Dawnnews Television Logo

’تم پاکستانی کھلاڑی ہو، پاکستان میں ہی کھیلو گے‘

جونیئر اسکواش چیمپیئن حمزہ خان کے ارادے بہت بلند ہیں، وہ ورلڈ اوپن، برٹش اوپن جیسے ٹورنامنٹس جیتنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے انہیں مناسب سہولیات درکار ہیں۔
شائع 24 جولائ 2023 10:57am

بلآخر حمزہ خان نے ورلڈ جونیئر اسکواش چیمپیئن شپ میں فتح اپنے نام کر ہی لی۔ میلبرن میں کھیلے گئے اس ٹورنامنٹ کے فائنل میں حمزہ نے مصر کے محمد زکریا کو 1-3 سے شکست دی۔ پہلے سیٹ میں شکست کے بعد حمزہ کی شاندار واپسی ہوئی اور وہ ٹورنامنٹ کے چیمپیئن قرار پائے۔

اسکواش آج کی نسل کے لیے ایک نامانوس سا کھیل ہے۔ اس کی وجوہات، کھیلوں میں عوام کی تیزی سے بڑھتی ہوئی عدم دلچسپی، اسکواش کے کھیل کا مہنگا ہونا اور عوام الناس کی رسائی سے کوسوں دور ہونا بھی ہیں۔ اس کھیل کو سمجھنا بھی مشکل ہے کہ دو کھلاڑی ایک بند کمرے میں دیواروں کو گیند سے کیوں پیٹ رہے ہیں۔

1980ء کی دہائی میں بھی عوام کی پہنچ سے یہ کھیل دور ہی تھا اور اسے سمجھنا تب بھی اتنا ہی مشکل تھا جتنا آج ہے لیکن جب ہر سال ایک کھلاڑی کئی ٹائٹلز جیت کر لا رہا ہو تو دلچسپی پیدا ہو ہی جاتی ہے اور یہی معاملہ اسکواش اور پاکستانی عوام کے ساتھ تھا۔ جہانگیر خان اسکواش کی دنیا کا ایک ایسا نام تھے جنہیں شکست پسند نہیں تھی۔ وہ سالوں تک فتوحات سمیٹتے رہے اور حیرت انگیز طور پر 5 سال 8 ماہ تک ناقابلِ شکست رہے۔ مسلسل 555 میچز میں ان کی فتح ناقابل یقین ہی لگتی ہے۔

جہانگیر خان نے 6 بار ورلڈ چمپیئن شپ جیتی، 10 بار برٹش اوپن جیتی اور ان کے جانے سے پہلے ہی ان کی جگہ جان شیر خان نے سنبھال لی تھی۔ جان شیر خان نے برٹش اوپن تو 6 بار ہی جیتا لیکن وہ 8 بار ورلڈ چمپیئن شپ اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوئے۔ باوجود اس کے کہ پاکستان نے 1998ء کے بعد سے کوئی میڈل نہیں جیتا، جہانگیر خان اور جان شیر خان کی وجہ سے پاکستان ورلڈ چمپیئن شپ کے مجموعی میڈلز ٹیبل پر آج بھی سرِفہرست ہے۔

  جان شیر خان اور جہانگیر خان کی بدولت پاکستان اب بھی میڈلز ٹیبل پر سرِفہرست ہے
جان شیر خان اور جہانگیر خان کی بدولت پاکستان اب بھی میڈلز ٹیبل پر سرِفہرست ہے

پھر سب بدل گیا، پہلے جہانگیر گئے اور پھر جان شیر۔ ان کی جگہ لینے والے ان کی جگہ نہ لے سکے۔ آخر کب تک کوئی صرف اپنے بل بوتے پر ورلڈ چمپیئن بنتا رہے۔ ہر کوئی تو اتنا ٹیلنٹڈ نہیں ہوسکتا نا، تو اسکواش اور پاکستان جو لازم و ملزوم تھے، وہ نہ رہے۔

ایسا بھی نہیں تھا کہ اس دوران پاکستان کی جانب سے کسی نے کوشش ہی نہ کی ہو۔ 2013ء میں عامر اطلس خان ایشین چمپیئن بنے، 2008ء میں وہ ورلڈ جونیئر اسکواش چمپیئن شپ کے فائنل تک پہنچے مگر چمپیئن نہ بن سکے۔ 2010ء کے ایشین گیمز میں ٹیم ایونٹ بھی پاکستان نے جیتا۔ اس ٹورنامنٹ میں عامر اطلس کے ساتھ ان کے بھائی دانش اطلس خان بھی تھے۔ منصور زمان نے بھی ایشین گیمز میں چاندی اور کانسی کے طمغے جیتے لیکن پچھلے 25 سال میں اسکواش کے کھیل میں پاکستان کو بس یہی چند کامیابیاں حاصل ہوئیں۔

لیکن اب امید ہے کہ شاید کچھ بدل جائے۔ حمزہ خان اپنی محنت، جذبے، لگن، جنون اور باپ کی شفقت کی وجہ سے دنیا پر چھا جانے کو تیار ہے۔ پچھلے سال خبر سنی تھی کہ ایک پاکستانی لڑکا ورلڈ جونیئر اسکواش چمپیئن شپ میں شاندار کارکردگی دکھا رہا ہے۔ سُن کر بہت خوشی ہوئی، پھر معلوم ہوا کہ سیمی فائنل میں اسے شکست ہوگئی۔ ٹورنامنٹ میں اس کا سفر ختم ہوا تو دکھ بھی بہت تھا کہ اتنا پاس آکر بھی وہ ٹائٹل حاصل نہ کرسکا۔

پاکستان میں ایتھلیٹس کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جن دنوں وہ کوئی کامیابی حاصل کرتے ہیں یا فتح کے قریب ہوتے ہیں تو مجھے، آپ، میڈیا، سیاست دانوں، اور فیڈریشنز، سب ہی کو وہ بہت اچھے لگنے لگتے ہیں۔ سب ان ہی کی بات کرتے ہیں، ان کے گن گاتے ہیں اور بے شمار لوگ ان کی کامیابیوں کا کریڈٹ لینے کو تیار کھڑے رہتے ہیں۔ لیکن ان چمپیئن شپس کو چند ہفتے یا مہینے گزرتے ہیں تو سب ان کھلاڑیوں کو بھول جاتے ہیں۔ ندیم ارشد ہوں، نوح بٹ، طلحہ طالب، انعام بٹ ہوں یا فٹبال اور ہاکی کی ٹیمیں، ہمیں یہ تمام تب ہی یاد آتے ہیں جب کچھ بڑا کر جائیں ورنہ تو بیشتر عوام کے خیال میں ان ایتھلیٹس پر پیسہ ضائع کرنے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے؟ یہ جیتتے ہیں تو سب ہی کریڈٹ لینے کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن جب ٹریننگ کے لیے سہولیات دینے کا وقت آتا ہے تو یہ کھلاڑی اپنے ہی بل بوتے پر کوشش کررہے ہوتے ہیں۔

حمزہ خان اور ان کے والد کی کہانی کچھ بابراعظم کی کہانی سے ملتی جلتی ہے۔ جس طرح بابراعظم کے والد ان کے ساتھ میچز کے لیے مختلف میدانوں کا چکر لگاتے تھے، اسی طرح حمزہ خان نے بھی پریکٹس اپنے والد کے زیرِ سایہ ہی شروع کی۔ حمزہ کے والد خود بھی اسکواش کے کھلاڑی تھے اور حمزہ کو بچپن ہی سے ہاشم خان اسکواش کمپلیکس ساتھ لے جاتے تھے جہاں حمزہ آدھے گھنٹے تک پریکٹس کرتے تھے۔ لیکن انڈر 11 کے ٹرائلز اور ان میں کامیابی کے بعد حمزہ کی زندگی بدل گئی۔ اب اسکواش اس کی زندگی کا سب سے اہم حصہ بن چکا تھا۔ اسکول جانے سے پہلے گھنٹوں کی فزیکل ٹریننگ ہوتی تو اسکول سے واپسی کے بعد گھنٹوں ٹریننگ اور پریکٹس میچز ہوتے تھے۔

2020ء میں حمزہ برٹش جونیئر اسکواش چمپیئن بنے۔ 2021ء میں یو ایس جونیئر اوپن جیتا اور فروری 2023ء میں ایشین جونیئر اسکواش چمپیئن شپ میں نور زمان کے ساتھ مل کر پاکستان کو فتح دلوائی۔ حمزہ خان کے ارادے بہت بلند ہیں، وہ ورلڈ اوپن، برٹش اوپن جیتنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے انہیں مناسب سہولیات درکار ہیں۔ حمزہ کے مطابق ان کے پاس ان ٹورنامنٹس میں شرکت کے پیسے نہیں ہوتے۔

  حمزہ خان ٹورنامنٹ جیتنے کے بعد ٹرافی کے ساتھ تصاویر بنوا رہے ہیں—تصویر: ٹوئٹر
حمزہ خان ٹورنامنٹ جیتنے کے بعد ٹرافی کے ساتھ تصاویر بنوا رہے ہیں—تصویر: ٹوئٹر

حمزہ خان نے گزشتہ سال ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ عالمی ٹورنامنٹس کھیل کر اپنی رینکنگ بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں مگر بعض اوقات انہیں قومی سطح پر کھیلنے کے لیے اپنی رینکنگ کی قربانی دینا پڑتی ہے۔

حمزہ خان نے امریکا میں پہلے اپنے کزن اور سابق پاکستانی کھلاڑی شاہد زمان کے ساتھ ٹریننگ کی پھر مصری کوچ عمر عبدالعزیز کے ساتھ ٹریننگ کی۔ امریکا میں ٹریننگ کی بہتر سہولیات کی دستیابی کے باوجود فیڈریشن کے کہنے پر حمزہ کو پاکستان آنا پڑا۔ حمزہ خان کے مطابق، ’امریکا میں ریکٹ اور جوتوں کی فکر نہیں ہوتی مگر پاکستان میں ریکٹ مانگنے کے لیے تین جگہ دستخط کرنے پڑتے ہیں‘۔

سپورٹ کی کمی کی وجہ سے حمزہ خان کافی مایوس ہوچکے تھے اور بیرون ملک منتقلی کا بھی سوچ چکے تھے۔ کئی مواقع کے باوجود اگر حمزہ اب بھی پاکستان کی نمائندگی کررہے ہیں تو اس کی وجہ حمزہ کے والد ہیں جنہوں نے حمزہ سے کہا تھا کہ، ’تم پاکستان کے کھلاڑی ہو اور پاکستان میں ہی کھیلو گے‘۔