ایک درگاہ جہاں عقیدت مند مرادیں پوری ہونے پر کلہاڑے رکھتے ہیں

گھنے جنگل میں واقع درگاہ میں جب ہم داخل ہورہے تھے تو ہماری پہلی نظر اس روایتی عَلم پر پڑی جو اکثر درگاہوں پر لہرا رہے ہوتے ہیں۔ یہ علم جنگل سے ذرا باہر نصب تھا اور ہوا کے ہلکے تھپیڑوں سے اس کا کپڑا جھول رہا تھا۔ اس جگہ سے ذرا آگے جانے پر مشاہدہ کیا کہ بچوں اور خواتین کی جوتیاں بھی جنگل کے داخلی راستے پر پڑی ہوئی تھیں کیونکہ درگاہوں پر جوتوں سمیت جانے کی ممانعت ہے۔

  جنگل میں داخل ہوں تو علم لہراتا ہوا نظر آتا ہے
جنگل میں داخل ہوں تو علم لہراتا ہوا نظر آتا ہے

ہم جیسے ہی جنگل میں داخل ہوئے، ہمارے چاروں اطراف میں جال کے ان گنت گھنے درخت تھے۔ ان درختوں کے اطراف قبریں ہی قبریں تھیں۔ ماسوائے چند قبروں کے کہ جن پر لکڑی کے کتبے آوایزاں تھے، باقی تمام قبریں اپنے مکینوں کا تعارف کروانے سے قاصر تھیں۔ ان قبروں کے عین درمیان ٹیڑھی میڑی لکیر سی ایک پگڈنڈی آگے جانے کا واحد راستہ تھی۔ ہم اسی پگڈنڈی پر جیسے ہی تھوڑے آگے بڑھے تو سامنے وہ مشہور درگاہ تھی جسے اس علاقے کے لوگ کلہاڑے والے پیر کی درگاہ کے نام سے جانتے ہیں۔

   پیر کی قبر پر ان کے نام کا کوئی کتبہ نہیں ہے
پیر کی قبر پر ان کے نام کا کوئی کتبہ نہیں ہے

کلہاڑے والے پیر کی درگاہ، جال کے قدیم و وسیع درخت کی چھاؤں تلے موجود تھی جبکہ پیر کی قبر پر کوئی مقبرہ نہیں بنا ہوا تھا۔ قبر تک جانے کے لیے سیڑھاں بنی ہوئی تھیں کیونکہ قبر مٹی کی چٹان کے اوپر واقع تھی۔

ہم جب وہاں پہنچے تو اس وقت اس درگاہ کا مجاور وہاں موجود تھا۔ اسے دیکھ کر یوں لگا جیسے وہ طویل عرصے سے نہانا دھونا ترک کرچکا ہے۔ قبر والے درخت کے نیچے، لکڑی سے بنے ان گنت کلہاڑے (دنیا بھر میں کلہاڑے کا پھل لوہے کا ہوتا ہے لیکن یہاں پر کلہاڑے کا پھل بھی لکڑی کا بنا ہوا تھا) پڑے ہوئے تھے۔ ان کلہاڑوں کے بہت سارے ڈیزائنز تھے۔ کچھ کلہاڑے بہت بڑے تھے اور کچھ بہت چھوٹے تھے۔ کچھ کلہاڑوں کے اوپر چاندی کا رنگ چڑھا ہوا تھا جبکہ تین سے چار تلواریں بھی ہمیں نظر آئیں۔ پیر کی قبر سے ذرا فاصلے پر بہت سارے مگر چھوٹے چھوٹے جھولے بھی پڑے ہوئے تھے۔

   درختوں پر کلہاڑے جھول رہے ہوتے ہیں
درختوں پر کلہاڑے جھول رہے ہوتے ہیں

قریب جاکر دیکھا تو پیر کی قبر کے اوپر بھی کچھ جھولے اور کلہاڑے پڑے ہوئے تھے۔ کچھ کلہاڑے اس قبر کے اوپر والے جال کے درخت سے باندھے ہوئے تھے جو قبر کے اوپر لٹک رہے تھے۔ ہم اس پیر کی قبر کے نزدیک، گھنے درخت کی ٹھنڈی چھاؤں تلے بیٹھ گئے۔ ہمارے چاروں اطراف بس کلہاڑے ہی کلہاڑے پڑے ہوئے تھے۔ کچھ پھانسے (سندھی میں اسے پانجاری کہتے ہیں، لکڑی کا یہ فریم بیلوں کی گردن میں ڈال کر انہیں جوتا جاتا ہے اور بیل گاڑی یا ہل چلوایا جاتا ہے) بھی ہمیں وہاں پڑے نظر آئے۔

   کلہاڑیوں کا ڈھیر
کلہاڑیوں کا ڈھیر

سلسلہ گفتگو شروع کرنے پر درگاہ کا مجاور بہت تفصیل کے ساتھ ہمیں کلہاڑی والے پیر کی کرامتیں گنوانے لگا۔ اس کا کہنا تھا کہ درگاہ پر آنے والے عقیدت مند جب پہلی بار یہاں آتے ہیں تو وہ کوئی نہ کوئی منت لےکر آتے ہیں جبکہ واپس جاتے وقت کلہاڑوں کے اس ڈھیر میں سے ایک کلہاڑا اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور پھر جب ان کی وہ منت پوری ہوجاتی ہے تب وہ اسی کلہاڑے جیسا دوسرا کلہاڑا بنوا کر لے آتے ہیں۔ اس طرح وہ یہاں دو کلہاڑے چھوڑ جاتے ہیں۔ وہ یہ کلہاڑے درویش کی قبر کے اوپر رکھتے ہیں۔ پھر ہم وہ کلہاڑے وہاں سے اٹھا کر اس ڈھیر پر رکھ دیتے ہیں۔ ان عقیدت مندوں میں سے زیادہ تر کی منت اولاد سے متعلق ہوتی ہے۔

   پیر کی قبر کے اوپر بھی کلہاڑے موجود تھے
پیر کی قبر کے اوپر بھی کلہاڑے موجود تھے

ہم نے مجاور سے وہاں موجود تلواروں کے حوالے سے سوال کیا تو اس نے جواب میں کہا کہ ’ہمارے پیر بابا کے احکامات میں تلوار لانے کی کوئی تلقین نہیں مگر لوگ پھر بھی لے آتے ہیں جس پر ہم انہیں منع نہیں کرتے‘۔

   اولاد کے خواہشمند حضرات یہاں جھولا چھوڑ کر جاتے ہیں
اولاد کے خواہشمند حضرات یہاں جھولا چھوڑ کر جاتے ہیں

جھولے چھوڑ جانے کے پیچھے بھی وہی اولاد کی منت کو وجہ بتایا گیا۔ مجاور بتا رہا تھا کہ ’شوہر اور بیوی، دونوں، ایک جھولا لے کر آتے ہیں اور اس قبر کے نزدیک بیٹھ کر اسے جھلاتے ہیں اور یہ جو آپ بیلوں کے پھانسے دیکھ رہے ہیں ان سے یہ مراد ہے کہ جب بھی کسی عورت کے ہاں جڑواں لڑکوں کی امید ہوتی ہے تب میاں بیوی کلہاڑے کے ساتھ ساتھ پھانسے کے چھوٹے نمونے بھی لاتے ہیں اور جب مراد پوری ہوجاتی ہے تو ان دونوں لڑکوں کو بیلوں کی طرح یہاں پھانسے میں جوتا جاتا ہے اور درویش کی قبر کے گرد چکر لگواتے ہیں۔ اس کے بعد وہ پھانسا یہاں چھوڑ جاتے ہیں‘۔

   منت پوری ہونے پر جڑواں بچوں کے گلے میں پھانسے ڈال کر ان سے قبر کے گرد چکر لگوائے جاتے ہیں
منت پوری ہونے پر جڑواں بچوں کے گلے میں پھانسے ڈال کر ان سے قبر کے گرد چکر لگوائے جاتے ہیں

اس مجاور نے بڑے اور دلکش جھولے تو اپنے گھر کو منتقل کردیے جو ’سامارو‘ شہر کے ایک ہندو سیٹھ نے منت پوری ہونے پر چڑھائے تھے کیونکہ وہ کارآمد تھے۔ اب اس میں مجاور کے گھر والے جھولتے ہوں گے۔ پتا چلا ہے کہ کچھ کلہاڑیاں بھی درگاہ کے مقام سے منتقل ہوکر مجاور کے گھر پہنچائی گئیں کیونکہ وہ چاندی سے بنوائی گئی تھیں جوکہ کسی کولہی (ہندوؤں کی نچلی ذات) نے بنوا کر دی تھیں۔

اس مجاور کے پاس ان کلہاڑوں، پھانسوں اور تلواروں کی کتنی ہی کہانیاں ہیں جو وہ ہر آنے جانے والے کو سناتا رہتا ہے۔ یہ کلہاڑے زیادہ تر نزدیکی شہر لانڈھی اور میرواہ گورچانی کے بڑھئیوں (لکڑی کا کام کرنے والوں) کے ہاتھ کے بنے ہوئے ہیں۔

جس دن ہم وہاں گئے تھے اس دن بہت سے لوگ موٹر سائیکلوں پر اپنی بیویوں کے ساتھ درگاہ پر حاضری کے لیے آ رہے تھے۔ اسی دن ایک کولہی بھی آیا ہوا تھا جس کے ساتھ دو بچے تھے۔ اس نے بتایا کہ اس کے پردادا کا اس درگاہ پر عقیدہ قائم ہوا تھا۔ کولہی شخص کے پردادا بھینسوں کے بچھڑوں میں سے نر بچھڑے یہاں لاکر قربان کرتے تھے۔ ان کا خاندان اس روایت کو اب بھی برقرار رکھے ہوئے ہے۔

   کلہاڑے والے پیر کی قبر پر منت مانگنے والوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے
کلہاڑے والے پیر کی قبر پر منت مانگنے والوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے

اس شخص نے بتایا کہ اس نے بھی یہاں اب تک سات بچھڑے قربان کیے ہیں۔ مزید کریدنے پر پتا چلا کہ اب تو اس شخص کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کے پردادا کی منت کیا تھی! تاہم اس دن وہ اپنے بیٹے کو وہاں پر صحتیابی کی منت کے ساتھ لے کر آیا تھا۔ اس نے بتایا کہ ’میں نے اپنے بیٹے کا علاج سول اسپتال حیدرآباد سے کروایا مگر وہ صحتیاب نہیں ہوا لیکن اس درویش کی وجہ سے میرا بیٹا اب ٹھیک ہے‘۔ اس نے ہمیں ان زخموں کے نشان بھی دکھائے جو اس بچے کے جسم پر تھے۔

ہم اس شخص سے بات کر ہی رہے تھے کہ ایک اور جوڑا اپنا بچہ لے کر وہاں پہنچا۔ بچہ مسلسل رو رہا تھا۔ مشاہدے میں آرہا تھا کہ بچہ علیل ہے۔ بچے کے والدین نے وہاں اگربتیاں جلائیں، ماں بچے کو گود میں لیے پیر کی قبر کے ساتھ بیٹھ گئی۔ وہ کوئی ایسا عمل بھی کر رہی تھی کہ جو وہاں پر رائج رسم ہوگی تاہم ہم بغور مشاہدہ نہ کرسکے۔ ہم جب تک وہاں بیٹھے رہے کوئی نہ کوئی آتا ہی رہا۔

   خواتین منت لے کر آتی ہیں اور پیر کی قبر کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں
خواتین منت لے کر آتی ہیں اور پیر کی قبر کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں

ہمیں اس مجاور نے قبر میں دفن درویش کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ ’ان ولی کا نام محمود شاہ ہے۔ پہلے یہاں بودلو قبیلے کے لوگ رہتے تھے۔ ان کی ایک لڑکی، نیچے پانی کے کھالے جو کہ آپ عبور کر آئے ہیں، وہاں سے پانی بھرتی تھی۔ اس کو اس درویش نے بہن بنایا تھا۔ مگر بودلوں نے غیرت میں آکر کلہاڑے مار کر درویش کو قتل کردیا، لاش کے ٹکڑے کرکے انہیں ’پران‘ ندی میں بہا دیا۔

’بودلو قبیلے کے افراد نے یہ عمل سات مرتبہ دہرایا کیونکہ درویش ہر بار کلہاڑے سے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد پھر زندہ و سلامت سامنے آجاتے تھے۔ بالآخر محمود شاہ خود لکڑی کا کلہاڑا بنا کر لوہار کے پاس گئے اور لوہار کو کلہاڑے کی دھار تیز کرنے کو کہا۔ لوہار نے کہا یہ تو لکڑی کا ہے جل جائے گا۔ مگر سائیں نے کہا نہیں جلے گا تم اپنے طریقے سے کام کرو۔ لوہار نے لکڑی کا کلہاڑا آگ میں ڈالا لیکن وہ نہیں جلا، پھر وہی کلہاڑا لا کر محمود شاہ نے بودلو قبیلے کے لوگوں کو دیا اور کہا کہ مجھے اس سے قتل کروگے تو میں مر جاؤں گا۔ پھر اسی لکڑی کے کلہاڑے سے محمود شاہ کو قتل کیا گیا‘۔

   کہانی کے مطابق پیر نے لکڑی کی کلہاڑی بنائی اور قبیلے کے لوگوں سے کہا کہ مجھے اس سے مارو
کہانی کے مطابق پیر نے لکڑی کی کلہاڑی بنائی اور قبیلے کے لوگوں سے کہا کہ مجھے اس سے مارو

یہ وہ کہانی ہے جو علاقے میں اس درگاہ سے منسوب ہے۔ باتوں کے طویل سلسلے کے دوران مجاور نے یہ بھی بتایا کہ بزرگ کے مر جانے کے بعد بودلوں کا پورا شہر غرق ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہاں بودلو قبیلے کا ایک بھی بندہ نہیں بستا نہ ہی بودلو قبیلے کا کوئی فرد یہاں آتا ہے۔ اس درگاہ پر اب بودلو قبیلے کے کسی بھی فرد کا آنا منع ہے۔ یہ ہے درگاہ سے منسوب کہانی جسے ہم کہانی ہی سمجھیں تو بہتر ہے۔

اسی درگاہ کے نام یہاں پر 32 ایکڑ زرعی زمین بھی ہے جو محمود شاہ کے نام سے منسوب ہے لیکن یہ زمین محکمہ اوقاف کی ملکیت ہے۔

   قبر کے اطراف میں موجود 32 ایکڑ کی اراضی محکمہ اوقاف کی ملکیت میں ہے
قبر کے اطراف میں موجود 32 ایکڑ کی اراضی محکمہ اوقاف کی ملکیت میں ہے

ہم مجاور، عقیدت مندوں اور علاقہ مکینوں سے گفتگو کے بعد کلہاڑیوں کے ڈھیر کے پاس سے اٹھ کر واپس نکل آئے۔ اس وقت میں نے کچھ مور کے پنکھ بھی اسی درویش کی قبر کے اوپر دیکھے۔ واپسی کی راہ پر آگے بڑھنے سے قبل ہم نے بھی وہاں سے کچھ کلہاڑے اٹھا لیے اور اس گھنے جنگل سے نکل آئے جو عبور کرکے ہم یہاں آئے تھے۔ جنگل سے باہر ہمیں کچھ اور کولہی لڑکے ملے جو درگاہ پر حاضری دینے کی غرض سے آئے ہوئے تھے۔ استفسار پر انہوں نے بتایا کہ ان میں سے ایک نوجوان کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی ہے لیکن اس کی بیوی کی صحت بہت خراب ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی صحتیابی کی منت لےکر یہاں آئے ہیں۔

مذکورہ درگاہ سندھ میں موری شہر سے 10 میل اور میرپور خاص شہر سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔