1 - قائد اعظم اور شیخ الاسلام
یارا، گرمی تو اس دیس میں اتنی پڑتی ہے کہ چیل انڈا چھوڑ دیتی ہے اور دماغ کام کرنا بند کر دیتا ہے۔ اور پھر جب ذرا ساون کا چھینٹا پڑتا ہے تو یہ فکر آ لیتی ہے کہ اب حبس مار ڈالے گا۔
اگست ستمبر کے مہینوں میں گل جان لالہ بہت اداس ہو جاتا ہے۔ دیکھو، اگست میں ہم نے یہ ملک بنایا تھا۔ سنہ سینتالیس اگست کی گیارہ تاریخ تھی جب ہمارے بابا جناح صاحب نے ہم کو بتایا کہ دیکھو یہ ملک تم سب کا ہے، جو یہاں رہو گے۔ یہاں پہ مسجد میں جاؤ، مندر میں جاؤ، جیسے چاہو، اپنے پیدا کرنے والے کا شکر ادا کرو، تم سب برابر ہو۔ تم جو زبان بولتا ہے، تم جیسے عبادت کرتا ہے، جیسے گاتا بولتا ہے، اس کا کوئی واندہ نہیں۔ قانون کی نظر میں تم سب برابر ہے۔ پاکستان کا ملک تم کو ایک آنکھ سے دیکھے گا۔ تمھاری حفاظت کرے گا ۔
پھر یارا شیر خان، ایک بڑا ملّا، ایسا نیم پختہ خربوزے کے مافک گول گول آیا اور اس نے بابا جناح صاحب کی تقریر سے بیس دن بعد بیان دیا اور بہت بڑی بڑی بات بولا۔
اس نے جناح صاحب کی ہر بات کاٹ کے رکھ دی۔ اس کو کسی نے نہیں ٹوکا۔ ہمارا دل ٹوٹ گیا۔ ہم کو بہت دکھ ہے۔ ہم تم کو ساری بات بتاتا ہے۔
بابا جناح صاحب تو ایک برس بعد ستمبر اڑتالیس کے مہینے میں اللہ کو پیارے ہوئے۔ ہم کہتا ہے اگر بیٹے باپ کے منہ آنے لگیں تو باپ سمجھو جیتے جی مر جاتا ہے۔ سنو ہر برس جب اگست ستمبر کے یہ دن آتے ہیں، ہمارا دل بہت خراب ہو جاتا ہے۔
ہم کو یاد آتا ہے کہ ہم نے اپنے بابا صاحب کی زندگی ہی میں اس ملک کا، اپنے گھر کا دروازہ توڑ دیا تھا۔ دروازہ ٹوٹ جاتا ہے تو جو چاہے اندر گھسا چلا آتا ہے۔ آج ہم تم کو بتائے گا کہ ملّاں شبیر عثمانی نے بابا جناح صاحب کی کس کس طرح بے عزتی کی۔
اور ہم اس ملک کے رہنے والے لوگ کیسے ہیں، ہم نے اپنے بابا کی بات بھلا کے اس ملاں کا جھوٹ گفتار مان لیا۔ اب دیکھو، کراچی کا ایک ملاں رفیع عثمانی صاحب ادھر پنڈی کے پاس واہ فیکٹری میں آ کر گولا بارود بنانے والے فوجی بھائیوں کو بتاتا ہے کہ ہمارا بابا جناح صاحب اس حیدرآباد دکن والے ملاں شبیر عثمانی کو باپ کہتا تھا۔
ارے خدا کا خوف کھاؤ! ہمارا بابا قائد اٹھارہ سو چھہتر میں پیدا ہوا۔ تمہارے ملّا صاحب کا جنم اٹھارہ سو چھیاسی میں ہوا۔ ہمارا بابا محمد علی جناح ایسا گیا گزرا نہیں تھا کہ اپنے سے دس برس چھوٹے ملاں کی داڑھی سے گھبرا کے اسے باپ کہتا۔
ارے بابا اتنی بڑی بات کہتا ہے تو اس کا کوئی ثبوت بھی تو دیو! اس کی کوئی گواہی لاؤ۔ کس کتاب میں لکھا ہے؟ کسی نے کبھی آج تک ایسا کہا ہو تو بتاؤ؟
پہلے تمہارے بزرگوں نے ہمارے بابا جناح صاحب کا ملک خراب کیا، ہمارا خانہ خراب کیا، اب تم ہمارے لیڈر کو چھوٹا کرتا اور اپنے بڈھے کو اوپر رکھتا ہے۔ ہم تمہارے ملاں کی پوری پوری بات کھولے گا۔ کابل دریا کی قسم لے لو، جب ستمبر آتا ہے تو ہمارے دل میں لہو بھر جاتا ہے۔
شبیر احمد عثمانی ہندوستان کے مذہبی مدرسے دیوبند سے پڑھا تھا اور وہیں پڑھاتا تھا۔ یہ مدرسہ بڑے جید عالموں نے قائم کیا تھا اور انہوں نے انگریز راج کی ڈٹ کر مخالفت کی تھی اور بڑی سزائیں کاٹی تھیں مگر سمجھ لو کہ اسی کارن یہ مدرسہ زندگی کے جدید رنگ ڈھنگ کا بھی مخالف تھا اور یہاں کے پڑھانے والوں میں آپس کی کھینچا تانی بھی مشہور تھی۔ بس ایسے ہی جیسے دنیا بھر کے گرجا گھروں میں، پاٹھ شالوں میں دوسروں کو مذہب سکھانے والے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے ہیں جیسے راج دربار میں سازشیں ہوتی ہیں۔
بابا اصل جھگڑا تو اقتدار کا ہے نا۔ اقتدار لاٹھی تلوار کے بل پر جیتا جائے یا اوپر والے کے نام پر۔ بندے کے اندر کی لوبھ بھی کیسے کیسے رنگ دکھاتی ہے۔
پہلی بڑی جنگ کے بعد ہندوستان میں ترکی والے خلیفہ کے نام پر تحریک چلی تو پہلی بار ملاں شبیر احمد کا نام نکلا۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ ہمارے بابا جناح صاحب اور علامہ اقبال نے خلافت تحریک میں حصہ نہیں ڈالا۔ اس واسطے کہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ خواہ مخواہ کا ہنگامہ ہے اور اس کا مسلمانوں سے یا ہندوستان کے رہنے والوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔
بابا ترکی کی خلافت ایسے ہی تھی جیسے جرمنی اور روس کی من مانی بادشاہت۔ اور تمہیں معلوم ہے عثمانی خلافت نے حجاز، نجد، عراق، مصر اور اردن جیسے درجنوں ملکوں پر کاٹھی گانٹھ رکھی تھی جہاں کے کروڑوں مسلمان ترکی خلافت کے ایسے ہی غلام تھے جیسے گورا صاحب نے ہمیں نکیل ڈال رکھی تھی۔ تو شیر خان کاکا، دیو بند مدرسے کا ملّاں شبیر احمد اسی تحریک میں شبیر احمد عثمانی بن گیا۔
ملاں شبیر عثمانی نے انیس سو ستائیس میں ’الشہاب ‘ کے نام سے ایک رسالہ لکھا جس میں کہا کہ ارتداد کی سزا موت ہے۔ ارے بابا، ارتداد کہتے ہیں کہ ایک مسلمان اسلام سے انکار کر دے۔ کبھی سنا ہے کسی مسلمان کو ایسا کہتے؟
اور کاکا شیر خان اسلام تو ایسا سچے موتی جیسا مذہب ہے کہ اللہ کی کتاب میں صاف لکھا ہے، 'دین میں زبردستی نہیں'۔ اندر کی بات یہ ہے کہ یہ جو رنگ رنگ کے ملّاں لوگ ہیں ان سب نے ایک دوسرے کے خلاف فتوے دے رکھے ہیں کہ فلاں کافر ہے، فلاں بھی کافر ہے۔ ارے بابا، تم کیا دوسروں کے دین دھرم کے خالہ زاد لگتے ہو، تربور ہو، تم کون ہو کسی کو کافر کہنے والے!
مطلب یہ کہ پہلے کہو کہ جو مسلمان کافر ہو جائے، اس کا خون معاف، پھر نبی رسول کے منبر پر چڑھ کر اعلان کرو کہ یہ بھی کافر ہے اور وہ بھی کافر ہے۔ اور بس ایک تم ہو کہ نیل، فرات، اور زم زم کے پانیوں میں نہا کر پاک صاف چلتے آتے ہو۔
ملاں شبیر عثمانی اوّل درجے کا فسادی تھا۔ اس نے ہمارے بابا جناح کی بات کاٹی، ہم اس کا کچا چٹھا بتائیں گے۔
مغل بادشاہ ہندوستان پر حکومت کرتے تھے تو اپنے درباریوں اور وفاداروں میں زمینیں تقسیم کرتے تھے۔ یہ لوگ جاگیردار کہلاتے تھے۔ جاگیردار مرتا تھا تو زمین بادشاہ کو واپس مل جاتی تھی۔ وہ جسے چاہے دے دے۔ انگریز بہادر یہاں آیا تو اس نے جاگیرداروں کو لالچ دیا کہ ہم تم کو جاگیروں کا مستقل مالک بنا دے گا۔ یہ مستقل ملکیت استمراری بندوبست کہلائی۔
یہ جو خان، ٹوانے، گوپی ناتھ تم کو جگہ جگہ نظر آتے ہیں یہ سب انگریز نے بنائے۔ ہندوستان میں کانگرس پارٹی نے آزادی کے لیے آواز اٹھائی۔ کانگرس کو پیسہ ٹاٹا برلا جیسے صنعت کاروں اور تاجروں سے ملتا تھا۔
جاگیردار تو انگریز کے خادم تھے۔ تم سمجھ سکتے ہو کہ کانگرس جاگیرداروں کو اچھا نہیں سمجھتی تھی اور جاگیردار کانگرس کے نام سے بدکتے تھے۔ صاف نظر آتا تھا کہ کانگرس نے آزادی کی جنگ جیت لی تو جاگیرداروں کا بستر گول ہو جائے گا۔
اس بیچ میں روس کا انقلاب ہو گیا۔ جاگیرداروں کی مخالفت کے لیے ایک گروہ اور پیدا ہو گیا۔ کانگرس میں پنڈت نہرو پڑھے لکھے نوجوانوں کے سرخیل تھے اور پٹیل صاحب تاجروں ماڑواڑیوں کے قریب تھا۔ جاگیردار کے بھیس میں آنچ پہنچی تو اس نے ملاؤں سے مدد مانگی۔
ملاں شبیر عثمانی یہاں بھی کام آیا۔ اس نے فتویٰ دیا کہ ’تعلقہ داریوں کی حفاظت میں جان دینا شہادت ہے‘۔ شبیر عثمانی یوں بھی ریاستوں میں وراثت وغیرہ کا جھگڑا اٹھتا تھا تو فقہ کی پوتھی لے کے پہنچ جاتا تھا۔ ہندوستان میں تھا تو حیدرآباد دکن کا سرکاری مولوی تھا۔ یہاں آیا تو خیر پور، بہاولپور کے چکر لگاتا تھا۔ انتقال بھی بہاولپور میں ہوا۔ نواب عباسی کی مہمان داریوں کا مزہ لے رہا تھا۔
بہاولپور کا نام 'بغداد جدید' رکھ دیا تھا۔ ہم کہتا ہے بغداد قدیم ہو یا جدید، وقت کی آندھی کے سامنے ڈھے جاتا ہے۔ وقت کا جو چھوٹا سا وقفہ اس میں لگتا ہے اس کے بیچ ملاں اور پادری کی بن آتی ہے۔ شبیر عثمانی بھی اسی وقفے کی دھوپ چھاؤں تھا۔
شیر خان یارا، تمہارے ملک میں دھوپ والا معاملہ ایسا لمبا کھنچ گیا کہ ہم تو چھاؤں کو ترس گئے۔ دیکھو بات لمبی ہو رہی ہے۔ اب تم جاؤ۔ ملاں شبیر عثمانی کی باقی باتیں کل کریں گے۔
جاری ہے ...
گل جان لالہ ابلاغیات کے استاد اور جمالیات کے طالب علم ہیں۔ انسانی حقوق، تاریخ، قانون، ادب اور فلم ان کی دلچسپی کے خاص موضوعات ہیں۔











لائیو ٹی وی
تبصرے (24) بند ہیں