس کے باوجود اگلے مال سال کے بجٹ کو ایک الیکشن بجٹ کے بجائے ایک ذمہ دارانہ بجٹ کے طور پر ترتیب دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے بھرپور مشاورت کے بعد خاص طور پر معیشت کے ان چیدہ نکات کو منتخب کیا ہے جن کی بدولت ملک کم سے کم مدت میں ترقی کی راہ پر دوبارہ گامزن ہوسکتا ہے، بجٹ تجاویز میں ہمارے ترجیحی ’ڈرائیورز آف گروتھ‘ مندرجہ ذیل ہیں۔

ایس ایم ایز کی نشوونما کے لیے درج ذیل اقدامات کیے گئے ہیں۔

  • کنسٹرکشن، زراعت اور ایس ایم ای کی حوصلہ افزائی کے لیے ان شعبوں کو قرض فراہم کرنے والے بینکوں کو ایسے قرضوں سے ہونے والی آمدنی پر 39 فیصد کے بجائے 20 فیصد رعایتی ٹیکس کی سہولت اگلے 2 مالی سال تک میسر ہوگی۔
  • ایس ایم ایز کی ٹیکس مراعات کو بڑھا کر اس کے ٹرن اوور کی حد 25 کروڑ سے بڑھا کر 80 کروڑ روپے کی جا رہی ہے۔
  • پی ایم یوتھ قرض پروگرام کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔
  • اسٹیٹ بینک کی ایک اسکیم کے تحت ایس ایم ای کے قرضوں کو صرف 6 فیصد مارک اپ پر ری فنانس کیا جا سکتا ہے لیکن بینک ایس ایم ای کو کریڈٹ ہسٹری نہ ہونے کی وجہ سے ایسے قرضے دینے سے ہچکچاتے ہیں، یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس رکارٹ کو دور کرنے لیے اس مد میں نئے قرضوں کا 20 فیصد تک رسک حکومت اٹھائے گی۔
  • ایس ایم ای آسان فنانس اسکیم کو دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے۔
  • ایس ایم ای کے لیے علیحدہ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کے قیام کی تجویز ہے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانی

زرمبادلہ کی باقاعدہ چینلز کے ذریعے اضافے کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جا رہے ہیں - بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر کے ذریعے غیر منقولہ جائیداد خریدنے پر موجودہ فائنل 2 فیصد ٹیکس ختم کیا جا رہا ہے۔ - ریمٹینس کارڈ کی کیٹیگری میں ایک نئے ڈائمنڈ کارڈ کا اجرا کیا جا رہا ہے جو کہ سالانہ 50 ہزار ڈالر سے زائد ترسیلات بھیجنے والوں کو جاری کیا جائے گا۔

تعلیم

تعلیم کے شعبے میں مندرجہ ذیل اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

  • ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے کرنٹ اخراجات میں 65 ارب اور ترقیاتی اخراجات کی مد میں 70 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
  • پاکستان انڈومینٹ فنڈ کے لیے بجٹ میں 5 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔
  • لیپ ٹاپ اسکیم کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔
  • اسکول، کالج اور پروفیشنل کھیلوں میں ترقی کے لیے 5 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔

ویمن امپاورمنٹ

بجٹ میں ویمن امپاورمنٹ کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، کاروباری خواتین کے لیے ٹیکس کی شرح میں بھی چھوٹ دی گئی ہے۔

نوجوانوں کے کاروبار

  • نوجوانوں کی جانب سے شروع کیے جانے والے کاروبار سے ہونے والی آمدنی پر ٹیکس کی شرح 50 فیصد تک کم کرنے کی تجویز ہے، یہ رعایت انفرادی یا اے او پی کی صورت میں 20 لاکھ روپے تک اور کمپنی کی صورت میں 50 لاکھ روپے تک ہوگی۔
  • وزیر اعظم یوتھ پروگرام اسمال لان کے تحت رعایتی ریٹ پر قرض فراہمی کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
  • وزیر اعظم یوتھ اسکلز پروگرام کے تحت اسپیشلائزڈ ٹریننگ دینے کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

تعمیری شعبے کی حوصلہ افزائی

تعمیری شعبہ معاشی پیداوار میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے، نئے گھروں اور عمارتوں کی تعمیر پر مراعات دینے کے لیے آئندہ تین سال تک کنسٹرکشن انٹرپرائز کی کاروباری آمدن پر ٹیکس میں 10 فیصد یا 50 لاکھ روپے دونوں میں سے جو رقم کم ہو، رعایت دی جائے گی۔

وہ افراد جو اپنی ذاتی تعمیرات کروائیں، انہیں تین سال تک 10 فیصد ٹیکس کریڈٹ یا 10 لاکھ روپے جو رقم بھی کم ہو رعایت دینے تجویز ہے، اس رعایت کا اطلاق یکم جولائی 2023 اور اس کے بعد سے شروع ہونے والے تعمیراتی منصوبوں پر ہوگا۔

  • ریئل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ سے متعلقہ ٹیکس مراعات کو 30 جون 2024 تک توسیع دی جا رہی ہے۔

پسے ہوئے طبقات کے لیے بجٹ کے اہم نکات

  • بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 400 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، اگلے مالی سال کے لیے 450 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے، بی آئی ایس پی کے تحت 93 لاکھ خاندانوں کو 8 ہزار 750 روپے ٹرانسفر کرنے لیے 346 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
  • بے نظیر تعلیمی وظائف پروگرام کے لیے 55 لاکھ روپے سے زائد رقم مختص
  • بینظیر انڈر گریجویٹ اسکالر شپ کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
  • بینظیر نشوونما پروگرام کے لیے 32 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
  • یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے لیے 35 ارب روپے ٹارگٹڈ سبسڈی کے لیے رکھے گئے ہیں۔
  • پاکستان بیت المال کے لیے 4 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ -یونانی ادویات پر سیلز ٹیکس کی شرح ایک فیصد کی جا رہی ہے۔
  • استعمال شدہ کپڑوں پر عائد 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کو ختم کیا جا رہا ہے۔

شعبہ توانائی

اس شعبے کے لیے درج ذیل اقدمات کیے جا رہے ہیں۔

  • خام مٹیریل، بیٹریز، سولر پینل اور انورٹرز کو کسٹم ڈیوٹی سے استثنیٰ دیا جارہا ہے۔

توانائی

وزیر خزانہ نے کہا کہ بجلی کی پیدوارا، ترسیل اور تقسیم کی بہتری کے لیے 107 ارب روپے کی رقم مہیا کی گئی ہے، موجودہ حالات میں لازمی ہے کہ بجلی کی پیداوار میں ملکی وسائل اور قابل تجدید توانائی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے تاکہ ملکی درآمدات کو کم کیا جاسکے اور بجلی کی پیداواری لاگت میں کمی لائی جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کے شعبے میں کوئلے سے چلنے والے جامشورو پاور پلانٹ کی تکمیل کے لیے اگلے مالی سال میں 12 سو ارب روپے کی رقم فراہم کی جائے گی، اس کے علاوہ پاکستان اور تاجکستان کے درمیان 500 کے وی ٹرانسمیشن لائن کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے 16 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

آبی وسائل

اسحٰق ڈار نے کہا کہ گزشتہ برس مہمند ڈیم کی تکمیل کے لیے 12 ارب روپے رکھے گئے، اگلے مالی سال میں بھی اس منصوبے کے لیے 10 ارب 50 کروڑ کی رقم رکھی گئی ہے، اسی طرح داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے لیے ترجیحی بنیادوں پر تقریباً 59 ارب روپے کی فراہمی ترجیحی بنیادوں پر یقینی بنائی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم کے لیے 20 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے، دیگر اہم منصوبوں میں نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے لیے 4 ارب 80 کروڑ، تربیلا ہائیڈرو پاور کی استعداد میں اضافے کے لیے 4 ارب 45 کروڑ روپے اور وارسک ہائیڈرو الیکٹرک پاور اسٹیشن کی بحالی کے لیے 2 ارب 60 کروڑ کی رقم مختص کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں پینے کی پانی کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے کے 4 اسکیم کے لیے بھی 17 ارب 50 کروڑ کی رقم مختص کی جائے گی۔

ٹرانسپورٹ اور مواصلات

شاہراہوں اور دیگر موصلات سہولیات کی ترقی کے لیے بجٹ میں 161 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

سوشل سیکٹر

وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان پائیدار ترقی کے اہداف کا حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اگلے مالی سال میں اس مقصد کے لیے 90 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سال کی ٹیکس پالیسی کے اصول مندرجہ ذیل ہیں۔

  • برآمدات میں اضافے کے لیے آئی ٹی اور آئی ٹی ان ایبلڈ سروسز کی حوصلہ افزائی
  • زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے غیر ملکی ترسیلات کو فروغ
  • اقتصادی ترقی میں اضافے کے لیے مقامی صنعتوں کی سرپرستی
  • تعمیر اور زرعی شعبے کی ترقی
  • ملک میں نوجوانوں کو خودمختار بنانے کو فروغ
  • ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانے کے لیے معیشت کی ڈجیٹائزیشن
  • صاحب ثروت افراد پر ٹیکس کا نفاذ
  • مہنگائی کی وجہ سے کم آمدن طبقے کے لیے ریلیف
  • نان فائلرز کے لیے ٹرانزیکشن کی لاگت میں اضافہ

ان کا کہنا تھا کہ اس سال کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جارہا اور حکومت کی کوشش ہے کہ ملک میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے اور روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ زیادہ تر معاشی سرگرمیاں اشیا کی سپلائی، کانٹریکٹس پر عملدرآمد، سروسز کی فراہمی سے متعلق ہوتی ہیں، ان ٹرانزیکشنز نے حکومت کو ہونے والی آمدن میں اضافے کے لیے ایک فیصد ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجویز ہے اور اس کا اطلاق افراد اور کمپنیوں پر ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ جن سروسز پر رعایتی ٹیکس عائد ہوتا ہے ان کی شرح میں ایک فیصد اضافہ کرنے کی تجویز ہے۔ اس تجویز کا اطلاق چاول، کپاس کے بیج، خورونی تیل، پرنٹ اینڈ الیکٹرانک میڈیا اور اسپورٹس پرسنس پر نہیں ہوگا۔

سیکشن 4 سی کے تحت سپر ٹیکس کے ریٹس اور اسکوپ کو ریشنلائز کرنا

وزیر خزانہ نے کہا کہ امیروں پر ٹیکس عائد کرنا پاکستان کی ٹیکسیشن پالیسی کا رہنما اصول ہے، سپر ٹیکس کو ترقی پسند ٹیکسیشن میں تبدیل کرنے کی تجویز ہے۔

کمرشل درآمدات پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح

کمرشل درآمدات اشیا کی درآمد کے وقت کم از کم ٹیکس ادا کرتے ہیں، اس کے مقابلے میں صنعتیں اپنے منافع پر ٹیکس ادا کرتی ہیں، اس لیے سامان کی درآمد پر تجارتی درآمد کنندگان کو ہونے والی آمدن پر کم از کم ٹیکس کے ریٹس کو معقول کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان اشیا کے استعمال اور منافع پر ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا، اس لیے تجارتی درآمد کنندگان کی طرف سے اشیا کی درآمد پر ٹیکس ریٹ میں 0.50 فیصد اضافہ کرنے کی تجویز ہے۔

کمپنیوں کی طرف سے جارہ کردہ بونس شیئرز پر ود ہولڈنگ ٹیکس

انہوں نے کہا کہ کچھ کمپنیاں ٹیکس سے بچنے کے لیے کیش ڈویڈینڈ تقسیم کرنے کے بجائے بونس شیئر جاری کرتی ہیں، اس لیے ڈویڈینڈ پر ٹیکس اکٹھا کرنے کی غرض سے درج کی گئی اور غیر لسٹڈ کمپنیوں پر 10 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جارہا ہے۔

غیر ملکی گھریلو ملازم رکھنے پر ودہولڈنگ ٹیکس

وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ اس وقت کم و بیش 3 ہزار غیر ملکی شہری پاکستان کے امیر گھرانوں میں مددگار کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں، اوسطاً ہر گھریلو مددگار کو سالانہ 6 ہزار ڈالر تنخواہ ادا کی جاتی ہے، گھریلو ملازمین کو ادا کی جانے والی رقم پر سالانہ ٹیکس 2 لاکھ روپے کی شرح سے ودہولڈنگ ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔

غیر ملکی کرنسی کے اخراج کی حوصلہ شکنی

انہوں نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر کو نہ صرف بڑھانے کی ضرورت ہے بلکہ ہمیں اس میں کمی لانے والی خامیوں کو بھی دور کرنے کی ضرورت ہے اس لیے ڈیبٹ کارڈز، کریڈٹ اور بینکنگ چینلز کے ذریعے غیر ملکی کرنسی کے اخراج کی حوصلہ شکنی کرنے لیے فائلر پر ودہولڈنگ ٹیکس کی موجودہ شرح ایک فیصد سے بڑھا کر 5 فیصد کی جارہی ہے جبکہ نان فائلر پر یہ شرح 10 فیصد ہوگی۔

فیڈرل ایکسائز سیلز ٹیکس

اسحٰق ڈار نے کہا کہ ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مصنوعات کے ریٹیلرز پر جی ایس ٹی کی موجودہ شرح 12 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کی جا رہی ہے، بنیادی طور پر یہ ٹیکس برانڈڈ ٹیکسٹائل اور چمڑے کے قیمتی ملبوسات اور مصنوعات پر لیا جائے گا، یہ ٹیکس معاشرے کے اس طبقے پر عائد کیا جارہا ہے جو ایسی قیمتی اشیا خریدنے کا متحمل ہے، اس سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی ایک بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ صوبوں کے درمیان ہم آہنگی قائم کی جائے اور پاکستان میں ایک یکساں اور ہم آہنگ ٹیکس کا نظام رائج ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ 2018 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دور میں پاکستان کے آئین میں کی جانے والی 25 ویں ترمیم کے نتیجے میں فاٹا اور پاٹا کو بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ضم کیا گیا تھا، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس آئینی تبدیلی کو مؤثر طور پر عملی جامہ پہنائے، ان علاقوں کے لوگوں پر 5 سال کے لیے ٹیکسوں سے استثنیٰ دیا گیا تھا اور یہ مدت 30 جون 2023 کو ختم ہو رہی ہے جس میں مزید ایک سال کی توسیع کی جارہی ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ پرانی اور استعمال شدہ 1800 سی سی تک کی ایشین میک گاڑیوں کی درآمد پر 2005 میں ڈیوٹیز اور ٹیکسز کو روکا گیا تھا، اب 1300 سی سی سے اوپر کی گاڑیوں کے ڈیوٹی اور ٹیکسز پر کیپنگ ختم کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گلاس مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کی ڈیمانڈ پر مقامی گلاس کو پروٹیکٹ کرنے کے لیے ایسے گلاس کی مختلف اقسام کی درآمد پر 15 فیصد سے لے کر 30 فیصد تک ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی جا رہی ہے۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ اسلام آباد کے وفاقی علاقے میں ڈیجیٹل ادائیگی کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ریسٹورنٹ سروسز پر کریڈٹ کارڈ کے ذریعے رقم ادا کرنے پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کی جارہی ہے۔

سرکاری ملازمین، پینشنرز، فکسڈ انکم افراد وغیرہ کے لیے ریلیف اقدامات

انہوں نے کہا کہ حکومت کو سرکاری ملازمین کی مشکلات کا احساس ہے، افراط زر کی وجہ سے عام لوگوں کی طرح سرکاری ملازمین کی قوت خرید میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ شدید مالی مسائل اور وسائل کی کمی کی کے باوجود سرکاری ملازمین کے لیے ریلیف اقدامات کیے جارہے ہیں۔

  • سرکاری ملازمین کی قوت خرید بہتر بنانے کے لیے تنخواہوں میں ایڈہاک ریلیف الاؤنس کی صورت میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔
  • ڈیوٹی اسٹیشن سے باہر سرکاری سفر اور رات کے قیام کے لیے ڈیلی الاؤنس اور مائلیج الاؤنس دیا جا رہا ہے۔
  • اضافی چارج/ موجودہ چارج/ ڈیپوٹیشن الاؤنس، آرڈرلی الاؤنس، معذور افراد کے لیے خصوصی کنوینس الاؤنس، مستقل اٹینڈنٹ الاؤنس (ملٹری) شامل ہیں۔
  • مجاز پنشنرز کا ڈرائیور الاؤنس۔
  • سرکاری ملازمین کی پنشن میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔
  • سرکاری ملازمین کی کم از کم پنشن 12 ہزار روپے کی جارہی ہے۔
  • آئی سی ٹی کی حدود میں کم سے کم اجرت کو 25 ہزار روپے سے بڑھا کر 32 ہزار روپے کیا جا رہا ہے۔
  • ملازمین اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن کی پنشن کو 8 ہزار 500 سے بڑھا کر 10 ہزار روپے کرنے کی تجویز ہے۔
  • مقروض افراد کی بیواؤں کی امداد کے لیے سابق وزیراعظم نواز شریف کے گزشتہ دورِ حکومت کے بجٹ میں اسکیمز کا اجرا کیا گیا تھا، مالی سال 24-2023 کے حوالے سے ایسی ہی اسکیم ہاؤسنگ بلڈنگ فنانس کارپوریشن کی مقروض بیواؤں کے لیے متعارف کی جارہی ہے، اس کے تحت ان بیواؤں کے 10 لاکھ روپے تک کے بقیہ قرضہ جات حکومتِ پاکستان ادا کرے گی۔
  • سی ڈی این ایس کے شہدا اکاؤنٹ میں ڈیپازٹ کی حد 50 لاکھ سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے کی جارہی ہے۔
  • بہبود سیونگ سرٹیفکیٹس میں بھی ڈیپازٹ کی حد 50 لاکھ سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے کی جارہی ہے۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ اس سے پہلے کہ میں اپنی بجٹ تقریر کا اختتام کروں، میں اس امر کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے غیور اور روشن خیال عوام اس حقیقت سے پوری طرح روشناس ہو چکے ہیں کہ ان کا اصل دوست اور خیر خواہ کون ہے اور ملک و قوم کا دشمن اور معاشی بدحالی کا ذمہ دار کون ہے، میاں محمد شہباز شریف نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب اور اب بطور وزیراعظم پاکستان بھرپور طریقے سے خلوص نیت کے ساتھ عوامی کی خدمت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ مخلوط حکومت نے چودہ ماہ کے قلیل عرصے میں شدید مالی مشکلات اور سازشیوں کے باوجود عوام دوست اقدمات اٹھائے ہیں اور ملک کو صحیح معنوں میں دیوالیہ ہونے سے بچاکر، بحران سے نکال کر استحکام کی راہ پر لے آئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) نے ماضی میں بھی ملک کو مشکلات سے نکالا اور اب بھی اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ 14 ماہ میں پاکستان نے غیر معمولی معاشی چیلنجز کا سامنا کیا لیکن میرا یہ پختہ یقین ہے کہ اگر ہم سب اللہ کے بھروسے اور خلوص نیت کے ساتھ اس ملک کی بہتری کے لیے کاوش کریں تو یہ دوبارہ اپنا کھویا ہوا مقام جلدی حاصل کرلے گا اور اقوام عالم میں اپنا نام روشن کرے گا۔


زراعت


زراعت کا شعبہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اگلے مالی سال میں اس شعبے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کرنے کی تجاویز ہیں:

  • زرعی قرضوں کی حد کو رواں مالی سال میں 1800 ارب سے بڑھا کر 2250 ارب روپے کردیا گیا ہے۔
  • بجلی، ڈیزل کے بل کسان کے سب سے بڑے اخراجات میں شامل ہیں اگلے مالی سال میں 50 ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
  • معیاری بیج کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے ان کی درآمد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم کی جا رہی ہیں، اسی طرح سیپلنگس کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے۔
  • موسمی تبدیلی کی وجہ سے فصل کی کاشت کی مدت کم سے کم ہوتی جا رہی ہے، اگر کسان نے تیسری فصل اٹھانی ہے تو اس کے لیے کمبائن ہارویسٹنگ کی ضرورت ہے، کمبائن ہارویسٹنگ کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے ان پر تمام ڈیوٹی و ٹیکسز ختم کرنے کی تجویز ہے۔
  • چاول کی پیداوار بڑھانے کے لیے سیڈر، رائس پلانٹر اور ڈرائیرز کو بھی ڈیوٹی و ٹیکسز سے استثنیٰ دینے کی تجویز ہے۔
  • بجٹ میں زرعی صنعت کو رعایتی قرض کی فراہمی کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
  • زرعی اجناس کی ویلیو ایڈیشن کے لیے دیہی علاقوں میں لگائے جانے والے صنعتی یونٹس کو تمام ٹیکسز سے 5 سال کے لیے مکمل استثنیٰ حاصل ہوگا۔
    • پی ایم یوتھ، بزنس اینڈ ایگریکلچر قرض اسکیم کے لیے اگلے مالی سال میں شرح سود سبسڈی کے لیے 10 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔
  • درآمدی یوریا کھاد پر سبسڈی کے لیے اگلے سال کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
  • چھوٹے کسانوں کو کم شرح سود پر صوبائی حکومتوں کی شراکت سے قرضہ جات فراہم کیے جائیں گے، اس مد میں 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔


آئی ٹی


  • آئی ٹی معیشت کا سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا شعبہ ہے، پاکستان اپنا کاروبار کرنے والے فری لانسر کے اعتبار سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔
    • آئی ٹی برآمدات بڑھانے کے لیے 0.25 فیصد کی رعایتی شرح لاگو ہے، یہ سہولت جون 2026 تک جاری رکھی جائے گی۔
  • فری لانسرز کے لیے 24 ہزار ڈالر تک سالانہ کی ایکسپورٹ پر فری لانسر کو سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور گوشواروں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، اس کے علاوہ ان کےلیے ایک سادہ سنگل پیج انکم ٹیکس ریٹرن کا اجرا کیا جا رہا ہے۔
  • آئی ٹی اینڈ آئی ٹی ان ایبل سروسز کو اپنی برآمدات کے ایک فیصد کے برابر مالیت کے ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر بغیر کیس ٹیکس کے درآمد کرسکیں گے، ان درآمدات کی حد 50 ہزار ڈالر سالانہ مقرر کی گئی ہے۔
  • آئی ٹی سروسز اور آئی ٹی برآمد کنندگان کے لیے آٹومیٹڈ ایگزیمشن سرٹیفکیٹ جاری کرنے کو یقینی بنایا جائے گا۔
  • آئی ٹی شعبے کو ایس ایم ای کا درجہ دیا جا رہا ہے، جس سے اس شعبے کو رعایتی انکم ٹیکس ریٹس کا فائدہ ملے گا۔
  • آئی ٹی کاروبار کی مانیٹرنگ کے لیے وینچر کپیٹل کی بہت اہمیت ہے، بجٹ میں 5 ارب روپے سے کاروباری سرمائے کی فراہمی کے لیے حکومتی وسائل سے وینچر کپیٹل کا قیام کیا جائے گا۔
  • وینچر کپیٹل آئی سی ٹی کی حدود میں آئی ٹی سروسز پر سیلز ٹیکس کی موجودہ شرح کو 15 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کیا جا رہا ہے۔
  • آئی ٹی کے شعبے میں قرضوں کی فراہمی کے لیے بینکوں کو 20 فیصد رعایتی ٹیکس کا استفادہ ہوگا۔
  • اگلے مالی سال میں 50 ہزار آئی ٹی گریجویٹس کو پیشہ روانہ ٹریننگ دی جائے گی۔


ترقیاتی منصوبے


وزیر خزانہ نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ ملک کی ترقی و تعمیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے، ترقیاتی بجٹ کے ذریعے معیشت کی استعداد کار میں اضافہ، بہتر انفرااسٹرکچر کی فراہمی، افرادی قوت اور سرمایہ کاری میں اضافے جیسے مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگلے مالی سال کے لیے وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے 1150 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جبکہ صوبوں کے ترقیاتی پروگرام کا حجم 15 سو 59 ارب روپے ہے۔

  • 80 فیصد تکمیل والے منصوبوں کو مکمل کرنے پر ترجیح دی جائے گی تاکہ جون 2024 تک ان کو مکمل کیا جائے۔
  • براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور جدید ترین انفرااسٹرکچر کی فراہمی کے لیے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کو 52 فیصد مختص کیا گیا ہے۔
  • انفرااسٹرکچر کے شعبے میں ٹرانسپورٹ اور کمیونی کیشن کے لیے مجوزہ مختص رقم 267 ارب روپے ہے، پانی کے شعبے کے لیے مختص رقم 100 ارب روپے ہے۔
  • توانائی کے شعبے کے لیے 89 ارب روپے فزیکل پلاننگ اینڈ ہاؤسنگ کے لیے 43 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
  • پاکستان کے مختلف علاقوں کی متوازن ترقی کے لیے 180 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں جن میں سے 57 ارب روپے خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع، 32.5 ارب روپے آزاد جموں و کشمیر کے لیے اور 28.5 ارب روپے گلگت بلتستان کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔
  • اسپیشل اکنامک زونز کی تیز رفتار تکمیل کی نگرانی اور سی پیک کے تحت مختلف منصوبوں کی بحالی۔
  • سماجی شعبے کی ترقی کے لیے 244 ارب روپے رکھے گئے ہیں جس میں تعلیم بشمول اعلیٰ تعلیم کے لیے 50 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔
  • سائنس اور آئی ٹی کے لیے 34 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں جبکہ پیداواری شعبوں کے لیے 50 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں۔
  • نوجوانوں کی فلاح، اسپورٹس اور اسکلز ڈیولپمنٹ کی طرف حکومت خاص توجہ دے رہی ہے۔
  • بلوچستان کے منصوبوں پر خصوصی توجہ دی جائے گی تاکہ اس خطے میں دیگر علاقوں کی نسبت فرق کو ختم کیا جائے۔


صنعتی و برآمدی شعبہ


برآمدات کی ترویج کے لیے درج ذیل اقدمات کیے جا رہے ہیں۔

  • وزیراعظم کی سربراہی میں ایکسپورٹ کونسل آف پاکستان کا قیام کیا جا رہا ہے۔
  • منرلز اور میٹلز کی برآمد کی ترویج کے لیے کسی بھی آن لائن مارکیٹ پلیس کے ذریعے کسی بھی مقامی خریداری پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ دی جائے گی۔
  • ایکسپورٹ فسیلیٹیشن اسکیم کا اجرا کیا جا چکا، اس کے تحت برآمدات کی سہولیات میں اضافہ کیا جائے گا۔
  • تمام لسٹڈ کمپنیوں پر کم از کم ٹیکس 1.25 فیصد سے کم کرکے ایک فیصد کردیا گیا ہے۔
  • ٹیکسٹائل انڈسٹری کو فروغ دینے لیے مقامی طور پر تیار ہونے والے سنتھیٹک فلامینٹ یارن پر 5 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے۔
  • اسی طرح پیٹ اسکریپ پر کسٹم ڈیوٹی کو 20 فیصد سے کم کرکے 11 فیصد کیا جا رہا ہے، کیپیسیٹرز، ایڈہیسو ٹیپ، مائننگ مشینری، رائس مل مشینری اور مشین ٹولز کے مینوفیکچرنگ کو بھی کسٹم ڈیوٹی سے استثنیٰ دیا جا رہا ہے۔