لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

کافی شورشرابے کے بعد گزشتہ ہفتے حکومتِ پاکستان نے ’معاشی بحالی کے منصوبے‘ کا اعلان کیا جس کا مقصد ’معیشت کے اہم شعبوں میں اپنے غیر استعمال شدہ وسائل کو بروئے کار لاکر‘ دوست ممالک کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی جانب راغب کرنا ہے۔

اس کام کو انجام دینے کے لیے اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل نامی نئی باڈی بھی تشکیل دی گئی ہے۔ سنگین معاشی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کسی بھی قدم کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے لیکن اس کے لیے اہم ہے کہ حکومت کی خواہش مندانہ سوچ سے آگے بڑھ کر عملی طور پر یہ سنجیدہ اقدامات لیے جائیں۔

کوئی ایسی پالیسی جو ملک کے معاشی بحران اور عوامی مالیات کی بگڑتی ہوئی حالت کو پس پشت ڈالے، حقیقت سے دور بھاگنے کے مترادف ہوگی۔ اس حوالے سے مجموعی اقتصادی ماحول سے ہٹ کر اٹھائے گئے اقدامات غیرموثر ثابت ہوں گے۔

پاکستان کے معاشی بحران کی جڑیں دائمی مالیاتی خسارے سے جڑی ہیں جو اس کے ادائیگیوں کے توازن کے مستقل مسائل، بلند افراط زر اور معاشی عدم استحکام کا ذمہ دار ہے۔

اس کے لیے ساختی مسائل کو حل کرنے اور پائیدار ترقی کے لیے ایک جامع منصوبے کی ضرورت ہے جو زیادہ بجٹ یا ادائیگیوں کے توازن کے خسارے، بڑھتے ہوئے قرضوں اور غیر ملکی زرمبادلہ کے بحران کے چکر کو ختم کرسکے۔ ان مسائل کی وجہ سے ہم بار بار آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ کو مسئلے کے حل کے طور پر دیکھتے ہیں۔

جب تک ساختی مسائل کو حل نہیں کیا جاتا تب تک ملک میں شرحِ نمو کمزور، بچت اور سرمایہ کاری کم، خسارہ زیادہ رہے گا ساتھ ہی بڑھتے ہوئے قرضوں کے بوجھ اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے جال سے ہمارا ملک آزاد نہیں ہوسکے گا۔

صرف معاشی اور سیاسی استحکام کے ماحول میں ہی ملک میں سرمایہ کاری کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ یہ ماحول اعتماد کی فضا قائم کرتا ہے۔ غیر یقینی صورتحال سرمایہ کاری کے امکانات کو کمزور کرتی ہے اور یوں سرمایہ کار تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایک لبرل کاروباری ریگولیٹری فریم ورک اور حکومتوں کی طرف سے پالیسی کے تسلسل کے وعدے ہی سرمایہ کاری کے لیے مثبت ماحول کو فروغ دے سکتے ہیں۔

اگر کھیل کے ضابطوں کو بار بار تبدیل کیا جاتا ہے تو کوئی بھی طویل مدتی سرمایہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ مزید یہ کہ سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے سرمایہ کاروں یکساں مواقع دینا ضروری ہے۔ حالیہ پالیسی میں اس حوالے سے کچھ نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کاری کے لیے سہولت کاری میں ہمیں ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑا۔

پاکستان کے پائیدار معاشی بحالی کے امکانات کا تعین سیاسی اور اقتصادی عوامل کریں گے۔ درحقیقت اس حوالے سے سب سے اہم شرط معاشی نہیں ہے۔

**یہ شرط ملک کی قیادت کا معیار ہے اور یہ کہ کیا وہ بہتر انداز میں حکومت کرتے ہیں، ایک ایسی حکومت جو ساختی اصلاحات کی اہمیت کو سمجھتی ہو اور اس حوالے سے اقدامات کرنے کا حوصلہ اور صلاحیت رکھتی ہو۔ ایسی اصلاحات جو قلیل مدت میں تو بہت سخت لیکن طویل مدت میں پائیدار اور منافع بخش ہوں۔

پاکستان کے معاشی بحرانوں کی ایک وجہ حکومتی بحران بھی ہیں۔ اصلاحات مخالف حکمران اشرافیہ تقریباً ہمیشہ ہی سنگین معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے آسان راستے تلاش کرتی ہے۔

پاکستان شدید معاشی بحران کا سامنا کرنے والا واحد ملک نہیں ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک جیسے جنوب مشرقی ایشیا، لاطینی امریکا کے ممالک اور ہمارے ہمسایہ ممالک کو اسی طرح کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ ان بحرانوں سے پہلے سے زیادہ مضبوط بن کر نکلے۔

ان ممالک نے بحرانوں کو مواقع میں تبدیل کیا، سخت ساختی اصلاحات کی گئیں اور مالیاتی پالیسی اور دیگر اصلاحاتی اقدامات کا آغاز کیا گیا۔ یہ سن ان حکومتوں نے کیا جو اس بات پر یقین رکھتی تھیں کہ اگر آگے بڑھنا ہے تو طویل مدتی عزم اور مستقل پالیسی پر عمل درآمد ضروری ہے۔

اس حوالے سے قیادت کا کردار اہم ہے۔ لیکن اسی طرح پیشہ ورانہ افراد کی ایک قابل اور باشعور ٹیم بھی اہم ہے جو بحرانوں سے نمٹنے اور ملک کی پائیدار اقتصادی بحالی اور ترقی کی طرف منتقلی کو یقینی بنانے کے لیے اصلاحات کی تشکیل اور نفاذ میں حکومت کی مدد کرسکتی ہو۔ عام طور پر اس بات پر اتفاق کیا جاتا ہے کہ معاشی میدان میں کامیابی حاصل کرنے والے ممالک میں اصلاحات کے عمل کی تشکیل اور نگرانی کرنے والے پیشہ ورانہ افراد کا معیار انتہائی اہم تھا۔

ایک بار پھر کہوں گی کہ قیادت اہم ہے۔ قائدین ہی صحیح ٹیم کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر اسے ایک راستے پر رہنے اور ڈیلیور کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس حوالے سے ادارہ جاتی طاقت بھی اہم ہے۔ اس سے طے ہوتا ہے کہ پالیسی اقدامات اور اصلاحات کو کس حد تک لاگو کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی سول سروس کے معیار اور صلاحیت میں آنے والی گراوٹ اور اس کی مسلسل عمومی نوعیت اب پالیسی کے نفاذ میں اہم رکاوٹوں میں شامل ہیں۔

عالمی بینک کے تعاون سے ہونے والے ایک اہم تحقیق، ’گروتھ رپورٹ‘ نے دنیا بھر کے ممالک کے تجربات کا جائزہ لیا تاکہ یہ دیکھا کیا جا سکے کہ معاشی طور پر کامیابی حاصل کرنے کے لیے انہوں نے کیا کیا۔ رپورٹ کو ورلڈ بینک کے قائم کردہ کمیشن آن گروتھ اینڈ ڈویلپمنٹ نے مرتب کیا۔ اس رپورٹ کی تیاری میں معراف افراد شامل تھے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق عالمی جنوب (گلوبل ساؤتھ) سے تھا۔

یہ رپورٹ 2008ء میں شائع ہوئی لیکن کے باوجود اس کے نتائج آج بھی درست ہیں۔ سب سے زیادہ سبق آموز ان خصوصیات کی شناخت ہے جو ان تمام ممالک میں یکساں ہیں جنہوں نے ترقی کی کامیاب حکمت عملیوں پر عمل کیا ہے۔ انہوں نے میکرو اکنامک استحکام کو یقینی بنایا، بچت اور سرمایہ کاری کی بلند شرحیں برقرار رکھیں، منڈیوں کو وسائل مختص کرنے کی اجازت دی اور عالمی معیشت کا مکمل فائدہ اٹھایا۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان سب ممالک میں قابل بھروسہ اور باصلاحیت حکومتیں تھیں۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ رپورٹ پالیسی سازوں کی اس سوچ کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کامیاب ترقی دہائیوں پر محیط وابستگی اور حال اور مستقبل کے درمیان ایک بنیادی سودے پر مشتمل ہے۔

اس طرح کی سودے بازی میں، فوری اور اہم دونوں عوامل پر توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلاشبہ فوری طور پر مالیاتی بحران اور اس سے پائیدار بنیادوں پر نمٹنے کے لیے جامع اقدامات کی ضرورت ہے۔ لیکن مستقبل کے ساتھ سودے بازی میں ایسے مسائل سے نمٹنا بھی شامل ہے جو معاشی ترقی اور ملک کے مستقبل کے لیے فائدہ مند ہوں۔

ان میں سب سے اہم چیز تعلیم کی دستیابی اور معیار ہے۔ مضبوط تعلیمی بنیاد کے بغیر معاشی ترقی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ ایک تعلیم یافتہ اور ہنر مند افرادی قوت وہ ہوتی ہے جو معاشی ترقی کی کامیابی یا ناکامی میں فرق کرے۔ اس کے لیے ہمیں طویل مدتی پالیسی فیصلوں کی ضرورت ہے۔

اس کے باوجود یکے بعد دیگرے وفاقی حکومتوں نے 18ویں آئینی ترمیم کا بہانہ بنا کر تعلیم کے نظام سے ہاتھ اٹھا لیے ہیں جس نے تعلیم (اعلیٰ تعلیم کے علاوہ) کو صوبوں کے حوالے کر دیا تھا۔ جبکہ صوبائی حکومتوں نے اس پر بہت کم توجہ دی۔

کئی دہائیوں تک تعلیم کو نظر انداز اور اس پر کم اخراجات کی وجہ سے پاکستان میں 2 کروڑ 28 لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ جس کے ساتھ ہی پاکستان نے دنیا میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی دوسری سب سے زیادہ تعداد رکھنے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ پاکستان کے ڈیموگرافک پروفائل اور نوجوانوں کی تعداد کے پیش نظر اس کے سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تعلیم کے پیمانے اور معیار کو بہتر نہیں کیا جاتا ہے تب تک تعلیم یا ہنر سے محروم نوجوان، بے روزگاری، مایوس مستقبل اور غربت کی زندگی کا سامنا کریں گے۔

پاکستان کے بہتر معاشی مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے اس سے کہیں زیادہ واضح ہے اور ہمیشہ واضح کیا جاتا رہے گا۔ لیکن قیادت کا غربت کے خاتمے اور ملک کی سیاسی اشرافیہ کی جانب سے اصلاحات کے عزم کا فقدان بامعنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھا اور یہ اب بھی رکاوٹ ہے۔


یہ مضمون 26 جون 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں