لکھاری لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

انتخابات ضرور ہونے چاہئیں اور اپنے مقررہ وقت پر ہونے چاہئیں۔ ان میں تاخیر کا کوئی عذر پیش نہیں کیا جاسکتا اور کوئی وجہ نہیں ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کو ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ نہیں دی جائے۔

مگر ہم جانتے ہیں کہ ماضی میں لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم نہیں کی گئی اور اس بار بھی ایسا ہونے کا امکان ہے۔ انتخابات کو ہمیشہ کسی نہ کسی طریقے سے ’مینیج‘ کرلیا جاتا ہے۔ امکان یہی ہے کہ اس بار بھی صورتحال مختلف نہیں ہوگی۔ درحقیقت اس بار تو لیول پلیئنگ فیلڈ کا دکھاوا بھی نہیں کیا جارہا۔

یہاں تک کہ نگران وزیراعظم جنہیں اس معاملے پر کچھ نہیں کہنا چاہیے تھا، انہوں نے بھی کہا ہے کہ شاید ’قانون‘ کچھ لوگوں یا کچھ جماعتوں کو حصہ لینے کی اجازت نہ دے لیکن انتخابات پھر بھی ’منصفانہ‘ ہوں گے۔

اگر مرکزی دھارے کی کسی جماعت یا اس کے لیڈر کو انتخابات لڑنے کی اجازت نہ دی جائے تو کیا انتخابات منصفانہ کہلائیں گے؟ یہ ایک آسان سا سوال ہے۔

کیا عمران خان ہماری ملکی سیاست میں دیگر سیاست دانوں اور پارٹی رہنماؤں سے زیادہ کرپٹ ہیں؟ کیا وہ موجودہ اور ماضی کے بیوروکریٹس اور جرنیلوں سے زیادہ کرپٹ ہیں؟ شایدکچھ لوگ اس پر یقین کرلیں لیکن بہت سے لوگوں کے لیے یہ ناقابل یقین بات ہے۔ پھر عمران خان اور پاکستان تحریکِ انصاف ہی آخر نشانے پر کیوں ہیں؟ ہمیں اس کا جواب بھی معلوم ہے کہ ایسا صرف 9 مئی کے واقعات کی وجہ سے نہیں ہورہا۔ لہٰذا زیادہ امکان یہی ہے کہ اگر انتخابات ہوجاتے ہیں تو ان کا انعقاد لیول پلیئنگ فیلڈ پر نہیں ہوگا یا پھر ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ وہ پچھلے انتخابات کی طرح ہی ’منصفانہ‘ ہوں گے؟

اگر ہم ان سب باتوں کو ایک طرف رکھ دیں اور لیول پلیئنگ فیلڈ بھی موجود ہو تب بھی بہت سے اگر مگر باقی رہیں گے۔ فرض کریں تمام مرکزی دھارے کی جماعتیں انتخابات میں حصہ لے رہی ہوں تو ہم ووٹ کس کو دیں گے؟ ان تمام جماعتوں کا کم و بیش ایک ہی معاشی ایجنڈا ہے۔ سب ہی نجکاری اور لبرلائزیشن کا نو لبرل نقطہ نظر رکھتی ہیں جسے وہ ہمارے موجودہ مسائل کا واحد علاج سمجھتی ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے وزیر خزانہ اور مشیر خزانہ بھی ایک ہی ہیں۔ یہ سب غریبوں پر دباؤ ڈال کر مالیاتی اور تجارتی خسارے کو کم کریں گے اور یہ لوگ اشرافیہ اور مفاد پرست گروہوں کو نوازتے رہیں گے۔

یہاں سوال اٹھتا ہے کہ ہم سب یہ کیسے جانتے ہیں؟ گزشتہ 30 سے 40 سال کا تجربہ ہمیں یہی بتاتا ہے۔ کیا آپ واقعی مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریکِ انصاف کو ایسی سیاسی جماعتوں کے طور پر دیکھتے ہیں جو ضروری اہم اصلاحات کو انجام دیں گی؟ کیا وہ زراعت اور تاجروں پر انکم ٹیکس لگائیں گی، امیروں کے لیے پراپرٹی ٹیکس متعارف کروائیں گی، ریئل اسٹیٹ پر ٹیکس لگائیں گی، اشرافیہ کے لیے سبسڈی کو کم یا ختم کریں گی (یہ رقم اربوں روپے ہے) اور کیا وہ غریبوں کو فائدہ پہنچائیں گی؟ کیا وہ پاکستان کے شعبہ صحت اور تعلیم پر سرمایہ کاری کریں گی؟ اگر آپ ایسا سوچتے ہیں تو میں بھی اس چیز کو استعمال کرنا چاہوں گا جسے آپ استعمال کررہے ہیں۔

لوگوں کے ان جماعتوں کے انفرادی رہنماؤں کے بارے میں مختلف خیالات ضرور ہوسکتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ ان کی مخصوص جماعتوں یا مخصوص لیڈران کے ساتھ بہت مضبوط وابستگی ہو لیکن پالیسی کے انتخاب کے تناظر میں اور پچھلے کئی سالوں کے تجربے کو دیکھتے ہوئے، ان کے درمیان تھوڑا زیادہ فرق نہیں نظر آتا۔

یہی مسائل ان تمام لوگوں کو پریشان کررہے ہیں جو نئی جماعتیں قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ نظام میں نئی جماعتوں کے لیے ہمیشہ جگہ ہوتی ہے۔ لیکن اگر اس میں سیاست دانوں کی ری سائیکلنگ ہو اور وہی پرانے چہرے پرانی جماعتوں سے نئی پارٹیوں میں منتقل ہوجائیں تو وہ لوگوں کے لیے کیا کریں گے؟ ایسی تحریکیں ہم نے پہلے کئی بار دیکھی ہیں۔ کیا آپ کو توقع ہے کہ جہانگیر ترین یا پرویز خٹک کی جماعتیں اہم اصلاحات لائیں گی؟ شوگر لابی نے طویل عرصے تک خود کو تحقیقات سے بچائے رکھا ہے اور ہر طرح کی سبسڈی سے فائدہ اٹھایا ہے۔ لیکن ہم ان جماعتوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اصلاحات اور غریبوں کے حامی ہوں گی جن کے رہنما ماضی میں بڑی جماعتوں کی پالیسیوں سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔

اب ہم سن رہے ہیں کہ شاہد خاقان عباسی، مصطفیٰ کھوکھر اور مفتاح اسمعٰیل بھی اپنی پارٹی بنانے کا سوچ رہے ہیں۔ ضرور بنائیں۔ لیکن وہ انہی جماعتوں سے آئے ہیں جن سے انہوں نے فائدہ اٹھایا تھا۔ وہ ان جماعتوں کی نمائندگی کرنے والے وزیر، مشیر اور پارلیمنٹیرین رہ چکے ہیں اور اب وہ تبدیلی اور اصلاحات لانے کا اعلان کرنے جا رہے ہیں! ہم نے ری امیجننگ پاکستان کو دیکھا ہے جہاں دوبارہ ’ری امیجننگ‘ کے علاوہ بہت کچھ تھا۔

بائیں اور دائیں بازو کی چھوٹی جماعتیں اس سے بے خبر نظر آتی ہیں اور ان کے پاس اس وقت، مستقبل میں قانون سازی پر اثرانداز ہونے کے لیے درکار نشستوں جیتنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ان چھوٹی جماعتوں کی طرف سے انفرادی امیدوار تو مقامی سطح پر عوام کا دل جیت سکتا ہے لیکن صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشست جیتنا آسان نہیں ہوگا۔

تو ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہم نے تو ابھی سویلین معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار اور اس کے اثرات کے بارے میں بھی بات نہیں کی جس کی وجہ سے جمہوریت کا کام کرنا، اصلاحات کا نافذ ہونا اور طاقتوروں کے مفادات کو چیلنج کرنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔ ہم اسٹیبلشمنٹ کے کردار سے جتنا چاہیں انکار کر سکتے ہیں اور اس کے بارے میں ہونے والی گفتگو کو دبایا بھی جاسکتا ہے لیکن یہ ویسا ہی ہے جیسا گیلیلیو نے کہا تھا ’اینڈ یٹ ایٹ موؤز‘۔

تو ہم آخر کس کو اور کیوں ووٹ دیں؟ ہمیں ووٹ تو ہر صورت دینا چاہیے۔ شاید ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ہم جس بدترین صورتحال میں ہیں اس سے کیسے نکلیں گے لیکن اس کا حل یہ ہرگز نہیں کہ ووٹ نہ دیا جائے یا جمہوریت کی بالادستی کے بارے میں سوچنے سے انکار کیا جائے۔ سیاسی میدان کی ناہمواری سے قطع نظر لگتا ایسا ہے کہ ایسے امیدوار اور جماعتیں اس انتخابی منظرنامے میں شامل ہی نہیں جو عوام کی خاطر اصلاحات لےکر آئیں۔ کم از کم اس وقت تو ایسا کوئی نہیں۔


یہ مضمون 29 ستمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں